Relations Between Two Nuclear
Powers
Change In Modi’s Mood About Pakistan
مجیب خان
Photo Credit: Press Information Bureau, Via Agence France-Presse -- Getty Images |
لیکن
پھر بھی یہ سوال ہو گا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سوچ میں یہ تبدیلی کیسے آئی
ہے؟ اور کون لایا ہے؟ پاکستان بھارت کے ساتھ ہر طرح کے حالات میں جینے کا عادی ہو گیا
ہے۔ لیکن کیا بھارت کے لئے اس طرح کے حالات میں پاکستان کے بغیر جینا مشکل ہو رہا
ہے۔ دنیا میں وزیر اعظم مودی جہاں بھی جا رہے ہیں ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ بھارت
کو اب پاکستان کے ساتھ کس طرح رہنا ہو گا۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے ۔ اور ایٹمی
طاقت کے ساتھ اس طرح نہیں رہا جاتا ہے۔ جبکہ بھارت خود بھی ایٹمی طاقت ہے۔ اور
ایٹمی طاقتیں امن سلامتی اور استحکام کے مسئلہ پر ہمیشہ ایک ہی صفحہ پر رہتی ہیں۔
یورپ اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ جہاں تین ایٹمی طاقتیں تھیں۔ یورپ نظریاتی سیاست
کی وجہ سے دو بلاک میں تقسیم تھا۔ لیکن اس نظریاتی کشیدگی کے باوجود مشرقی اور مغربی
یورپ امن اور سلامتی کے مسئلہ پر ایک ہی صفحہ پر رہتے تھے۔ یورپ کی 70 سال کی
تاریخ میں ابھی تک کوئی جنگ نہیں ہوئی ہے۔ ایٹمی طاقتوں کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے
کہ انہوں نے یورپ کو جنگوں سے دور رکھا ہے۔ اور یورپ میں نظریاتی جنگ کے باوجود
امن اور سلامتی کو فروغ دیا ہے۔ اور بھارت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ انہیں اب بھارت
کی منہ پر رام رام اور بغل میں چھری والی پالیسی تبدیل کرنا ہو گی۔ اس لئے وزیر
اعظم مودی لاہور میں جب وزیر اعظم نواز شریف سے بغل گیر ہوۓ تھے تو ان کی بغلوں
اور منہ سے رام رام نظر آ رہا تھا۔
بھارت
کے روئیے میں اچانک یہ تبدیلی آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت کی ایجنسیوں کے
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے ثبوت پر مبنی جو رپورٹ پاکستان
نے اوبامہ انتظامیہ، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور اقوام متحدہ کے سیکرٹیری جنرل بان کی مون
کو دی تھیں۔ اس پر ایک خاموش رد عمل کا بھارت کو علم ہو گیا تھا۔ اس سے قبل کہ
بھارت سے اس رپورٹ کے بارے میں پوچھ گچھ ہوتی۔ وزیر اعظم مودی نے پیرس میں خود آگے
بڑھ کر وزیر اعظم نواز شریف سے تنہائی میں کچھ دیر بات کی تھی جس کے بعد دونوں
ملکوں میں تعلقات کے بارے میں لب و لہجہ بدل گیا تھا۔ بھارتی وزیر خارجہ ششما
سوراج ہا رٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کرنے اسلام آباد آئی تھیں۔ اسلام آباد میں
وزیر خارجہ ششما سوراج نے دہشت گردی، ممباۓ کے دہشت پکڑنے، پاکستان میں دہشت گردوں
کے اڈے ختم کرنے کی کوئی بات نہیں کی تھی۔ بلکہ بڑے نرم لہجہ میں پاکستان کے ساتھ
خیر سگالی اور اچھے تعلقات کے لئے باتیں کی تھیں۔ اور دونوں ملکوں کے اعلی حکام
میں مذاکرات شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات میں 180 ڈگری یو
ٹرن سے بھارت نے ان کے منہ بند کر دئیے تھے۔ جنہیں پاکستان نے بھارتی ایجنسیوں کے
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے ثبوت پر مبنی دستاویز دیں تھیں۔
اور پس پردہ وہ بھارت سے اس سلسلے میں دریافت کرنا چاہتے تھے۔ وزیر اعظم مودی لاہور
آۓ ۔ وزیر اعظم نواز شریف کی نجی رہا ئش گاہ گیے اور ان کے ساتھ سیاسی اننگ کھیل
گیے ہیں۔ اور اب اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل مودی اور نواز شریف
میں ملاقاتوں کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔
پاکستان کے ساتھ تعلقات میں مسلسل کشیدگی کی وجہ
سے بھارت میں غیر ملکی سرمایہ کاری بھی سست ہو رہی ہے۔ بھارت میں سیاسی استحکام
ہے۔ لیکن پاکستان کے ساتھ سرحدوں پر کشیدگی بھارت میں استحکام کے لئے خطرے پیدا کر
سکتی ہے۔ سرمایہ کار ان حالات کو سرمایہ کاری کے لئے زیادہ ساز گار نہیں سمجھتے
ہیں۔ گزشتہ ستمبر میں وزیر اعظم مودی اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کر نے
آۓ تھے۔ نیویارک میں Fortune میگزین نے ایک مقامی ہوٹل میں ان کے اعزاز میں ڈنر دیا تھا۔ جس میں بہت
بڑی تعداد میں امریکہ کی بڑی بڑی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو نے شرکت کی تھی۔ ڈنر کے
بعد چیف ایگزیکٹو سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ بھارت میں اقتصادی ترقی کو کس طرح تیز
تر کیا جا سکتا ہے۔ اور اس بارے میں وہ کیا مشورہ دیں گے۔ چیف ایگزیکٹو نے بڑا دو ٹوک جواب دیا
تھا۔ تاہم انہوں نے وزیر اعظم مودی کی بزنس کے لئے حالات بہتر بنانے کی کوششوں کو
سراہا یا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ انہوں نے بھارت میں بے شمار رکاوٹوں کی نشاندہی کی
تھی۔ جن میں پیچیدہ ریگولیشن ، حد سے زیادہ اجازت نامے ،بیوروکریسی کا فیصلہ کرنے کے عمل میں پریشانی کا سامنا، خستہ حال انفرا اسٹریکچر، مقامی ٹیکسوں کا انبار وغیرہ نمایاں تھے۔ اور
انہوں نے وزیر اعظم مودی پر اس میں تبد یلیا ں لانے پر زور دیا تھا۔ ان میں سے ایک
چیف ایگزیکٹو نے کہا کہ بزنس کے لئے یہ اتنی آسان جگہ نہیں ہے۔ چیف ایگزیکٹو کے یہ
خیالات سن کر وزیر اعظم مودی نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ دنیا ہمارا انتظار نہیں
کرے گی۔ اور ایشیا بھی بھارت اور پاکستان کے تعلقات استوار ہونے کا انتظار نہیں
کرے گا۔ وزیر اعظم مودی شاید یہ بھی جانتے
ہیں؟
No comments:
Post a Comment