Children Without A Future
مجیب خان
یونیسف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عراق میں 2 ملین بچے اسکول جانے سے
محروم ہو گیے ہیں۔ اور 3 ملین سے زیادہ بچوں کی تعلیم میں عراق میں مسلسل جنگ کے
حالات سے خلل پیدا ہوا ہے۔ جنگ سے متعدد اسکولوں کو نقصان پہنچا ہے ۔ اور بعض
اسکول بالکل تباہ ہو گیے ہیں۔ یمن، عراق، لیبیا، افغانستان میں جنگیں اور شام میں
تاریخ کی طویل ترین خانہ جنگی ایک پوری نسل کو تباہ کر رہی ہیں۔ اور جہالت پھیلا
رہی ہیں۔ افغانستان بچوں کے لئے ایک تاریک اور انتہائی بد قسمت ملک ہے۔ 35 سال سے
افغانستان ایک نا ختم ہونے والے حالات جنگ میں ہے۔ 80 کے عشرے میں سوویت یونین کے
خلاف جنگ ، 90 کے عشرے میں داخلی خانہ جنگی اور 21 ویں صدی کے آغاز سے امریکہ اور
نیٹو کے خلاف جنگ۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں تقریباً ایک لاکھ بچے یتیم ہو گیے
تھے۔ ہزاروں بچے Land Mines سے اپاہج ہو گیے تھے۔ پھر افغانستان میں خانہ جنگی سے لاکھوں بچے بری طرح
متاثر ہوۓ تھے۔ اقوام متحدہ کی 2014 کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں بچوں کی
ہلاکتوں میں 48 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ اور2502 بچے ہلاک ہوۓ تھے۔ جبکہ 2013 میں 1091
واقعات میں 710 بچے ہلاک اور 1792 بچے زخمی ہوۓ تھے۔ طالبان نے بھی بچوں کو خود کش
حملوں میں استعمال کیا تھا۔97 بچوں نے خود کش حملوں میں اپنی جانیں دی تھیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2007 سے 2014 عراق میں ہولناک ہلاکتوں کے
سال تھے۔ اقوام متحدہ کو اس عرصہ میں عراق میں بڑے پیمانے پر اور مسلسل عالمی
قانون کی خلاف ورزیوں کے بارے میں رپورٹیں موصول ہوئی تھیں۔ جن میں بچوں کی
پھانسیاں، ٹارگٹ کلنگ، اغوا، جنسی تشدد اور داعش کے زیر کنڑول علاقوں میں بچوں کو
زبردستی داعش میں بھرتی کرنے کی خبریں بھی تھیں۔ داعش کے زیر کنڑول شہری علاقوں پر
امریکہ کی بمباری میں متعدد بچے بھی ہلاک ہوۓ تھے ۔ اقوام متحدہ نے ہلاکتوں کے
بارے میں جو اعداد جمع کیے تھے ۔ان میں 679 بچے ہلاک ہوۓ تھے۔ جن میں 121 بچیاں
اور 304 بچے تھے ۔ 111 بچیاں اور 282 بچے زخمی ہو گیے تھے۔ 87 بچے IED سے اور خود کش حملوں میں ہلاک ہوۓ تھے اور 211 بچے زخمی ہوۓ تھے۔
فلسطین کی صورت حال کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ
فلسطین میں سیکورٹی کی صورت حال ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ غازہ میں کشیدگی خطرناک رخ
اختیار کر رہی ہے۔ مغربی کنارے میں بھی انتشار میں شدت دیکھی جا رہی ہے۔ ان حالات
کا بچوں کے ذہنوں پر گہرا اثر ہو رہا ہے۔ فلسطینی بچے پہلے ہی مسلسل فوجی قبضہ کے
تنازعہ اور ناکہ بندی کے حالات کا سامنا کر رہے تھے۔ اس دوران تنازعہ پر رپورٹوں
میں بچوں کی ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ بتایا گیا تھا۔
بالخصوص غازہ میں 561 بچے ہلاک ہوۓ تھے۔ جن میں 557 فلسطینی اور 4 اسرائیلی بچے
تھے۔ اور 471 بچے جن میں 245 فلسطینی اور 22 اسرائیلی زخمی ہوۓ تھے۔ مغربی کنارے
میں 13 فلسطینی لڑکے جن کی عمر 11 سے 17 سال تھی ہلاک ہوۓ تھے۔ ان میں12
لڑکے مظاہروں، اسرائیلی فوج کی تلاشی اور
گرفتاری کے دوران ہلاک ہو ۓ تھے۔ اور ایک فلسطینی لڑکے کو اسرائیلی آباد کار نے
ہلاک کر دیا تھا۔
مغربی
طاقتوں کی سمجھ میں ابھی تک یہ نہیں آیا ہے کہ آخر فلسطینی اسرائیل کے خلاف اتنے
زیادہ انتہا پسند کیوں ہیں۔ شام، عراق، لیبیا اور افغانستان میں خانہ جنگی کے
نتیجے میں دو ملین مہاجرین یورپ میں پناہ لینے آۓ ہیں۔ ان مہاجرین کی اتنی بڑی
تعداد کو دیکھ کر یورپ کے مقامی لوگوں میں انہیں پناہ دینے کی مخالفت ہو رہی ہے۔
بالخصوص یورپ کے نوجوانوں میں انتہا پسندی کے رجحانات ابھر آۓ ہیں۔ اور انہوں نے
مہاجرین پر حملے کرنا شروع کر دئیے ہیں۔
حالانکہ یہ عرب مہاجرین ان یورپی شہریو ں کو بے گھر نہیں کر رہے ہیں۔ اور ان کا
قیام بھی عارضی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یورپ کے شہریوں میں عرب مہاجرین کی آمد سے
بے چینی بڑھ گئی ہے۔ جبکہ اسرائیل میں یورپ سے یہودی آ کر آباد ہوۓ ہیں۔ اور انہوں
نے فلسطینیوں کو بے گھر کر کے ان کی زمینوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ انہوں نے فلسطینی
بچوں کا مستقبل تاریک کر دیا ہے۔ لیکن اپنے بچوں کے مستقبل کو روشن کر لیا ہے۔
یورپ میں عرب مہاجرین کی آمد پر جس طرح رد عمل ہو رہا ہے۔ فلسطینی یورپی مہاجرین
کی فلسطائین میں آمد اور ان کی ذ مینوں پر قبضہ کرنے اور انہیں بے گھر کرنے کے
خلاف 68 سال یہ احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن دنیا ان کے احتجاج کو دہشت گردی کہتی ہے۔
جارج
بش انتظامیہ نے افغانستان پر جب حملہ کیا تھا۔ اس وقت جو افغان بچے پانچ چھ برس کے
تھے۔ وہ اب بیس اور اکیس سال کے ہو گیے ہیں۔ لیکن افغانستان میں جنگ ختم نہیں ہوئی
ہے۔ ان بچوں نے اب یا تو طالبان کا مذہب قبول کر لیا ہے اور دہشت گرد بن گیے ہیں۔
یا اپنے روشن مستقبل کے انتظار میں تاریکی ختم ہونے کی آس میں بیٹھے ہیں۔
افغانستان میں دو نسلیں جنگوں میں پیدا ہوئی ہیں اور صرف جنگیں دیکھ رہی ہیں۔
2003
میں جارج بش اور ٹونی بلیر نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ اور صدام حسین کو اقتدار سے
ہٹایا تھا۔ عراق میں اس وقت جو بچے پانچ چھ برس کے تھے۔ اب وہ سترہ اٹھارہ برس کے
ہو گیے ہیں۔ صدام حسین اگر اقتدار میں ہوتے تو یہ بچے آج امریکہ اور برطانیہ میں تعلیم
حاصل کر رہے ہوتے۔ اور ایک مہذب شہری بن گیے ہوتے۔ لیکن اینگلو امریکہ کے عراق پر
حملہ نے انہیں شیعہ ملیشیا میں بھرتی ہونے پر مجبور کر دیا ہے ۔ یا یہ داعش میں
شامل ہو گیے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ کے ہتھیار ان کے ہاتھوں میں ہیں۔ اور ایک جنگ
کے اندر کئی نئی جنگیں شروع ہو گئی ہیں۔
لیبیا
میں بچوں کو بھی ایک ایسا ہی مستقبل دیا گیا ہے۔ فرانس برطانیہ اور امریکہ نے جب
لیبیا پر حملہ کیا تھا اور قدافی کو اقتدار سے ہٹایا تھا۔ اس وقت لیبیا میں جو بچے
آٹھ نو برس کے تھے۔ ان کا مستقبل جیسے تاریک ہو گیا تھا۔ آج وہ بچے سولہ سترہ برس
کے ہو گیے ہیں۔ مشین گنیں ان کے ہاتھوں میں ہیں۔ اور یہ مختلف ملیشیا گروپوں میں
شامل ہو گیے ہیں۔ یا پھر یورپ میں ایک اچھے مستقبل کی تلاش میں گھوم رہے ہیں۔ شام کو
بچوں کے لئے جہنم بنا دیا ہے۔ یورپ میں جنگوں میں اتنے بچے نہیں مارے گیے ہوں گے
کہ جتنے بچے شام میں مارے گیے ہیں۔ شام پر ایٹم گرانے کے بغیر ہیرو شیما اور نا گا
ساکی بنا دیا ہے۔
جنگیں،
ظلم، دہشت گردی دنیا کا نیا نظام بن گیے ہیں۔ انصاف کا نظام دنیا سے اٹھا لیا گیا
ہے۔ خود غرضی مفاد پرستی دولت کا گھمنڈ، طاقت کا نشہ نئی اخلاقی قدریں بن گئی ہیں۔
انسانیت صرف تاریخ کی کتابوں میں نظر آتی ہے۔ اور یہ ان بچوں کا مستقبل ہے۔ جو
دولت مند ہیں اور طاقتور ہیں ان بچوں کے لئے ان کا پیغام یہ ہے this is a very dangerous world
No comments:
Post a Comment