When Leaders Become The Servant
Of Western Interests, People Suffer The Most
“Pakistan’s Hand In The Rise
of International Jihad”
(Carlotta Gall - New York Times)
“U.S. Created The Taliban And Abandoned Pakistan”
(Hillary
Clinton - Dawn News)
مجیب خان
Carlotta Gall خاصے عرصہ پاکستان میں رہی ہیں۔ اور انہوں نے شاید یہ بھی دیکھا ہو گا کہ
پاکستان میں لوگوں کی اکثریت کس قدر جہادیوں کے خلاف تھی۔ Carlotta کے پاکستان میں قیام کے دوران کئی انتخابات بھی ہوۓ تھے ۔ جن میں لوگوں نے
بھاری اکثریت سے مذہبی جماعتوں کو مسترد
کر دیا تھا۔ مذہبی جماعتیں 5 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر سکی تھیں۔ پختون خواہ
صوبے میں جو افغانستان کی سرحد پر ہے اور اس صوبے میں طالبان کا گہرا اثر و رسوخ
بتایا جاتا تھا۔ وہاں بھی صوبے کی سب سے بڑی مذہبی جماعت کو بری طرح شکست ہوئی
تھی۔ جس ملک میں مذہبی جماعتوں کو انتخابات میں پے در پے شکست ہو رہی تھی۔ وہاں عالمی جہاد
فروغ دینے میں پاکستان کس طرح کردار ادا کر سکتا تھا۔
اس جہاد
کی اصل کہانی یہ تھی کہ یہ جہاد سی آئی اے نے سوویت یونین کے خلاف فروغ دیا تھا۔
اور جس طرح آج اسلامی ریاست قائم کرنے کے لئے اسلامی دنیا اور یورپ بھر سے نوجوان
داعش کے ساتھ لڑنے شام جا رہے ہیں۔ اسی طرح 80 کے عشرے میں عرب ملکوں سے نوجوان
بڑی تعداد میں اسلامی ریاست افغانستان کو کمیونسٹ فوجوں سے آزادی دلانے کے لئے سی
آئی اے کے ساتھ مل کر جہاد کرنے پاکستان آۓ تھے۔ اور پاکستان نے ان جہادیوں کو
تربیت دینے میں سی آئی اے کی مدد کی تھی۔ انہیں اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت
دی تھی۔ بڑی طاقتوں کے مفاد میں چھوٹے ملک جب Bully بن جاتے ہیں۔ تو پھر ہمیشہ کے لئے
مجرم بن جاتے ہیں۔ جہاد کو فروغ دینے کا الزام اب پاکستان کے ساتھ لگا رہے گا۔
حالانکہ پاکستان میں جو لوگ اس وقت جہادیوں کے خود کش حملوں کا شکار بنے ہو
ۓ ہیں۔ انہوں نے افغانستان میں پاکستان کی مداخلت کرنے کی پالیسی کی سخت مخالفت کی
تھی۔ انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر سی آئی اے کے جہادیوں کو تربیت دینے کے کیمپوں
کی مخالفت کی تھی۔ پاکستان میں جنرل ضیا الحق کی آمرانہ رجعت پسند حکومت تھی۔ اور
پاکستان جنرل ضیا الحق کی حکومت میں دراصل داعش کی اسلامی ریاست بن گیا تھا۔ عراق
اور شام میں داعش کے زیر کنڑول علاقوں میں اس وقت شہریوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا
ہے۔ ایسا سلوک جنرل ضیا الحق کی حکومت میں روشن خیال، اعتدال پسند اور لبرل خیال لوگوں
کے ساتھ ہو رہا تھا۔
میں
اس وقت کراچی یونیورسٹی میں تھا۔ تعلیمی اداروں میں اسلامی جمیعت طلبہ اس وقت
بالکل یہ ہی کچھ کر رہی تھی جو وزیر ستان اور سوات میں طالبان کر رہے تھے۔ اسلامی
جمیعت طلبہ کو جنرل ضیا الحق کی سرپرستی حاصل تھی۔ ہر طرف اس نے خوف و ہراس کا
ماحول پیدا کر دیا تھا۔ تعلیمی اداروں میں مخالفین کو قتل کیا جا رہا تھا۔ شام اور
عراق میں آج جو داعش کے ظلم و بربریت کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں ہم 80 کے
عشرے میں اس کا سامنا کر چکے ہیں۔ پاکستان
میں یہ سب کچھ امریکہ کے واچ میں ہو رہا تھا۔ لیکن اس وقت انہیں فریڈم فائٹر کہا
جاتا تھا۔ Selig Harrison جنوبی ایشیا امور میں مہارت رکھتے تھے۔ اور امریکی تھنک تھینکس Carnegie endowment میں اسکالر تھے۔ Selig Harrison بلوچستان پر کتاب
لکھ رہے تھے۔ اور اس مقصد میں ان کا اکثر پاکستان آنا رہتا تھا۔ بلوچ رہنماؤں اور بلوچ
اسٹوڈینس آرگنائزیشن کے رہنماؤں سے
انٹرویو کرنے پاکستان آتے تھے۔ پروفیسر شمیم اختر صاحب اور ڈاکٹر منظور ادین احمد صاحب
سے Selig کے خاصے اچھے تعلقات تھے۔ ڈاکٹر منظور صاحب کے
کمرے میں میری اس سے ملاقات ہوئی تھی۔ پروفیسر شمیم اختر صاحب نے میرا تعارف اس سے
کرایا تھا۔ میں یونیورسٹی میں نئی نسل کے نام سے اخبار نکالتا تھا۔ شمیم صاحب نے مجھے اس سے
انٹرویو کرنے کا کہا۔ میں نے Selig سے انٹرویو کے لئے وقت مانگا اور اس نے اسی روز تین بجے اپنے ہوٹل میں
ملاقات کا وقت دے دیا۔ ہوٹل میں اس کے کمرے میں اس سے ملاقات میں سب سے پہلے میں نے
یہ سوال کیا کہ تمہاری حکومت جنرل ضیا کی آمرانہ حکومت کی جو ایک سخت گیر مذہبی
اور انتہائی رجعت پسند ہے اس کی حمایت کیوں کر رہی ہے۔ پھر تمہاری حکومت افغانستان
میں یہ کیا کر رہی ہے۔ کن لوگوں کو جہاد کی تربیت دے رہی ۔ یہ مذہبی انتہا پسند
ہمارے لئے سب سے بڑا خطرہ بنے ہوۓ ہیں۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں یہ ہمیں مار
رہے ہیں۔ انہوں نے ہر طرف خوف و ہراس پیدا کر رکھا ہے۔ انہوں نے ہماری زندگیاں
اجیرن کر دی ہیں۔ Selig میری یہ باتیں خاموشی سے سنتا رہا۔ پھر میری طرف مسکراتے ہوۓ کہا "
This is our government interest” یہ سن کر میں نے موضوع بدل دیا اور اس پر کوئی بات نہیں کی۔ کیونکہ جنرل
ضیا بھی امریکہ کے
Interest میں کسی کی بات سننے کے لئے تیار نہیں تھے۔ لیکن پاکستان interest کی اس سیاست میں F--ked up ہو گیا تھا۔
سابق
سیکریٹری اف اسٹیٹ ہلری کلنٹن نے کانگرس کی کمیٹی کے سامنے اوبامہ انتظامیہ کی خارجہ
پالیسی پر بیان دیتے ہوۓ یہ اعتراف کیا ہے کہ پاکستان آج جن مصائب میں ہے۔ اسے
پیدا کرنے میں امریکہ کا بھی ایک حصہ ہے۔ ہلری کلنٹن نے اس کی وضاحت میں کہا کہ کس
طرح پاکستان میں انتہا پسندی کا تعلق امریکہ کی پشت پنا ہی میں افغانستان میں سو
ویت یونین کے خلاف پروکسی جنگ سے تھا۔ ہم پاکستانیوں کی طرف انگلیاں اٹھاتے ہیں۔
بڑی صاف گوئی سے میں نے بھی یہ کیا تھا۔ اور وجہ یہ تھی کیونکہ ہمیں ان پر یہ شبہ
ہو رہا تھا کہ آخر وہ ان لوگوں سے نمٹنے آگے کیوں نہیں آ رہے تھے۔ پاکستان دنیا کے
لئے ایک مہلک خطرہ بنا ہوا ہے۔ لیکن اب ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے۔ کسی حد تک ہمیں
بھی اس میں معاونت کرنے کی ذمہ داری قبول کرنا چاہیے۔ ہماری پاکستان میں جانے اور
نکل آنے کی ایک تاریخ ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہم جن لوگوں سے آج لڑ رہے
ہیں۔ ہم نے بیس سال قبل ان کی مالی معاونت کی تھی۔ اور ہم نے یہ اس لئے کیا تھا
کیونکہ ہم سو ویت یونین کے ساتھ محاذ آرا ئی میں بندھے ہوۓ تھے۔ انہوں نے
افغانستان پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور ہم وسط ایشیا پر ان کا کنٹرول دیکھنا نہیں
چاہتے تھے۔ اور ہم اس کے خلاف کام کرنے آ گیے تھے۔ اور یہ صدر ریگن تھے۔ جنہوں نے کانگرس میں ڈیموکریٹ
کے ساتھ مل کر کہا کہ یہ کتنا اچھا آئیڈ یا ہے کہ آئی ایس آئی اور پاکستان کی فوج
سے ڈیل کی جاۓ اور ان مجاہدین کو بھرتی کیا جاۓ۔ انہیں سعودی عرب اور دوسرے ملکوں
سے آنے دیا جاۓ۔ ان کے وہابی برانڈ اسلام کو درآمد ہونے دیا جاۓ۔ اور پھر ہم سو
ویت یونین کو شکست دے سکتے ہیں۔ اور پھر کیا ہوا۔ سو ویت دستبردار ہو گیے تھے۔
انہیں کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ اور اس کے نتیجے میں سو ویت یونین ختم ہو گیا
تھا۔ چنانچہ یہ بہت مضبوط دلیل ہے کہ سو ویت یونین کو شکست دینے میں یہ انویسمینٹ
برا نہیں تھا۔ لیکن اس میں ذرا محتاط ہونا
چاہیے۔ ہم نے جو بویا تھا۔ اس کی یہ فصل تھی۔
چنانچہ ہم پاکستان سے چلے گیے تھے۔ ہم نے کہا Okay fine اب تم Stingers سے ڈیل کرو۔ جو ہم ہر طرف تمہارے ملک میں چھوڑ گیے تھے۔ تم Mines سے ڈیل کرو جو تمہاری سرحد پر ہیں۔ اور یہ کہ ہم تم سے کوئی تعلق رکھنا
نہیں چاہتے ہیں۔ ہم تم پر بندشیں لگا رہے ہیں۔ تاکہ ہمارا پاکستانی فوج اور آئی
ایس آئی سے تعلق ختم ہو جاۓ۔ اور ہم نے جو وقت گنوار دیا تھا۔ اب اسے پورا کر رہے
ہیں۔
امریکہ نے اپنے دروازے جب بند کر دئیے تھے۔ تو پھر پاکستان میں سعود یوں
اور خلیج کے حکمرانوں کے مفادات کے دروازے کھل گیے تھے۔ اور پاکستان کی قیادت اب
ان کے مفادات میں کام کرنے لگی تھی۔ سعودی اور خلیج کی ریاستوں کو یہ خدشہ تھا کہ
سو ویت یونین ختم ہونے کے بعد وسط ایشیا کی نو آزاد ریاستوں میں امریکہ کی دلچسپی
بڑھ رہی تھی۔ اور انہیں خلیج میں امریکہ کی دلچسپی ختم ہوتی نظر آ رہی تھی۔ وسط
ایشیا تیل اور قدرتی گیس کے وسائل سے مالا مال تھا۔ اور امریکہ کو ان وسائل کا
استحصال کرنے کے سنہری مواقع دکھائی دے رہے تھے۔ کلنٹن انتظامیہ نے بحرہ کسپین اور
وسط ایشیا کو امریکہ کے مفادات میں شامل
کر لیا تھا۔ اس سیاست کے پس منظر میں خلیج کی ریاستوں نے پاکستان کے ذریعے
افغانستان میں جہادیوں کو وسط ایشیا میں اپنی وہابی تحریک میں استعمال کرنا شروع
کر دیا تھا۔ اور اس طرح وسط ایشیا کو عدم استحکام کیا جا رہا تھا۔ تاکہ امریکہ پھر
وسط ایشیا کی طرف رخ نہیں کرے گا اور خلیج میں امریکہ کے مفادات ان کے مفادات سے منسلک
رہیں گے۔ اس مقصد میں خلیج کے حکمرانوں نے پاکستان میں کھربوں ڈالر خرچ کیے تھے۔
پاکستان کی مدد سے افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ سعودی عرب، کویت
اور خلیج کے دوسرے ملکوں نے طالبان حکومت کو تسلیم کرلیا تھا۔ پاکستان اب ایک طرف
اسلامی انتہا پسندوں میں پھنس گیا ہے۔ اور دوسری طرف پاکستان بیرونی مفادات کی
سیاسی دلدل میں دھنس گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment