Sunday, January 3, 2016

The Use of Weapons In Unjust Wars Is The Same As Gun Violence In America

Militarization Is Creating Militancy

The Use of Weapons In Unjust Wars Is The Same As Gun Violence In America

مجیب خان


          کانگریشنل ریسرچ سروس کی سالانہ رپورٹ کے مطابق جو کانگرس کو دی گئی ہے ،امریکہ کی ہتھیاروں کی عالمی فروخت میں 35 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کی ہتھیاروں کی عالمی فروخت 2013 میں 26.7 بلین ڈالر سے 2014 میں 36.2 بلین ڈالر ہو گئی تھی۔ ہتھیاروں کی عالمی فروخت میں تقریباً 10 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا تھا۔ رپورٹ کے مطابق قطر سعودی عرب اور جنوبی کوریا کے ساتھ ہتھیاروں کی فروخت کے کھربوں ڈالر کے معاہدوں کی  وجہ سے بھی اس میں اضافہ ہوا تھا۔ 2014 میں ہتھیاروں کی فروخت میں امریکہ پہلے نمبر پر تھا۔ تقریباً 50 فیصد سے زیادہ دنیا میں ہتھیاروں کی مارکیٹ پر امریکہ کا قبضہ ہے۔ امریکہ کے بعد روس دوسرے نمبر پر تھا۔ روس نے 2013 میں10.3 بلین ڈالر کے مقابلے میں 2014 میں 10.2 بلین ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے۔ جبکہ سویڈن تیسرے نمبر پر تھا۔ اور سویڈن نے 5.5 بلین ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے۔ فرانس نے  4.4 بلین ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے اور چین نے 2.2 بلین ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے تھے۔ جنوبی کوریا نے امریکہ سے 7 بلین ڈالر کے ہتھیار خریدے تھے۔ عراق سے امریکی فوجی انخلا کے بعد عراقی حکومت نے امریکہ سے 7.3 بلین ڈالر کے خریدے تھے ۔
         اس رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2013 میں ہتھیاروں کی فروخت 70.1 بلین ڈالر سے 2014 میں یہ 71.8 بلین ڈالر پر پہنچ گئی تھی۔ اس عرصہ میں دنیا میں خانہ جنگی، دہشت گردی کی جنگوں کو فروغ ملا تھا۔ اور یوکرین کا بحران بھی ہتھیاروں کی تجارت کے مفاد میں پیدا کیا گیا تھا۔ ہتھیاروں کی تجارت کے 2015 کے اعداد ابھی نہیں آۓ ہیں۔ لیکن 2015 میں امریکہ کی ہتھیاروں کی تجارت میں تقریباً تین گنا کا اضافہ ہوا ہو گا۔ کیونکہ سعودی عرب کی یمن کے ساتھ جنگ میں امریکہ سعودی عرب کو کھربوں ڈالر کے  ہتھیار فروخت کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے اس جنگ میں سعودی عرب کے خلیج کے اتحادیوں کو بھی کھربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کر نے کے معاہدے کیے ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہتھیاروں کی صنعت میں امریکہ واحد ملک ہے جس کا کوئی اور ملک مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔ سرد جنگ ختم ہو نے کے بعد بھی امریکہ نے اپنی اس بالا دستی کو برقرار رکھا ہے۔ نیٹو کو مشرقی یورپ تک اس طرح پھیلایا گیا تھا کہ جیسے سرد جنگ ابھی شروع ہو رہی تھی۔ لیکن مشرقی یورپ کے ملکوں کو نیٹو میں شامل کرنے کے پیچھے اصل مقصد انہیں ہتھیار فروخت کرنا تھا۔ مشرقی یورپ کے جو ملک نیٹو میں شامل ہو رہے تھے ان سے پھر اپنے ہتھیاروں کے معیار کو نیٹو ملکوں کے معیار کے مطابق بنانے کے لئے کہا گیا تھا۔ ان کے کمیونسٹ دور کے ہتھیاروں کو فرسودہ قرار دے دیا تھا۔ نیٹو میں شامل ہونے والے ان ملکوں نے کھربوں ڈالر کے ہتھیار امریکہ سے خریدے تھے۔
       جب نیٹو میں شامل ہونے والے نئے ملکوں کے ہتھیار نیٹو کے معیار کے مطابق آ گیے تھے۔ تو پھر دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا آغاز ہو گیا تھا۔ افغانستان اور عراق نا ختم ہونے والی جنگوں کے محاذ بن گیے تھے۔ دنیا میں دہشت گردی کا خوف اتنا زیادہ پھیلایا گیا تھا کہ قوموں نے اپنی سیکورٹی کے لئے ہتھیار خریدنا شروع کر دئیے تھے۔ پہلی عراق جنگ کے بعد خلیج  کے عرب ملکوں کو صدام حسین کے خوف سے ہتھیار فروخت کیے تھے۔ پھر دوسری عراق جنگ کے بعد صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے خوف سے خلیج کے عرب ملکوں کو نئے ہتھیار فروخت کیے تھے۔ ایک ایسے انتہائی حساس خطہ میں جہاں تنازعوں کو سیاست سے حل کرنے کی کوئی روایت نہیں تھی۔ وہاں ہتھیاروں کی فروخت سے عربوں کو تنازعہ جنگوں سے حل کرنے کی شہ دی جا رہی تھی۔ امریکہ نے عراق میں ایک ایسی حکومت کو اقتدار سے ہٹایا تھا جو عراقی عوام کے خلاف فوج اور ہتھیار استعمال کرتی تھی۔ پھر عراق پر قبضہ کرنے کے بعد امریکہ نے ایک نئی عراقی فوج  بنائی تھی۔ اسے تربیت بھی امریکہ نے دی تھی۔ پھر عراقی حکومت نے تقریباً 100 بلین ڈالر کے ہتھیار اپنی فوج کو مسلح کرنے کے لئے امریکہ سے خریدے تھے۔ عراق سے امریکہ نے اپنی فوجیں نکال لی تھیں ۔ اور عراق ایک نئی حکومت کے حوالے کر دیا تھا۔ لیکن یہ نئی حکومت پرانی بوتل میں نئی عراقی حکومت تھی۔ صدام حسین اپنی حکومت کے مخالفین کے خلاف  طاقت کا استعمال کرتے تھے۔ لیکن امریکہ نے عراق کو ایک ایسی سیاسی تبدیلی دی ہے جس میں جمہوری حکومت کو اقلیتوں کے خلاف ہتھیاروں کو استعمال کرنے کا نظام دیا ہے۔ اور یہ ہتھیار امریکہ انہیں فروخت  کر رہا ہے۔ صدام حسین کے دور میں سارا تنازعہ مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے شروع ہوا تھا۔ اور عراق کو اب ہتھیاروں کے فروخت اور ان کے استعمال نے حالات انتہائی خطرناک بنا دئیے ہیں۔ یہاں ہزاروں سال سے آباد عراقی اقلیتیں ایک دوسرے کے خلاف ہتھیاروں کی زد میں ہیں۔ 13 سال ہو گیے ہیں لیکن امریکی سیکریٹری دفاع عراق میں ابھی تک خفیہ طور سے جاتے ہیں۔ اور اب عراقی حکومت کو داعش سے جنگ کرنے کا Assignment دیا گیا ہے۔ داعش نے سنیوں کی غالب اکثریت والے عراقی علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ اور اس کے لئے عراقی حکومت نے امریکہ سے ایک بلین ڈالر کے نئے ہتھیار خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔
      اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق عراق میں دسمبر میں 980 عراقی ہلاک ہوۓ ہیں۔ جبکہ نومبر میں 888 عراقی ہلاک ہوۓ تھے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دسمبر میں 506 عراقی شہری ہلاک ہوۓ تھے اور باقی  کا تعلق عراقی سیکورٹی فورسز سے تھا۔ رپورٹ کے مطابق دسمبر میں 1244 عراقی شہری زخمی ہوۓ تھے۔ دسمبر کے ان اعداد کے ساتھ صرف 2015 میں عراق میں 7515 عراقی ہلاک ہوۓ ہیں۔ اور 14855 عراقی زخمی ہوۓ ہیں۔ عراق کے لئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے خصوصی نمائندے  Jan Kubis  نے ہزاروں عراقیوں کی تنازعہ اور دہشت گردی کے نتیجے میں ہلاکتوں کو ناقابل قبول کہا ہے۔ عراق میں شہریوں کی ہلاکتوں کا یہ سلسلہ امریکہ کے عراق پر حملہ کے بعد سے جاری ہے۔ اور اس وقت سے ہر سال تقریباً اتنی ہی بڑی تعداد میں عراقی شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔ مشرق وسطی میں حالیہ برسوں میں ہتھیاروں کی فروخت میں جس پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ اسی پیمانے پر اس خطہ میں دہشت گردی اور تنازعوں کو فروغ ملا ہے۔
         سعودی عرب نے 2010 سے 2014 کے عرصہ میں تقریباً 90 بلین ڈالر کے ہتھیار خریدے تھے۔ سعودی عرب پر کسی ملک نے نائن الیون کی طرح کا حملہ نہیں کیا تھا۔ لیکن سعودی عرب نے 90 بلین ڈالر کے ہتھیاروں سے یمن پر حملہ کر دیا تھا۔ جن ملکوں سے خریدے گیے ہتھیاروں سے یہ حملہ کیا گیا تھا ان ملکوں نے سعودی عرب کی جا حا ریت کی مکمل حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اور سعودی عرب کو مزید ہتھیا ر فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ نو ماہ میں ان ہتھیاروں سے چار ہزار یمنی شہریوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ اور ایک بڑی تعداد میں یمنی شہری زخمی ہوۓ ہیں۔ شام میں پانچ سال سے جس طرح دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کی جا رہی ہے۔ اور انہیں ہتھیاروں کے استعمال کی شہ دی جا رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں شام میں تقریباً  تین لاکھ شہری ہلاک ہوۓ ہیں۔ اور زخمی ہونے والے شامیوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
       گزشتہ نومبر میں 196 ملکوں نے اقوام متحدہ کے تحت پیرس میں تبدیلی موسم کانفرنس میں موسم میں بڑھتی ہوئی آلودگی کو روکنے کے اقدام کرنے کا سمجھوتہ ہوگیا ہے۔ تبدیلی موسم ایک عالمی ایشو تھا ۔ کئی سالوں کی انتھک کوششوں کے بعد بالآخر تبدیلی موسم پر سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ لیکن تبدیلی موسم سمجھوتہ سے ہتھیاروں کے استعمال کو علیحدہ رکھا گیا ہے۔ حالانکہ ہتھیاروں کا استعمال بھی آلودگی پھیلانے میں ایک بڑا رول ادا کرہا ہے۔ جن ملکوں میں طویل عرصہ سے جنگیں ہو رہی ہیں۔ اور میزائلوں بموں اور Depleted Uranium  میزائل استعمال کیے گیے ہیں۔ ان ملکوں میں ماحولیات پر اس کے دور رس اثرات ہو رہے ہیں۔ ان ملکوں میں پانی Soil اور فضا آلودہ ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کو اس مسئلہ کو بھی تبدیلی موسم کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل کرنا چاہیے تھا۔ اقوام متحدہ کو اس کی تحقیقات بھی کرنا چاہیے کہ ان ہتھیاروں کے استعمال کا لوگوں کی صحت پر کیا اثرات ہو رہے ہیں؟  

No comments:

Post a Comment