Political Brain-Drain In
Pakistan’s Politics
Pakistan And Afghanistan: Victims Of The Cold War's Wounds
مجیب خان
کیا
2016 میں افغانستان میں امن کی کوششوں میں پاکستان کو کامیابی ہو جاۓ گی؟ اور 2016
کیا پاکستان سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہونے کا سال ہو گا ؟ جیسا کہ یہ کہا جاتا
ہے کہ پاکستان میں امن افغانستان میں استحکام سے وابستہ ہے۔ لیکن پھر اس کا مطلب
ہے کہ جب تک افغانستان میں استحکام نہیں ہو گا پاکستان امن سے محروم رہے گا۔ اس
سوال پر پاکستان کی قیادت کو غور کرنا چاہیے۔ لیکن قیادت کا مسئلہ یہ ہے کہ غور
کرنے کی اس میں سیاسی صلاحیت نہیں ہے۔ ایک حکومت اپنے اقتدار کے پانچ سال جیسے
تیسے پورے کر کے چلی گئی۔ اور دوسری حکومت
اپنے اقتدار کی نصف میعاد پوری کر چکی ہے۔ مجموعی طور پر سیاسی حکومتوں کے آٹھ سال
ہو گیے ہیں۔ لیکن فوج کے بغیر سیاسی استحکام ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔ پہلی حکومت
پاکستان کو AfPak بنا کر چلی گئی۔ دوسری حکومت AfPak سے پاکستان کو ابھی تک علیحدہ نہیں کر سکی ہے۔ ذرا تصور کیا جاۓ کہ مشرقی
پاکستان کی علیحدگی کے بعد اگر یہ حکومت میں ہوتے تو پاکستان کو اس بحران سے کیسے
نکالتے۔ نوے ہزار فوجی بھارت کی تحویل میں تھے۔ خزانہ خالی تھا۔ لوگوں میں ملک کے
مستقبل کے بارے میں مایوسی اور غیر یقینی پھیلی ہوئی تھی۔ کیا آصف علی زر داری میں
یہ صلاحیت تھی۔ یا میاں نواز شریف اتنے سیاسی ذہین ہیں۔ یہ اندرا گاندھی جیسی آہنی
شخصیت سے کیسے ڈیل کرتے۔ آٹھ سال میں یہ پاکستان کو افغانستان کی دلدل سے نہیں
نکال سکے ہیں۔ پچھلی حکومت میں دہشت گردی میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ ہوا تھا۔ موجودہ
حکومت میں فوج کی کوششوں سے دہشت گردی میں کمی ہوئی ہے۔
جنرل
ضیا الحق کے بعد تقریباً ایک دہائی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے حکومت کی تھی۔
پیپلز پارٹی نے جنرل ضیا کی افغان پالیسی سے کبھی اتفاق نہیں کیا تھا۔ ذوالفقار
علی بھٹو نے جیل سے اپنے کئی بیانات میں جنرل ضیا افغان مسئلے کو جس طرح ہینڈل کر
رہے تھے۔ اس پر شدید تنقید کی تھی۔ بیگم نصرت بھٹو نے پارٹی کی چیرومن کی حیثیت سے جنرل ضیا کی افغان پالیسی کی مخالفت
کی تھی۔ بے نظیر بھٹو خود اس پالیسی کے خلاف تھیں۔ جنرل ضیاالحق کے بعد پیپلزپارٹی
اقتدار میں آئی تھی۔ لیکن وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے افغان پالیسی کے Pioneer جنرلوں سے سمجھوتہ کر لیا تھا اور یعقوب علی خان کو اپنی حکومت میں وزیر
خارجہ بنا لیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم بے نظیر بھٹو ان جنرلوں کو بلاتیں
اورافغان پالیسی کے بارے میں اپنی حکومت کے تحفظات اور خدشات ان پر واضح کر دتیں ۔
تاکہ اس افغان پالیسی کے خلاف ان کی حکومت کا موقف تاریخ قلم بند کر لیتی۔ اور اس
سے قبل کہ انہیں برطرف کیا جاتا وہ خود جنرلوں کی افغان پالیسی سے شدید اختلاف کو
بنیاد بنا کر وزیر اعظم کے عہدے سے استعفا دے دتیں۔ تاریخ ان کے فیصلہ کو آج درست ثابت کر
رہی ہوتی۔
بے
نظیر بھٹو کے بعد نواز شریف اقتدار میں آۓ تھے۔ بے نظیر بھٹو کو اپوزیشن میں بیٹھ
کر وزیر اعظم نوازشریف سے افغان پالیسی تبدیل کرانا چاہیے تھا۔ جس طرح انہوں نے
جمہوریت کے لئے تحریک چلائی تھی۔ اسی طرح انہیں پاکستان کی افغان پالیسی تبدیل
کرنے کی بھی تحریک چلانا چاہیے تھی۔ کیونکہ افغان پالیسی کو تبدیل کرنا پاکستان کے
استحکام اور امن کے مفاد میں تھا۔ افغانستان پاکستان کی بقا کے لئے خطرہ بن رہا
تھا۔ لیکن حیرت کی بات تھی کی کسی سیاستدان کو یہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ وزیر اعظم
نواز شریف تو جنرل ضیا کی افغان پالیسی کو اتنا آگے لے گیے تھے کہ وہ طالبان کا
نظام پاکستان میں رائج کرانے کے لئے اس کا مسودہ قومی اسمبلی سے منظور کرانا چاہتے
تھے ۔ طالبان کا نظام افغانستان میں خانہ جنگی لے آیا تھا۔ لیکن وزیر اعظم نواز شریف ان کا نظام
پاکستان میں رائج کرنے جا رہے تھے۔ یہ ان کی سیاسی سوچ تھی۔ جو 25 ماہ سے آگے کا
کبھی سوچتے نہیں تھے۔ حالانکہ سیاستدان ہمیشہ 25 سال بعد کے حالات کا سوچتے ہیں۔
ریگن بش انتظامیہ نے صدر جنرل ضیا الحق کو جو افغان پالیسی دی تھی۔ اس پالیسی کو
پھر بش چینی انتظامیہ نے صدر جنرل پرویز مشرف سے تبدیل کرایا تھا۔ پاکستان کو
طالبان کی حمایت ترک کرنا پڑی تھی۔
آصف علی زرداری کوئی بہت بڑے سیاسی مفکر نہیں
تھے۔ نہ ہی ان میں سیاستدان بننے کی قابلیت تھی۔ آصف علی زرداری صرف "ڈیل
میکر" تھے۔ اور ڈیل کرنا جانتے تھے۔ بش چینی انتظامیہ سے انہوں نے ڈیل کر لی
تھی کہ وہ صدر جنرل پرویز مشرف کی افغان پالیسی پر عملدرامد کرتے رہیں گے۔ افغان
مسئلے کے سیاسی حل کی بات نہیں کریں گے۔ طالبان کا خاتمہ کرنے تک Do more کرتے رہیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف
نام نہاد جنگ میں امریکہ کے اتحادی رہیں گے۔ جو پالیسیاں پاکستان کے لئے تباہی کا
سبب بن رہی تھیں۔ سیاسی حکومتوں نے بھی ان پالیسیوں کو جاری رکھا تھا۔ سیاسی
حکومتیں غیرملکی طاقتوں کے لئے کا م کرنے نہیں آتی ہیں۔ سیاستدان وہ ہوتے ہیں جو
ہمیشہ دور کی سوچتے ہیں۔ انہیں اس کی پروا نہیں ہوتی ہے کہ وہ دور کی سیاسی سوچ
رکھنے سے پھر کبھی اقتدار میں نہیں آئیں گے۔ اس لئے ذوالفقارعلی بھٹو ان
سیاستدانوں سے مختلف تھے۔ وہ اپنی پالیسیوں کے بارے میں ہمیشہ دور کی سوچتے تھے۔
اور ان کی نیو کلیر پالیسی اس کا واضح ثبوت ہے۔
جنرل ضیاالحق کو اپنی افغان پالیسی میں تبدیلی
کے بارے میں اس وقت غور کرنا چاہیے تھا کہ جب برطانیہ کی وزیر اعظم ماگریٹ تھیچر
نے سوویت رہنما میکائیل گارباچوف سے ملاقات کے بعد یہ کہا تھا کہ“We can do Business with him” اسلام آباد کو اس وقت چوکنا ہو
جانا چاہیے تھا۔ اور صدر ریگن اور صدر گارباچوف کے درمیان ملاقاتوں پر نظر رکھنا
چاہیے تھی۔ ان رہنماؤں میں ملاقاتوں کے بعد دونوں ملکوں میں جو معاہدے ہو رہے تھے۔
اس کے بعد پاکستان کو بھی اپنی افغان پالیسی سے Retreat ہونے کے بارے میں
غور کرنا چاہیے تھا۔ کیونکہ اب Game over ہو گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو 1971 میں صدر بننے کے بعد سب سے پہلے ماسکو گیے تھے۔ اور بھارت سے90 ہزار فوجیوں
کی واپسی کے لئے انہوں نے ماسکو سے مدد مانگی تھی۔ صدر جنرل ضیا کو 1985 میں ما
سکو جانا چاہیے تھا اور افغان جنگ ختم کرنے اور 2 ملین افغان مہاجرین کی واپسی کے
لئے سمجھوتہ کرنا چاہیے تھا۔ سیاست میں تنگ نظری سب سے مہلک ہتھیار ہوتا ہے۔ جو
صرف اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہوتا ہے۔ اور صدر جنرل ضیا نے اپنی نظریاتی تنگ
نظری سے پاکستان پر کلہاڑیاں ماری تھیں۔ پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان
میں پروکسی جنگ کی تھی۔ سوویت یونین کے کئی ہزار فوجی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔
لیکن اس کے باوجود صدر گارباچوف کو اس خطہ جس کا پاکستان حصہ تھا، استحکام اور امن
کے بارے میں تشویش تھی۔ کیونکہ افغانستان سے سوویت فوجوں کا انخلا شروع ہو رہا
تھا۔ اور صدر گارباچوف کو ڈر تھا کہ افغانستان میں اگر خانہ جنگی شروع ہو گئی تو
پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آ جاۓ گا۔ پاکستان کی 2 ہزار میل طویل سرحد افغانستان
کے ساتھ ہے۔ 2 ملین افغان مہاجرین پاکستان میں بیٹھے ہیں۔ ہزاروں جہادی جنہوں نے
افغان جنگ میں حصہ لیا تھا۔ افغانستان میں انتشار کی صورت میں ان کی کراس باڈر
آزادانہ آمد و رفت شروع ہو جاۓ گی۔ اور یہ اس خطہ کے ملکوں کے لئے بڑا مسئلہ بن
جاۓ گا۔
ان خطرات کے پیش نظر صدر گارباچوف نے افغانستان
سے سوویت فوجوں کے مکمل انخلا سے پہلے افغانستان میں ایک پائدار سیاسی حل کے لئے
اپنی آخری کوشش کی تھی۔ اور اس مقصد سے انہوں نے اپنے وزیر خارجہ ایڈورڈ شیورد
نازے کو پہلے چین اور پھر پاکستان بھیجا تھا۔ ان کی کوششوں کا احوال میں صدر
گارباچوف اور وزیر خارجہ شیورد نازے کے مترجم Pavel Palazchenko کی کتاب "ایک سوویت مترجم کی یاد داشت" سے بیان کر رہا ہوں۔ Pavel صدر گاربا چوف اور وزیر خارجہ
شیورد نازے کے بیرونی دوروں میں ان کے مترجم ہوتے تھے۔ ان کی یہ کتاب 1997 میں
شائع ہوئی تھی۔ اور پاکستان آج جس بحران میں ہے۔ اس کی جڑیں ابھی تک 90 کے عشرے کی
سیاست میں ہیں۔
"افغانستان اور ایک ملاقات پاکستان کی بھٹو
کے ساتھ" عنوان سے Pavel
لکھتے ہیں۔ افغانستان سے ایک دوسرے فوجی دستہ کی روانگی کی تیاری ہو رہی تھی۔ جو
ہمارے لئے بہت اہم تھی۔ اور اس کے دور رس معنی تھے۔ اور چند دنوں میں یہ مرحلہ
مکمل ہونے والا تھا۔ جیسا کہ ہم چین سے پاکستان کے لئے پرواز کر رہے تھے۔ اس وقت
ماہرین اور جو ماہرین نہیں تھے ان سب کا یہ سوال تھا کہ فوجی انخلا کے بعد آیا
نجیب اللہ کی حکومت رہے گی۔ عالمی پریس کابل پر مجاہدین کے آخری بھر پور حملہ کی
پیشن گوئی کر رہا تھا۔ سوویت وزارت خارجہ میں بھی یہ ہی سوچ تھی۔ بالخصوص ان
محکموں میں جن کا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ افغانستان ڈیسک کے ماہرین ذرا
محتاط تھے۔ ان میں بعض نے موجودہ حالات کے برعکس پیشن گوئی کی تھی کہ نجیب اللہ
حکومت رہے گی لیکن وہ اقلیت میں تھے۔
شیورد نازے نے میری موجودگی میں ایسی کوئی پیشن گوئی نہیں کی تھی۔ البتہ ان
کا کہنا تھا کہ نجیب اللہ حکومت کی وسعت کو underestimated
نہیں کرنا چاہیے۔ میرے خیال میں یہ پیغام تھا جس کو لے کر وہ اسلام آباد جا رہے
تھے۔ لیکن پاکستانیوں کو یہ سننا قبول نہیں تھا۔ وزارت خارجہ میں شیورد نازے کی ملاقاتوں
سے یہ تاثر ملا تھا کہ وہاں سب نجیب اللہ کو جلد شکست ہونے کی توقع کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ وہ سوویت یونین کے ساتھ
تعلقات جلد بہتر ہو نے کی توقع کر رہے ہیں۔ اب افغان مسئلہ تقریباً ہمارے پیچھے
چلا گیا ہے۔ موجودہ حکومت جب ختم ہو جاۓ گی تو ان کا مشورہ تھا پھر ایک سیاسی حل
آسان ہو جاۓ گا۔ اور پھر وہ تعاون کرنے کے لئے تیار تھے۔ شیورد نازے نے وزیر خارجہ
یعقوب خان کو اس پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ نجیب اللہ ایک قومی اور موثر قوت
ہیں اور انہیں ایک سیاسی حل میں شامل کرنے سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن
وہ صورت حال کو سمجھ نہیں سکے تھے۔
وزیر
اعظم بے نظیر بھٹو کے ساتھ ایک ملاقات طے تھی۔ اور شیورد نازے کی یہ سیاسی حل کی
سنجیدہ کوشش کا ایک آخری موقعہ تھا۔ ان کے پاس کابل کے کچھ پیغام تھے جو وہ بے نظیر بھٹو کو دینے کے لئے
لاۓ تھے۔ اور وہ اس ملاقات کا کچھ حصہ ان سے تنہائی میں ملنے کی توقع کر رہے تھے۔
جیسا کہ یہ ایسے اہم دوروں میں اکثر ہوتا ہے۔ لیکن ہم جب پارلیمنٹ بلڈنگ میں آۓ
تھے جہاں وزیر اعظم کا اپنا آفس تھا۔ ابتدا ایک بالکل مختلف ماحول میں ہوئی تھی ۔
ہمیں ہال میں تقریباً دس منٹ انتظار کرایا گیا تھا۔ ابھی ہم انتظار کر رہے تھے کہ
ایک دروازہ کھلا میں نے بھٹو کو کسی سے بات کرتے دیکھا۔ میں نہیں سن سکا کہ وہ کیا
کہہ رہی تھیں۔ وہ کچھ فکر مند دکھائی دیتی تھیں۔ وہ اپنے مقامی لباس میں تھیں۔ ان
کے سر پر دوپٹہ تھا۔ بلا آخر ہمیں بھٹو سے ملاقات کے لئے ان کے آفس میں لے جایا
گیا۔ لیکن بھٹو کے ساتھ شیورد نازے کی نجی ملاقات بہت مختصر ر ہی۔ چند منٹ بعد آفس
کا دروازہ کھلا arm chairs اندر لائی گئیں۔ یعقوب خان اور دو اور تین دوسرے حکام بھی ہمارے درمیان آ گیے
تھے۔ بھٹو ذرا معذرانہ انداذ میں مسکرائیں۔ وہ ان لوگوں میں گھری نظر آئی تھیں جو
با ظاہر مخالف نہیں تھے۔ اور ان کے تابعدار بھی نہیں تھے۔ ہم پہلے جو گفتگو کر چکے
اس میں مزید پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔ عجیب و غریب احساس اور مایوسی تھی۔
شیورد نازے کی درخواست پر میں نے بھٹو سے ملاقات
کے لئے ایک آخری کوشش اور کی تھی۔ میں نے خارجہ امور کے بارے میں ان کے پرسنل
اسٹیٹ سے درخواست کی تھی ۔ جیسے میں جب اقوام متحدہ میں تھا اس وقت سے جانتا تھا۔
لیکن وہ بھی بے بس نظر آتا تھا۔ اور آزادی سے کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔ دوسرے روز
یعقوب خان جب شیورد نازے کو الوداع کرنے ایرپورٹ آۓ تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس سے
باخبر تھے کہ ہم نے بھٹو کو نجی طور پر کیا پیغام دیا تھا۔ وہ اور فوج واضح طور پر
انچارج تھے۔ اور افغانستان میں بہت بڑی جیت چاہتے تھے ۔
چند روز
بعد افغانستان سے سوویت فوجوں کا انخلا مکمل ہو گیا تھا۔ کابل اور بعض دوسرے شہروں
میں کچھ خوف کا سماں تھا۔ بہت سے نجیب اللہ کی حکومت ختم ہونے کا انتظار کر رہے
تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا تھا۔ درجنوں مغربی رپورٹر شہر میں موجود تھے۔ جو افغان
ڈرامہ کی آخری سر گزشت قلم بند کرنا چاہتے تھے۔ لیکن یہاں کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔
بھارت کے وزیر دفاع سے ایک ملاقات میں گارباچوف نے کہا کہ نجیب اللہ کے یقینی زوال
کی تمام پیشن گوئیاں غلط ہو گئی ہیں۔ لیکن سیاسی حل کی صرف ایک کوشش متاثر ہوئی
تھی۔ بھارتی خوش تھے کہ حکومت کا زوال نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس کا مطلب پھر پاکستان
کے لئے یہ بڑی فتح ہوتی۔ جہاں تک اس کے ایک سیاسی حل کا سوال تھا۔ اس بارے میں کسی
کی قابل عمل سوچ نہیں تھی۔ کہ اسے کیسے حاصل کیا جاۓ۔ اور مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان
اور مجاہدین ابھی تک ایک واضح فتح کی امید کر رہے تھے۔ اور پھر فتوحات سے یہ تقسیم
صرف اپنے درمیان رکھنا چاہتے تھے۔
یہ
مسئلہ کے حل کی نئی سوچ نہیں تھی۔ لیکن یہ زیادہ مناسب تھا کہ دونوں بڑی طاقتوں کی
افغانستان میں دلچسپی ختم ہو گئی تھی۔ اور یہ تاثر نظر آ رہا تھا۔ سیکریٹری اف
اسٹیٹ جم بیکر سے اپنی پہلی ملاقات میں گارباچوف نے کہا افغان equation بری طرح بگڑ گئی ہے ۔ “so maybe we
should let them stew in their own juices” جم بیکر کا اس پر کوئی رد عمل
نہیں تھا۔ لیکن بعد میں وہ اکثر ان لفظوں کا حوالہ دینے لگے تھے۔ گارباچوف اور بش
اکثر ایک دوسرے سے یہ کہتے تھے کہ افغانستان میں اسلامی بنیاد پرستوں کی فتح
امریکہ کے مفاد میں تھی اور نہ ہی یہ سوویت یونین کے مفاد میں تھی۔
No comments:
Post a Comment