Tuesday, December 15, 2015

How Do We Bring Three Religions Under One God?

One God And Three Religions

How Do We Bring Three Religions Under One God?

  مجیب خان 




       ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈ ونا لڈ ٹرمپ نے یہ صرف کہا ہے کہ " مسلمانوں کے امریکہ آنے پر پابندی لگا دی جاۓ۔" ان کے اس بیان پر امریکہ اور دنیا بھر میں مذمت کی جا رہی ہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈ یوڈ کمیرن نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ یورپ کے بعض دوسرے رہنماؤں نے بھی ڈونا لڈ ٹرمپ کی تجویز سے اتفاق نہیں کیا ہے ۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نا تھن یا ہو نے بھی ڈونالڈ ٹرمپ کے بیان کی مخالفت کی ہے۔ اور اسلام کی تعریف کی ہے۔ حالانکہ ان کی حکومت نے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگائی ہے۔ جگہ جگہ اسرائیلی فوجی چوکیاں قائم ہیں۔ اور فلسطینیوں کو ان چوکیوں سے گزرنا ہوتا ہے۔ لیکن وزیر اعظم ناتھن یا ہو نے ڈونالڈ ٹرمپ کے بیان کی حمایت نہیں کی ہے۔ جبکہ خلیج کی عرب ریاستوں کی حکومتوں نے ٹرمپ برانڈ اشیا کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ تمام کاروباری تعلقات ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سعودی شہزادہ الو لید بن طلال  نے بھی ڈونا لڈ ٹرمپ کے بیان کی مذمت کی ہے۔ اور کہا ہے کہ انہوں نے اپنے ملک کی توہین کی ہے۔ شہزادہ الولید نے ڈونا لڈ ٹرمپ سے صدارتی امیدوار سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے اس بیان پر یہ اس قدر رد عمل کیوں ہو رہا ہے۔ حالانکہ شام عراق اور لیبیا میں خانہ جنگی سے لاکھوں مسلمان انتہائی تکلیف دہ حالات میں ہیں۔ ہزاروں مسلمان ان حالات سے تنگ آ کر یورپ میں پناہ لینے کی کو شش کر رہے ہیں۔ اس جدوجہد میں کتنے مسلمان خاندانوں نے راستے میں دم توڑ دئیے تھے۔ سینکڑوں مسلمانوں کی کشتیاں بحیرروم میں ڈوب گی تھیں۔ سینکڑوں عورتیں بچے ڈوب گیے تھے۔ سمندر کی موجیں انہیں مردہ حالت میں ساحل پر لائی تھیں جن میں بچے بھی شامل تھے ۔ جو زندہ تھے اور یورپ کے دروازوں تک پہنچ گۓ تھے۔ یورپ کے ملکوں نے انہیں خار دار تاروں کے پیچھے کیمپوں میں رکھا تھا۔ یہ مہاجر کیمپ جیسے Zoo نظر آ رہے تھے ۔ دنیا یہ مناظر دیکھ رہی تھی۔ لیکن اس پر دنیا کا وہ رد عمل نہیں تھا جو ڈونالڈ ٹرمپ کے بیان پر ہو رہا تھا۔ خلیج کے عرب حکمرانوں کا  مسلمانوں کے اس حالت زار پر کوئی رد عمل نہیں تھا۔ اور نہ ہی کسی سعودی شہزادے نے اس صورت حال کو اسلام کے لئے توہین کہا تھا۔
     انتہا پسندی کے خلاف تین بڑے مذاہب میں مکمل اتفاق ہے۔ اور انتہا پسندی کا خاتمہ کرنے میں یہ تین مذاہب ایک دوسرے سے تعاون بھی کر رہے ہیں۔ لیکن انتہا پسندی کی اس جنگ کی تہہ میں  تین بڑے مذاہب کے درمیان رہس کشی کی سیاست بھی ہو رہی ہے۔ سرد جنگ کے دوران تقریباً  پچاس برس تک مشرق وسطی میں اسرائیلی یہودیوں اور عرب مسلمانوں میں لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں۔ جنہیں مغرب کے عیسائی ملک بالخصوص امریکہ Manage کرتا رہتا تھا۔ عربوں کے زخموں کی مرہم پٹی کرتا تھا اور اسرائیلی یہودیوں کی سیکورٹی کی ضرورتیں پوری کرتا تھا۔ لیکن نائن الیون اور پھرعراق پر اینگلو امریکی حملے کے بعد یہ سیاست تبدیل ہو گی ہے۔ مسلمانوں اور عیسائوں میں لڑائیاں ہونے لگی ہیں۔ عراق شام مصر لیبیا اور بعض دوسرے اسلامی ملکوں میں عیسائوں پر حملے ہونے لگے تھے۔ ان کے گرجے جلائے جا رہے تھے۔ مصر میں سلا فسٹ عیسائوں کے گلے کاٹ رہے تھے۔ داعش  شام میں عیسائوں کے گلے کاٹ رہا تھا۔ عیسائی عرب جو یہاں ہزاروں سال سے یہاں آباد تھے۔ اور ان کی بھی عرب ثقافت تھی۔ دہشت گردی کے خوف نے انہیں اس خطہ سے اپنی قدیم مذہبی وابستگی کو خیرباد کرنے پر مجبور کر دیا  تھا۔ ان کی ایک بڑی تعداد نے لا طین ملکوں میں اور مشرقی یورپ کے ملکوں میں سکونت اختیار کر لی ہے۔ مسلمانوں اور عیسائوں میں بڑھتی کشیدگی پر پوپ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوۓ کہا تھا کہ مسلمانوں کو عیسائوں سے نہیں لڑایا جاۓ۔ پوپ نے اپنے کئی بیانات میں مسلمانوں کو اپنے بھائیوں اور بہنوں کی طرح بتایا تھا۔ پوپ مسجد میں بھی گۓ تھے اور وہاں بھی انہوں نے مسلمانوں اور عیسائوں کو بھائیوں طرح رہنے پر زور دیا تھا۔
      یورپ کے ملکوں کی پیشتر پارلیمنٹ نے گزشتہ سال فلسطین کی آزاد ریاست تسلیم کرنے کی قراردادیں منظور کی ہیں۔ جن میں برطانیہ فرانس جرمنی  اسپین اور اٹلی بھی شامل ہیں۔ لاطین امریکہ کے ملکوں نے پہلے ہی فلسطین کی آزاد ریاست تسلیم کر لی ہے۔ اور یہاں  فلسطین کے سفارت خا نے کھل گۓ ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ نے شاید پہلی مرتبہ اسرائیل اور یہودی لابی کے بھر پور دباؤ کے باوجود ایران کے ساتھ ایٹمی سمجھوتے پر دستخط کیے ہیں۔ اور امریکہ کے مفاد کو اسرائیل کے مفاد پر فوقیت دی ہے۔ حالیہ چند سالوں میں امریکہ میں یہودیوں کے خلاف ایک خاموش مخالفت دیکھی جا رہی ہے۔ 2000 کے صدارتی انتخاب میں الگور کو فلوریڈا میں دھاندلی ہونے کی وجہ سے شکست ہوئی تھی۔ لیکن الگور کو ہرانے کی وجہ کچھ اور تھی۔ الگور آٹھ سال صدر کلنٹن کی سب سے کامیاب اور مقبول انتظامیہ میں نائب صدر تھے۔ کسی کو یہ بالکل یقین نہیں تھا کہ ان کے دور میں اقتصادی ترقی اور خشحالی کے باوجود وہ انتخاب ہار جائیں گے۔ الگور نے غلطی یہ کی تھی کہ انہوں نے سینیٹر جوزف  لیبرمین کو اپنا نائب صدر چنا تھا۔ اور سینیٹر لیبرمین یہودی تھے۔ اور امریکہ یہودی کو اتنا اعلی عہدہ دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اگر الگور کو کوئی حادثہ پیش آ جاتا تو نائب صدر جوزف لیبر مین امریکہ کے صدر بن جاتے۔
      ری پبلیکن پارٹی کے کانگرس میں اکثریتی لیڈر Eric Cantor کو جو یہودی تھے ۔ اورریاست ورجینیا سے کانگرس مین تھے۔ گزشتہ سال کانگرس کے مڈ ٹرم انتخابات میں انہیں ری پبلیکن پارٹی کی پرائمری میں آخری موقعہ پر پارٹی کے ایک عیسائی ری پبلیکن کے ذریعے شکست دلائی گی تھی۔ کیونکہ Eric Cantor اگر منتخب ہو جاتے تو وہ کانگرس میں بدستور ری پبلیکن پارٹی کے اکثریتی لیڈر ہوتے۔ اور پھر اسپیکر بننے کی لائن میں سر فہرست ہوتے۔ اور امریکہ کے آئین کے تحت صدر اور نائب صدر کے بعد اسپیکر کا عہدہ اہم ہوتا ہے ۔ اگر صدر اور نائب صدر کو کوئی حادثہ پیش آ جاۓ تو اسپیکر پھر امریکہ کا صدر بن جاتا ہے۔
      عرب اسپرنگ کو ناکام کرنے کے بعد خلیج کے حکمرانوں اور اسرائیل میں De facto تعلقات قائم ہو گۓ ہیں۔ خلیج کے حکمرانوں اور اسرائیل میں اس خطہ کے اہم ایشوز پر سیاسی ہم آہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ ایران پر دونوں ایک صفحہ پر ہیں۔ اسلامی انتہا پسندی پر بھی سعودی عرب کی قیادت میں خلیج کی ریاستوں اور اسرائیل کا ایک ہی موقوف ہو گیا ہے۔ سعودی عرب نے گزشتہ دنوں حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔ حزب اللہ کے رہنماؤں کے بنک اکاؤینٹس منجمد کر دئیے ہیں۔ اور ان پر بندشیں لگا دی ہیں۔ حالانکہ لبنا ن کی حکومت حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم نہیں سمجھتی ہے۔ اور لبنا ن کی سلامتی کے لئے حزب اللہ کو ایک اہم فورس سمجھتی ہے۔ حزب اللہ نے لبنا ن کے علاقوں کو اسرائیل سے آزاد کرانے کی جنگ لڑی تھی۔ اس لئے بھی حزب اللہ کا لبنا ن کی سلامتی اور استحکام میں ایک رول ہے۔ حزب اللہ اسرائیل کے خلاف ہے اور ایران اور شام کے ساتھ اس کا الائنس ہے ۔ اس لئے بھی سعودی عرب نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔
      دوبئی نے اسرائیل کو International Renewable Energy Agency کا دفتر کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔ تاہم  دوبئی نے کہا ہے کہ یہ اسرائیلی دفتر عالمی تنظیم کا حصہ ہو گا جس کا صدر دفتر بھی دوبئی میں ہے۔ اور اسے سفارتی مشن کا درجہ حاصل نہیں ہو گا۔ دوسری طرف بحرین کے امیر حما د بن عیسی الخلیفہ نے شاہی محل میں یہودیوں کا تہوار Hanukkah  منانے کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں یہودیوں کے مذہبی رہنما بھی شریک ہوۓ تھے۔ اسرائیل کے تجارتی سینٹر پہلے ہی قطر اومان مراکش اور تونس میں موجود ہیں۔ اور اب ترکی کے صدر طیب اردگان نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا اظہار کیا ہے۔ صدر اردگان نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات ہونے سے سارے خطہ کو فائدہ ہو گا۔ ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات پہلے سے تھے۔ لیکن 2010 میں اسرائیل کے ساتھ ترکی کے تعلقات غازہ جانے والے ترکی کے نیول  جہاز پر اسرائیلی حملے کے بعد یہ تعلقات منقطع ہو گۓ تھے ۔اس اسرائیلی حملے میں ترکی کے آٹھ شہری اور ایک ترکی نثراد امریکی شہری مارے گۓ تھے۔
      2016 میں مشرق وسطی میں نئی تبدیلیاں آئیں گی۔ سعودی عرب کی قیادت میں خلیج کے ملک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فیصلے کے قریب پہنچ گیے ہیں۔ سعودی عرب اگر یہ فیصلہ کرے گا تو کتنے دوسرے اسلامی ملک اس کی پیروی کریں گے اور یہ سوال سعودی عرب کو اسلامی دنیا کا رہنما ہونے کا اعتراف ہو گا۔ پاکستان کے لئے یہ ایک مرتبہ پھر بڑی آزمائش ہو گی۔ پاکستان کو اس صورت کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے ۔ سعودی شاہ ایک مرتبہ پھر پاکستان سے اس سعودی   فیصلے میں شامل ہونے کی درخواست کریں گے۔ بھارت کے روئیے میں اچانک تبدیلی کا آنا بھی مستقبل میں مشرق وسطی میں ہونے والے اس فیصلے سے بڑی حد تک تعلق ہے۔ پاکستان اسلامی دنیا کا ایک بڑا ملک ہے۔ اور ایٹمی طاقت بھی ہے۔ اس لئے امریکہ کے روئیے میں بھی کچھ قربت نظر آ رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں سنی اسلامی ملک کیا ایران کو تنہا کریں گے ؟ اور مشرق وسطی کو سنی شیعہ کی سیاسی محاذ آ رائی میں تقسیم کریں گے. ادھر یورپ اور امریکہ  بھی فلسطین کی آزاد ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ کریں گے۔         

No comments:

Post a Comment