War And Weapons For Muslims
ISLAMIC WORLD:
CONFRONTATION, CONFLAGRATION,
AND HUMILIATION
مجیب خان
Abu Ghraib prison during the U.S. occupation of Iraq |
اب
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ خلیج کے حکمرانوں کے صیہونی طاقتو ں سے معاملات
طے ہو گیے ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں عرب اسپرنگ عرب خزاں ہو گیا ہے۔ مشرق وسطی میں
Status quo کو برقرار
رکھنے پر سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ شام کو اس Status quo سے علیحدہ کر دیا ہے ۔ اور شام کو شیعہ سنی محاذ
آ رائی کے لئے میدان جنگ بنایا گیا ہے۔ خلیج کے عرب ملکوں کا دہشت گردی کی جنگ میں
یہ رول ہو گا کہ وہ جنگ ختم نہیں کریں گے۔ جنگ جاری رکھنے میں وہ امریکہ سے تعاون
کریں گے۔ اور داعش کا قیام اس تعاون کے نتیجے میں آیا ہے۔ ایسے نئے داعش بھی منظر
پر آتے رہیں گے۔ اسلامی نظریاتی دہشت گردی کی جنگ اب سرد جنگ کا متبادل بنتی جا رہی
ہے۔ 15 سال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتنی کامیابی نہیں ہوئی ہے کہ جتنا اسے
پھیلانے میں کامیابی ہوئی ہے۔
عرب
اسپرنگ عرب عوام کا سیاسی تبدیلی کے لئے ایک قدرتی رد عمل تھا۔ اس کے پیچھے سی آئی
اے تھی اور نہ ہی ایران اور حزب اللہ تھے۔ امریکہ نے بعد میں اسے اغوا کر لیا تھا۔
اور عرب حکمرانوں کو عرب اسپرنگ سے خوفزدہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ مصر میں صدر
حسینی مبارک خاصے عمر رسیدہ ہو چکے تھے۔ اور ان کی خرابی صحت کے بارے میں بھی
خبریں آ رہی تھیں۔ اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ وہ اپنے صاحبزادے کو
اقتدار منتقل کرنا چاہتے تھے۔ مصر میں یہ سیاسی حالات دیکھ کر امریکہ کی وفا داری بھی بدل گی اور امریکہ نے مصری عوام کے ساتھ کھڑے
ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ صدر حسینی مبارک اقتدار سے گر پڑے تھے۔ یہ دیکھ کر عرب حکمرانوں
کی محلوں میں نیندیں حرام ہو گی تھیں۔ عرب اسپرنگ بحرین کے دروازے پر دستک دینے
لگا تھا۔ خلیج کے دوسرے حکمران بھی عرب اسپرنگ کے جھٹکے محسوس کرنے لگے تھے۔ بحرین
کے امیر مکہ جانے کے بجاۓ خصوصی طیارہ لے کر واشنگٹن پہنچ گۓ تھے ۔ اور صدر اوبامہ
کے آگے گڑگڑانے لگے تھے۔ یہ دیکھ کر صیہونیت انہیں اور ان کے ساتھی حکمرانوں کو
بچانے آ گے آ گیے تھے۔ عرب اسپرنگ سے عرب عوام کو کچھ نہیں ملا تھا ۔ لیکن صیہونیت
کو خلیج کے حکمرانوں کی محفل مل گی تھی۔ دونوں میں معاملات طے ہو گیے تھے۔ دونوں
میں ایران کو اپنا مشترکہ دشمن بنانے پر اتفاق ہو گیا تھا۔ عرب عوام کو امریکہ نے Dump کر دیا تھا ۔اور مصر میں فوجی ڈکٹیٹر کو امریکہ نے گلے لگا لیا تھا۔ عرب
دنیا میں پھر وہ ہی گھسا پیٹا Status quo بحال ہو گیا تھا ۔
نائن
الیون کے بعد ایک مختصر وقفہ آیا تھا جب عرب حکمرانوں کے امریکہ سے تعلقات سرد ہو گیے
تھے۔ اس وقت عرب سڑکوں پر عربوں میں امریکہ سے نفرت بہت زیادہ تھی۔ اور یہ حکمران امریکہ
سے فاصلے رکھنے لگے تھے۔ امریکہ میں اس وقت یہ کہا جاتا تھا کہ عرب ڈکٹیٹر اپنے
عوام کے غصہ کا رخ امریکہ کی طرف کر دیتے ہیں۔ اور خود پیچھے ہو جاتے ہیں۔ عرب
اسپرنگ سے عرب عوام کو آزادی نہیں ملی تھی ۔ لیکن عرب ڈکٹیٹروں کو عرب اسپرنگ سے
آزادی مل گی تھی۔ اور امریکہ کے عرب
ڈکٹیٹروں کے ساتھ تعلقات سرد جنگ کے دور کی سطح پر آ گیے ہیں۔ اور اب دونوں عرب
عوام کو دہشت گردی کی جنگ سے خوفزدہ کر
رہے ہیں۔ اور دنیا کو بھی خوفزدہ کر رہے ہیں۔ اور یہ ایک بڑے ایجنڈے کے مطابق ہو رہا
ہے۔
2009 میں
عرب لیگ کے سربراہ اجلاس میں صدر قدافی مرحوم
سعودی شاہ عبداللہ مرحوم پر برس پڑے تھے۔ اور ان سے کہا تھا کہ "تم انگریز کی
پیداوار ہو اور امریکہ کے اتحادی ہو۔ میں عالمی لیڈر ہوں۔ عرب حکمرانوں کا Dean ہوں۔ افریقہ کے بادشاہوں کا بادشاہ ہوں۔ مسلمانوں کا امام ہوں۔ اور میرا
عالمی رتبہ مجھے نچلے درجہ کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتا ہے۔" یہ سن کر
شاہ عبداللہ مرحوم آگ بگلا ہو گیے تھے۔ اور صدر قدافی کانفرنس ہال سے چلے گیے تھے۔
صدر قدافی نے شاید یہ غلط نہیں کہا تھا۔ اسلامی دنیا آج جن حالات میں ہے ۔ اور اسے
جن چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اسے دیکھ کر انگلیاں سعودی حکمرانوں کی طرف اٹھنے لگتی
ہیں۔ کہ کس کے مفاد میں کام کر رہے ہیں؟ اگر اسلامی دنیا کے مفاد میں یہ کام کر رہے
ہو تے تو اسلامی دنیا آج ان حالات میں نہیں ہوتی۔ اور اسے ان چیلنجوں کا اتنا
سامنا بھی نہیں ہوتا۔ سعودی عرب نے سرد جنگ میں اسلام کا مغربی مفادات میں استحصال
کرنے کی کیسے اجازت دی تھی؟ حالانکہ مشرقی یورپ کے عیسائی ملکوں میں بھی کمیونسٹ فوجیں
تھیں ۔ لیکن ان ملکوں میں عیسائوں کو کمیونسٹ فوجوں سے لڑنے کے لئے مذہبی انتہا
پسند نہیں بنایا گیا تھا۔ بلکہ پچاس برس تک مشرقی اور مغربی یورپ کے درمیان امن
اور استحکام فروغ دیا تھا۔ اور سیکورٹی کا ایک نظام رائج کیا تھا۔ مشرقی اور مغربی
یورپ میں عیسائی مذہب کے نام پر ایک گولی بھی نہیں چلی تھی۔ لیکن کمیونسٹ فوجوں کے
خلاف تمام گولیاں مغرب کے مفاد میں اسلام کے نام پر مسلمانوں سے چلوائی گی تھیں۔
اسلام اب دہشت گردوں کا مذہب بن گیا ہے۔ سعودی عرب کے واچ میں اسلام رسوا
ہو رہا ہے۔ لیکن سعودی عرب صرف اپنے بقا کے مفاد میں سمجھوتے کر رہا ہے۔ صیہونیت
کے مفاد میں اسلامی اتحاد اور یکجہتی کو تہس نہس کر دیا ہے۔ اسلامی دنیا میں نفاق
اور تقسیم کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ شیعہ اور سنی کی 14سوسال پرانی لڑائیوں میں نئی
روح ڈالی جا رہی ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں سعودی عرب نے تقریباً 90 بلین ڈال کا اسلحہ
خریدا ہے۔ لیکن یمن میں آٹھ ماہ ہو گۓ ہیں ۔ غریب ہوتیوں کو یہ ابھی تک شکست نہیں
دے سکے ہیں۔ سعودی عرب نے سوڈان سے کراۓ کے فوجی حاصل کیے تھے ۔ پھر اریٹریا سے
کراۓ کے فوجی بھی آۓ ہیں۔ اور اب ہوتیوں کا خاتمہ کرنے کے لئے بدنام ترین بلیک
واٹر کو نیا نام
XE ہے۔ سعود یوں نے Hire کیا
ہے۔ یہ وہ ہی بلیک واٹر ہے جس کے ہاتھوں پر عرب عرا قیوں کا خون ہے۔ اور یہ بلیک
واٹر تھی جو عراق میں سنیوں کے علاقوں میں دھماکہ کرتی تھی۔ اور پھر شیعاؤں کو اس
کا الزام دیا جاتا تھا۔ اور پھر شیعاؤں کے علاقوں میں دھماکہ ہوتے تھے اور سنیوں
کو الزام دیا جاتا تھا۔ اس طرح عراق جنگ کے اندر شیعہ سنی کی نئی جنگ شروع کی گی
تھی۔ اور یہ بلیک واٹر اب ھوتیوں سے لڑے گی جو شیعہ ہیں۔ اور یہ کولمبیا سے 800
کراۓ کے فوجی لائی ہے۔ یمن کو اب کراۓ کے فوجیوں کے حوالے کر دیا ہے۔ اور سعودی
وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ سعودی عرب شام کے خلاف فوجی کاروائی کرنے پر غور کر
رہا ہے۔ شام بڑی بہادری سے پانچ سال سے لڑ
رہا ہے۔ شیعہ شام میں اقلیت میں ہیں۔ لیکن شام کی فوج میں سینوں کی ایک بڑی تعداد
ہے۔ اور یہ اپنے عرب قوم پرستی کو زندہ رکھنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اور اللہ اس جنگ
میں شام کے ساتھ نظر آ رہا ہے۔
No comments:
Post a Comment