Thursday, January 7, 2016

Why Didn’t Saudi Arabia Resist The Sunni Regime Change In Iraq?

 The Saudi’s Dubious Role And The Islamic World 

Why Didn’t Saudi Arabia Resist The Sunni Regime Change In Iraq?

مجیب خان



         یہ زیادہ  پرانی بات نہیں ہے صرف  دو تین سال پہلے اسرائیل ایران پر حملہ کرنے جا رہا تھا ۔اور ایران کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کی تیاری کر لی تھی۔ اس وقت پھر یہ خبریں بھی آ رہی تھیں ایران پر حملہ کرنے کے لئے اسرائیل سعودی عرب کی فضائی حدود کو استعمال کرے گا۔ کئی برسوں سے ایران اور اسرائیل میں جاری سرد کشیدگی گرم جنگ بنتی جا رہی تھی ۔ اسرائیلی ایران کے ملاؤں کو دیکھ کر غصہ سے اپنے دانت چباتے تھے۔ کہ صدام حسین کو غلط ٹارگٹ کیا گیا تھا۔ ان کے اصل دشمن ایرانی ملا تھے۔ جنہوں نے حزب اللہ اور حما س ان کے پیچھے لگا دئیے ہیں ۔جو ان پر میزائلوں کی بارش کرتے رہتے ہیں۔ اور اسرائیل کو تباہ  کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیلیوں کو حزب اللہ اور حما س  سے زیادہ ایرانی ملاؤں پرغصہ تھا۔ اور ایرانی ملا یہ دیکھ کر حزب اللہ اور حما س کی بہادری کی داد دیتے تھے۔ سعودی عرب کی ایران سے اچانک دشمنی کے پیچھے یہ اصل سیاست ہے۔ ایران کے بارے میں اسرائیل اور سعودی عرب کے مفادات ایک صفحہ پر آ گیے ہیں۔ سعود یوں کے ساتھ اب اسرائیلی بھی سنی ہو گیے ہیں۔ اسرائیل اب پس منظر میں چلا گیا ہے۔ اور سعودی عرب ایران کے ساتھ اب حزب اللہ اور حما س کا کردار ادا کر رہا ہے۔ سعودی عرب اور ایران میں اس پنجہ آزمائی کو مغربی میڈ یا نے شیعہ سنی کی لڑائی بنا دیا ہے۔ حالانکہ شیعہ ایران کی طرح سعودی عرب ایک وہابی ریاست ہے۔ اور اسلام میں جس طرح شیعہ ایک فرقہ ہے اسی طرح وہابی بھی ایک اقلیتی فرقہ ہے۔ تاہم شیعہ جب حج یا عمرہ کرنے مکہ جاتے ہیں۔ تو وہ بھی سنیوں کے تمام فرقوں کے ساتھ حج یا عمرہ کرتے ہیں۔ اور سعودی امام کی قیادت میں یہ فریضہ ادا کرتے ہیں۔ اور سب ایک کلمہ اور ایک قرآن ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔ شیعہ اور سنی کی لڑائی کا ذکر قرآن میں نہیں ہے اور نہ ہی کسی حدیث میں یہ کہا گیا ہے۔ شیعہ سنی پو لیٹکل اسلام کی لڑائی ہے ۔ جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پو لیٹکل اسلام نوآبادیاتی اور سامراجی طاقتوں کی ایجاد ہے ۔ جسے انہوں نے ہمیشہ اپنے مفادات میں استعمال کیا ہے۔ سرد جنگ میں سعودی عرب کی قیادت میں پولیٹکل اسلام نے اشتراکیت کے خلاف ایک گرم جنگ لڑی تھی۔ اس وقت مغربی طاقتیں اشتراکیت کے خلاف صرف سرد جنگ میں یقین رکھتی تھیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد پولیٹکل اسلام پر انتہا پسندوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔ پولیٹکل اسلام اب سعودی عرب کے لئے بھی مسئلہ بن گیا ہے۔ با ظاہر سعودی پولیٹکل اسلام کے انتہا پسندوں سے فاصلے رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن پھر انہیں بھی ساتھ رکھنا چاہتے ہیں۔ تاہم دونوں صورتوں میں ان کے لئے بات نہیں بن رہی ہے۔ ہر طرف سے صورت حال انہیں کار نر کرتی جا رہی ہے۔ پہلی مرتبہ سعودی کئی محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔ اور ہر محاذ پر انہیں کوئی کامیابی نہیں ہو رہی ہے۔
          2016 کے آغاز پر سعودی حکومت کو 2015 میں اپنی پالیسیوں کا جائزہ لینا چاہیے تھا اور اس کی روشنی میں 2016 کے لئے ایک نئی حکمت عملی بنائی جاتی۔ لیکن مطلق العنان حکمران خوف میں آ کر خوف پھیلانے کی پالیسیاں اختیار کرنے لگتے ہیں۔ 47 سعودی شہریوں کو بیک وقت پھانسیاں دے کر جن میں ایک شیعہ عالم بھی شامل ہیں، سعودی حکومت نے ایک خوف کی فضا پیدا کر دی ہے۔ اور یہ خوف کی فضا صرف سعودی عرب تک محدود نہیں ہے بلکہ خلیج کی دوسری ریاستوں میں بھی اس خوف کے تابکاری اثرات ہوں گے۔ سعودی حکومت نے ایک شیعہ عالم کو پھانسی دی ہے ۔ لیکن سنی سعودی عالم جو حکومت سے اختلاف کر رہے  ہیں ان پھانسیوں کے ذریعے انہیں بھی پیغام دیا گیا ہے۔ سعودی حکومت شاید کسی بڑے فیصلے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ شاہ سلمان نے حال ہی میں فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی ہے۔ اس سے قبل حما س کے رہنما سے بھی شاہ سلمان مل چکے ہیں۔ گزشتہ نومبر میں سعودی حکومت نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ اور حزب اللہ کے رہنماؤں کے تمام فنڈ منجمد کر دئیے ہیں۔ سعودی عرب میں ان کے داخل ہونے پر پابندی لگا دی  ہے۔ اور اب ایران کو تنہا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایران کے سفارتی عملہ کو سعودی عرب سے نکال دیا ہے۔ ایران کے سفارت خانہ پر تالے ڈال دئیے ہیں۔ اور دوسرے عرب ملکوں سے بھی سعودی حکومت کے فیصلے کی پیروی کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ اس طرح ایران کے خلاف اسرائیل کے مشن کی سعودی عرب کے ذریعے تکمیل ہو رہی ہے۔ دوسری طرف ایران پر فلسطین تنازعہ میں ملوث ہونے سے باز رہنے کے لئے دباؤ بڑھایا جا رہا ہے۔ اور حماس کو ایران اور حزب اللہ کی پشت پنا ہی سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
        ادھر امریکی حکام فلسطینی اتھارٹی کے Collapse ہونے کے خدشہ کا اظہار کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ اسرائیلی کابینہ میں وزیر اعظم نا تھن یا ہو نے بھی اس خدشہ کی تصدیق کی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے صدر 80 برس کے ہو گیے ہیں۔ اور وہ صدارت سے مستعفی ہونا چاہتے ہیں۔ مغربی کنارے میں حالات خاصے تشویشناک ہیں۔ فلسطینیوں کے اقتصادی اور سماجی حالات میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ ایک بہت بڑی تعداد فلسطینیوں کی بیروز گار ہے ۔ اسرائیل کی اقتصادی بندشیں فلسطینیوں کا گلہ گھونٹ رہی ہیں۔ ادھر غازہ میں اسرائیل کے ساتھ آخری جنگ میں فلسطینیوں کا سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔ اور اسرائیل اس جنگ کی انہیں ابھی تک سزا دے رہا ہے۔ غازہ کی اقتصادی ناکہ بندی عراق پر اقتصادی بندشوں سے بھی زیادہ خوفناک ہے۔ اس وقت جو فلسطینی افلاس اور بھوک سے مر رہے ہیں۔ اگر فلسطینی اتھارٹی Collapse  ہو جاتی ہے ۔ تو اس صورت میں یہ فلسطینی بھوکے شیروں کی طرح اسرائیل پر چڑھائی کریں گے اور مرنے کو ترجیح دیں گے۔
         سعود یوں کی قیادت میں سنی بلاک اور ایران کی قیادت میں شیعہ بلاک بنانے  سے اسلام کو جو دو بلا کو ں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے سنیوں کو کیا حاصل ہو گا؟ سرد جنگ کے دور میں اسلامی دنیا نے جن کی اکثریت سنی تھی۔ سعود یوں کے ہر مشورے کو اللہ کی وحی سمجھ کر اس پر عمل کیا تھا۔ اس کے نتائج آج اسلامی دنیا کے حشر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ مسلمانوں کی کئی نسلیں تباہ ہو گئی ہیں۔ اور اسلامی ملک اس تباہی سے ابھی تک نہیں نکل سکے ہیں۔ اب سعودی اسلامی ملکوں کو تباہی کے ایک نئے راستے پر لے جا رہے ہیں۔ اسلامی ملکوں کو سعود یوں سے پہلے یہ سوال کرنا چاہیے کہ انہوں نے عراق میں ایک سنی حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے خلاف مزاحمت کیوں نہیں کی تھی؟ انہوں نے امریکہ اور برطانیہ کو صدام حسین کو جو سنی تھے اقتدار سے ہٹانے کی اجازت کیسے دی تھی؟ اس وقت سعودی محلوں میں بھیٹے عراق کی تباہی کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ اور پھر صدر جارج بش کے ساتھ ،جس نے صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد بڑے فخر سے یہ اعلان کیا تھا کہ ایک ہزار سال کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عراق میں شیعاؤں کی حکومت آئی ہے ،سعودی تلواروں کے ساتھ ناچ رہے تھے۔ حالانکہ عراقی شیعہ خود کو پہلے عرب کہتے تھے۔ اور پھر شیعہ تھے۔ جبکہ سعودی خود کو پہلے سنی کہتے ہیں اور پھر عرب ہیں۔ ایران نے عراق پر اینگلو امریکہ کے حملہ کی مخالفت کی تھی۔ اور ان سے تعاون نہیں کیا تھا۔ عراق پر امریکی قبضہ کے خلاف مزاحمت کرنے والے عراقیوں کی ایران نے حمایت کی تھی۔ ایران نے القاعدہ کے سنیوں کو جو پاکستان اور افغانستان سے بھاگ کر ایران آۓ تھے انہیں پناہ دی تھی۔ دنیا اور آخرت کا نظام کردار اور اعمال پر ہے۔ کردار اور اعمال انسان کو آخرت میں بھی عظیم بنائیں گے اور دنیا کی نظر میں بھی انہیں عظیم ہونے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے ۔ سعودی اسلام کی خدمت دنیا کی سیاست سے کر رہے ہیں۔              

No comments:

Post a Comment