Tuesday, January 26, 2016

This Is Not Working

This Is Not Working


Pakistan Is Serious In Helping Afghanistan, Afghanistan Is Cooperating With India, India Is Using Afghanistan Against Pakistan, And America Is Backing India

مجیب خان


 Former Afghan President, Hamid Karzai, Meets With George W. Bush and Pakistan's General Musharraf
Pakistani Prime Minister, Nawaz Sharif
Indian Prime Minister, Narendra Modi
Current Afghan President, Ashraf Ghani
          فوجی قیادت جتنے فخر سے دہشت گردی کے خلاف اپنے مشن ضرب عضب  کامیاب ہو نے کا بتا  رہی ہے۔ اور سال کے آخر تک دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو نے کا قوم کو پیغام دے رہی ہے۔ لیکن پھر دیکھا یہ جا رہا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ چند ہفتوں میں دہشت گردی کے آگے پیچھے کئی خوفناک واقعات ہوۓ ہیں جن میں سینکڑوں لوگ مارے گیے ہیں۔ اور ایسا نظر آ رہا ہے کہ دہشت گردی کے ان واقعات سے پاکستان کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ جب دہشت گردوں سے کہا جاۓ گا پاکستان میں دہشت گردی اس وقت ختم ہو گی۔ بھارت میں پٹھان کوٹ کے فوری بعد چار سدہ میں باچا خان یونیورسٹی میں دہشت گردی کے حملہ میں 20 سے زیادہ لوگ مارے گیے ہیں۔ تعلیمی اداروں پر دہشت گردوں کا یہ حملہ پہلا نہیں ہے۔ اور شاید آخری بھی نہیں ہے۔
      اہل وطنوں۔ پاکستان کے دشمن ہر طرف ہیں۔ یہ نفسا نفسی کی دنیا ہے۔ اسلامی برادری یا اسلامی رشتہ آج کی دنیا میں کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے خطہ اسلامی عرب کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جہاں مسلمان ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ اور ایک دوسرے کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسلامی یکجہتی میں اسلام کو فیل کر دیا ہے۔ پاکستان نے اپنے مسلمان افغان بھائیوں کے لئے زبردست  قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان 35 سال سے افغانوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھاۓ ہوۓ ہے کہ یہ ہمارے اسلامی برادر ہیں۔ لیکن یہ اسلامی برادر بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے کمر میں چھرے گھونپ رہے ہیں۔ لعنت ہے ایسے اسلامی برادروں پر۔
      افغانستان میں طاقتور ملکوں کا فوجی اتحاد نیٹو طالبان کی دہشت گردی ختم کرنے میں نا کام ہو گیا ہے۔ بش اور اوبامہ دو امریکی انتظامیہ افغانستان میں ناکام ہو گئی ہیں۔ کرزئی حکومت دس سال اقتدار میں رہی ہے۔ لیکن وہ بھی ناکام ہو گئی تھی۔ اب اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی حکومت کو دو سال ہو گیے ہیں۔ لیکن یہ حکومت بھی زیادہ کامیاب ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ افغانستان کی اس صورت حال میں پاکستان کا ایک اہم رول تسلیم کیا گیا ہے۔ اور افغانستان میں سیاسی استحکام کے لئے اب پاکستان پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ پہلے افغانستان پر حملہ کرنے کے لئے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ بنایا تھا۔ اور اب افغانستان کو استحکام دینے کے لئے پاکستان کو فرنٹ لائن پر کھڑا کر دیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ پاکستان سے بھارت میں دہشت گردوں کے خلاف چوکیداری کرنے کا بھی کہا جا رہا ہے۔
       جب میں روزنامہ جنگ میں لکھتا تھا۔ اس وقت 2004 میں میں نے یہ لکھا تھا کہ بش انتظامیہ پاکستان کو ایک خطرناک وار گیم میں پھنسا رہی ہے۔ اور ایک بار پاکستان اگر اس وار گیم میں پھنس گیا تو اس سے نکلنا پاکستان کے لئے بہت مشکل ہو گا۔ اور یہ وار گیم امریکہ کی دہشت گرد کے خلاف جنگ کو پاکستان کی جنگ بنانا تھا۔ امریکہ اور بھارت کے strategic تعلقات کا آغاز ہو رہا تھا۔ بش انتظامیہ نے صدر جنرل پرویز مشرف سے ستر ہزار فوج بھارت کے ساتھ سرحدوں سے ہٹا کر افغانستان کے ساتھ شمالی سرحد پر لگانے کے لئے کہا تھا۔ تاکہ طالبان اور القاعدہ کا سرحدی علاقوں میں مقابلہ کیا جاۓ۔ یہ دیکھ کر اس وقت شبہ ہونے لگا تھا کہ اب بھارت اور امریکہ افغانستان سے دہشت گردوں کو پاکستان کی طرف دھکیلیں گے۔ اور پھر پاکستان میں دھماکہ ہوں گے۔ دہشت گردی بڑھے گی۔ اور یہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ بن جاۓ گی۔ پاکستان میں پہلے ہی 2 ملین افغان مہاجرین بیٹھے تھے۔ یہ افغانستان جائیں گے۔ افغانستان میں جب دہشت گردی کے واقعات ہوں گے۔ پاکستان کو یہ الزام دیا جاۓ گا کہ یہ طالبان پاکستان سے آ رہے  ہیں۔ جنہیں پاکستان نے پناہ دی ہے۔ پاکستان انہیں روکے۔ اور یہ سلسلہ بیس پچیس سال اسی طرح جاری رہے گا۔ پاکستان اس میں پھنسا رہے گا۔ میرا مشورہ یہ تھا کہ حکومت ایک دن تمام بسیں بند کر دے۔ اور افغان مہاجرین کو ان بسوں میں بھرکر افغان سرحد پر چھوڑ دیا جاۓ۔ اور پھر سرحدیں فوری طور پر بند کر دی جائیں۔ صدر پرویز مشرف کی حکومت شاید یہ فیصلہ کرنے جا رہی تھی۔ لیکن صدر حامد کرزئی نے صدر بش سے پاکستان کو اس فیصلہ سے روکنے کی درخواست کی تھی۔ صدر بش نے پاکستان اور افغانستان کے رہنماؤں کو وائٹ ہاؤس میں ان سے ملنے کی دعوت دی تھی۔ اس ملاقات میں صدر کرزئی نے صدر بش سے کہا کہ افغانستان کے حالات ابھی ایسے نہیں کہ ان کی حکومت دو ملین افغانوں کو رہائش اور روز گار فراہم  کر سکتی ہے ۔ پاکستان انہیں ابھی اپنے یہاں ر کھے۔ صدر بش نے صدر کرزئی کی بات سے اتفاق کیا تھا۔ اور صدر مشرف کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا کہ ان افغان مہاجرین کو کچھ عرصہ اور پاکستان میں رہنے دیں۔ صدر مشرف خاموش ہو گیے ۔ صدر کرزئی کابل پہنچ کر پاکستان کو یہ الزام دینے لگے تھے کہ افغانستان میں دہشت گرد پاکستان سے آ رہے ہیں۔ طالبان نے پاکستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ صدر بش صدر کرزئی کے الزامات کی تائید کرتے تھے ۔ اور پاکستان سے ان کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے  do more ہونے لگتا تھا۔ صدر اوبامہ کی بھی سات سال سے یہ ہی پالیسی ہے۔ اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ پالیسی پاکستان کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ یہ پالیسی افغانستان میں امن نہیں آنے دی گی۔ یہ پالیسی صرف بھارت کے عزائم پورے کر رہی ہے۔
       افغان تنازعہ کا سیاسی نقشہ کچھ اس طرح بن گیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں استحکام کے لئے سنجیدہ کوششیں کر رہا ہے۔ لیکن کابل حکومت پاکستان کو عدم استحکام کرنے میں بھارت سے تعاون کر رہی ہے۔ بھارت افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ امریکہ بھارت کی پشت پنا ہی کر رہا ہے۔ باتیں سب بہت کر رہے ہیں۔ کانفرنسیں بھی بہت ہو رہی ہیں۔ لیکن نتائج صرف گھٹیا الزام تراشیاں ہیں۔ افغان حکومت یہ چاہتی ہے کہ پاکستان انہیں چاندی کی طشتری میں امن اور استحکام دے۔ بھارت یہ چاہتا ہے کہ پاکستان ان کے ملک میں سونے کی طشتری میں دہشت گردی ختم کر کے انہیں پیش کرے۔ پاکستان نے واقعی افغانستان میں ملوث ہو کر صرف اپنا وقت برباد کیا ہے۔ 50 ہزار پاکستانی صرف افغانستان میں ملوث ہونے کے نتیجہ میں دہشت گردی کا شکار بنے ہیں۔ پاکستان نے کشمیریوں کی آزادی کے لئے اتنی قربانیاں نہیں دی تھیں۔ کہ جتنی افغانوں کے لئے انہوں نے قربانیاں دی ہیں۔ لیکن افغان پاکستان کے خلاف بھارت سے مل گیے ہیں۔ بھارت اپنے سیاسی مقاصد میں افغانستان کو پاکستان کے خلاف Bully بنا رہا ہے۔ تاکہ افغانستان کے عدم استحکام کا پاکستان پر اتنا زیادہ دباؤ بڑھایا جاۓ کہ پاکستان تنگ آ کر بھارت کے آگے جھک جا ۓ۔ اور پھر کشمیر پر بھارت کی شرائط پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہو جاۓ۔ صرف اس صورت میں افغانستان پاکستان میں استحکام آۓ گا۔ مشرق وسطی میں عربوں کے عدم استحکام کو اسرائیل بھی اپنے سیاسی مقاصد میں استحصال کر رہا ہے۔ اور عرب یکے بعد دیگرے اسرائیل کے پیچھے کھڑے ہونے کے لئے تیار نظر آ رہے ہیں۔ ترکی کے صدر اردگان بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے میں اس خطہ کا استحکام دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کی وزیر خارجہ اسی ماہ اسرائیل کا دورہ کر کے گئی ہیں۔
       حالانکہ بھارت میں حالیہ دہشت گردی کے اصل اسباب سے امریکہ با خوبی واقف ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ہر سال دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر رپورٹ جاری کرتا ہے۔ پھر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹوں کا بھی امریکہ کو علم ہے۔ نہتے کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوج کے ظلم تشدد اور بربریت کے واقعات کی تفصیل ان رپورٹوں میں بتائی گئی ہے۔ اور یہ آج نہیں ہو رہا ہے۔ کئی برس سے کشمیریوں کے ساتھ  یہ سلوک ہو رہا ہے۔ ہزاروں کشمیری بھارتی فوج کے تشدد اور بربریت کے نتیجے میں مارے گیے ہیں۔ بے شمار کشمیری خاندانوں کے محبوب ابھی تک لا پتہ ہیں۔ بھارت کے خلاف جب کشمیری کوئی جوابی انتہا پسندانہ رد عمل کرتے ہیں۔ تو یہ الزام پھر پاکستان کو دیا جاتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک ہیں۔ اگر پاکستان میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک بھارت کے خلاف استعمال ہو رہے ہوتے تو پھر پاکستان میں نہیں بھارت میں پچاس ہزار لوگوں کو مرنا چاہیے تھا۔ دنیا میں سچ کا معیار بہت گر گیا ہے۔ دنیا کا سارا ںظام جھوٹ اورBully  کرنے پر چل رہا ہے۔ حالانکہ پاکستان گزشتہ ایک سال سے ضرب عضب مشن کے تحت انتہا پسندوں کے نیٹ ورک تباہ کرنے کی جنگ کر رہا ہے۔ اس جنگ میں نہ تو افغانستان کا تعاون ہے اور نہ ہی بھارت کا تعاون ہے۔ پاکستان کو صرف ان کی الزام تراشیوں کا تعاون مل رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود صدر اوبامہ نے اس ہفتے پریس ٹرسٹ آف انڈیا اور بی بی سی سے انٹرویو میں پاکستان پر زور دیا ہے کہ پاکستان اپنی سر زمین پر انتہا پسندوں کے نیٹ ورک ختم کرنے میں اپنے سنجیدہ ہو نے کا ثبوت دے۔
       پاکستان کو اب افغانستان کے سلسلے میں اپنی پندرہ سال کی پالیسی کا جائزہ لینا چاہیے کہ یہ پالیسی پاکستان کو نقصان پہنچا رہی ہے یا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ پاکستان کو اب افغانستان میں اپنے رول سے لاتعلقی کا اعلان کرنا چاہیے۔ اور بھارت کے ساتھ مذاکرات غیر معینہ مدت کے لئے معطل کرنا چاہیے۔ پاکستان میں بھارتی سفارتی عملہ میں کمی کی جاۓ۔ آمد و رفت کی سہولیتیں ختم کی جائیں۔ بھارت اور افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدیں سیل کر دی جائیں۔ دہشت گردی کے نیٹ ورک ختم کرنے کے یہ سنجیدہ اقدام ہیں۔ افغانستان کے ساتھ تعلقات کا پاکستان کو کوئی فائدہ ہے اور نہ ہی بھارت کے ساتھ تعلقات پاکستان کی سلامتی کے مفاد میں ثابت ہو رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے ساتھ تعلقات پاکستان کے لئے Liability بن گیے ہیں۔ یہ ملک پاکستان پر صرف Trash پھینکتے  رہتے ہیں۔ اور کرتے کچھ نہیں ہیں۔
      افغانستان کے ساتھ تعلقات پاکستان کے لئے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔ بھارت پاکستان کی سلامتی کے لئے مسلسل خطرے پیدا کر رہا ہے۔ اور افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان کو ان سے دور رہنے کی پالیسی اختیار کرنا چاہیے۔ 60 اور70 کے عشرے میں پاکستان کے افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات تھے اور نہ ہی بھارت کے ساتھ تعلقات تھے۔ لیکن پاکستان میں امن تھا۔ استحکام بھی تھا۔ اور پاکستان نے بھارت اور افغانستان سے زیادہ اقتصادی ترقی کی تھی۔ پاکستان کو اپنے گھر کے حالات بہتر بنانے کے لئے اس راستے پر واپس آنا ہو گا۔ پاکستان کو نہ تو افغانستان کی ضرورت ہے۔ اور نہ ہی بھارت کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو اس وقت صرف پاکستان کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ فیصلے ایک مضبوط اور سیاسی سنگدل قیادت ہی کر سکتی ہے۔             

No comments:

Post a Comment