Saturday, January 9, 2016

And This Is The War Between Sunni-Saudi, And Shia-Iran

The Crisis of Moral Values   
Shia-Saudi Executed By Saudi Arabia
Sunni-Saudi Executed By America
And This Is The War Between Sunni-Saudi, And Shia-Iran 

مجیب خان


        حکومت اپنے مخالفین کو پھانسیاں دے کر ان کی آوازیں جب ہمیشہ کے لئے بند کر دیتی ہے تو یہ انسانی حقوق کے خلاف ایک بڑا جرم ہے۔ حکومت کے سیاسی مخالفین اور معاشرے میں جرائم کرنے والوں میں بڑا فرق ہے۔ لیکن یہ حکومتیں اپنے سیاسی مخالفین اور معاشرے میں جرائم کرنے والوں میں کوئی فرق نہیں کرتی ہیں۔ اور اپنے مخالفین کو یہ پیشہ ور جرائم کرنے والے سمجھتی ہیں۔ سعودی عرب میں شیخ نمر النمر کے ساتھ اسی سوچ کے ساتھ پھانسی دینے کا فیصلہ  کیا گیا ہے۔ حالانکہ 56 سالہ شیخ نمر کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ حکومت پر بے لاگ تنقید کرتے تھے۔ سعودی شیعہ آبادی کے ساتھ فرقہ بندی کی بنیاد پر سلوک کے خلاف تھے۔ اور سعودی حکومت سے آزادی اور حقوق دینے کا مطالبہ کرتے تھے۔ آزادانہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کرنے پر  شیخ نمر کئی بار جیل بھی گیے تھے۔ عرب اسپرنگ میں انہوں نے سعودی شیعاؤں کے مظاہروں میں ایک کلیدی رول ادا کیا تھا۔ شیخ نمر سعودی عرب میں انقلاب برپا کرنے کی باتیں نہیں کر رہے تھے۔ وہ سعودی نظام کے اندر آزادی اور حقوق کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ کوئی اتنا بڑا جرم نہیں تھا کہ انہیں پھانسی دے دی گئی ہے۔ عوام کو حکومت سے شکایتیں ہوتی ہیں۔ اور وہ حکومت سے شکایتوں کا ازالہ کرنے کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ حکومت کا یہ بنیادی فرض ہے کہ وہ عوام کی شکایتوں پر توجہ دے۔ انہیں جیلوں میں ڈال کر یا پھانسیاں دے کر یہ کوئی عوام کی شکایتوں کا حل نہیں ہے۔ ایسے ہتھکنڈوں سے عوام میں اضطراب پیدا ہوتا ہے۔ اور ایک دن عوام کا لاوا پھٹ پڑتا ہے۔ پھانسیاں دینا آسان ہوتا ہے لیکن عوام کا پھٹتا لاوا سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔
        سعودی شیعہ عالم شیخ نمر اور سنی سعودی اسامہ بن لادن کے سعودی حکومت سے سیاسی اختلافات میں زیادہ نمایاں فرق نہیں تھا۔ شیخ نمر کی تقریروں میں سعودی عرب میں داخلی زیادتیوں آزادی اور حقوق کے بارے میں احتجاج ہوتا تھا۔ جبکہ اسامہ بن لادن کے پیغام میں سعودی عرب کی خار جی پالیسیوں  بالخصوص امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات پر غصہ کا اظہار ہوتا تھا۔ اسلامی ملکوں کے داخلی امور میں امریکہ کی مداخلت اور جا حا ریت میں سعودی حکومت کے تعاون کے اسامہ بن لادن سخت خلاف تھا۔ سعودی حکومت نے 90 کے عشر ے میں امریکہ کو سعودی سرزمین پر فوجی اڈے قائم کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اس سعودی فیصلے پر اسامہ بن لادن کو سعودی حکومت پر سخت غصہ تھا۔ ایک طرح سے بن لادن کا سعودی حکومت پر غصہ درست تھا۔ کیونکہ یہ سعودی حکومت تھی جس نے بن لادن اور ہزاروں عرب نوجوانوں کو افغانستان ایک اسلامی ملک میں جہاد کے لئے بھیجا تھا جہاں سوویت فوجیں آ گئی تھیں ۔ دس سال جہاد میں قربانیوں کے بعد اسلامی ریاست افغانستان سے سو ویت فوجوں کو نکالا تھا۔ پھر نوے کے عشر ے میں اسامہ بن لادن اپنے گھر سعودی عرب واپس آۓ تو یہاں امریکی فوجیں بھیٹی ہوئی تھیں۔ سعودی حکومت نے عراق کی پہلی جنگ کے بعد امریکہ کو سعودی سرزمین پر فوجی اڈ ے قائم کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ اسامہ بن لادن مقدس سر زمین پر امریکی فوجیں دیکھ کر اپنی حکومت پر برہم  گیے تھے۔ بن لادن نے اپنے افغان جہادی ساتھیوں کو یہ پیغام بھیجا کہ اب وہ امریکی فوجوں سے سعودی عرب کو آزاد کرانے کے لئے جہاد کی تیاری کریں۔ سعودی حکومت نے بن لادن کے اس پیغام کو سعودی عوام کو بغاوت پر اکسانا سمجھا تھا۔ سعودی حکومت نے بن لادن کو جیل بھیجنے کے بجاۓ ۔ سعودی عرب سے نکال دیا تھا ۔ سعودی شاید اللہ کے فیصلے کی پیروی کر رہے تھے کہ اللہ نے شیطان کو جنت سے نکال دیا تھا اور انہوں نے بن لادن کو مقدس سر زمین سے نکال دیا تھا۔ سعودی حکومت اگر اس وقت درست فیصلہ کر لیتی اور بن لادن کو ملک سے نکالنے کے بجاۓ نظر بند کر دیتی ۔ تو آج اسلامی ملکوں کو اس عذاب کا سامنا نہیں ہوتا۔ سعودی حکومت نے بن لادن کے ساتھ کیا انصاف کیا تھا اور نہ ہی شیعہ عالم شیخ نمر کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ اور نہ ہی سعودی عوام کو انصاف دیا ہے۔



      اس وقت جتنی بھی جنگیں ہو رہی ہیں وہ صرف نا انصافیوں کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ کیا سعودی ہو تیوں سے انصاف کے لئے جنگ کر رہے ہیں؟ ہوتی سعود یوں سے اس لئے لڑ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے۔ ان کے ملک پر حملہ کیا ہے۔ اور وہ اپنے ملک کے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کیونکہ وہ غریب ہیں اور سعودی  دولت مند ہیں۔ اس لئے امریکہ اور مغربی طاقتیں سعودی جا حا ریت کی حمایت کر رہی ہیں۔ ایک نا انصافی پر دوسری نا انصافی یہ ہے کہ اسے وہ شیعہ سنی کی جنگ بنا رہے ہیں۔ اصول ان کے ضمیر میں جیسے مر گیے ہیں۔ سعودی عرب میں 47 لوگوں کو پھانسیاں دی گئی ہیں۔ لیکن اس پر صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ سعودی عرب کا داخلی معاملہ ہے۔ ترکی کے صدر طیب ارد گان نے کہا ہے کہ سعودی عرب کا پھانسیاں دینے کا فیصلہ صحیح ہے۔ اور یہ اس کا داخلی معاملہ ہے۔ سعودی میڈ یا میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ نمر النمر دوسروں سے مختلف نہیں ہیں۔ انہوں نے فوجی سیل بناۓ تھے ۔ جو شہریوں کو ہلاک کر رہے تھے۔ اور مشرقی سعودی عربیہ میں فساد پھیلا رہے تھے۔ نمر النمر کو پھانسی کا شاہ سلمان کا فیصلہ جرات  مندانہ ہے۔ شاہ نے ایرانی منصوبے خاک کر دئیے ہیں۔ ایک سعودی کالم نویس نے لکھا ہے کہ جو 47 لوگوں کو پھانسی دینے کی مذمت کر رہے ہیں وہ شاید یہ نہیں جانتے ہیں کہ ہم دہشت گردوں کی بات کر رہے ہیں۔ ان پر منصفانہ مقدمہ چلایا گیا تھا ۔ اور یہ سعود یوں کا موقف ہے۔
      لیکن دوسری طرف شام میں سعودی اس کے عرب اتحادی اور امریکہ کیا کر رہے ہیں؟ شام میں حکومت کے خلاف جو لوگوں کو بغاوت پر اکسا رہے تھے۔ وہ کیوں دہشت گرد نہیں تھے؟ اسد حکومت اپنے مخالفین کے خلاف جو اقدام کر رہی تھی وہ سعود یوں کو اپنے بادشاہ کے اقدامات سے مختلف کیوں نظر آ رہے ہیں۔ امریکہ کی نگاہ میں صدر بشر السد Butcher ہے۔ سعودی عرب میں آزادی اور حقوق کا مطالبہ کرنے والے دہشت گرد ہیں لیکن شام میں حکومت کے خلاف ہتھیاروں سے لڑنے والے آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ شام کو انہوں نے کھنڈرات بنا دیا ہے۔ دو لاکھ بےگناہ شامی ہلاک ہوۓ ہیں۔ لاکھوں شامی بے گھر ہو گیے ہیں۔ اور یہ دہشت گردی نہیں ہے ۔ شام میں انسانیت کی یہ تباہی سعودی ،خلیج کے حکمرانوں اور امریکہ کی مداخلت کے نتیجے میں ہوئی ہے۔ اور اب کن چہروں سے سعودی حکومت 47 لوگوں کو پھانسیاں دینے کے فیصلے کو اس کا داخلی معاملہ کہہ رہی ہے۔
      سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ اور مغرب کی اخلاقی قدریں بھی ختم ہو گئی ہیں۔ Corporate Greed, Political Opportunism, Double Standard,   اب ان کی نئی قدریں بن گئی ہیں۔ اور عوام انصاف سے محروم ہو گیے ہیں۔         

No comments:

Post a Comment