The Regime Change And The "Hit-And-Run" Policy
Neo-Cons Are Using American Power To Create Chaos
In The World
مجیب خان
صدر
بر اک ا وبا مہ نے اپنے آخری اسٹیٹ آف دی
یونین خطاب میں افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور یمن میں جنگوں کا کوئی ذکر نہیں
کیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر بہت مختصر بات کی تھی۔ یوکرین کے مسئلہ کا بلیک
آوٹ کیا تھا۔ شام میں روس کی فوجی موجودگی کے بارے میں خاموشی اختیار کی تھی۔ روس
کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کے بارے میں بھی کوئی بات نہیں کی تھی۔ سعودی عرب اور
خلیج کے حکمران امریکہ کی سرپرستی میں داعش کے خلاف جو جنگ لڑ رہے ہیں۔ صدر اوبامہ
نے کانگرس سے اپنے خطاب میں اس جنگ میں کامیابیوں یا ناکامیوں کا بھی کوئی ذکر
نہیں کیا تھا۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل میں ان کی کوششیں ناکام ہونے پر بھی
کوئی بات نہیں کی تھی۔ بحرہ ساؤ تھ چائنہ میں امریکہ کی بڑھتی ہوئی فوجی سرگرمیوں
کے بارے میں بھی کانگرس سے خطاب میں کوئی بات نہیں کی تھی۔ یورپ میں امریکہ کے
قدیم اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں حالیہ چند سال میں جو کھچاؤ آیا ہے اس پر بھی
کچھ نہیں کہا تھا۔ صدر اوبامہ کے خطاب میں خارجہ امور بہت مختصر پیراگراف تھا۔ صدر
اوبامہ کے خطاب کا ایک بڑا حصہ اقتصادی شعبوں میں ان کی انتظامیہ کی کامیابیوں کی
تفصیل پرتھا۔ صحت عامہ کی اصلاحات کی کامیابی کا ذکر تھا۔ جس کے تحت اٹھارہ ملین
امریکیوں کو صحت عامہ کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ صدر اوبامہ نے اسٹیٹ اف دی
یونین خطاب میں بڑے پر زور لفظوں میں کہا یونین آج بہت مضبوط اور مستحکم ہے۔ اور
دنیا میں جہاں بھی مسئلہ ہوتا ہے وہ ہمارے پاس آتے ہیں۔ امریکہ کے فوجی بجٹ کا
دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ہے۔
ایک
بیمار خارجہ پالیسی صدر اوبامہ کو وراثت میں ملی تھی۔ سات سال سے صدر اوبامہ اس
بیمار خارجہ پالیسی کا علاج کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی ہے۔
Regime Change اورNation
Building کا جو تصور بش
انتظامیہ نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کو دیا ہے۔ صدر اوبامہ بھی اسی خارجہ پالیسی
کے بھنور میں بھٹکے ہوۓ ہیں۔ Regime Change کرنے کا تجربہ
انتہائی آسان تھا۔ لیکن
Nation Building کے تجربے نے جیسے امریکہ کے عصا ب ڈھیلے کر دئیے
ہیں۔ اور جب تک افغانستان عراق اور لیبیا تندرست معاشرے نہیں ہوں گے ۔ امریکہ کی
خارجہ پالیسی بھی اسی طرح بیمار نظر آۓ گی۔ اس بیمار خارجہ پالیسی کی وجہ سے شام
میں Regime Change میں کامیابی ہو رہی ہے اور نہ ہی Nation Building کا مرحلہ قریب نظر آ رہا ہے۔ افغانستان بش انتظامیہ کی ناکامی تھا۔ اور
شام اوبامہ انتظامیہ کی ناکامی ہے۔ اور امریکہ کی خارجہ پالیسی میں یہ ناکامیاں
ایک تسلسل بن گئی ہیں۔ صدر اوبامہ ناکامیوں کے اس تسلسل کو ختم کر سکتے تھے ۔ لیکن
صدر بش نے عراق پر حملہ کر کے انتشار اور عدم استحکام کا جو پنڈ رہ با کس کھولا
تھا۔ صدر اوبامہ نے لیبیا پر حملہ کر کے اس پنڈ رہ با کس کو پنڈ رہ بیرل بنا دیا
تھا۔ اور یہ پنڈ رہ بیرل سب کے قابو سے باہر ہو گیا ہے۔ افغانستان عراق اور لیبیا
پر حملوں سے اوبامہ انتظامیہ نے یہ سبق سیکھا تھا کہ شام میں Regime Change کے لئے امریکی فوجیں بھیجنے کے بجاۓ یہ کام عربوں سے خود کرنے کے لئے کہا
ہے۔ لیکن انہیں ہتھیار اور تربیت دینے کی ذمہ داری امریکہ نے لی ہے۔
افغانستان میں طالبان نے نیٹو فوجوں کو ناکام کر دیا تھا۔ لیکن شام میں
حکومت کے باغیوں نے خود اپنے آپ کو شکست دی ہے۔ پانچ سال تک عرب عربوں کا خون
بہاتے رہے۔ ایک عرب ملک کو تباہ کرنے میں خلیج کے عرب حکمرانوں نے گراں قدر سرمایہ
لگایا تھا۔ لیکن آخر میں شام کے تنازعہ پر سب روس کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ روسی
فوجیں شام میں آ گئی ہیں۔ اور پانچ سال بعد اب اوبامہ انتظامیہ نے شام کے مسئلہ کے
ایک سیاسی حل پر اتفاق کیا ہے۔ روس اور چین نے سلامتی کونسل میں جب امریکہ کی
قراردادوں کو ڈ بل ویٹو کیا تھا۔ امریکہ کو اس وقت راستہ بدل کر شام میں سیاسی حل
کی طرف آ جانا چاہیے تھا۔ اس صورت میں امریکہ اپنی عالمی قیادت کو بھی بچا لیتا۔ شام
میں روس کی فوجیں آنے کے بعد داعش کے بارے میں جو انکشافات سامنے آۓ ہیں کہ ترکی
کس طرح داعش کی مالی مدد کر رہا تھا ۔ اور انہیں ہتھیار فراہم کر رہا تھا۔ اور یہ
داعش کے خلاف جنگ میں امریکہ کے قریبی اتحادی تھے۔ دنیا کے لئے روس کے یہ انکشاف
ایسے ہی تھے کہ جیسے ایڈ ورڈ سنو ڈن کے امریکہ کی خفیہ سرگرمیوں کے بارے میں
انکشافات تھے۔ اور ان انکشافات سے امریکہ کی ساکھ مسلسل خراب ہو رہی ہے۔
نائن
ایلون کے بعد عالمی امن امریکہ کی خارجہ پالیسی کا مسئلہ نہیں رہا ہے۔ امریکہ کی
خارجہ پالیسی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ نے سرد جنگ کا مقام لے لیا ہے۔ بش
انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز جس انداز سے کیا تھا۔ اس سے ظاہر ہو
گیا تھا کہ یہ جنگ دہشت گردی ختم کرنے کی نہیں ہے بلکہ یہ دہشت گردی کو دنیا کے
کونے کونے میں پھیلانے کی جنگ ہے۔ اور پندرہ سال بعد یہ خدشات درست ثابت ہوۓ ہیں۔
اور اوبامہ انتظامیہ کے سات سال میں دہشت گردی کو فروغ دیا گیا ہے۔ صدر اوبامہ سے
یہ سوال کبھی نہیں کیا گیا ہے کہ سینٹر اوبامہ نے عراق پر حملہ کی مخالفت کی تھی ۔
لیکن پریذیڈنٹ اوبامہ نے لیبیا پر حملہ کیوں کیا تھا؟ اس کی مخالفت کیوں نہیں کی
تھی؟
امریکہ کے عوام جنہیں منتخب کرتے ہیں خارجہ امور کے فیصلے وہ نہیں کرتے
ہیں۔ ہزاروں میل دور دوسروں کے گھروں کے اندرونی معاملات میں جنگوں کے شعلے
بھڑکانے میں امریکی عوام کا کیا مفاد ہے۔ لیکن یہ Neo Cons کا مفاد ہے۔ جو
امریکہ کی خارجہ پالیسی کا مفاد بن گیا ہے۔ اور Neo Cons امریکی پاور کو
اپنے مقاصد میں استعمال کر رہے ہیں۔ بش انتظامیہ میں Neo Cons کو خارجہ پالیسی
اسٹبلیشمنٹ میں مضبوط ہونے کا موقعہ ملا تھا۔ اور اوبامہ انتظامیہ میں یہ کمزور
نہیں ہوۓ ہیں۔ Neo Cons پرامن طریقوں سے دنیا میں تبدیلیاں لانے میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔ ان کی
تھیوری ہے کہ دنیا میں جتنا زیادہ انتشار ہو گا۔ جنگیں ہوں گی۔ خون خرابہ ہو گا۔
لوگ مارے جائیں گے۔ اس کے نتیجہ میں دنیا میں تبدیلی آۓ گی۔ عراق میں ہر سال
ہزاروں لوگ مر رہے ہیں۔ لیکن Neo Cons کا اب بھی یہ کہنا
ہے کہ چالیس پچاس سال بعد عراق ایک نیا ملک ہو گا۔ امریکی پاور کے ذریعے Regime Change پالیسی دراصل Neo
Cons کی Hit and Run پالیسی ہے۔ اور اب یہ
امریکہ کی خارجہ پالیسی بن گیا ہے۔ ایران میں Regime Change بھی ان کے ایجنڈے میں تھا۔ ایران کے خلاف اقتصادی بندشوں کے در پردہ عراق
کا تصور تھا۔ ایران کے خلاف فوجی آپریشن کے تمامOptions صدر اوبامہ کے سامنے رکھ دئیے
تھے۔
لیکن روس چین یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے
ایران کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ایٹمی پروگرام کا تنازعہ حل کرنے کا فیصلہ کر لیا
تھا۔ اور امریکہ کو بھی اس فیصلہ کا پابند کر دیا تھا۔ اور ان مذاکرات میں عراق کے
تجربہ کو مد نظر رکھا گیا تھا۔ اور ان مذاکرات کا دائرہ صرف ایران کے ایٹمی پروگرام
تک محدود رکھا تھا۔ ایران میں انسانی حقوق ، پریس کی آزادی ، سیاسی قیدیوں کی
رہائی اور Regime Change جیسے موضوع ان مذاکرات کا حصہ نہیں بناۓ تھے۔ لہذا ایران کے ساتھ مذاکرات
میں کامیابی ہوئی تھی۔ اس صورت حال میں ایران کے سلسلے میں اوبامہ انتظامیہ کو اپنی
پالیسی تبدیل کرنا پڑی ہے۔ جبکہ Neo Cons امریکہ کو مذاکرات
سے دور رکھنا چاہتے تھے۔ صدام حسین کے ساتھ بھی یہ مذاکرات ہو سکتے تھے۔ اور صدام
حسین عراق کے تیل کی دولت میں مغربی کمپنیوں کو بھی شامل کر سکتے تھے ۔ اس لئے لیبیا
میں قدافی حکومت سے مذاکرات نہیں کیے تھے۔ اس لئے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی
امریکہ نے سختی سے مخالفت کی تھی۔ اور پاکستان کو بھی طالبان سے مذاکرات کرنے سے
روکا گیا تھا۔ اس لئے پانچ سال سے شام میں اسد حکومت سے مذاکرات امریکہ کی پالیسی
نہیں تھی۔ کیونکہ Neo
Cons
تنازعوں کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے میں یقین نہیں رکھتے ہیں۔
صدر اوبامہ نے اپنے آخری اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کہا ہے کہ داعش کے
بغیر بھی پاکستان افغانستان اور متعدد دوسرے ملکوں میں کئی دہائیوں تک عدم استحکام
رہے گا۔ صدر اوبامہ کے بعد جس پارٹی کا بھی صدر آۓ گا۔ حالات بدستور ایسے ہی رہیں
گے۔ ان میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ اب یہ پاکستان افغانستان
ایران سعودی عرب اور دوسرے ملکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عدم استحکام کے حالات سے
نکلنے کے لئے کئی دہائیوں کا انتظار مت کریں۔ اور اپنے خطہ میں امن اور استحکام کے
لئے خود اقدامات کریں ۔ اور اس میں ان کا مفاد ہے۔
No comments:
Post a Comment