Saturday, February 20, 2016

Is Syria To Turkey As Afghanistan Is To Pakistan?

Is Syria To Turkey As Afghanistan Is To Pakistan?

 “I Told You [America] Many Times: Are You With Us Or With This Terrorist Organization”
-President Erdogan

مجیب حان

Mourning In Turkey Following A Terrorist Attack In Istanbul
         ترکی میں اس سال کے آغاز سے دہشت گردی کے واقعات میں تقریباً دوسو سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ دہشت گردوں کے حملوں میں بے گناہ لوگ جب بھی اور جہاں بھی ہلاک ہوتے ہیں۔ انسانیت کے لئے یہ بڑا صدمہ ہے۔ لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ ترکی کی اسلامی حکومت نے پاکستان کو دہشت گردی میں گھر جانے سے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا۔ پاکستان جن غلطیوں کے نتیجے میں دہشت گردی کا شکار بنا ہے۔ ترکی کی اسلامی حکومت نے بھی پاکستان کی ان غلطیوں کو دہرایا ہے۔ صدر طیب اردگان جب وزیر اعظم تھے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے خوفناک واقعات میں لوگوں کی ہلاکتوں سے متاثر ہوۓ تھے۔ اور اس مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ ترکی کی یکجہتی کا اظہار کرنے اسلام آباد آۓ تھے۔ اس موقع پر انہوں نے پاکستان کی مد د کرنے کا اعادہ بھی کیا تھا۔ ان سے قبل عبداللہ گل جب ترکی کے صدر تھے۔ وہ بھی پاکستان آۓ تھے۔ اور انہوں نے پاکستان میں دہشت گردوں کے حملوں کو ترکی پر حملے کہا تھا۔ اور اب ترکی دہشت گردوں کے حملوں کا سامنا کر رہا ہے۔ دہشت گرد ایک اور اسلامی ملک کو تباہ کر رہے ہیں۔ ترکی ان حالات میں کیسے آیا ہے؟
      اسلامی قیادتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ واقعات اور ارد گرد کے حالات سے کبھی سیکھتے نہیں ہیں۔ اور اپنے عوام کے لئے مشکلات پیدا کر دیتے ہیں۔ اس وقت تمام سنی قیادتیں ایک ہی طرح کی غلطیاں کر رہی ہیں۔ اور اپنے عوام کو لے کر ان میں  دھنستی جا رہی ہیں۔ ترکی کی قیادت نے یہ دیکھا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں طالبان کی حمایت کر کے اپنی سلامتی اور استحکام کے لئے کس طرح خطرات پیدا کر لئے تھے۔ 20 سال ہو گیے ہیں اور پاکستان ابھی تک ان خطروں سے نجات حاصل نہیں کر سکا ہے۔ دنیا کے نئے خطرے بھی پاکستان کے ان خطروں میں شامل ہو گیے ہیں۔ اور اب ترکی بھی پاکستان کے ساتھ اسی صورت حال میں آگیا ہے۔ پاکستان کو بلوچستان میں بلوچ باغیوں کی انسرجنسی کا سامنا تھا۔ اور بیرونی ایکٹر بلوچ انسرجنسی کا اپنے سیاسی مقاصد میں استحصال کر رہے تھے۔ جیسے یہ ان کا سیاسی شغل تھا۔ اور ترکی کو کرد باغیوں کی انسرجنسی کا سامنا ہے۔
      واشنگٹن میں آزاد کرد ستان کی تحریک کے در پردہ طاقتور لابی کی حمایت ہے۔ آزاد کرد ستان کا منصوبہ امریکہ کے ایجنڈے میں ہے۔ پہلے عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ تھا۔ پھر شام کے ٹکڑے کرنے کا منصوبہ بھی تھا۔ جب عراق اور شام کے ٹکڑے ہو جاتے تو پھر عراقی کردوں کا شام کے کردوں کے ساتھ الحاق ہو جاتا۔ اور اس کے بعد ترکی کے کردوں کے مقدر کا فیصلہ ہوتا۔ یقیناً اس صورت حال سے ترکی کی حکومت ضرور آگاہ ہو گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اردگان حکومت سعود یوں اور امریکہ کے ساتھ شام میں اتنا زیادہ آگے کیسے چلی گئی تھی۔ سعود یوں اور امریکہ کا مذہب مختلف ہے لیکن ان کا سیاسی DNA ایک ہے۔ سعود یوں اور امریکہ نے صدام حسین کو ایران کے خلاف استعمال کیا تھا۔ عراق نے آٹھ سال تک ایران سے جنگ لڑی تھی۔ لیکن پھر یہ سعودی اور امریکہ تھے جو صدام حسین کے سب سے بڑے دشمن ہو گیے تھے۔ سعود یوں نے ایران سے دشمنی میں اب ترکی کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ ترکی میں اگر لبرل یا سیکولر حکومت ہوتی تو یہ حکومت سعود یوں کے کبھی اتنا قریب نہیں جاتی۔ اور شام کے سلسلے میں بھی اس کی پالیسی بہت مختلف ہو تی ۔ اوبامہ انتظامیہ اب شام میں داعش کے خلاف کردوں کی مدد کر رہی ہے۔ اور انہیں ہتھیار بھی فراہم کر رہی ہے۔ جبکہ اردگان حکومت انہیں دہشت گر د سمجھتی ہے۔ اور شام  کی سرحد کے قریب ترکی کی فوج ان کے خلاف کاروائی بھی کر رہی ہے۔ امریکہ نے بھی Pkk کو دہشت گرد قرار دیا ہے۔
      یہ حالات اردگان حکومت نے خود ترکی کے لئے پیدا کیے ہیں۔ ترکی کے اطراف حالات زیادہ خطرناک صورت اختیار کر رہے تھے۔ عراق میں استحکام کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ شیعہ سنی کشیدگی خانہ جنگی بن رہی تھی۔ عرب اسپرنگ سے عرب حکمران خوفزدہ ہو رہے تھے۔ شام میں خانہ جنگی خونی ہوتی جا رہی تھی۔ ترکی کے اطراف دہشت گردی کا طوفان سو نامی بن رہا تھا۔ اردگان حکومت کو اس طوفان سے ترکی کو بچانے کے اقدام کرنا چاہیے تھے۔ ترکی ایک مستحکم جمہوری ملک تھا۔ اس کی معیشت مضبوط تھی۔ یورپی یونین میں شامل ہونے کی ایک عرصہ سے کوشش کر رہا تھا۔ مغربی ایشیا میں ترکی استحکام کا جزیرہ تھا۔ مشرق اور مغرب کے درمیان ترکی ایک Bridge تھا۔ ایک سیکولر ترکی نے دنیا میں ترکی کو جو مقام دیا تھا۔ ترکی کی اسلامی حکومت نے اسے کھو دیا ہے۔ اور یہ مذہبی قیادتوں کا المیہ ہے۔ مذہب کی سیاست میں یہ قیادتیں بھٹک جاتی ہیں۔ اور دنیا کے حالات کو آخرت  بنانے کے پیغام میں دیکھنے لگتی ہیں۔ حالانکہ اللہ کا پہلا پیغام دنیا میں اچھا انسان بن کر انسانیت کے لئے اچھے کام کرنے کے بارے میں ہے۔ جس سے آخرت بنتی ہے۔ اردگان حکومت کے فیصلے غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ عراق، شام اور ایران ترکی کی سلامتی اور استحکام کی فرنٹ لائن تھے۔ اور یہ ملک اردگان حکومت کی پہلی توجہ ہونے چاہیے تھے۔ لیکن اردگان حکومت نے ان ملکوں کے خلاف سعودی سیاست سے اتفاق کیا تھا۔ جو اسلامی دنیا میں تمام غلطیوں کی ماں تھی۔
      ترکی کو شام کی داخلی خانہ جنگی میں کبھی باغیوں کے ساتھ پارٹی نہیں بننا چاہیے تھا۔ پاکستان طالبان کے ساتھ پارٹی بن گیا تھا۔ افغانستان کی خانہ جنگی ابل کر پاکستان آ گئی تھی۔ اور اس نے پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لئے خطرے پیدا کر دئیے تھے۔ اردگان حکومت نے پاکستان کی اس غلطی سے کوئی سبق نہیں سیکھا تھا۔ شام اب ترکی کا افغانستان ہے۔ اور ترکی کی سرحد پر ایک بڑی mess ہے۔ اردگان حکومت شام میں آزاد شامی فوج کی حمایت کر رہی ہے۔ اور ترکی کے کردوں نے اپنی آزادی کی جنگ ترکی کے خلاف شروع کر دی ہے۔ امریکہ کردوں کی مدد اس لئے کر رہا ہے کہ یہ شام میں داعش سے لڑ رہے ہیں۔ لیکن روس کی حکومت نے شام میں داعش کے بارے میں جو حقائق دئیے ہیں۔ ان کے مطابق ترکی داعش کی مدد کر رہا تھا۔ داعش ترکی کے ذریعہ تیل کی تجارت کر رہی تھی۔ اور یہ داعش کی آمدنی کا ایک بڑا وسیلہ تھا۔ ترکی کے راستہ انہیں شام میں ہتھیار بھی پہنچاۓ جا رہے تھے۔ اور یہ سب امریکہ کے علم میں تھا۔ لیکن یہ ایسے ہی تھا کہ جیسے گیارہ سال تک امریکہ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اسامہ بن لادن کہاں ہے؟ حالانکہ سی آئی اے شام کے باغیوں کو تربیت دے رہی تھی۔ ان باغیوں میں داعش کے لوگ بھی تھے یا جنہیں تربیت دی جاتی تھی ۔ وہ پھر داعش میں شامل ہو جاتے تھے۔ اور یہ کھیل شام میں پانچ سال سے ہو رہا ہے۔
      روس نے شام میں فوجی مداخلت کر کے اس کھیل کو ختم کیا ہے۔ شام کے مسئلہ پر روس کے ساتھ امریکہ نے براہ راست کسی فوجی تصادم سے انکار کر دیا ہے۔ ترکی نیٹو کا رکن ہے لیکن نیٹو ملک ترکی کے لئے روس سے جنگ نہیں کریں گے۔ ترکی میں اب بم پھٹ رہے ہیں۔ ترکی کی فوج کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ شام کی خانہ جنگی ابل کر اب ترکی میں آ رہی ہے۔ انقرہ میں خود کش دھماکوں کے بعد صدر اردگان غصہ سے واشنگٹن کو اس کا الزام دیتے ہیں کہ اس خون کے دریا کا ذمہ دار یہ ہے۔ خطہ میں داعش ہی خطرہ نہیں ہے۔ شامی کرد بھی دہشت گرد ہیں۔ اور ان کی فوجی پشت پنا ہی کی جا رہی ہے۔ صدر اردگان کہتے ہیں “I told you [America] many times: Are you with us or with this terrorist organization” حالانکہ 5 سال سے صدر بشر السد بھی اپنے ہمسائیوں سے یہ ہی کہہ رہے ہیں کہ دہشت گرد ان کے ملک کو تباہ کر رہے ہیں۔
      اردگان حکومت کو مشرق وسطی میں قیادت کا ایک سنہری موقعہ ملا تھا۔ ترکی عرب دنیا میں امن اور استحکام کے لئے ایک مثبت رول ادا کر سکتا تھا۔ عراق کے خلاف جنگ میں ترکی نے امریکہ کے ساتھ کولیشن میں شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ اور عراق کے خلاف ترکی نے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ عرب راۓ عامہ میں ترکی کے فیصلے کو سراہا یا گیا تھا۔ شام کے مسئلہ پر بھی ترکی کو یہ ہی پالیسی اختیار کرنا چاہیے تھی۔ ادھر اسرائیل جس طرح سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کو شیعہ اور سنی بلاک میں تقسیم کر رہا ہے۔ ترکی اس میں بھی ایک اہم مثبت رول ادا کر سکتا تھا۔ تاریخ کے ایک ایسے نازک موڑ پر کہ جب اسلامی دنیا کا اتحاد مسلمانوں کے بقا اور ان کے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے ۔ اسلامی دنیا انتشار کا شکار ہے اور ایک ذہین اور با صلاحیت قیادت سے محروم ہے۔     

No comments:

Post a Comment