Saturday, January 30, 2016

The Rise of Ultra-Right Nationalism, Neo-Nazism In Europe, And Daesh In The Middle East

       

Saddam Hussein, Hitler, 1930, And The Appeasement

The Rise of Ultra-Right Nationalism, Neo-Nazism In Europe, And Daesh In The Middle East

“Don’t Wait For The Mushroom Cloud”

مجیب خان  


            صدام حسین کو اگر اقتدار میں رہنے دیا گیا تو صدام حسین عالمی سلامتی کے لئے خطرہ بنے رہیں گے۔ اس لئے انہیں اقتدار سے ہٹانا ضروری ہو گیا ہے۔ اور یہ عراق پر حملہ کرنے کے لئے بش انتظامیہ کی دلیل ہوتی تھی۔ تاہم اصل حقائق اس دلیل کے برخلاف تھے۔ 2003 میں صدام حسین کو جب اقتدار سے ہٹایا گیا تھا۔ دنیا کو اس وقت ان خطروں کا سامنا نہیں تھا جن کا 2016 میں اب دنیا کو ہے۔ صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے سے انسانیت کے لئے سنگین خطرے پیدا ہو گۓ ہیں۔ عالمی سلامتی ہر طرف سے خطروں میں گھری ہوئی ہے۔ اور اس سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ صدام حسین عالمی سلامتی کے لئے خطرہ تھے اور نہ ہی انسانیت کو ان سے کوئی خطرہ تھا۔ یہ صرف ان کا پراپگنڈہ تھا۔ جن کا عالمی سلامتی اور انسانیت کے لئے خطرے پیدا کرنے کا ایجنڈا تھا۔ اور انہوں نے اپنے ایجنڈہ پر عملدرامد کے لئے صدام حسین کو ٹارگٹ بنایا تھا۔ اور وہ اپنے اس ایجنڈہ میں کامیاب ہو گۓ ہیں۔ عالمی سلامتی اس وقت انسانی خون میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس سلسلہ کا آغاز بش انتظامیہ میں ہوا تھا۔ اور اوبامہ انتظامیہ میں اسے فروغ ملا ہے۔ عالمی سلامتی کو آج زیادہ خطروں کا سامنا ہے۔ اور انسانیت کو بچانے میں کچھ نہیں کیا گیا ہے۔
        نائین ایلون کے بعد امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اتحاد بنا تھا۔ امریکہ کے حامی اور مخالف ہر ملک نے دہشت گردی کے خلاف مہم میں امریکہ سے مکمل تعاون کیا تھا۔ ان ملکوں کی ایجنسیوں نے امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے تعاون کیا تھا اور انہیں دہشت گردوں کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیں۔ بش انتظامیہ میں جن دہشت گردوں کو پکڑا تھا۔ ان میں کچھ کو پوچھ گچھ کے لئے شام، لیبیا، مصر اور اردن کی حکومتوں کے حوالے کیا تھا۔ یہ ملک دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں اس قدر سنجیدہ اور مخلص تھے۔ لیکن دنیا نے پھر دیکھا کہ جن ملکوں نے دہشت گردی کے خلاف جس قدر تعاون کیا تھا۔ وہ ملک دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار بنے ہیں۔ معمر قدافی کو دہشت گردوں سے قتل کروایا گیا تھا۔ اور ان کے ملک کو دہشت گردوں کے حوالے کر دیا تھا۔ شام کو دہشت گردوں نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر بنا دیا ہے۔
       افغانستان میں طالبان عالمی دہشت گردی کا کبھی بھی حصہ نہیں تھے۔ طالبان افغانستان کی خانہ جنگی میں ایک پارٹی تھے۔ ان کا القاعدہ سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ یورپ اور شمالی امریکہ سے بڑی تعداد میں داعش کے ساتھ لڑنے کے لئے شام گۓ تھے۔ لیکن افغانستان سے طالبان خود گیے ہیں اور نہ ہی انہوں نے افغانوں کو داعش میں شامل ہونے کی اپیل کی ہے۔ پاکستان نے طالبان کے خلاف امریکہ اور نیٹو سے تعاون کیا تھا۔ لیکن اس تعاون کے نتیجہ میں پاکستان کو پاکستانی طالبان ملے تھے۔ جن سے فوج اب لڑ رہی ہے۔ اس وقت جو شواہد ہیں انہیں دیکھ کر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ دہشت گردی ختم کرنے کی جنگ ہے۔ 2003 میں شمالی افریقہ میں ایسے انتہا پسند گروپ نہیں تھے۔ جن کا شمالی افریقہ کو اس وقت سامنا ہے۔ حما س اور حزب اللہ ان انتہا پسند گروپوں کے مقابلے میں بہت پرامن انتہا پسند ہیں۔ جن کی عرب ملکوں اور شمالی افریقہ میں کہیں کوئی برانچ  نہیں ہے۔ حما س اور حزب اللہ داعش کے خلاف ہیں اور القاعدہ سے بھی ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اسرائیل سے اپنے حقوق کے لئے جنگ کر رہے ہیں۔ اس لئے انہیں دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔
        بہرحال اب سوال یہ ہے کہ داعش کون وجود میں لایا ہے؟ کیا امریکہ کی انٹیلی جنس ایک بار پھر فیل ہو گئی ہے۔ داعش جہاد یوں کی ایک فوج ہے۔ جس کے پاس ٹینک اور فوجی ٹرکوں کی ایک فلیٹ ہے۔ اور یہ conventional ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ اسلامی ریاست کے قیام سے پہلے انہیں اسلامی ریاست کی فوج کس نے بنایا ہے؟ داعش کا وجود میں آنا ایک بہت بڑا آپریشن تھا۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ امریکہ کی 36 انٹیلی جنس ایجنسیوں کو داعش کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ خطہ میں امریکہ کے اتحاد یوں کی انٹیلی جنس بھی اس سے بالکل بے خبر تھی۔ اردن کی انٹیلی جنس، اسرائیلی انٹیلی جنس، ترکی کی انٹیلی جنس، عرب ملکوں میں فرانس کے سفارت خا نے میں انٹیلی جنس چیف ،برطانیہ کے سفارت خا نے میں انٹیلی جنس چیف کسی کو بھی داعش کے وجود میں آنے کی خبر نہیں تھی۔ 15 سال سے یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن انہیں دہشت گرد گروپ وجود میں آنے کے بعد اس کا پتہ چلتا ہے۔ نائین ایلون کے بارے میں بش انتظامیہ نے انٹیلی جنس فیل ہونے کا اعتراف کر لیا تھا۔ عراق پر حملہ کرنے کے بعد یہ کہا گیا تھا کہ عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے میں انٹیلی جنس نے غلط رپورٹیں دی تھیں۔ یہ انٹیلی جنس بار بار فیل ہو جاتی ہے اور  دہشت گردی کو فروغ مل رہا ہے۔
        لیکن داعش کے بارے میں انٹیلی جنس کیسے فیل ہوئی ہے۔ اوبامہ انتظامیہ کو اس کی وضاحت کرنا ہو گی۔ اور یہ بھی بتانا ہو گا کہ کن ملکوں نے داعش کے قیام میں معاونت کی تھی؟ داعش کے پاس فنڈ کہاں سے آۓ تھے؟ داعش کو فوجی تربیت کس نے دی تھی؟ اور کس ملک میں دی گئی تھی؟ مغربی میڈیا میں داعش کو اتنی زیادہ شہرت کیسے دی ہے؟ کہ یورپ میں یہ نوجوان مسلمانوں میں مقبول ہو گئی تھی۔ اور بڑی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں داعش میں شامل ہو رہے تھے۔ اور شام میں داعش کے ساتھ جہاد کرنے جا رہے تھے۔ مختلف اسلامی ملکوں میں داعش کی برانچیں کھلنے کی خبریں بھی شہ سرخیاں بن رہی تھیں۔ لیکن حقیقت میں یہ صرف پراپگنڈہ  تھا۔ افغانستان اور پاکستان میں زبردستی داعش کا وجود ثابت کیا جا رہا ہے۔ بلکہ وسط ایشیا اور چین کی سرحدوں کے قریب داعش کا وجود بتایا جا رہا ہے۔ اور اب یورپ میں داعش کے سیل قائم ہونے کی خبریں آ رہی ہیں۔ لیکن یورپ میں داعش کا قیام اسلامی دنیا میں داعش کے قیام سے زیادہ خطرناک ہو گا۔ اسلامی ریاست " فاشسٹ " نظریات میں یقین رکھتی ہے۔ اور یورپ میں فاشسٹ نظریات ابھر رہے ہیں۔
        یورپ میں ultra-right، نیشلسٹ اور neo-Nazi مقبول ہو رہے ہیں۔ جس طرح مسلمان نوجوان داعش سے متاثر ہوۓ ہیں۔ اسی طرح یورپ میں نوجوان ultra-right، نیشلسٹ اورneo-Nazi سے متاثر ہو رہے ہیں۔ تقریباً ستر سال بعد جرمنی میں Adolf Hitler کی تحریروں پر سے پابندی ہٹا لی گئی ہے۔ Hitler کی Mein Kampf {میری جدوجہد} شائع کی گئی ہے۔ اس کی چار ہزار کاپیاں شائع ہوئی تھیں اور یہ ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئی تھیں۔ دنیا کے موجودہ حالات میں ایک مردہ ہٹلر زندہ ہٹلر سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گا۔ ابھی صرف چودہ سال قبل صدام حسین کو دنیا کے لئے ہٹلر ثابت کیا جا رہا تھا۔ اب خطرہ یہ ہے کہ یورپ میں اگر داعش کا ultra-right، نیشلسٹ اور neo-Nazi کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ہو گیا  تو پھر خطروں سے بھری دنیا کا نقشہ کیا ہو گا ؟

          

No comments:

Post a Comment