Sunday, December 27, 2015

Only America Can Solve The Taliban Problem

The War in Afghanistan

Only America Can Solve The Taliban Problem

مجیب خان
   



         گزشتہ ہفتہ خود کش حملے میں چھ امریکی فوجی ہلاک کرنے کی طا لبان نے ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ جبکہ اس خود کش حملے میں متعدد فوجی زخمی ہوۓ ہیں۔ طا لبان کا یہ خود کش حملہ نیا نہیں تھا۔ اس سے قبل بھی امریکہ اور نیٹو فوجوں پر اس طرح کے حملے ہوتے رہے ہیں ۔ جن کی ذمہ داری طا لبان قبول کرتے تھے۔ اس کے جواب میں پھر امریکہ طا لبان کے خلاف کاروائی کرتا تھا۔ پھر طا لبان امریکہ کے خلاف کاروائی اس لئے کرتے تھے کہ امریکہ غلطی سے بم ان پر گرانے کے بجاۓ افغان عورتوں اور بچوں پر گرا دیتے تھے۔ اور بے گناہ عورتیں اور بچے مار دیتے تھے۔ چودہ سال سے یہ جیسے افغان جنگ کا سبب بن گیا ہے۔ امریکہ نے گزشتہ سال افغان جنگ ختم کرنے کا با ضابطہ اعلان کیا تھا۔ اور افغانستان سے امریکہ کی فوجیں چلی گئی تھیں۔ صرف دس ہزار امریکی فوجیں افغان سیکورٹی فورسز کو تربیت دینے کے لئے افغانستان میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ نیٹو نے بھی اپنے فوجی آپریشن ختم کر دئیے ہیں۔ اور صرف پانچ ہزار نیٹو فوجیں افغانستان میں ہیں۔ امریکہ اور نیٹو نے افغانستان میں اپنی جنگ ختم کر دی ہے۔ لیکن اب افغان سیکورٹی فورسز اور طا لبان کی جنگ شروع ہو گئی ہے۔ یہ ہی حکمت عملی امریکہ کی عراق کے لئے بھی تھی۔ وہاں عراقی سیکورٹی فورسز اور عراقی سنیوں میں جنگ ہو رہی ہے۔
      غیر ملکی فوجوں کے لئے سخت گیر قبائلی ملک میں جنگ کا آغاز کرنا آسان ہوتا ہے۔ لیکن جنگ پھر قبائلی اپنے پروگرام کے مطابق ختم کرتے ہیں۔ اس وقت تک طا لبان کی کاروائیاں افغانستان کے جنوب میں ہوتی تھیں۔ جو زیادہ تر پشتون علاقہ تھے۔ لیکن اس سال اکتوبر میں طا لبان کی حکمت عملی میں ایک بڑی تبدیلی آئی تھی۔ طا لبان افغانستان کے شمالی صوبوں میں پہنچ گۓ تھے ۔ جو غالب تا جک اور از بک علاقہ تھے۔ گزشتہ اکتوبر میں طا لبان نے کند وز پر تقریباً  قبضہ کر لیا تھا۔ افغان سیکورٹی فورسز طا لبان کا مقابلہ نہیں کر سکی تھیں۔ اور اپنے ہتھیار پھینک کر چلی گئی تھیں۔ اور افغان پولیس بھی اپنے تھانے اور وردیاں چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ یہ صورت حال دیکھ کر کند وز صوبے کے گورنر اور کابل حکومت نے طا لبان کو کند وز سے نکالنے کے لئے امریکی فوجی مدد کی درخواست کی تھی۔ جس کے بعد امریکہ نے کند وز میں طا لبان کے ٹھکانوں پر بمباری کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن اتفاق سے طا لبان کا یہ ٹھکانہ کند وز کا ہسپتال نکلا تھا جس پر امریکی طیاروں نے بمباری کی تھی۔ ہسپتال کا عملہ اور مریض بمباری کے نتیجے میں ہلاک ہو گۓ  تھے ۔ جن کی تعداد پچیس بتائی گئی تھی۔ اور ان میں دس بچے بھی شامل تھے۔ ہسپتال کے عملہ کا تعلق Doctors Without Borders سے تھا۔ اور عملہ کے بارہ لوگ ہلاک ہو گۓ تھے۔ ہلاک ہونے والے افغان تھے۔
       امریکی طیاروں نے کند وز میں ہسپتال پر اکتوبر میں بمباری کی تھی۔ اور دس ہفتے بعد طا لبان نے امریکہ کے چھ فوجی مار دئیے ہیں۔ یہ اس سال کا ایک بڑا واقعہ ہے۔ جس میں طا لبان کے خود کش حملے میں اتنی بڑی تعداد میں امریکی فوجی مارے گۓ ہیں۔ اور زخمی علیحدہ ہوۓ ہیں۔ جبکہ افغانستان کے کئی صوبوں اور ضلعوں میں افغان سیکورٹی فورس اور طا لبان میں گھمسان کی لڑائی ہونے کی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ امریکی میڈ یا کے مطابق اس وقت افغانستان کے ستر ضلعوں پر طا لبان کا قبضہ ہے۔ ادھر ہلمند صوبے پر قبضہ کے لئے طا لبان نے اپنا بھر پور دباؤ بڑھا دیا ہے۔  Sangin ضلع پر بڑی حد تک طا لبان کا قبضہ ہو گیا تھا۔ صوبے کے گورنر نے کابل حکومت سے مدد مانگی ہے۔ ہلمند افغانستان کے بڑے صوبوں میں شمار ہوتا ہے۔ اور یہ ایک اہم صوبہ ہے۔ ہلمند پر طا لبان کا قبضہ روکنے کے لئے برطانیہ نے بھی اپنی فوجیں بھیجی ہیں۔ اور امریکہ کی اسپیشل فورسز بھی طا لبان کے خلاف کاروائی کر رہی  ہیں۔ اعلانیہ جنگ بندی غیر اعلانیہ جنگ بن گئی ہے۔ اورSangin  ضلع میں فوجی آپریشن ابھی جاری ہے۔
       سوال اب یہ ہے کہ کیا افغانستان اور طا لبان کا مسئلہ بھی فلسطین اسرائیل تنازعہ کی طرح رہے گا؟ اور یہ کبھی حل نہیں ہو سکے گا۔ افغان حکومت کی عسکری قوت انتہائی کمزور ہے۔ اور حکومت  میں  سیاسی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ سابق کرزئی حکومت نے طا لبان مسئلہ کے سیاسی حل کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔ صدر کرزئی تیرہ سال اقتدار میں رہے تھے۔ لیکن تیرہ سال تک وہ صرف امریکہ اور نیٹو کے فوجی آپریشن کو طا لبان کے مسئلہ کا حل سمجھتے رہے تھے۔ اور اب اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ حکومت میں بھی طا لبان مسئلہ کے سیاسی عمل کا آغاز ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ ان کی حکومت کو ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے۔ اشرف غنی پشتون ہیں اور عبداللہ عبداللہ تاجک ہیں۔ لیکن انہوں نے افغان ثقافتوں کے درمیان اختلافات حتم کرنے کے لئے کچھ  کیا ہے۔ اور نہ ہی افغان ثقافتوں کو متحد کرنے کی کوئی کوشش کی ہے۔ بلکہ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں بھی اختلافات کی خبریں گشت کر رہی ہیں۔ لیکن یہ طے ہو گیا ہے کہ طا لبان کے مسئلہ کا اب فوجی حل نہیں ہے۔ اور جو اب بھی اس مسئلہ کو فوجی طریقوں سے حل کرنے پر اڑے ہوۓ ہیں وہ احمق ہیں۔ اور وہ صرف بےگناہ لوگوں کو قتل کروا رہے ہیں۔ جن میں امریکی فوجی بھی شامل ہیں۔
       افغان مسئلہ امریکہ نے پیدا کیا ہے اور صرف امریکہ ہی اسے حل کر سکتا ہے۔ آخر امریکہ نے افغانستان میں اپنا مسئلہ حل کر لیا ہے کہ القا عدہ کو ختم کر دیا ہے۔ لیکن طا لبان کا مسئلہ حل کرنے کے لئے پاکستان کو ذمہ دار بنا دیا ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو کو یہ سمجھنا چاہیے کہ افغانوں نے سوویت فوجوں کو افغانستان سے نکالنے کے لئے گراں قدر قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے اپنے بچے قربان کیے ہیں۔ اپنے خاندان قربان کیے ہیں۔ انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر کے سوویت فوجوں کو افغانستان سے نکالا تھا۔ امریکہ اور نیٹو ملکوں کو افغانوں کی ان قربانیوں کا احترام کرنا چاہیے ۔ اور انہیں افغانستان سے اپنی فوجیں بالکل نکال لینا چاہیے۔ یہ ایک جائز مطالبہ ہے۔ اور تاریخ بھی ان کے مطالبہ کی تائید کرتی ہے۔ اور افغانستان میں جو امریکہ اور نیٹو فوجوں کے قیام کی حمایت کر رہے ہیں۔ ان کی سوویت فوجوں کو افغانستان سے نکالنے میں کوئی قربانیاں نہیں ہیں۔ امریکہ کو اب طا لبان کے ساتھ براہ راست Deal کرنا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان کے لئے صدر او بامہ کے خصوصی سفیر پندرہ سال سے دونوں ملکوں کے دارالحکومتوں کے صرف دورے کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بغیر نتائج کے دورے ثابت ہوۓ ہیں۔ خصوصی سفیر طا لبان کے ساتھ بیٹھ کر اگر مذاکرات کرتے تو شاید آج اس کے مثبت نتائج دنیا کے سامنے ہوتے۔
       صدر اوبامہ کا یہ آخری سال ہے۔ اور اس سال میں صدر اوبامہ اپنی بھر پور توانائی کے ساتھ طا لبان کا مسئلہ سیاسی طریقوں سے حل کرنے پر خصوصی توجہ دیں۔ امریکہ نے طا لبان کے ساتھ مل کر سوویت ایمپائر کو شکست دی تھی ۔اور اب طا لبان کے ساتھ مل کر امریکہ دنیا میں اپنی گرتی ساکھ کو بھی بچا سکتا ہے۔  صدر اوبامہ کے لئے یہ سوچنے اور فیصلے کرنے کا سال ہے۔       

No comments:

Post a Comment