Wednesday, February 17, 2016

Wars Are The Problem In The Middle East

Saudi Politics Is Dividing The Islamic World   

Wars Are The Problem In The Middle East

مجیب خان

Deceased Saudi King Abdullah And Syrian President Assad
        سعودی بریگیڈیر جنرل احمد اسیری نے الجزیرہ  سے انٹرویو میں کہا ہے کہ سعودی عرب داعش کے خلاف امریکہ کی قیادت میں کولیشن میں شامل ہونے اور اپنی فوجیں بھیجنے کے لئے تیار ہے۔ سعودی بریگیڈیر نے کہا ہمیں اب کیونکہ یمن میں اس کا تجربہ ہو گیا ہے۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ صرف فضا سے کاروائی کافی نہیں ہوتی ہے۔ زمینی فوجی آپریشن بھی ضروری ہے۔ زمین پر بہتر نتائج حاصل کرنے کے لئے ہمیں دونوں کا استعمال ایک ساتھ کرنا ہو گا۔ تاہم سعودی بریگیڈیر نے یہ نہیں بتایا کہ سعودی عرب کتنی فوجیں بھیجے گا۔ امریکی سیکرٹیری دفاع ایشٹن کارٹر نے سعودی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوۓ کہا ہے کہ ایسی خبروں کا خیر مقدم ضرور کیا جاۓ۔
       اور اب اس ہفتہ سعودی پریس ایجنسی نے یہ خبر دی ہے کہ تقریباً 20 ملکوں کی فوجوں نے شمالی سعودی عرب میں انتہائی اہم فوجی مشقیں کی ہیں۔ خطہ میں اس سے پہلے کبھی ایسی مشقیں نہیں ہوئی تھیں۔ سعودی حکام نے ان مشقوں کو "شمال کی گرج" Thunder of the North کا نام دیا ہے۔ جس میں زمینی، فضائی اور بحری فوجوں نے حصہ لیا تھا۔ اور ان فوجی مشقوں سے یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ ریاض اور اس کے اتحادی تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرنے اور خطہ میں استحکام اور امن کا تحفظ کرنے کے لئے متحد ہیں۔ ان فوجی مشقوں سے قبل سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے یہ بیان دیا تھا سعودی فوجیں شام میں جائیں گی۔ اور پھر یہ بھی کہا گیا تھا کہ سعودی اور ترکی کی فوجیں شام میں جائیں گی۔
        پھر سعودی شاہ سلمان کا یہ بیان بھی آیا ہے جس میں شاہ نے Kingdom کے داخلی امور میں دوسرے ملکوں کو مداخلت کرنے سے باز رہنے کا کہا ہے۔ شاہ سلمان نے کہا کہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت کے بغیر اپنا دفاع کرنا ہمارا حق ہے۔ ہم دوسروں سے بھی یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمارے معاملات میں مداخلت مت کریں۔" پھر شاہ سلمان فرماتے ہیں کہ ہم اپنے عرب اور مسلم بھائیوں کے ساتھ تمام شعبوں میں اپنی سرزمین کا دفاع کرنے اور ان کی آزادی کی بقا اور ان کے حکومتی نظام کے تحفظ میں جو ان کے عوام نے تسلیم کیا ہے۔ اس میں تعاون کریں گے۔ لیکن اسلام کے دو مقدس مقامات کے محافظ کے بیان اور کردار میں بڑا تضاد نظر آتا ہے۔ جن میں اسلامی درس کا فقدان ہے اور دنیا کی سیاست زیادہ نظر آتی ہے۔ اسلام کے دو مقدس مقامات سے چودہ سو سال قبل امن اور انسانیت کا جو پیغام دنیا میں پھیلانے کے لئے دیا گیا تھا۔ اس پیغام کو جیسے فراموش کر دیا ہے۔
        حالیہ چند سالوں سے سعودی عرب کے کردار میں نمایاں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔ سعودی عرب اسلامی دنیا کی یکجہتی سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اور ان قوتوں کے ساتھ سعودی تعاون بڑھتا جا رہا ہے ۔ جو اسلامی ملکوں میں انتشار کو فروغ دے رہے ہیں۔ اسلامی ملکوں کو کھنڈرات بنا رہے ہیں۔ اقتصادی ترقی میں انہیں پیچھے لے جا رہے ہیں۔ اپنے ہتھیاروں کی تجارت کو فروغ دینے کے مفاد میں جنگوں سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں تباہ و برباد ہو گئی ہیں۔ لاکھوں بے گناہ بچوں کی دنیا تاریک ہو گئی ہے۔ یہ جنگیں مسلمانوں کی تباہی بن رہی ہیں۔ جو سرد جنگ میں سیٹو اور سینٹو فوجی اتحاد بناتے تھے اب سعودی عرب کو یہ فوجی اتحاد بنانے کا مشن دے دیا ہے۔ سعودی عرب کی قیادت اسلامی ملکوں کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔ جنگیں اسلامی ملکوں کے مسائل کا حل نہیں ہیں۔
        سعودی حکمران ان کے معاملات میں دوسروں کی مداخلت کے خلاف ہیں۔ لیکن وہ خود یمن میں Lethal فوجی مداخلت کر رہے ہیں۔ اور اپنے ساتھ دوسرے ملکوں کو بھی مداخلت کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یمن نے سعودی عرب میں کوئی مداخلت نہیں کی تھی۔ یہ سعودی ہیں جو یمن میں اپنی پسند کی حکومت مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ شاہ سلمان نے خود اپنے بیان میں یہ کہا ہے کہ "حکومت کا نظام جو ان کے عوام نے تسلیم کیا ہے اس کا تحفظ کیا جاۓ۔" لیکن کیا سعودی عرب یمنی عوام کے حکومتی نظام کا احترام کر رہا ہے؟ ایک سال میں سعودی عرب نے ہزاروں بم یمن پر صرف ان کا نظام تباہ کرنے کے لئے گراۓ ہیں۔ چار ہزار بے گناہ یمنیوں کو انہوں نے ہلاک کیا ہے۔ ان کے گھر اور ان کے اقتصادی وسائل تباہ کر دئیے ہیں۔ چودہ سو سال قبل اسلام کے دو مقدس پر کیا یہ درس دیا گیا تھا؟ جس کے وہ خود کو محافظ کہتے ہیں۔
        حالانکہ یمن میں ایران کے ملوث ہونے کے کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ یہ صرف اسرائیلی صیہونی پراپگنڈہ ہے۔ جیسے امریکی میڈیا کے ذریعے پھیلایا گیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور فرانس اگر یمن کے خلاف سعودی جارحیت کی حمایت اپنے اقتصادی مفاد میں کرتے ہیں۔ تو دنیا میں بے شمار ملک مظلوم انسانیت کی حمایت کو اپنا ایک اخلاقی اور مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ اور ایران ان ملکوں میں شامل ہے۔ یمنی مظلوم ہیں۔ ان کے ملک کے خلاف ننگی جا حا ریت ہو رہی ہے۔ شام میں سعودی کیوں مداخلت کر رہے ہیں؟ شام میں ایک قانونی حکومت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اپنے اندرونی معاملات میں کسی سیاسی مداخلت کے خلاف ہیں۔ شام میں حکومت کے خلاف دہشت گردوں کو اپوزیشن کا نام دے دیا ہے۔ لیکن شام کے ہمسایہ میں اسرائیلی حکومت کے خلاف فلسطینیوں کی اپوزیشن کو دہشت گردی کہا جاتا ہے۔ تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ جنہوں نے شام کو تباہ کرنے والوں کی مدد کی ہے۔ انہیں ہتھیار دئیے ہیں۔ تربیت دی ہے۔ شام کے خلاف نائن ایلون سے بڑی دہشت گردی ہوئی ہے جس میں3لاکھ افراد مارے گیے ہیں۔ اور سارا ملک تباہ ہو گیا ہے ۔ انسانیت کے خلاف یہ 21 ویں صدی کا کرائم ہے۔ شام میں ہزار سال کی اسلامی تاریخ کے انتہائی قیمتی اثاثے تھے۔ یہاں عیسا یوں کی تاریخی عبادات گاہیں تھیں۔ نام نہاد اپوزیشن دہشت گردوں نے انہیں بھی تباہ کر دیا ہے۔ لیکن امریکہ نے ان کی حمایت جاری رکھی ہے۔ سعود یوں کو تاریخ اور ثقافت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ نہ ہی انہیں مذہبی تاریخی یاد گاروں سے کوئی عقیدت ہے۔ سعودی عرب میں اس لئے میوزیم بھی نہیں ہیں۔ اور شام تباہ ہو جانے کی انہیں کوئی پروا نہیں ہے۔
        شام نے سعودی عرب میں کبھی مداخلت نہیں کی تھی۔ لیکن سعودی حکومت کو شام میں حکومت سے نفرت ہو گئی  ہے اور وہ اس حکومت کو اقتدار سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ لیکن سعود یوں کو پھر وہ لوگ پسند نہیں ہیں جو سعودی حکومت کی اپوزیشن کی حمایت کرتے ہیں۔ اور یہ اسلام کے دو مقدس مقامات کے محافظ ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ جو چیز تمہیں پسند نہیں ہے۔ اسے دوسروں کے لئے بھی پسند مت کرو۔ لیکن سعودی شام میں مداخلت کر رہے ہیں۔ یمن میں مداخلت کر رہے ہیں۔ عراق اور لیبیا میں سعود یوں نے غیر ملکی طاقتوں کی حمایت کی تھی۔ مصر میں انہوں نے اسرائیلیوں کے ساتھ  مل کر ایک منتخب جمہوری حکومت کا خاتمہ کرنے میں مداخلت کی تھی۔ یہ سعودی حکومت کے فیصلے ہیں۔ جو اب انہیں ان کے ملک میں غیر ملکی مداخلت ہونے کا خوف پیدا کر رہے ہیں۔ جس طرح ایرانیوں کو معلوم ہے کہ ان کے اطراف میں ہر طرف سنی ہیں۔ اسی طرح سعود یوں کو بھی یہ جاننا چاہیے کہ شیعاؤں کی ایک بڑی آبادی سعودی شہری ہیں۔ اور بحرین اومان کویت  متحدہ عرب امارات میں شیعہ آباد ہیں۔ پھر اس خطہ سے باہر دوسرے اسلامی ملکوں میں بھی شیعہ اچھی بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ سنی ملکوں سے محاذ آ رائی ایران کے مفاد میں نہیں ہے۔ سنی عرب ملکوں کو بھی اسی طرح دکھنا چاہیے۔ ایران کا عربوں پر تسلط قائم کرنے کے کوئی عزائم نہیں ہیں۔ یہ اسرائیل ہے جو عربوں پر اپنی فوجی اور اقتصادی اجارا داری قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس مقصد میں امریکی  طاقت کے ذریعے عربوں کو فوجی اور اقتصادی طور پر کمزور کرنے کا  کام لیا گیا ہے۔ ان کے درمیان انتشار کی سیاست فروغ دی جا رہی ہے۔ اسرائیل عرب دنیا کے حالات سے اتنا خوفزدہ نہیں ہے کہ جتنا خوش ہے۔
        عربوں کی عقلوں پر جیسے پرد ے پڑ گیے ہیں۔ اور وہ تباہی کے راستہ پر جا رہے ہیں۔ اس خطہ میں جتنی زیادہ فوجی مہم جوئیاں ہو رہی ہیں۔ ان کے حالات اتنے ہی زیادہ خراب سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنا زیادہ تعاون کیا ہے۔ دہشت گردی اب عرب دنیا میں ہر ملک کے دروازے پر پہنچ گئی ہے۔ سعودی عرب ان کے معاملات میں ایران کی مداخلت کے خلاف ہے۔ لیکن امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی ان کے معاملات میں مداخلت کا وہ خیر مقدم کرتے ہیں۔ ان عرب حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ان طاقتوں کی فوجی مہم جوئیاں انہیں عدم استحکام کر رہی ہیں۔ سعودی عرب اور خلیج کے عرب حکمرانوں کا امریکہ کی قیادت میں ایک فوجی اتحاد ہے۔ جو نام نہاد داعش کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں ایک فوجی اتحاد جس میں خلیج کی ریاستیں، سوڈان، اردن ،مراکش، صومالیہ، چڈ ،ملیشیا  اور بعض دوسرے ملک شامل ہیں۔ یمن کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اور امریکہ برطانیہ اور فرانس اس اتحاد کی پشت پر ہیں۔ اور اب سعودی عرب نے اپنی قیادت میں اسلامی ملکوں کا ایک فوجی اتحاد بنانے کا اعلان کیا ہے۔ جس میں سعود یوں کے مطابق 35 ملک شامل ہیں۔ اور مزید اسلامی ملک اس میں شامل ہوں گے۔ لیکن فوجی اتحاد بنانے کی یہ لائن انہیں کس نے دی ہے ۔ شام میں روس کی فوجوں کی آمد کے بعد واشنگٹن میں اسرائیلی صیہونی تھنک ٹینک کی طرف سے یہ تجویز آئی تھی۔ کہ اسلامی ملکوں کی فوجیں اب روس کو شام سے نکالنے کے لئے لڑیں۔ اور سعودی عرب نے اسلامی ملکوں سے کوئی صلاح مشورہ کیے بغیر آدھی رات کو اسلامی ملکوں کے ایک فوجی اتحاد کا اعلان کر دیا تھا۔ سعودی اپنے فیصلے دوسرے ملکوں پر مسلط کر رہے ہیں۔ لیکن پھر دوسروں سے کہتے ہیں کہ وہ ان کے معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ پاکستان ایک اسلامی ایٹمی طاقت ہے۔ اور اس کا اس اتحاد میں شامل ہونا پاکستان میں داعش کی موجودگی سے زیادہ خطرناک ہے۔ سعودی شاہی خاندان کی طرف سے ملیشیا کے وزیر اعظم حاجی عبدالرزاق کے پرسنل اکاؤنٹ میں 700 ملین ڈالر تحفہ کے طور پر جمع کر آۓ گیے  تھے ۔ اور ملیشیا کے وزیر اعظم نے اپنی فوجیں سعودی عرب یمن سے لڑنے کے لئے بھیج دی تھیں۔ ملیشیا میں اس اسکینڈل کا انکشاف ہونے کے بعد ملیشیا کے اٹارنی جنرل نے وزیر اعظم کے خلاف اس کی تحقیقات شروع کر دی ہے۔ وزیر اعظم حاجی عبدالرزاق نے 620 ملین ڈالر واپس کر دئیے ہیں۔ سعودی کیونکہ 70 سال سے امریکہ کے انتہائی قریبی اتحادی ہیں اور یہ انہوں نے شاید امریکہ سے سیکھا ہے۔ کہ کس طرح ملکوں کو فوجی اتحاد میں شامل کیا جاتا ہے اور پھر ان کے ذریعہ کس طرح جنگیں لڑی جاتی ہیں۔       



                                                                                                            

No comments:

Post a Comment