Iran Is The Winner
This Is Not The Question Of
Saudi Arabia Versus Iran, This Is Israel Versus Iran
مجیب خان
ایران
کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لئے امریکہ تقریباً تین دہائیوں سے کوششیں کر رہا
تھا۔ 1991 میں عراق کی پہلی جنگ کے بعد صدر جارج ایچ بش نے عراق میں شیعاوں کی
اکثریت کے صوبوں کو نو فلائی زون سے مستثنی رکھا تھا۔ اور عراقی شیعاوں کو صدام
حسین کے خلاف بغاوت کرنے کی شہ دی تھی۔ لیکن ایران نے امریکہ کی اس اپیل میں کوئی
رول ادا نہیں کیا تھا۔ اور عراق کے معاملات سے ایران کو علیحدہ رکھا تھا۔ پھر صدر
بل کلنٹن نے ایران کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی تھی۔ محمد خاطمی ایران
میں صدر تھے۔ اور صدر حسن روحانی کی طرح وہ بھی اعتدال پسند تھے اور سیاسی اصلاحات
میں یقین رکھتے تھے۔ صدر کلنٹن نے اپنی سیکریٹری آف اسٹیٹ میڈ یلن البرائٹ کو
تہران بھیجا تھا۔ ایرانیوں کو امریکہ سے یہ شکوہ تھا کہ اس نے ڈاکٹر مصدق کی
جمہوری اور منتخب حکومت کا تختہ الٹا تھا اور ان پر شاہ ایران کی آمرانہ حکومت کو
مسلط کیا تھا ۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ البرائٹ نے ایرانیوں سے اس کی معافی بھی مانگی
تھی۔ اور ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا تختہ الٹنے کو امریکہ کی غلطی تسلیم کیا تھا۔ ایران کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لئے
امریکہ ایران کو سب کچھ دینے کے لئے تیار تھا۔ لیکن آیت اللہ اپنے موقف پر کوئی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار
نہیں تھے۔
صدر
جارج بش کی انتظامیہ میں ایران کو Axis of evil ملکوں میں شامل کر
دیا تھا۔ افغانستان اور عراق میں امریکی فوجوں کے درمیان ایران سینڈ وچ بن گیا
تھا۔ احمدی نثراد ایران کے صدر بن گیے تھے۔ صدر احمدی نثراد اتنے ہی نظریاتی قدامت
پسند تھے کہ جتنے صدر جارج بش تھے۔ اور اسرائیل سے صدر احمدی نثراد کو ایسی ہی
دشمنی تھی کہ جیسے امریکہ کو اسامہ بن لادن سے تھی۔ صدر احمدی نثراد آٹھ سال ایران
کے صدر تھے۔ اور اپنے دور اقتدار میں انہوں نے ہمیشہ فلسطینیوں کے کا ز کی وکالت
کی تھی۔ امریکی نیوز چینلز سے انٹرویو میں صدر احمدی نثراد نے فلسطینیوں کے خلاف
اسرائیلی جا حا ریت پر ہمیشہ اظہار خیال کیا تھا۔ اور اسرائیل کی بڑی بے باکی سے
مذمت کرتے تھے۔ صدر احمدی نثراد نے ایران کی اس پالیسی کو واضح کیا تھا کہ ایران
ہمیشہ مظلوم اور محکوم لوگوں کی حمایت کرتا رہے گا۔ اور فلسطینیوں کی حمایت ایران
کی اس پالیسی سے مطابقت رکھتی تھی۔ ایک امریکی چینل سے انٹرویو میں صدر احمدی
نثراد نے یہودیوں سے یہ سوال کیا تھا کہ یورپ میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا اس کی
سزا وہ فلسطینیوں کو کیوں دے رہے ہیں۔ امریکی راۓ عامہ میں صدر احمدی نثراد کا
اسرائیل کے خلاف موقف کا گہرا اثر ہوا
تھا۔ امریکیوں کی اسرائیل کے بارے میں راۓ تبدیل ہونے لگی تھی۔ اور یہ شاید اس کا
نتیجہ ہے کہ اسرائیل اور واشنگٹن میں اسرائیلی لابی کے بھر پور دباؤ کے باوجود اوبامہ
انتظامیہ نے ایران کے ساتھ نیوکلیر پروگرام کو فوقیت دی تھی۔ فلسطینیوں کے خلاف
اسرائیلی جا حا ریت کا امریکہ نے ہمیشہ اسرائیل کا Proxy بن کر اس کا
دفاع کیا تھا۔ لیکن ایران کے خلاف امریکہ اب اسرائیل کاProxy بننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس صورت حال میں
اسرائیل کے لئے جیسے ایک خلا آگیا تھا۔
اور
یہ کام اب سعودی عرب کے ذریعہ لیا جا رہا ہے۔ اور یہ تاثر پیدا ہونے سے روکنے کے
لئے کہ سعودی عرب ایران کے خلاف اسرائیل کا Proxy بن گیا ہے۔ اسے
شیعہ با مقابلہ سنی محاذ آ رائی کا رنگ دیا گیا ہے۔ اور امریکی میڈ یا کے ذریعہ
عربوں میں یہ خوف پھیلایا جا رہا ہے کہ مشرق وسطی میں ایران کا غلبہ بڑھ رہا ہے۔
اور سعود یوں کو اس پر گہری تشویش ہے۔ ادھر سعود یوں کو اس پر اکسایا جا رہا ہے کہ
وہ ایران کے بڑھتے ہوۓ غلبہ کو چیلنج کریں۔ اور سعودی عرب اس چیلنج کا مقابلہ کرنے
میدان میں اتر آیا ہے۔ اسرائیلی اس سیاست
کے خاصے ماہر Strategist ہیں۔ انہوں نے فلسطینیوں کے اتحاد کو تقسیم کر دیا تھا۔ اورPLO کے مقابلے پر حما س کو کھڑا کر دیا تھا۔ سعودی عرب کا فلسطینیوں کو تقسیم
کرنے میں بھی خفیہ ہاتھ تھا۔ اب یہ علیحدہ بات ہے کہ اسرائیل نے جن مقاصد کے لئے
فلسطینیوں کو تقسیم کیا تھا۔ وہ مقاصد پورے نہیں ہو سکے تھے۔ اور حما س حزب اللہ
ایران کے ساتھ Red
State” “ بن
گیے تھے۔
اگر اسرائیل
کی ایران پر حملہ کر کے اس کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کی مخالفت نہیں ہوتی۔ تو
اس صورت میں شاید سعودی عرب کی ایران کے ساتھ کشیدگی کی یہ صورت پیدا نہیں ہوتی۔
ادھر امریکہ مشرق وسطی کے تنازعوں میں اب اپنی فوجیں اس طرح بھیجنے کے لئے تیار
نہیں ہے کہ جیسے 80 کے عشر ے میں امریکہ نے لبنا ن میں فوجیں بھیجی تھیں۔ اور
پھر90 کے عشر ے میں پہلی عراق جنگ میں امریکی فوجیں کویت کو آزاد کرانے گئی تھیں۔ پھر اس صدی کے آغاز پر امریکہ نے مشرق وسطی میں
اپنے اتحاد یوں کو جن میں اسرائیل بھی شامل تھا۔ صدام حسین سے لاحق خطروں کا خاتمہ
کرنے کے لئے اپنی فوجیں بھیجی تھیں۔ لیکن شام میں امریکہ نے اپنی فوجیں نہیں بھیجی
ہیں۔ حالانکہ صدر اوبامہ نے شام میں Red Line کی حد سے نکلنے پر
اسد حکومت کے خلاف فوجی کاروائی کا اعلان کیا تھا۔ لیکن اس حد سے نکلنے کے باوجود
کوئی کاروائی نہیں کی گئی تھی۔ پھر یہ کہ شام میں ایک خوفناک خانہ جنگی اسرائیل کی
سرحدوں کے قریب ہو رہی تھی۔ لیکن اس کے باوجود امریکی فوجیں شام میں نہیں بھیجی
تھیں۔
یمن
میں چودہ سال سے القاعدہ کے خلاف امریکہ کے خصوصی فوجی دستے آپریشن کر رہے تھے۔
صدر علی عبداللہ صالح اس جنگ میں امریکہ کے انتہائی قریبی اتحادی تھے۔ سعودی عرب
اور امریکہ دونوں صدر صالح کی پشت پر تھے۔ لیکن عرب اسپرنگ کے دوران امریکہ نے
اپنا فوجی آپریشن ختم کر دیا تھا۔ صدر صالح کی حکومت کا زوال ہو گیا تھا۔ اور
سعودی عرب یمن میں اب اپنی پسند کی حکومت قائم کرنے کی جنگ کر رہا ہے۔ اس جنگ میں
دنیا کے متعدد انصاف پسند ملک یمنی ہو تیوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ کیونکہ وہ اسے ان
کے ملک کے خلاف جا حا ریت سمجھتے ہیں۔ اور ایران بھی ان ملکوں میں شامل ہے۔
سعودی عرب کی قیادت میں عرب ملکوں کا فوجی اتحاد اس جنگ میں حصہ لے رہا ہے۔
لیکن ایک سال ہو رہا ہے۔ اور اس فوجی
اتحاد کو یمن میں ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ سعودی عرب نے اب 34 اسلامی
ملکوں کی ایک اسلامی فوج بنانے کا اعلان کیا ہے۔ جس میں پاکستان کو بھی شامل کیا
ہے۔ جو ایک ایٹمی طاقت ہے۔ لیکن اس اسلامی فوج کے مقاصد ابھی واضح نہیں ہیں۔ لیکن
یہ واضح ہے کہ امریکی فوجوں کے بجاۓ اب اس اسلامی فوج کے Boots عرب سرزمین پر ہوں
گے۔ اسرائیلی تنازعوں کو سلجھانے کے بجاۓ الجھانے کے بڑے ماہر ہیں۔ اور 68 سال سے
عرب دنیا میں وہ یہ سیاست کر رہے ہیں۔ اور اس میں کامیاب بھی ہیں۔ اسرائیل کی جنگ
ایران سے ہے۔ ایران کی جنگ سعودی عرب سے نہیں ہے۔
No comments:
Post a Comment