Terrorism
Is A Corruption Of Money And Weapons
The Military Industrial Complex And Their Wealthy Arab
Allies Are Corrupting The Young In The Islamic World
مجیب خان
اور
یہ Typical مغرب ہے۔ جو الزام بازی اور پراپگنڈہ میں خاصی مہارت رکھتا ہے۔ حالانکہ یہ
صدر پوتن ہیں جنہوں نے مغرب کے ضمیر کو زندہ کیا ہے۔ جو پانچ سال سے شام تباہ ہونے
کا تما شہ دیکھ رہا تھا۔ تین لاکھ بےگناہ شامی اس خانہ جنگی میں ہلاک ہو گیے ہیں۔
لیکن مغرب نے پانچ سال میں کبھی سیاسی عمل کی بات نہیں کی تھی۔ مغرب شام میں دہشت
گردوں کی پشت پنا ہی کر رہا تھا۔ انہیں ہتھیار اور تربیت دی جا رہی تھی۔ لیکن دنیا
کے دوسرے حصوں میں دہشت گردی کے خلاف مغرب کا جنگ کا ڈرامہ جاری تھا۔ آئرش باغیوں
کی ایک ایسی خانہ جنگی کے خلاف برطانیہ کیا کرتا ؟ اور آئرش باغیوں کو جو تربیت
اور ہتھیار دیتے ان کے خلاف برطانیہ کیا کرتا ؟ ہزاروں میل دور دوسرے ملکوں میں
لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ کس ضمیر سے برطانیہ کے سیکریٹری خارجہ اردن میں
بیٹھ کر یہ باتیں کر رہے تھے۔ جبکہ ان کی حکومت یمن میں سعودی جا حا ریت کی پشت
پنا ہی کر رہی ہے۔ غریب اور نہتے یمنیوں کو ہلاک کرنے کے لئے سعود یوں کو ہتھیار دے
رہی ہے۔ دنیا میں قانون جا حا ریت رائج ہو گیا ہے۔ جن کے پاس ہتھیار ہیں وہ جا حا
ریت اپنا حق سمجھتے ہیں۔ بشر السد بڑا ظالم اور ڈکٹیٹر ہے۔ ہزاروں شامیوں کو اس نے
ہلاک کیا ہے۔ لیکن سعودی یمن میں لوگوں کی زندگیوں میں کیا خوشحالی بکھیر رہے ہیں۔
ایک سال میں انہوں نے چار ہزار یمنی ہلاک کیے ہیں۔ جو بالکل بے گناہ تھے۔ ان کا
گناہ صرف یہ تھا کہ سعودی ان پر جسے صدر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ وہ یمنیوں کو قبول
نہیں ہے۔ دوسرے ملکوں میں اپنی پسند کی حکومتیں مسلط کرنا کیونکہ امریکہ اور
برطانیہ کا کلچر ہے۔ اس لئے وہ سعود یوں کو اپنے کلچر میں خوش آمد ید کر رہے ہیں ۔
اور سعود یوں کے غیر قانونی حملہ کی حمایت کر رہے ہیں۔
بشر
السد حکومت شام کی قانونی حکومت ہے۔ عالمی برادری نے اس حکومت کو تسلیم کیا ہے۔ د
مشق میں ان کے سفارتی مشن کام کر رہے ہیں۔ اپنے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ کرنا
اس حکومت کا قانونی اور آئینی فرض ہے۔ سعودی، خلیج کی حکومتیں، ترکی، امریکہ،
برطانیہ، فرانس سب شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ لیکن تکلیف اور افسوس
کی بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور خلیج کی حکومتیں قدامت پسند اسلامی حکومتیں ہیں۔ یہ
ایران کو ان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا الزام دیتے ہیں کہ ایران شیعاؤں کو
ان کے خلاف اکسا رہا ہے۔ لیکن یہ خود شام میں مداخلت کر رہے ہیں اور مختلف فرقوں
کو آپس میں لڑ وا رہے ہیں۔ عراق پر اینگلو امریکہ کے فوجی قبضہ کے خلاف عراقیوں کی
بغاوت جائز اور قانونی تھی۔ لیکن عراقیوں کی بغاوت کو اینگلو امریکہ نے کس طرح بھر
پور فوجی طاقت سے کچل نے کی کوشش کی تھی۔ ابو غریب جیل میں ان کے فوجیوں نے
عراقیوں کے ساتھ کس طرح کا بر تاؤ کیا تھا۔ رمادی، فلوجہ، موصل اور عراق کے دوسرے
شہروں میں ان کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ ہزاروں عراقی ان کے فوجی آپریشن میں مار دئیے
گیے تھے۔ اگر روس باغیوں کی اس طرح پشت پنا ہی کرتا اور تین لاکھ شامی مارے گیے
ہوتے تو مغربی طاقتوں کا رد عمل کیا ہوتا۔
پانچ
سال سے یہ مغربی طاقتیں شام میں خانہ جنگی ختم کرانے میں کچھ نہیں کر رہی تھیں۔
عربوں سے صرف ڈالر لے رہی تھیں۔ اور باغیوں اور دہشت گردوں کو ہتھیار فراہم کرتی
تھیں۔ انہیں تربیت دی جاتی تھی۔ یہ باغی پھر داعش کے ساتھ مل جاتے تھے۔ شام میں
خانہ جنگی اسد حکومت کے خلاف ہو رہی ہے۔ اور جنگ داعش کے خلاف ہو رہی ہے۔ بائیس
اسلامی انتہا پسند گروپ اسد حکومت کے خلاف خانہ جنگی کر رہے ہیں۔ اور امریکہ کی
سرپرستی میں بائیس اسلامی ملکوں کا اتحاد شام میں داعش کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔
دنیا نے ماضی کی کئی صدیوں میں انسانیت کے ساتھ ایسا مذاق نہیں دیکھا ہو گا ۔ برطانیہ کے سیکرٹیری خارجہ کہتے ہیں کہ ہم جو کچھ کر رہے
ہیں۔ روسی اسے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ روسی انسانیت کو ایک بڑے نقصان سے بچا رہے
ہیں۔ شام میں بے گناہ شہریوں کے مرنے کی تعداد جب پانچ ہزار پر پہنچ گئی تھی۔
مغربی طاقتوں کو باغیوں کی پشت پنا ہی ختم کر کے شام میں ایک سیاسی حل کا راستہ
اختیار کرنا چاہیے تھا۔ جو انسانیت کو بچانے کا راستہ تھا۔ لیکن شام میں شہریوں کے
مرنے کی تعداد 5 ہزار سے 10 ہزار ہو گئی تھی پھر 50 ہزار سے ایک لاکھ ہو گئی پھر
دو لاکھ ہو گئی پھر تین لاکھ شامی اس خانہ جنگی میں ہلاک ہو گیے تھے۔ لیکن مغربی
طاقتیں انتہا پسندوں کو ہتھیار فراہم کرتی رہیں۔ اور خانہ جنگی جاری رکھنے میں مدد
کرتی رہیں۔ شامی مہاجرین کی سو نامی جب یورپ میں داخل ہوئی تھی تب انہیں شام کی
خانہ جنگی کے خطرناک اثرات کا احساس ہوا تھا۔ جس کے بعد یورپ کو اس صورت حال سے
بچانے کے لئے روس کو شام میں فوجی مداخلت کرنا پڑی ہے۔ تاہم سیکرٹیری خارجہ فلیپ
نے یہ نہیں بتایا کہ وہ "جو کچھ" کیا کر رہے تھے؟
ایک
شخص کو خانہ جنگی کے ذریعے اقتدار سے ہٹانے یا غیرملکی فوجی مہم جوئیوں کے ذریعے
حکمرانوں کو اقتدار سے معزول کرنے سے حالات کبھی بہتر نہیں ہوتے ہیں۔ عراق اور
لیبیا میں یہ تجربے کر لئے گیے ہیں۔ ان ملکوں میں لوگوں کو ڈکٹیٹروں سے زیادہ
خوفناک حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شام میں اسد حکومت ختم ہونے کے بعد خانہ جنگی
ختم نہیں ہو گی۔ بلکہ خانہ جنگی کی سو نامی لبنان کا رخ کرے گی۔ اور مصر بھی اس کے
لپیٹ میں آۓ گا۔ مصر میں اس وقت عارضی استحکام ہے۔ اور شام کے حالات پر اس کا دارو
مدار ہے کہ یہ کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ روس کے خدشات اس بحران کے آغاز سے درست
تھے۔ انہوں نے شام کے بحران پر ایک درست موقف اختیار کیا تھا۔ روس اور چین نے شام کے
مسئلہ پر امریکہ کی دو قراردادوں کو ویٹو کیا تھا۔ اور شام میں اس وقت ایک سیاسی
حل پر زور دیا تھا۔ جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس نے خلیج
کے حکمرانوں کے ساتھ کھربوں ڈالر کے ہتھیار فروخت کرنے کے معاہدے کیے تھے۔ جو ایک
طرح سے بشر السد کے سر کی قیمت تھی۔ جس کے بعد Assad has to go ہونے لگا تھا۔ دنیا میں ڈالر اور ہتھیار سب سے بڑا کرپشن ہے۔ جو انسانیت
کو تباہ کر رہا ہے۔
No comments:
Post a Comment