Tuesday, February 23, 2016

Israel, As A Jewish State, Yes. Israel, As A Zionist State, Is Hard To Accept.

Muslim People Are Good Friends Of Jewish People  

Israel, As A Jewish State, Yes. Israel, As A Zionist State, Is Hard To Accept.
Will The World Accept Germany As A Nazi State?

مجیب خان    

Jews Inside The Auschwitz Concentration Camp In Poland
Palestinian Refugee Camp On September 20th, 1982 -- Sabra, Lebanon

        مسلم ملکوں کی لڑائی یہودیوں سے نہیں ہے۔ یہ Zionist ہیں جن کی لڑائی مسلم ملکوں سے ہے۔ مسلم ممالک جو اسرائیل کو تسلیم نہیں کر رہے ہیں۔ ان کے سامنے سوال یہ ہے کہ اسرائیل ایک Jewish state ہے ؟ یا اسرائیل Zionist state ہے ؟ اسلامی جمہوریہ ایران میں اگر یہودی آباد ہیں۔ ان کی عبادت گاہیں ہیں۔ انہیں ان کے تہوار منانے کی آزادی ہے۔ ایران میں اقتصادی سرگرمیوں میں انہیں حصہ لینے کا حق ہے۔ تو اس کا مطلب ہے کہ ایران کی اسلامی حکومت کی یہودیوں سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔ اسلامی حکومت کی لڑائی Zionist  یہودیوں سے ہے۔ ایران کے سابق صدر احمدی نژاد Zionist state کی مخالفت میں اکثر بیان دیتے تھے۔ صدر کرنل قدافی بھی یہودیوں سے ملتے تھے۔ ان کی انویسمینٹ کمپنیوں میں اپنے تیل کے ڈالروں کو انویسٹ کرتے تھے۔ لیکن کرنل قدافی Zionism کے سخت خلاف تھے۔ حالانکہ قدافی نے افریقہ میں یہودیوں کی بڑی مدد بھی کی تھی۔ لیکن اسرائیلی Zionist امریکی میڈیا کے ذریعے کرنل قدافی کو یہودیوں کا دشمن ثابت کرتے تھے۔ اسی طرح شام کے صدر حافظ السد سے امریکہ کی بڑی کمپنیوں کے یہودی مالکان سے تعلقات تھے۔ اور یہ صدر حافظ السد سے ملاقات کرنے دمشق جایا کرتے تھے۔ لیکن حافظ السد بھی Zionism کے سخت خلاف تھے۔ عراق میں صدر صدام حسین بھی Zionist یہودیوں کے خلاف تھے۔ لیکن امریکہ اور یورپ کے یہودی ان کی حکومت سے کاروبار کرتے تھے۔ یورپ کی بعض یہودی کمپنیوں نے مہلک ہتھیار بنانے کی ٹیکنالوجی بھی فراہم کی تھی۔ اور پھر یہ Zionists تھے جنہوں نے صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی مہم چلائی تھی۔ اور امریکہ نے ان کے مشن کی تکمیل کی تھی۔
       اسرائیل اگر ایک Jewish state ہوتی تو فلسطینیوں کے ساتھ یہ سلوک کبھی نہیں ہوتا جو Nazi state میں یہودیوں کے ساتھ ہوا تھا۔ نازیوں کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کی طرح اسرائیل کبھی اپنی توسیع پسندی کی پالیسیوں کو فروغ نہیں دیتا۔ 69 سال سے فلسطین پر اسرائیل کا فوجی قبضہ فلسطینیوں کے لئے Holocaust ہے۔ صدام حسین کے بارے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ مڈل ایسٹ کو کنٹرول کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اب یہ دیکھا جا رہا ہے کہ یہ Zionists ہیں جو مڈل ایسٹ بلکہ دنیا کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔   امریکہ دنیا کی واحد طاقت میں Zionists زیادہ منظم اور مضبوط ہو گیے ہیں۔ 90 کے عشرے میں صدر بل کلنٹن انتظامیہ میں امریکہ کی خارجہ اور دفاعی پالیسی میں Zionists انفلوئنس خاصہ بڑھ گیا تھا۔ 3 اکتوبر2001 میں بی بی سی کے مطابق وزیر اعظم ایرئیل شیرون نے شمون پریس سے کہا تھا کہ
Arial Sharon


 “every time we do something you tell me America will do this and will do that ----I want to tell you something very clear: Don’t worry about American pressure on Israel . We, the Jewish people, control America, and the Americans know it.”

امریکی میڈیا میں ایرئیل شیرون کے اس بیان کو دبا دیا گیا تھا۔
        5 جولائی 2000 میں کیمپ ڈ یوڈ میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان صدر کلنٹن امن معاہدہ کرانے کی کوششوں میں اگر کامیاب ہو جاتے۔ تو بش انتظامیہ میں شاید نائین ایلون کو دہشت گردی کا واقعہ بھی نہیں ہوتا۔ اور عرب اسلامی دنیا میں اتنے وسیع پیمانے پر جو خوفناک تباہی ہو رہی ہے۔ یہ تباہی بھی نہیں ہوتی۔ اسرائیلی وزیر اعظم ایہود بارک  اور چیرمین یا سر عرفات کے درمیان امن مذاکرات ناکام ہو نے کے بعد اسرائیلی Zionists نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب فلسطینیوں سے کوئی مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔ اور انہوں نے اپنے پلان بی کا آغاز کر دیا تھا۔
        نائن ایلون کی دہشت گردی کے واقعہ کے بعد صدر بش نے اپنے پہلے بیان میں صلیبی جنگ کا آغاز ہونے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن پھر لفظ صلیبی واپس لے لیا گیا تھا۔ اور اس کی جگہ اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کہا گیا تھا۔ اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ساتھ عرب اسلامی ملکوں میں مطلق العنان حکومتیں تبدیل کرنے اور پھر ان ملکوں کی جمہوری تعمیر نو کرنے کے منصوبے بھی بناۓ جا رہے تھے۔ امریکہ کے خلاف نائن ایلون کی دہشت گردی میں 19 سعودی شہری شامل تھے۔ جس کے بعد بش انتظامیہ پر سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں پر مالی سختیاں کرنے کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔ سعودی جس طرح اسلامی انتہا پسند تنظیموں کی مالی معاونت کر رہے تھے۔ اسے روکنے کے لئے سخت اقدامات کرنے کا کہا جا رہا تھا۔ ان کے تیل کی دولت پر امریکہ سے کنٹرول کرنے کا کہا جا رہا تھا۔ تاہم بش انتظامیہ نے خلیج کے بعض مالدار عربوں کے فنڈ منجمد کر دئیے تھے۔ اس وقت سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں کے خلاف مغربی میڈیا میں ایک منظم مہم چلائی جا رہی تھی۔ بش انتظامیہ کی فہرست میں سات اسلامی ملک تھے جنہیں تباہ کرنا تھا۔ اور اس کا آغاز عراق سے ہوا تھا۔
        ڈپٹی سیکریٹری دفاع پال ولفویز کی قریبی فیملی اسرائیل میں رہتی تھی۔ پال ولفویز عراق میں حکومت تبدیل کرنے کی مہم کے کپتان تھے۔ جنہیں واشنگٹن میں Neo Cons کہا جاتا تھا۔ لیکن اسرائیل میں انہیں Zionist سمجھا جاتا تھا۔ امریکہ دنیا کے لئے جتنا طاقتور تھا۔ صدام حسین کے خلاف مہم بھی اسی طاقت کے ساتھ چلائی گئی تھی۔ اور یہ مہم آف دی صدی تھی۔
        اور یہ برنارڈ ہنری لیوی فرانسیسی مصنف اور دانشور تھا۔ جس نے لیبیا میں حکومت تبدیل کرنے کی مہم چلائی تھی۔ برنارڈ پہلے قدافی حکومت کے بن غازی کے جلا وطن مخالفین سے ملا تھا۔ جو شاہ اد ریس کے حامی تھے۔ قدافی نے چالیس سال قبل شاہ اد ریس کا تختہ الٹا تھا اور لیبیا کی باگ دوڑ سنبھال لی تھی۔ برنارڈ لیوی نے پھر صدر قدافی کے بن غازی کے مخالفین کی صدر نکولس سرکو زی سے ملاقات کرائی تھی۔ جس کے بعد صدر سرکو زی نے صدر قدافی کو اقتدار سے ہٹانے اور بن غازی کی اپوزیشن کو اقتدار میں لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ صدر سرکو زی نے برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کمیرن کو فون کیا۔ اور لیبیا کے بارے میں انہیں اپنے فیصلے سے آگاہ کیا۔ صدر اوبامہ نے بھی صدر سرکو زی کے فیصلے کی حمایت کی تھی۔ قدافی حکومت کے خلاف سلامتی کونسل میں فرانس کی قرار داد منظور ہو گئی تھی۔ سلامتی کونسل میں قرارداد منظور ہونے کے صرف چند گھنٹوں کے اندر برطانیہ اور فرانس نے تریپولی پر بمباری شروع کر دی تھی۔ بعد میں امریکہ بھی ان کے ساتھ بمباری میں شامل ہو گیا تھا۔ حالانکہ قدافی حکومت کے اعلی حکام چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ یہ القاعدہ  کے دہشت گرد ہیں جو لیبیا میں اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن برنارڈ لیوی اتنا زیادہ بااثر تھا کہ تین بڑی طاقتوں کے مفادات پر اس کے مفاد کو اہمیت دی گئی تھی۔ اور یہ Zionist Power تھی۔
        اسرائیلیوں کے ہمیشہ یہ دعوی ہوتے تھے کہ مشرق وسطی میں اسرائیل ایک واحد جمہوری ملک ہے۔ اور ان کے اطراف ہر طرف ڈکٹیٹر ہیں۔ اور ان ڈکٹیٹروں کے ساتھ امن مذاکرات کیسے ہو سکتے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ اسرائیل برطانیہ اور امریکہ کو عراق میں مہلک ہتھیاروں کے بارے علم تھا۔ انہیں یہ معلوم تھا صدام حسین مشرق وسطی پر اپنا کنٹرول قائم کرنا چاہتے تھے۔ لیکن امریکہ اسرائیل اور برطانیہ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ عرب ملکوں میں جب بھی جمہوریت آۓ گی۔ تو یہ اسلامسٹ ہوں گے جو سب سے پہلے اقتدار میں آئیں گے۔ اور پھر اسلامسٹ اور ماڈریٹ کے درمیان رسہ کشی بھی ہو گی۔ لیکن جمہوریت جو راستہ اختیار کرے گی ۔ اس میں یہ فیصلہ ہو جاۓ گا کہ ماڈریٹ غالب آ جائیں گے۔ کیونکہ عوام اسلامی انتہا پسندوں کو ڈکٹیٹروں کا متبادل تسلیم نہیں کریں گے۔ اور جمہوریت انہیں شکست دے دے گی۔ لیکن یہ ترقی یافتہ قوموں کی نامعقول قیادتوں کے فیصلے ہیں کہ انہوں نے مصر میں اخوان المسلمون کے ماڈریٹ کی منتخب حکومت کی برطرفی تسلیم کر لی تھی۔ کہ یہ اسلامی انتہا پسند تھے۔ لیکن پھر شام میں یہ ایک سیکولر حکومت کے خلاف اخوان المسلمون کے انتہائی انتہا پسندوں کو ماڈریٹ کہتے ہیں اور ان کی حمایت کر رہے ہیں۔ حالانکہ مصر میں اخوان المسمون نے شریعت کا نظام نافذ نہیں کیا تھا۔ لیکن شام میں یہ اسلامی خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں۔
        اسرائیل کا خلیج کے حکمرانوں سے سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ سعودی اور خلیج کے حکمران اسرائیل کو اسلامی دہشت گردوں حماس اورحزب اللہ سے بچائیں گے۔ اور مشرق وسطی میں ایران کے انفلوئینس کو Counter کرنے میں اسرائیل کی مدد کریں گے۔ ایرئیل شیرون نے امریکہ کے بارے میں جو کہا تھا۔ وہ انہوں نے سعود یوں کے کان میں کہہ دیا ہے کہ امریکہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ کو ہم کنٹرول کرتے ہیں۔ اور سعود یوں کو یہ بھی بتا دیا ہے کہ مغربی مالیاتی نظام ان کی دولت پر کھڑا ہے۔ اور جس دن وہ ان کے مالیاتی نظام سے اپنی دولت نکال لیں گے۔ یہ گر جائیں گے۔ یہ سن کر سعود یوں کی زندگی میں جیسے نئی روح آ گئی تھی۔ انہوں نے یمن پر بم گرانے شروع کر دئیے ۔ اور وہ بھی Regime change کی باتیں کرنے لگے۔ شام میں روس سے لڑنے کی باتیں کرنے لگے۔
        سعودی عرب کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق پینل کا سربراہ بنا دیا ہے۔ اور امریکہ جس کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹوں میں تقریباً نصف صدی سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تنقید ہوتی تھی۔ اس امریکہ نے سعودی عرب کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے پینل کا سربراہ منتخب ہونے پر مبارک باد دی ہے۔ ادھر مغربی میڈیا میں یمن میں سعودی فوجی آپریشن کے نتیجے میں انسانی ہلاکتوں اور املاک کی تباہی کے بارے میں خبروں کو بلیک آوٹ کر دیا ہے۔ اور یہ Zionist power ہے۔ امریکہ اور یورپ میں اسے محسوس کیا جا رہا ہے۔  ری پبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ اسرائیل کے معاملے میں غیرجانبدار رہے گی۔ اور لابیوں کو ان کی انتظامیہ کے  قریب نہیں آنے دے گی ۔     
  
       

                                                                                 

No comments:

Post a Comment