Saturday, February 27, 2016

Winner And Savior Of The Syrian People


Winner And Savior Of The Syrian People

Losers Of Libya



Losers Of Iraq  



Indispensable Leader Of The Free World


Allies In Human Destruction


مجیب خان

      
       بلا آخر ان ملکوں کو اب اس راستہ پر آنا پڑا ہے جو شام کے تنازعہ کو حل کرنے میں خانہ جنگی کو فروغ دے رہے تھے۔ جبکہ مہذب انسانیت ایک ہزار آٹھ سو پچیس دن سے یہ مطالبہ کر رہی تھی کہ شام کے تنازعہ کا حل فوجی ہتھیاروں کے استعمال میں نہیں ہے۔ یہ سیاسی تنازعہ ہے۔ اور اسے سیاسی طور پر حل کیا جاۓ۔ لیکن شام کو تباہ کرنے کے بعد، لاکھوں خاندانوں کو تباہ کرنے کے بعد، بچوں کا مستقبل تباہ کرنے کے بعد امریکہ اور اس کے عرب اتحادی اب شام کے مسئلہ کے سیاسی حل کے راستہ پر آ گیے ہیں۔ آخر انہوں نے حاصل کیا کیا ہے؟ کیا شام کی خانہ جنگی سے یہ دنیا کو Entertain کر رہے تھے؟ اس خانہ جنگی نے شام میں کئی نسلوں کو تباہ کر دیا ہے۔ پانچ سال ایک بہت بڑا عرصہ تھا۔ اگر یہ اپنے تمام تر وسائل کے باوجود پانچ سال تک شام میں تنازعہ کا کوئی حل دریافت نہیں کر سکے ہیں اور بری طرح ناکام ہو گیے ہیں۔ انہیں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا چاہیے۔ اور راستہ سے ہٹ جانا چاہیے۔ اور اب دوسروں کو شام کے تنازعہ کو حل کرنے کا موقعہ دیا جاۓ۔ یہ بڑے دکھ اور تکلیف کی بات ہے کہ پانچ سال میں شام میں ان کے واچ میں تین لاکھ لوگ ہلاک ہو گیے تھے۔ لیکن یہ اسلامی انتہا پسندوں کی پشت پنا ہی کرتے رہے انہیں ہتھیار اور تربیت دیتے رہے۔ لیکن اس انسانیت کو بچانے کے لئے انہوں نے کچھ نہیں کیا تھا۔
       سرد جنگ ختم ہونے کے صرف 25 برسوں میں دنیا کے مختلف حصوں میں ایسی خونی جنگی میں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گیے تھے۔ اور اس وقت بھی دنیا نے اس انسانیت کو بچانے کے لئے کچھ نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر سلامتی کونسل میں کیمروں کے سامنے ان قوموں نے یہ عہد کیا تھا کہ آئندہ انسانی بحران کی صورت میں فوری مداخلت کی جاۓ گی اور انسانیت کو بچایا جاۓ گا۔ لیکن پھر دیکھا یہ گیا تھا کہ جن قوموں نے سلامتی کونسل میں یہ عہد کیا تھا وہ شام میں انسانی ہلاکتوں کا تماشہ دیکھ رہی تھیں۔ تین لاکھ شامی ہلاک ہو گیے تھے۔ دو ملین شامی بے گھر ہو گیے ہیں۔ اور یہ Human destruction of the century ہے۔ صدر پو تن اگر شام میں یہ بر وقت مداخلت نہیں کرتے تو انسانیت نیست و نا بود ہو رہی تھی۔ شام پر امریکہ بمباری کر رہا تھا۔ شام پر برطانیہ اور فرانس بمباری کر رہے تھے۔ شام پر ترکی بمباری کر رہا تھا۔ شام کی حکومت کے مخالف باغیوں کے ہاتھوں میں مہلک ہتھیار تھے۔ پھر ان باغیوں کے اندر ان کے باغیوں کے پاس ہتھیار تھے۔ خانہ جنگی کے اندر خانہ جنگی ہو رہی تھی۔ پھر ان باغیوں کے خلاف داعش نے خانہ جنگی شروع کرد ی تھی جو شام میں خلافت قائم کرنا چاہتے تھے۔ پھر امریکہ نے داعش کے خلاف شام میں اپنی جنگ شروع کر دی تھی۔ اور اسد حکومت کے باغیوں سے پہلے داعش سے لڑنے کا کہا گیا تھا۔
       اسد حکومت کے خلاف باغیوں کے اتنے زیادہ گروپ بن گیے تھے۔ کہ کسی کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ کون کس کے خلاف لڑ رہا تھا۔ دہشت گروپ کون سے تھے؟ داعش کے خلاف کون سے گروپ تھے۔ اور داعش کے ساتھ کون سے گروپ لڑ رہے تھے۔ ان میں سے بعض گروپوں کی سعودی عرب پشت پنا ہی کر رہا تھا۔ کچھ گروپوں کو ترکی کی حمایت حاصل تھی۔ جس میں داعش بھی شامل تھا۔ جبکہ کچھ گروپوں کی امریکہ مدد کر رہا تھا۔ خانہ جنگی جتنی طویل ہوتی جا رہی تھی۔ اتنے ہی زیادہ نئے گروپ بنتے جا رہے تھے۔ شام میں لڑنے والے گروپوں میں شامل ہونے کے لئے دنیا بھر سے لوگ آ رہے تھے۔ شام میں خانہ جنگی نہیں تھی۔ خانہ جنگی کا ایک میلہ لگا ہوا تھا۔ امریکی میڈیا میں شور مچا ہوا تھا کہ داعش میں بھرتی ہونے والوں کی قطار لگی ہوئی ہے۔ لیکن امریکہ سے کوئی یہ سوال نہیں کر رہا تھا کہ شام میں خانہ جنگی کو ان حالات میں کیوں اتنا طول دیا گیا تھا کہ جب دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی جاری تھی۔ یورپ اور شمالی امریکہ سے شام کی خانہ جنگی میں حصہ لینے کے لئے جانے والوں کے خلاف جب حکومتوں نے سختی کرنا شروع کر دی تھی۔ تو پھر روس کی فوجیں شام میں حکومت کے باغیوں سے لڑنے آ گئی تھیں۔
        داخلی خانہ جنگی کو دراصل دہشت گردی کو فروغ دینے کے مقاصد میں استعمال کیا گیا ہے۔ اس لئے شام کی خانہ جنگی کا پانچ سال سے کوئی سیاسی حل نہیں ڈھونڈا گیا تھا۔ اسلامی انتہا پسندوں کو ہتھیار دئیے جا رہے تھے۔ اور تربیت دی جا رہی تھی۔ اسی طرح لیبیا میں حکومت ختم کر کے تمام اداروں کو تباہ کر دیا تھا۔ اور لیبیا کو اسلامی انتہا پسندوں کے حوالے کر دیا تھا۔ پانچ سال سے لیبیا میں داخلی انتشار اور خانہ جنگی کے حالات دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں۔  اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ دہشت گردی زندہ ہے۔ دہشت گردی کی جنگ کو سرد جنگ کا Substitute بنایا گیا ہے۔ اور اسے پچاس سال تک اسی طرح جاری رکھا جاۓ گا۔ امریکہ کی مشرق وسطی پالیسی، شام پالیسی، عراق پالیسی، لیبیا پالیسی، افغان پالیسی میں اس کے واضح ثبوت نظر آ رہے ہیں۔
        اسلامی انتہا پسندی کا epic center کہاں تھا ؟ مشرق وسطی۔ نائن ایلون کی دہشت گردوں کا تعلق کہاں سے تھا ؟ مشرق وسطی۔ اسامہ بن لادن کا تعلق کہاں سے تھا ؟ مشرق وسطی۔ پھر یہاں امریکہ نے کیا کیا تھا ؟ امریکہ نے سب سے پہلے عراق پر حملہ کر کے ایک ایسی سیکولر حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا جو چالیس سے اسلامی انتہا پسندوں سے لڑ رہی تھی۔ اور اب امریکہ اور اس کے اتحادی چالیس سال تک عراق میں اسلامی انتہا پسندوں سے لڑیں گے۔ انہیں ان سے لڑتے 13 سال ہو گیے ہیں۔ اور ابھی 27 سال اور لڑنا ہے۔ کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔
       پھر لیبیا میں کیا کیا ہے ؟ وہاں بھی ایک سیکولر حکومت کا خاتمہ کر کے معمر قدافی کو بھوکے اسلامی انتہا پسندوں کے سامنے پھینک دیا تھا۔ اور اسلامی انتہا پسندوں کو اپنی دہشت گردی کو فروغ دینے کے لئے ایک نیا گھر دے دیا تھا۔ انہیں نیا گھر بنا کر دینے کے بعد پھر امریکہ اور اس کے اتحادی شام آ گیے تھے۔ شام کو انہوں نے اسلامی دہشت گردوں کی فیکٹری بنا دیا تھا۔ جہاں انہیں تربیت لینے کی مفت سہولتیں فراہم کی گئی تھیں۔ انہیں ہتھیار بھی مفت دئیے گیے تھے۔ شام کی اس فیکٹری کے تربیت یافتہ اب ساری دنیا میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ اور امریکی اور مغربی میڈیا کا کہنا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کا تہیہ کر لیا ہے۔ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ اور امریکہ نے اسی لیبیا پر جس پر بمباری کر کے  قدافی کو اقتدار سے ہٹایا تھا اب بمباری کر کے چالیس اسلامی دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ اور یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے۔ جو ختم کرنے کی نہیں جاری رکھنے کی جنگ ہے۔
       روس کا شام میں کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے۔ نہ ہی روس کا دہشت گردی کی جنگ جاری رکھنے میں کوئی مفاد ہے۔ انسانیت کی بقا کے مفاد میں روس نے شام میں مداخلت کی ہے۔ صدر بشر السد کا دل اپنے ملک کو کھنڈرات میں دیکھ کر روتا ہو گا۔ انہیں اپنے عوام کو تکلیفوں اور اذیتوں میں دیکھ کر بھی رونا آتا ہو گا۔ ان کے ملک اور عوام کے خلاف ان کے نام نہا د برادر عرب حکمرانوں نے یہ سازش کی ہے۔ جنہوں نے صدر اسد سے بھی زیادہ اپنے ظالم اور جابر ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے عراق کے خلاف سازشوں میں تعاون کیا تھا۔ انہوں نے لیبیا کے خلاف سازشوں میں حصہ لیا تھا۔ Genuine مسلم اس تاریخ کو کبھی فراموش نہیں کریں گے۔ صدر اسد نے روس کے صدر ویلادیمر پوتن کو جنگ بندی معاہدے پر اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے۔ جنہوں نے شام کو کھنڈرات بنایا ہے ۔ امید ہے مہذب انسانیت ان کے اور ان کے اتحادیوں کے عزائم کبھی پورے نہیں ہونے دے گی۔  

       

No comments:

Post a Comment