Saturday, December 12, 2015

The Last Two Years of Obama Will Be Like The First Four Years of Bush

Terrorism And The Hopeless Muslims

The Last Two Years of Obama Will Be Like The First Four Years of Bush

مجیب خان





       صدر اوبامہ اپنی صدارت کے اب آخری سال میں آ گۓ ہیں۔ اور آئندہ سال دسمبر میں اس وقت ایک نئی انتظامیہ کو اقتدار منتقل کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہوں گی۔ یہ 380 دن صدر اوبامہ کے لئے بہت اہم ہیں ۔ صدر اوبامہ کے اقتدار کا یہ آخری Chapter ہے۔ اور یہ صدر اوبامہ کی Legacy کے لئے بھی بہت اہم ہے۔ صدر اوبامہ نے 2008 میں اپنی انتخابی مہم میں عراق جنگ ختم کرنے اور افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ کو فیصلہ کن بنانے کا اعلان کیا تھا۔ اسامہ بن لادن کو پکڑنے اور القاعدہ کا خاتمہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ صدر اوبامہ نے اپنے اقتدار کے پہلے چار سال میں عراق جنگ تو ختم کر دی تھی لیکن عراق کو سیاسی استحکام دیا تھا اور نہ ہی امن دیا تھا۔ اسامہ بن لادن کو بھی دریافت کر لیا تھا ۔اور ایبٹ آباد پاکستان میں امریکہ کے خصوصی دستوں کے آپریشن کے دوران بن لادن مارا گیا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ کے لئے یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ صدر اوبامہ 2012 میں دوسری مرتبہ پھر صدر منتخب ہو گۓ تھے۔ اور 2014 میں صدر اوبامہ نے افغان جنگ ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن صرف دس ہزار فوجیں افغان سیکورٹی فوج کو تربیت دینے کے لئے افغانستان میں رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جبکہ پانچ ہزار نیٹو فوجیں بھی افغانستان میں رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ عراق کی طرح افغانستان میں بھی استحکام تھا اور نہ ہی امن تھا خانہ جنگی کی چنگاریاں ہر طرف سلگ رہی تھیں۔ صدر بش افغانستان کو جن حالات میں چھوڑ کر گۓ تھے ۔ با ظاہر یہ نظر آ رہا ہے کہ صدر اوبامہ بھی افغانستان کو شاید ان ہی حالات میں چھوڑ کر جائیں گے۔ تاہم افغانستان میں ایک سیاسی حل کے لئے کوششوں کا بوجھ پاکستان کے کندھوں پر ڈال دیا ہے۔ امریکہ کے لئے افغان جنگ نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہے اور نہ ہی عراق جنگ کے نتائج امریکی عوام کے مفاد میں ثابت ہوۓ ہیں۔ امریکہ کے لئے یہ خسارے کی جنگیں تھیں ۔اور دنیا کے لئے یہ جنگیں تباہی کا باعث بنی ہیں۔
      بن لادن کے زندہ رہنے یا مرنے سے اسلامی انتہا پسندی میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ بلکہ اسلامی ملکوں میں Regime Change فوجی حملوں سے اسلامی انتہا پسندی کو زیادہ فروغ ملا ہے۔ بے شمار نئے اسلامی انتہا پسند گروپ میدان میں آ گۓ ہیں۔ Regime Change کی لڑائیاں ان کے ملکوں میں لڑی جا رہی ہیں۔ لیکن مغرب اسلامی انتہا پسند گروپوں کا ٹارگٹ بن رہا ہے۔ Regime Change  سے دنیا کا ایک بڑا مسئلہ حل کیا گیا  تھا۔ لیکن اس کے نتیجے میں دس نئے مسئلے پیدا ہو گۓ ہیں۔ اس حوالے سے 3 دسمبر کو کیلیفورنیا میں دہشت گردی کا واقعہ نائن الیون کے بعد شاید دوسرا بڑا واقعہ تھا۔ جس میں 13 لوگ مارے گۓ تھے۔ اور 27 لوگ زخمی ہو ۓ تھے۔ کیلیفورنیا میں دہشت گردی کے واقعہ پر صدر اوبامہ نے 6 دسمبر کو امریکی عوام سے خطاب کیا تھا۔ جسے امریکہ میں تمام ٹی و ی چینلز نے دیکھا یا تھا۔ صدر اوبامہ نے اس خطاب میں کوئی نئی بات نہیں کی تھی۔ خطاب میں جو باتیں کی تھیں وہ نائن الیون کے واقعہ پر صدر بش کی باتوں کا دراصل ایک تسلسل تھا۔ اپنے خطاب   میں صدر اوبامہ نے مسلمانوں پر زور دیا کہ "وہ انتہا پسند آئیڈ یا لو جی کا مقابلہ کریں۔ یہ حقیقت ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جاۓ کہ انتہا پسند آئیڈ یا لو جی بعض اسلامی معا شروں میں پھیل گی ہے۔ اور یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اور مسلمانوں کو کسی عذر کے بغیر ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔"  
      لیکن مسلمان کس طرح کسی عذر کے بغیر انتہا پسند آ‏ئیڈ یا لوجی کا مقابلہ کریں کہ جب امریکہ کے اتحادی وہ بعض اسلامی معاشرے ہیں جو انتہا پسند آئیڈ یا لوجی پھیلانے میں سب سے آگے ہیں۔ دنیا کے ایک بلین مسلمان نہ تو انتہا پسند ہیں اور نہ ہی انتہا پسند آئیڈ یا لوجی میں یقین رکھتے ہیں۔ یہ مسلمان 80 کے عشرے سے امریکہ کی اس پالیسی کے سخت خلاف تھے کہ جب امریکہ نے بعض اسلامی معاشروں کے ساتھ مل کر اسلامی انتہا پسندی کی افغانستان میں سنگ بنیاد رکھی تھی۔ یہ انتہا پسند ی وہاں سے پھیلتے  پھیلتے اب یورپ اور امریکہ کے دروازے پر پہنچ گی ہے۔ صدر ریگن کے بعد امریکہ میں جو صدر آۓ تھے۔انہوں نے اس طرف توجہ نہیں دی تھی۔ بلکہ انہوں نے عراق میں Regime Change جنگ شروع کر دی تھی۔ لوگ مسجدوں کے ملاؤں کی باتیں سن کر اتنے انتہا پسند نہیں ہوتے ہیں کہ جس قدر جنگیں اور ہتھیار انہیں انتہا پسند بناتے ہیں۔
      نوے کے عشرے میں افغانستان سے زیادہ بڑی خانہ جنگی با سنیا میں مسلمانوں کے خلاف ہو رہی تھی۔ اور سرب فوجیں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی تھیں۔ صدر ایچ بش نے باسنیا میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا  تھا۔ اورباسنیا کے مسلمانوں کو ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی لگا دی تھی۔ لیکن صدر ایچ بش کی انتظامیہ میں عراق کے خلاف فوجی کاروائی کی  گی تھی۔ اور پا نا مہ پر حملہ کیا تھا۔ صدر نوریگا کو ان کے محل سے  ہتھکڑیاں لگا کر میا می لایا گیا تھا۔ اور یہاں انہیں نظر بند کر دیا تھا۔  پانامہ ایک خود مختار ملک تھا اور نوریگا اس کے قانونی صدر تھے۔ اس جا حا ریت کے ذریعے دنیا میں امریکہ کے نئے رول کو تعارف کرایا گیا تھا۔ اس کے بعد صدر بل کلنٹن کی انتظامیہ میں صدر صدام حسین کے خلاف امریکہ اور برطانیہ نے تین ہفتے تک بمباری کی تھی۔ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ اور لوگ سحری کے لئے اٹھتے تھے اور اس وقت بمباری ہونے لگتی تھی۔ سی این این اور دوسرے امریکی چینلز اسے براہ راست دکھاتے تھے۔ اس بمباری کا مقصد صرف صدام حسین سے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانا تھا۔ عراق کے خلاف امریکہ کے ان حملوں کا اسلامی معاشروں میں لوگوں میں ایک نفسیاتی ردعمل امریکہ سے نفرت اور انتقام پیدا کر رہا تھا۔ اور مسجدوں میں ملا لوگوں کے اس نفسیاتی ردعمل کو Exploit کرنے کی ترغیب دے رہے تھے۔ صدر کلنٹن کی انتظامیہ میں دوسری جنگ یوگوسلاویہ کے خلاف ہوئی تھی ۔ جس  میں نیٹو ملکوں نے بھی حصہ لیا تھا۔ با سنیا میں ایک لاکھ مسلمان مارے گۓ تھے۔

      پھر صدر جارج ڈ بلو بش کی انتظامیہ میں افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ شروع کی گی تھی ۔ اور انہیں اقتدار سے ہٹایا گیا تھا۔ یہ وہ ہی طالبان تھے جن سے سو ویت فوجوں کو شکست دینے کا کام لیا تھا۔ افغانستان میں سو ویت فوجوں سے جنگ اور پھر امریکہ اور نیٹو فوجوں سے جنگ میں تقریباً ایک ملین افغان مارے گۓ ہیں۔ جبکہ ہزاروں افغان بچے افغانستان میں صرف Land Mines سے آپا ہج ہو گۓ ہیں۔ افغانستان میں جنگ ابھی اختتام پر نہیں پہنچی تھی کہ صدر بش نے عراق پر حملہ کر دیا اور صدام حسین کا اقتدار ختم کر دیا۔ بش انتظامیہ کا یہ اقدام غیر قانونی تھا اور جا حا ریت تھی۔ عراق کو اس حملہ نے عدم استحکام کر دیا تھا۔ عراق میں انتشار اور سیاسی  افراتفری پھیلا دی تھی۔ اور عراق میں انتہا پسندی کو اس انتشار اور سیاسی افراتفری نے ایک مقام دیا ہے۔ صدر اوبامہ جب اقتدار میں آۓ تھے۔ دنیا کو ان سے بہت زیادہ امیدیں تھیں کہ صدر اوبامہ دنیا میں Civility لائیں گے۔ عالمی قانون کا وقار بحال کریں گے۔ دنیا کو جنگوں سے نجات دلائیں گے۔ صدر اوبامہ کی انتظامیہ صدر جارج بش کی انتظامیہ سے بہت مختلف ہو گی۔ مسلمانوں کو بھی صدر اوبامہ سے ایسی ہی امیدیں تھیں۔ انہیں یہ امید بھی  تھی کہ صدر اوبامہ اسلامی دنیا میں جمہوریت اور آزادی کو فروغ دینے کی پالیسیاں اختیار کریں گے۔  
      لیکن صدر اوبامہ بھی صدر بش کے راستے پر آ گۓ تھے۔ فرانس اور برطانیہ کے ساتھ مل کر صدر اوبامہ نے لیبیا پر حملہ کر دیا۔ اور صدر قدافی کی حکومت ختم کر کے لیبیا میں اسلامی انتہا پسندی کوUnleash  کر دیا۔ صدر بش نے عراق پر حملہ کر کے جو غلطی کی تھی۔ صدر اوبامہ نے لیبیا پر حملہ کر کے جیسے اس غلطی کو درست کرنے کی کوشش کی تھی۔ جس طرح ایک جھوٹ کو دوسرے جھوٹ سے سچ ثابت نہیں کیا جا سکتا ہے اسی طرح ایک غلطی کو دوسری غلطی سے درست نہیں کیا جاتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس جب لیبیا پر حملہ کرنے جا رہے تھے ۔ کیا اس وقت انہیں اسلامی انتہا پسند آئیڈ یا لوجی کا علم نہیں تھا؟ حالانکہ مسلمان اس وقت چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ قدافی کے مخالفین اسلامی انتہا پسند ہیں۔ اور یہ لیبیا میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ کیا امریکہ برطانیہ اور فرانس نے ان کی بات سنی تھی۔  اور اب وہ مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے معا شروں میں انتہا پسند آئیڈ یالوجی کا مقابلہ کریں۔ اب شام میں بھی امریکہ برطانیہ اور فرانس یہ ہی کھیل کھیل رہے ہیں۔ پانچ سال سے اسلامی انتہا پسندوں کی پشت پنا ہی کر رہے ہیں۔  شام میں ایک نئے Sharif صدر پو تن نے انہیں داعش کی مدد کرتے پکڑ لیا تو امریکہ برطانیہ فرانس سب داعش پر بم گرانے آ گۓ ۔
       یہ مغربی ثقافتیں جو جمہوریت آزادی اور قانون کی بالا دستی میں یقین رکھتی ہیں۔ عرب دنیا میں لوگوں کو کیا یہ قانون کی بالا دستی کی تربیت دے رہے ہیں؟ یا انہیں ہتھیاروں کا قانون دے رہے ہیں؟ کیا امریکہ برطانیہ اور فرانس نے عرب دنیا کے تین سو ملین مسلمانوں سے پوچھا تھا کہ وہ لیبیا میں فوجی حملہ کر کے حکومت تبدیل کریں گے ؟ کیا شام کے 25 ملین لوگوں سے پوچھا تھا کہ وہ شام میں کس طرح کی تبدیلی چاہتے ہیں ؟ امریکہ نے خلیج کے چھ عرب حکمرانوں کے ساتھ ان کے محل میں کمرہ بند کر کے تین سو ملین عرب مسلمانوں کے لئے یہ فیصلے کیے تھے۔ یہ مسلمان تو کیلیفورنیا میں ان خاندانوں کے غم کو اپنا غم محسوس کر تے ہیں۔ کیونکہ تین لاکھ بے گناہ مسلمان شام میں مارے گۓ ہیں۔ دو ملین مسلمان عراق میں مارے گۓ ہیں۔ ہزاروں مسلمان عورتیں بچے مرد مہاجر کیمپوں میں مر رہے ہیں۔ لاکھوں مسلمان بچوں کا مستقبل تاریک ہو گیا ہے۔ سینکڑوں بے گناہ مسلمان ڈر ون حملوں میں مارے گۓ ہیں۔ ہزاروں مسلمان ایف 16 طیاروں کی بمباری میں مارے گۓ ہیں۔ مسلمانوں کے لئے یہ بہت بڑے غم ہیں۔
      اگر صدر اوبامہ عراق لیبیا شام یمن افغانستان کو امن دینے میں ناکام ہو گۓ ہیں۔ صدر اوبامہ کا عرب دنیا میں جمہوریت اور آزادی کا پیغام فیل ہو گیا ہے ۔ پھر یہ مسلمان جن سے صدر اوبامہ اسلامی انتہا پسند آئیڈ یالوجی کا مقابلہ کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ وہ کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں ؟ صدر اوبامہ کے اقتدار کے آخری دو سال با ظاہر صدر جارج بش کے پہلے چار سال نظر آ رہے ہیں۔
    


                                                                                                              

No comments:

Post a Comment