Sunni-Shia Clash In The Gulf
Cooperation, Not Confrontation, Is The Solution For Saudi Arabia’s Stability And Security
مجیب خان
عرب
لیگ کا ہنگامی اجلاس جو ریاض میں سعودی عرب کی درخواست پر بلایا گیا تھا۔ اجلاس
میں عرب وزراۓ خارجہ نے تہران میں سعودی سفارت خانہ پر حملہ کی مذمت کی ہے۔ اور
ایران سے عرب امور میں مداخلت کرنے سے باز رہنے کا کہا ہے۔ سعودی حکومت کا شیعہ
عالم شیخ نمر کو پھانسی دینے پر تہران میں ہزاروں ایرانیوں نے سعودی سفارت خانہ کے
سامنے احتجاج کیا تھا۔ یہ احتجاج قابو سے باہر ہو گیا تھا۔ اور مظاہرین نے سفارت
خانہ پر حملہ کر دیا تھا۔ خطہ میں جب شیعہ سنی فرقہ پرستی کو بھڑکایا جا رہا ہے
اور شیعہ اقلیت میں ہیں۔ اور سنی عرب اکثریت شیعہ اقلیت کے ساتھ تصادم پر اتری
ہوئی ہے۔ ایسی میں اکثریت کے درمیان اقلیت
بڑی حساس ہوتی ہے۔ اور اس کے جذبات جلدی مجروح ہو جاتے ہیں۔ لہذا اس طرح کے واقعات
کا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ امریکہ میں جب سفید فام پولیس کی زیادتی کے
نتیجے میں ایک سیاہ فام ہلاک ہو گیا تھا۔ تو شہر کے سارے سیاہ فام احتجاج کر نے
سڑکوں پر آ گیے تھے۔ اور انہوں نے شہر کا سارا نظام درہم برہم کر دیا تھا۔ شہر میں
خاصی توڑ پھوڑ بھی کی تھی۔ لیکن امریکہ میں حکومت کو اقلیت کے جذبات کا احساس تھا۔
لہذا حکومت نے سیاہ فام کے ساتھ زیادتی اور نا انصافی کا ازالہ کرنے کے اقدام
تجویز کیے تھے۔ لیکن عرب لیگ کے اجلاس میں ایران کے بارے میں ترش رویہ اختیار کیا
گیا تھا۔ اجلاس میں سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا کہ اگر اسلامی جمہوریہ
اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتی ہے تو عرب ممالک اس کا مقابلہ کریں گے۔ سعودی وزیر خارجہ
نے ایران کو اگر اسلامی جمہوریہ کہا ہے تو ایران سے پھر اسلامی روایت کے مطابق ڈیل
کیا جاۓ۔
سعودی عرب سے اسلامی تعلیمات کے اصول فراموش کر کے دنیا کی سیاست کرنے کی
توقع نہیں تھی۔ اللہ نے غیر مسلم کے ساتھ اچھے سلوک کی ہدایت کی ہے۔ اور شیعہ تو
مسلمان ہیں۔ ایران ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔ یہ سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتیں ہیں
جنہوں نے کہیں سنیوں کو اقلیت بنا دیا ہے اور کہیں شیعاوں کو اکثریت بنا دیا ہے۔
حالانکہ امریکہ اور یورپ میں صرف عیسائی اکثریت میں ہیں۔ جبکہ عیسائوں میں بھی
کتھو لک ہیں ۔
Lutheranہیں ۔ Protestant ہیں۔ Orthodox
ہیں۔ لیکن یہ اپنے ملکوں میں عیسائی فرقوں کی اکثریت اور اقلیت کو اتنی اہمیت نہیں
دیتے ہیں ۔ لیکن انہوں نے عربوں میں سنی اور شیعہ اقلیت اور اکثریت کو اہم ایشو
بنا دیا ہے۔ عرب ایرانی شیعاوں سے خوفزدہ ہو رہے ہیں۔ اور ایرانی شیعہ عرب سنیوں
کے درمیان تنہا محسوس کر رہے ہیں۔ اور عرب ان ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جو اس خطہ
میں لڑاؤ تقسیم کرو اور بالا دستی رکھنے کی پالیسی فروغ دے رہے ہیں۔
ریاض میں عرب لیگ کے اجلاس میں ایران کے خلاف جو قرارداد منظور کی گئی ہے۔
اس قرارداد کے متن سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ جیسے یہ اسرائیلی وزارت خارجہ کے
ترجمان کا بیان تھا۔ اسرائیلی حکومت ماضی میں ایران کی فلسطینیوں کی حمایت بالخصوص
حما س اور حزب اللہ کی پشت پنا ہی کرنے پر ان ہی لفظوں میں مذ مت کرتی تھی۔ یہ خطہ
نفرتوں کی آگ میں سلگ رہا ہے۔ سعودی اور عرب لیگ خلاؤں میں بیٹھے نفرتوں کی سیاست
کر رہے ہیں۔ اسلامی ملکوں کو اس وقت سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اور یہ ان چیلنجوں
کا مقابلہ کرنے کے بجاۓ ان چیلنجوں میں اضافہ کرنے کی پالیسی کو فروغ دے رہے ہیں۔
یورپ میں 16ویں صدی میں تیس سال کی جنگ کے جو عوامل تھے۔ آج وہ عرب دنیا میں
لڑائیوں میں بھی نظر آ رہے ہیں۔ جس میں مذاہب، سرحدیں، شاہی خاندان، اقتصادی
مفادات کی دشمنیاں نمایاں اسباب تھے۔ اور تیس سال کی جنگ جب ختم ہو گئی تھی۔ تو
یورپ کی سرحدیں بدل گئی تھیں۔ یورپ کا نقشہ تبدل ہو گیا تھا۔ اور بعض قوتیں مشرق
وسطی کو ان ہی حالات کی طرف لے جا رہی ہیں۔
سعودی عرب اور خلیج کی ریاستیں اس وقت جن
خطرناک حالات میں گھرے ہوۓ ہیں۔ وہ خود انہوں نے اپنے لئے پیدا کیے ہیں۔ ایران نے
یا حزب اللہ اور بشر السد نے ان کے لئے یہ حالات پیدا نہیں کیے ہیں۔ سعودی حکومت
پر جو شدید تنقیدیں کر رہے ہیں۔ وہ سعودی عرب کے اصل خیر خواہاں ہیں۔ صدام حسین
اور معمر قدافی کو امریکہ اور یورپ اپنا دشمن سمجھتے تھے۔ کیونکہ صدام حسین اور
معمر قدافی ان کی پالیسیوں کے سخت خلاف تھے۔ لیکن انہیں اب احساس ہو رہا ہے کہ وہ
دراصل امریکہ اور یورپ کے ہمدرد تھے۔ اور ان کی مخالفت بھی ان کے مفاد میں تھی۔ سعودی
حکومت کے فیصلوں کی جو مخالفت کر رہے ہیں ۔سعودی حکومت کو اس پر توجہ دینا چاہیے۔
شیخ نمر کو پھانسی دے دی ہے۔ لیکن یہ مخالفت کا سد باب نہیں ہے۔ مخالفت کا حل
مخالفین کو ساتھ لے کر چلنے میں ہے۔ اکیسویں صدی کی دنیا میں مسائل اور تنازعوں کا
حل فوجی آپریشن میں نہیں ہے۔ پندرہ سال سے امریکہ اپنی سیکورٹی کے خطروں کو فوجی
آپریشن سے ختم کر رہا ہے۔ کیا امریکہ کو اس میں کامیابی ہوئی ہے؟ بلکہ ان فوجی
آپریشن نے امریکہ کی سیکورٹی کے ساتھ دنیا کی سیکورٹی بھی خطرے میں ڈال دی ہے۔ اپنی
غلطیوں کا الزام دوسروں کو دے کر غلطیوں کا ازالہ نہیں کیا جاتا ہے۔
عرب
لیگ ایک نااہل اور ناکام تنظیم ہے۔ جس نے اپنے قیام کے ستر برسوں میں صرف مذمت کی
قراردادیں منظور کی ہیں عرب دنیا کے استحکام اور سلامتی کے مفاد میں کوئی ٹھوس کام
نہیں کیے ہیں۔ عربوں کے آپس کے تنازعہ ختم کرنے میں عرب لیگ کا کوئی مثبت رول نہیں
ہے۔ با اثر بادشاہوں نے عرب لیگ کو اپنے مقاصد میں استعمال کیا ہے۔ اور ان کے
مقاصد مغربی مفادات میں تھے۔ عرب اتحاد اور یکجہتی کے لئے عرب لیگ نے کچھ نہیں کیا
ہے۔ فلسطینیوں کی حالت زار پر، عراق کے مسئلہ پر، لیبیا میں مغربی طاقتوں کی جا حا
ریت پر، شام کی تباہی میں عرب لیگ کا رول، یمن جو ایک قدیم عرب ملک ہے اس کے خلاف
خلیج کے دولت مند ملکوں کی جنگ میں عرب لیگ کی بے بسی اس تنظیم کی ناکامیوں کے
ثبوت ہیں۔
ریاض
میں سعودی عرب نے عرب لیگ کا اجلاس بلایا اور ایران کی مذ مت میں قراردادیں منظور
کرالی ہیں۔ لیکن یمن عرب لیگ کا اجلاس بلا سکتا ہے اور نہ ہی عرب لیگ سعودی عرب
اور خلیج کی حکومتوں کی مذ مت میں اس طرح قرارداد منظور کر سکتی ہے۔ حالانکہ یمن
میں ان ملکوں کی فوجی مداخلت عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یمن میں سیاسی
بحران اس کا داخلی معاملہ تھا۔ اور ان ملکوں کو اس میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں
تھی۔ اب ان ملکوں نے یمن پر حملہ کیا ہے اور عرب لیگ اس کی مذ مت کرے ۔ شام کے دو
ملین لوگ یورپ میں پناہ کے لئے در بدر گھوم رہے ہیں۔ لیکن ان کا کوئی پرسا ں حال
نہیں ہے۔ عرب لیگ صرف تما شہ دیکھ رہی ہے۔ غازہ کی ناکہ بندی ختم کرانے میں عرب
لیگ اور سعودی حکومت نے کیا کیا ہے۔ گزشتہ جنگ میں اسرائیل نے غازہ پر بمباری کر کے
ان کا سب کچھ تباہ کر دیا تھا۔ اور اب غازہ کی ناکہ بندی کر دی ہے۔ یہ وہ ایشو ہیں
جو سعودی عرب اور خلیج کے ملکوں میں راۓ عامہ کو ان کی حکومتوں کے خلاف کر رہے
ہیں۔ لیکن یہ ایران کو ان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا الزام دے رہے ہیں۔ ایران
سے تصادم کی پالیسی ان کے استحکام اور سلامتی کے مفاد میں نہیں ہے ۔
No comments:
Post a Comment