No New Military Alliances
The Islamic World Should Support The Russian Peace Initiative
مجیب خان
سعود یوں سے یہ سوال ہے کہ آخر کتنی جنگیں
یہاں ہوں گی۔ اور کتنے نئے فوجی ا لائنس بناۓ جائیں گے۔ سعودی عرب کی قیادت میں ایک فوجی ا
لائنس یمن میں نو ماہ سے ہو تیوں کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ ساٹھ ملکوں کا ایک دوسرا
الا ئنس امریکہ کی قیادت میں شام اور عراق میں داعش کے خلاف لڑ رہا ہے ۔ اور اس کے
ساتھ اسد حکو مت کو اقتدار سے ہٹانے کی خانہ جنگی بھی جاری ہے۔ اس سال اپریل میں
واشنگٹن میں ا لائنس میں شامل ملکوں کے فوجی سربراہوں کا اجلاس ہوا تھا۔ جس کی
صدارت کمانڈر انچیف صدر اوبامہ نے کی تھی۔ جس میں داعش سے لڑنے کی حکمت عملی تیار
کی گئی تھی ۔ پھر عراق اور شام کے کرد بھی اپنے علاقوں میں داعش سے لڑ رہے ہیں۔ برطانیہ
میں پارلیمنٹ نے جیسے ہی حکومت کو شام میں داعش کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کا
اختیاردیا تھا۔ اس کے صرف چند گھنٹوں میں برطانیہ کی فضائیہ شام کی حدود میں داخل
ہو گئی تھی۔ اور داعش کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کر دی تھی۔ پیرس میں 13 نومبر کے
دہشت گردی کے واقعہ کے بعد فرانس بھی روس کے ساتھ داعش کے اڈوں پر بمباری کر رہا
تھا۔ جبکہ جرمنی نے بھی داعش سے لڑنے کے لئے اپنی فوجیں بھیجی ہیں۔ ایران اور حزب
اللہ بھی شام میں داعش کے خلاف اسد حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔ اس وقت نصف دنیا داعش
سے لڑ رہی ہے۔ لیکن داعش اتنی بڑی طاقت ہے کہ امریکہ برطانیہ فرانس اور ساٹھ ملکوں
کا فوجی الا ئنس داعش کا خاتمہ کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ اور شاید یہ
احساس ناکامی ہے جس نے سعود یوں کو ایک نیا اسلامی فوجی ا لائنس بنانے کی ترغیب دی
ہے ۔
خلیج کے حکمران ایک خطرناک غلط راستہ پر ہیں۔ جس طرح وہ جنگوں کو پھیلا رہے
ہیں۔ یہ جنگیں دراصل ان کے گرد حلقہ تنگ کر رہی ہیں۔ صدر بش نے نائن الیون کے بعد
یہ دعوی کیا تھا کہ امریکہ تنہا ساٹھ ملکوں سے جنگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن
داعش کے خلاف امریکہ ساٹھ ملکوں کا فوجی ا لائنس بنا کر جنگ کر رہا ہے۔ پھر یہ کہ
جنگیں ابھی تک کوئی مسئلہ بھی حل نہیں کر سکی ہیں۔ صدام حسین کے خلاف فوجی کاروائی
صرف اس لئے کی گئی تھی کہ صدام حسین خطہ میں امریکہ کے اتحادیوں اور عالمی سلامتی
کے لئے خطرہ تھے۔ لیکن اب داعش عالمی سلامتی اور خطہ کے لئے صدام حسین سے زیادہ
بڑا خطرہ ثابت ہوئی ہے۔ اگر صدام حسین کا مسئلہ جنگ کے بغیر پرامن سیاسی طریقوں سے
حل کیا جاتا تو یہ پرامن سیاسی طریقے دنیا کو ضرور امن دیتے ۔ لیکن جنگ سے عالمی
امن اور سلامتی کے خطروں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لہذا جنگ عالمی امن اور
سلامتی کے لئے یہ نئے خطرے لائی ہے۔ اور اب اس کی کیا ضمانت ہے کہ جنگ سے داعش کا
خاتمہ ہونے کے بعد دنیا کو داعش سے بھی زیادہ بڑے خطرے کا سامنا نہیں ہو گا ؟ سابق
وزیر اعظم ٹونی بلیر کی عقل میں اب یہ آیا ہے کہ عراق پر حملے کے نتیجے میں داعش
وجود میں آیا ہے۔ وزیر اعظم ٹونی بلیر جب پارلیمنٹ میں عراق پر حملہ کرنے کی حمایت
میں بحث کر رہے تھے اس وقت ان کے ذہین اور گمان میں اس حملے کے موجودہ نتائج نہیں
تھے۔ سعودی عرب خلیج کے حکمران اور عرب لیگ موجودہ حالات کے ذمہ دار ہیں۔ جنہوں نے
عرب دنیا کے تین سو ملین لوگوں کو اس عذاب میں ڈالا ہے۔ انہوں نے اس خطہ کے
تنازعوں کا علاج بیرونی طاقتوں کی مہم جوئیوں سے کرانے کی اجازت کیا سوچ کر دی
تھی؟ نہ صرف یہ بلکہ عراق میں صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے نتائج ان کے سامنے
تھے۔ اس کے باوجود سعودی عرب خلیج کے حکمران اور عرب لیگ لیبیا اور شام کا علاج بھی ان ہی بیرونی طاقتوں سے کروا رہے تھے۔
سعودی عرب اور خلیج کے حکمران اگر امریکہ اور برطانیہ کی عقل سے فیصلے کرنے
کے بجاۓ اپنی عقل استعمال کر لیتے اور عراق میں سیاسی استحکام اور امن پر توجہ
دیتے۔ ایران کو بھی اس مشن میں شریک رکھتے تو داعش شاید وجود میں نہیں آتی۔ ادھر
سعودی اور خلیج کے حکمران پندرہ سال سے طا لبان کے خلاف امریکہ اور نیٹو کی جنگ کا
مطالعہ بھی کر رہے تھے – امریکہ اور نیٹو کی بھر پور فوجی طاقت کے باوجود طا لبان کی سوچ نہیں بدلی ہے اور
طا لبان ابھی تک غالب ہیں۔ اور ہو تی طا لبان سے مختلف نہیں ہیں۔ یمن اب سعودی عرب
اور اس کے عرب اتحادیوں کے لئے افغانستان بن گیا ہے۔ ہو تیوں نے چند روز قبل 158 سعودی
اتحادی فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔ جس میں سعودی خصوصی دستوں کا کمانڈر بھی شامل تھا۔
اس سے قبل ہو تیوں نے 58 سعودی اتحادی فوجی ہلاک کر دئیے تھے۔ جس میں ایک سعودی
جنرل بھی تھا۔ جن کے تن پر صرف کپڑے ہوتے ہیں۔ ان کے پاس اور کچھ نہیں ہوتا ہے ۔
ان سے لڑنا اپنے تن کے کپڑے اتروانا ہوتا ہے۔ اب سعودی اور خلیج کے حکمران ہو تیوں
سے اپنے تن کے کپڑے اتروا رہے ہیں۔ ایک بیوقوفی کے بعد دوسری ہمیشہ حماقت ہوتی ہے
۔ عراق لیبیا اور شام ان کی بیوقوفی تھی اور یمن ان کی حماقت ہے۔
ان
کی بیوقوفی اور حماقت کے درمیان اب پاکستان کیا رول ادا کر سکتا ہے؟ پاکستان نے
بھی بیوقوفی اور حماقت کی تھی۔ لیکن پاکستان اب ان بیوقوفیوں اور حماقتوں سے نکل
آیا ہے۔ پاکستان ساٹھ سال تک فوجی ا لائنس میں شامل رہا ہے۔ پندرہ سال قبل پاکستان
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے ساتھ
الائنس میں شامل ہو گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اب
اپنی جنگ خود لڑ رہا ہے۔ پاکستان کے تیس ہزار فوجی شہید ہو گیے ہیں۔ پچاس ہزار لوگ
مارے گیے ہیں۔ اور پاکستان کا ایک بلین سے زیادہ کا نقصان ہو چکا ہے۔ اور جنگ ابھی
جاری ہے۔ پاکستان کے لئے سعودی قیادت میں ایک نئے فوجی الائنس میں سرگرمی سے شامل
ہونے کا یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ پاکستان اسلامی ایٹمی طاقت ہے ۔ اور پاکستان کو بہت
محتاط ہو کر اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ پاکستان کے لئے اس وقت اقتصادی ا لائنس
زیادہ اہم ہے۔
شام
میں پانچ سال سے ایک خونی خانہ جنگی کے بعد امریکہ سعودی عرب خلیج کے حکمران اور ترکی
اسی راستے پر واپس آۓ ہیں۔ جہاں روس اور چین نے سلامتی کونسل میں امریکہ کی
قراردادوں کو ویٹو کیا تھا۔ یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ایک بڑی ناکامی ہے۔ مشرق
وسطی میں امریکہ کو جمہوریت اور آزادی فروغ دینے میں ناکامی ہوئی ہے۔ اسرائیل اور
فلسطینیوں میں ایک پائدار امن کی کوششوں میں امریکہ کو ناکامی ہوئی ہے۔ عراق جنگ
میں امریکہ کو شکست ہوئی ہے۔ لیبیا کو ایک ناکام ریاست بنانے میں امریکہ اور اس کے
اتحادیوں کو صرف کامیابی ہوئی ہے۔ مشرق
وسطی میں امن اور استحکام کے لئے اسلامی دنیا کو اب روس کی کوششوں کی حمایت کرنا
چاہیے۔ امن کی یہ آخری امید ہے۔
No comments:
Post a Comment