Senator Obama Opposed The
Attack On Iraq, But President Obama Supported The Attack On Libya
This Is Washington, Where
Jesus Or Moses Would Be Doing What Every President Does
مجیب خان
ڈونالڈ ٹرمپ کھرب پتی Real
Estate Developer ہیں۔ سیاست میں کبھی سرگرم نہیں
تھے۔ نہ ہی کبھی الیکشن لڑا تھا۔ پندرہ سال سے جنگوں میں امریکہ کی تباہی دیکھ رہے
تھے۔ اور اب وہ امریکہ کو جنگوں سے نکالنے اور امریکہ کی تعمیر نو کا منصوبہ لےکرانتخابی
سیاست میں آۓ ہیں۔ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں کھرب پتی اپنے امیدوار کو جتانے کے
لئے کھربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں۔ لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کیونکہ خود کھرب پتی ہیں۔ لہذا وہ
اپنی انتخابی مہم پر اپنے کھربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ اور عوام اسے ایک بڑی
تبدیلی سمجھ رہے ہیں۔ "امریکہ پہلے" ان کی انتخابی سیاست کا نعرہ ہے۔
مشرق وسطی کو عدم استحکام کرنے کا ذمہ دار ڈونالڈ ٹرمپ بش اور اوبامہ انتظامیہ کو
ٹھہراتے ہیں۔ امریکہ کی جو کمپنیاں اور صنعتیں دوسرے ملکوں میں منتقل ہو گئی ہیں۔
انہیں واپس امریکہ لانے اور امریکہ کو دوبارہ "میڈ ان امریکہ" بنانے کا
امریکی عوام سے وعدہ کر رہے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا کیونکہ واشنگٹن کی اسٹبلشمینٹ سے
تعلق نہیں ہے۔ اس لئے بھی لوگوں کا جھکاؤ ان کی طرف ہو رہا ہے۔
براک اوبامہ امریکہ کے پہلے بلیک صدر ہیں۔ اور
سات سال قبل وہ بھی اپنی صدارتی انتخابی مہم میں ایسی ہی باتیں اوروعدے کر رہے تھے۔ براک اوبامہ اس وقت سینٹر تھے۔ ان
سے قبل جارج بش نے بھی امریکی عوام کو ایسے ہی سہا نے خواب دکھاۓ تھے۔ لیکن بش
انتظامیہ کے آٹھ سال جنگوں میں گزرے تھے۔ سینٹر اوبامہ انتخابی مہم میں بش
انتظامیہ کی افغان اور عراق پالیسی پر شدید تنقید کر رہے تھے۔ افغانستان کے بارے
ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنا موقف بیان نہیں کیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے بارے
میں بھی ڈونالڈ ٹرمپ کھل کر بات نہیں کر رہے ہیں۔ صرف مسلمانوں کے امریکہ میں
داخلے پر پابندی لگانے کی تجویز دی ہے۔ حالانکہ ریپبلیکن پارٹی کے صدارتی
امیدواروں کے ہر مباحثہ میں زیادہ وقت اسلامی ریاست کے خلاف فوجی کاروائی کرنے کے
بارے میں سوال کیے جاتے تھے۔ لیکن ڈونا لڈ ٹرمپ گول مول جواب دیتے تھے۔ جبکہ دوسرے
صدارتی امیدوار اسلامی ریاست کے خلاف فوجی کاروائی کی حمایت میں تھے۔ خدا کا شکر
ہے Jeb Bush صدارتی انتخابی مہم سے خارج ہونے والے ہیں۔ اگر وہ فرنٹ لائن امیدوار ہوتے
اور خدا نا خواستہ صدر منتخب ہو جاتے۔ تو شاید تیسری عالمی جنگ ان کی انتظامیہ میں
یقینی ہو جاتی۔ Jeb
Bush یوکرین کے مسئلے پر یورپ میں فوجیں بھیجنے کے حق
میں تھے۔ مشرق وسطی میں سیاسی اصلاحات کے بارے میں ہلری کلنٹن سے کسی نے یہ سوال
نہیں کیا کہ عرب دنیا کو جمہوریت اور فریڈم کا نظام دینے کے منصوبہ میں امریکہ
کیوں ناکام ہو گیا ہے؟ جبکہ ریپبلیکن پارٹی کے امیدواروں کی اکثریت مشرق وسطی میں
صرف فوجی حل کی حمایت میں تھے۔ پندرہ سال سے امریکہ کو فوجی حل کی کوششوں میں بری
طرح ناکامی ہو رہی ہے۔ لیکن کسی صدارتی امیدوار نے مشرق وسطی میں سیاسی حل کی طرف
آنے کا مشورہ د یا ہے اور نہ ہی سیاسی حل کے سلسلے میں تجویز دی ہے۔ تمام صدارتی
امیدوار سواۓ ایک دو کے سب صرف فوجی حل کے عزم کا اظہار کر رہے تھے۔
صد ر
براک اوبامہ نے امریکہ کا پہلا بلیک صدر منتخب ہو کر ایک نئی تاریخ لکھی تھی۔ اور
اب پہلی خاتون صدر بننے کی تاریخ ہلری کلنٹن بنانے جا رہی ہیں۔ امریکہ کی خاتون
اول سے اب تک ہلری کلنٹن نے اپنی مقبولیت برقرار رکھی ہے۔ تاہم ان کے کچھ غیر
مقبول فیصلے ہیں۔ جنہیں زیادہ فوکس نہیں کیا جا رہا ہے۔ سینٹر ہلری کلنٹن نے صدر
بش کے عراق پر حملہ کرنے کے فیصلے کی
حمایت میں سینٹ میں ووٹ دیا تھا۔ سینٹر کلنٹن اس وقت صورت حال کا تجزیہ کرنے میں
غلط ثابت ہوئیں تھیں۔ جس کی امریکہ کو ایک بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ پھر
صدر اوبامہ انتظامیہ میں سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہلری کلنٹن نے لیبیا میں قدافی حکومت کے
خلاف فوجی کاروائی کرنے کی حمایت کی تھی۔ ہلری کلنٹن کے یہ فیصلہ علاقائی استحکام
اور امن کے لئے تباہ کن ثابت ہوۓ ہیں۔ پھر امریکہ کا عرب دنیا میں جمہوریت اور
آزادی پھیلانے کی تحریک بھی بری طرح ناکام ہو گئی ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس تحریک
پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے تھے۔ عرب اسپرنگ سے عرب دنیا میں کروڑوں لوگوں کا مستقبل
روشن ہو جاتا۔ عرب نوجوانوں کو بھی امیدوں کا ایک نیا سورج طلوع ہوتا نظر آ رہا
تھا۔ لیکن پھر امریکہ کے واچ میں مصر میں جمہوریت اور آزادی کی روشنیاں بجھا دی
گئی ۔ فوجی آمریت پھر بحال ہو گئی تھی۔ امریکہ فوجی آمریت کے ساتھ پھر کھڑا تھا۔ عرب اسپرنگ میں امریکہ نے جن کی
حمایت کی تھی وہ جیلوں میں تھے ۔ پھانسی کے پھندوں کا انتظار کر رہے تھے۔ اگر
امریکہ کا صدر بن کر ہلری کلنٹن اس طرح فیصلے کریں گی تو دنیا کے ہر کونے میں دہشت
گرد ہوں گے۔ کوئی خلافت قائم کر رہا ہو گا اور کوئی رومن ایمپائر قائم کر رہا ہو
گا۔ عراق پر حملہ کو داعش کے وجود میں آنے کا سبب بتایا جا رہا ہے۔ لیکن اس سے بھی
بڑا سبب شاید مصر میں جمہوریت اور آزادی پر تالے لگانا ہے۔ مصر میں جمہوریت کو اگر
موقع دیا جاتا تو شاید داعش بھی وجود میں نہیں آتی۔ جمہوریت اور آزادی پر تالے ڈال
دئیے گیے ہیں اور صرف جنگوں کے گیٹ کھول دئیے ہیں۔ داعش ان جنگوں سے وجود میں آئی
ہے۔ اور یہ امریکی پالیسیوں کی مسلسل ناکامیاں ہیں۔ جن کا رد عمل اب صدارتی
انتخابات میں امریکی عوام کے عدم دلچسپی میں نظر آ رہا ہے۔
ہر
صدارتی انتخاب میں دونوں پارٹیوں کے امیدوار عوام سے بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں۔
برسراقتدار انتظامیہ پر تنقیدیں کرتے ہیں۔ اس کی خارجہ پالیسی میں انہیں خا میاں نظر
آتی ہیں۔ امیر اور غریب میں بڑھتا ہوا فرق بھی نظر آنے لگتا ہے۔ لیکن پھر دیکھا یہ
جا رہا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے دور میں امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو گیے ہیں۔
بیس سال میں تقریباً چالیس ملین امریکی غربت کی لکیر سے نیچے آ گیے ہیں۔ دونوں
پارٹیوں نے جنگوں سے تنازعہ اور خطرات دور کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے۔ سینیٹر
اوبامہ نے سینٹ میں عراق پر حملہ کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ لیکن پریذیڈنٹ اوبامہ نے
لیبیا پر حملہ کی حمایت کی تھی۔ سینیٹر اوبامہ نے سینٹ میں عراق پر حملہ کی مخالفت
کی تھی وہ درست فیصلہ تھا ۔ صدر اوبامہ نے وائٹ ہاؤس میں لیبیا پر حملہ کرنے کا جو
فیصلہ کیا تھا۔ وہ بھی درست فیصلہ تھا ۔ دونوں فیصلے درست کیسے ہو سکتے ہیں؟ جبکہ صدام حسین بھی ڈکٹیٹر تھے اور معمر
قدافی بھی ڈکٹیٹر تھے۔ لیکن دونوں ملکوں کے خلاف Preemptive Strike عالمی قانون کی خلاف ورزی تھی۔
صدر اوبامہ نے 2008 میں صدارتی انتخابات کی مہم میں واشنگٹن کو تبدیل کرنے کا وعدہ
امریکی عوام سے کیا تھا۔ لیکن واشنگٹن نے صدر اوبامہ کو تبدیل کر دیا تھا۔ اس لئے
خدا نے بھی وائٹ ہاؤس کے لئے فرشتہ امیدوار بھجنے کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔
صدر
اوبامہ امریکہ کے پہلے بلیک صدر تھے۔ انہیں اپنی خارجہ پالیسی میں حقوق اور
انسانیت کے بارے میں مارٹن لو تھر کنگ کے فلسفہ انسانیت اور حقوق کو خصوصی اہمیت
دینا چاہیے تھی۔ اور مشرق وسطی میں بالخصوص فلسطائن میں سیاسی حالات کو پچاس اور
ساٹھ کے عشروں میں امریکہ میں Civil Right تحریک کے پس منظر میں دیکھنا
چاہیے تھا۔ اس خطہ کے لوگوں کو بھی صدر اوبامہ سے یہ ہی توقع تھی کہ د نیا کے
محکوم اور حقوق سے محروم لوگوں کے لئے وہ مارٹن لو تھر کنگ ہوں گے۔ صدر اوبامہ کو
مارٹن لوتھر کنگ کے سیاسی نظریات کو Internationalize کرنے کا سنہری موقع
ملا تھا۔ لیکن صدر اوبامہ واشنگٹن کی Typically Polluted سیاست سے خود کو آزاد نہیں کرسکے تھے۔ امریکہ کا آئندہ صدر جس پارٹی کا
بھی ہو گا۔ بش اور اوبامہ کی پالیسیوں کو جاری ر کھے گا۔ ان میں کوئی نمایاں
تبدیلی نہیں آۓ گی۔
No comments:
Post a Comment