Tuesday, March 1, 2016

Arab-Christians Are Victims Of Christian-American Politics In The Arab World

Muslims And Christians In The Middle East

Arab-Christians Are Victims Of Christian-American Politics In The Arab World   

مجیب خان

Pope Francis And Patriarch Kirill
Russian President Vladimir Putin And Patriarch Kirill   
        سرد جنگ کے دوران پچاس سال تک دنیا کو صرف یہ بتایا جاتا تھا کہ سوویت یونین ایک کمیونسٹ ملک ہے۔ اور مذہب سوویت یونین میں ممنوع ہے۔ لوگوں کو اپنے عقیدے کے مطابق مذہبی فرائض ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن پھر سرد جنگ ختم ہونے کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی تھی کہ روس میں ہر مذہبی عقیدے کی تمام قدیم عبادت گاہیں موجود تھیں۔ اور کمیونسٹوں نے انہیں تباہ نہیں کیا تھا۔ اور لوگ اپنے عقیدے کے مطابق مذہبی فرائض انجام دیتے تھے۔ ماسکو میں خاصی بڑی تعداد میں مسلمان تھے۔ یہاں ان کی تاریخی مسجدیں بھی تھیں۔ لیکن افغانستان میں سوویت فوجوں کے دوران جیسا کہ مغربی میڈیا کا پراپگنڈہ یہ ہوتا تھا کہ سوویت فوجیں افغانستان میں مسجدیں تباہ کر رہی تھیں جبکہ ان کے اپنے ملک میں مسجدیں کھڑی تھیں۔
      سوویت یونین میں Orthodox عیسائی تھے اور اس وقت بھی ہیں۔ اور یہاں ان کے قدیم اور تاریخی Orthodox چرچ تھے۔ اور کمیونسٹ دور میں انہیں تباہ نہیں کیا تھا اور یہ آج بھی ہیں۔ Orthodox  عیسائی کتھو لک عیسائوں کے مقابلے میں زیادہ قدامت پسند ہیں۔ دنیا میں اس وقت 1.2 بلین کتھو لک ہیں۔ جبکہ Orthodox عیسائی تقریباً 150 ملین ہیں۔ اور مشرق میں پھیلے ہوۓ ہیں۔ اس لئے ان کی اس تقسیم کو کرسچین آف ایسٹ اور کرسچین آف ویسٹ کہا جاتا ہے۔ روسی Orthodox چرچ کے رہنما Patriarch Kirill  ہیں۔ اور کتھو لک کے رہنما پوپ فرانسس ہیں۔
      سرد جنگ دور میں دنیا میں اطلاعات کے وسائل کیونکہ بہت محدود تھے۔ مغربی میڈیا دنیا پر چھایا ہوا تھا۔ اور یہ میڈیا اپنے مفادات کے مطابق دنیا کے آگے خبروں اور معلومات کو چارہ کی طرح ڈال دیتا تھا اور دنیا اسے آسانی سے ہضم کر لیتی تھی۔ بی بی سی، وائس آف امریکہ، اور مغربی جرمنی کا Deutsche Welle اس دور کے سوشل میڈیا تھے۔ دنیا صرف انہیں سنتی تھی۔ اور اس پر یقین کرتی تھی۔ پھر سرد جنگ ختم ہو گئی۔ پچاس سال سے دنیا کو جو بتایا جا رہا تھا روس میں لوگ اس کے بالکل برعکس نظر آۓ تھے۔ مذاہب روس میں جیسے کبھی ختم نہیں ہوۓ تھے۔ لوگ اتنے ہی مذہبی تھے جتنے دنیا کے دوسرے حصوں میں تھے۔ 70 سال تک اشتراکیت کے نظام میں زندگی بسر کرنے کے بعد بھی مذہب میں روسیوں کا ایمان پختہ تھا۔ صدر ویلا دیمر پوتن سوویت یونین میں کے جی بی کے لئے کام کرتے تھے۔ لیکن صدر پوتن مذہب میں یقین رکھتے ہیں اور مذہبی قدامت ہیں۔ چار سال قبل Patriarch Kirill نے صدر پوتن کو یہ ہدایت کی تھی کہ شام کو کسی صورت میں گرنے نہیں دیا جاۓ۔ اسے بچایا جاۓ۔ اور صدر پوتن نے Patriarch کی ہدایت کے مطابق شام میں مداخلت کی ہے اور اسے بچایا ہے۔ شام ان ہاتھوں میں نہیں دیا جاۓ گا جو پانچ سال سے شام میں خون خرابہ کر رہے ہیں۔ اور جنہوں نے شام میں تاریخی اثاثے تباہ کیے ہیں۔ شام سیکو لر ہو گا اور سیکولر رہے گا۔
      تقریباً 60 سال تک مغربی میڈیا نے یورپ اور امریکہ میں لوگوں کو Misinform رکھا تھا۔ کرسچین آف ویسٹ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ کتنی بڑی تعداد میں کرسچین آف ایسٹ عرب دنیا میں آباد تھے۔ اور یہ son of the soil تھے۔ یہ عراق میں تھے، یہ شام میں تھے، یہ اردن میں تھے، یہ مصر میں تھے، یہ فلسطین میں تھے، یہ لیبیا میں تھے، یہ یمن میں بھی تھے۔ لیکن امریکہ اور یورپ کے لوگوں کو صرف یہ تاثر دیا گیا تھا کہ عربوں کی جو مسلمان ہیں۔ اسرائیلیوں سے ان کی جنگ ہے جو یہودی ہیں۔ امریکہ میں لوگوں کو یہ تک معلوم نہیں تھا کہ فلسطینی عیسائی بھی ہیں۔ اور فلسطینی مسلمان اور فلسطینی عیسائی پی ایل او میں چیرمین یا سر عرفات کی قیادت میں متحد تھے اور فلسطین کی آزادی کے لئے جد و جہد کر رہے تھے۔ اور دنیا بھر میں مسلمان مسجدوں میں فلسطین کی آزادی کے لئے دعائیں کرتے تھے۔ اسرائیلی عیسائی فلسطینیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرتے تھے جیسا مسلمان فلسطینیوں کے ساتھ سلوک کرتے تھے۔ انہیں بھی گھروں سے بید خل کرتے تھے۔ لیکن مغربی میڈیا میں اسے شیعہ سنی لڑائی کی طرح نہیں بیان کیا جاتا تھا۔ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی جنگ کو صرف فلسطینیوں کی لڑائی بتایا جاتا تھا۔ یہ نہیں کہا جاتا تھا کہ اسرائیل کے خلاف عیسائی فلسطینی بھی اس جنگ میں برابر کے شامل تھے۔ اگر اس وقت یہ سوشل میڈیا ہو تا اور یورپ اور امریکہ کے لوگوں کو یہ میڈیا یہ بتاتا کہ عیسائی فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی سلوک  مسلمان فلسطینیوں سے مختلف نہیں تھا تو اس بحران کی سیاست ضرور بدل جاتی۔
      سرد جنگ ختم ہونے کے بعد دنیا کی توجہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اور یہ احساس بھی ہو رہا تھا کہ یورپ اور امریکہ کی راۓ عامہ کے علم میں اب یہ آۓ گا کہ فلسطینی عیسائی بھی اس تنازعہ کا حصہ ہیں۔ اس خدشہ کے نتیجہ میں فلسطینیوں کی ایک  نئی تنظیم حما س کے نام سے وجود میں آئی تھی ۔ اس کے قیام میں سعودی عرب اور خلیج کی ریاستوں کا ایک بڑا رول تھا۔ 1993 میں اسرائیل نے پی ایل او کے چیرمین یا سر عرفات کے ساتھ اوسلو معاہدہ کر لیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے مغربی کنارے اور غازہ کا انتظام پی ایل او کے حوالے کر دیا تھا۔ حما س نے اس معاہدے کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ مغربی میڈیا میں حماس کو ایک انتہا پسند اسلامی تنظیم ثابت کیا جا رہا تھا۔ عیسائی فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی سلوک پس پردہ چلا گیا تھا۔ حما س اور اسرائیل کی لڑائی دنیا کے ریڈار پر تھی۔ حما س کے ساتھ حزب اللہ کو بھی اس لڑائی میں شامل کر لیا تھا۔ جو اسرائیل پر حملہ کر رہے تھے۔ لیکن حما س کا فلسطینی عیسائوں کے ساتھ اور حزب اللہ کا لبنانی عیسائوں کے ساتھ تعلقات کو مغربی میڈیا نے بلیک آوٹ کر دیا تھا۔ حالانکہ حزب اللہ لبنان میں عیسائی لبنا نیوں کے ساتھ حکومت میں شامل ہے۔ اور لبنان میں عیسائی اکثریت میں ہیں۔ لبنانی عیسائی حزب اللہ کو لبنان کی سیکورٹی کے لئے ایک اہم فوج کا درجہ دیتے ہیں۔ جس نے اسرائیل سے جنگ لڑی تھی اور لبنان کے علاقہ اسرائیل سے آزاد کراۓ تھے۔ حما س اور حزب اللہ نے عیسائوں کو عرب دنیا سے نکالنے کی کبھی بات نہیں کی ہے۔ لیکن صرف اسرائیل کے کہنے پر امریکہ نے حما س اور حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دے دیا ہے۔
      مغربی میڈیا بالخصوص امریکی میڈیا میں صدام حسین کے دور میں عراق میں عیسائوں کے ساتھ سلوک کے بارے میں کبھی نہیں بتایا تھا کہ عراقی عیسائوں کے ساتھ صدام حسین نے کتنا ظلم کیا تھا۔ یا انہیں عراق میں کتنی آزادی دی تھی۔ اور انہیں کس قدر مذہبی حقوق حاصل تھے۔ امریکی میڈیا میں صرف شیعاؤں اور کردوں کے ساتھ ظلم کی داستانوں کو خوب اچھالا جاتا تھا ۔ لیکن عراقی عیسائوں کے ساتھ صدام حسین کے برتاؤ کا کوئی ذکر نہیں ہوتا تھا۔ صدام حسین کو انتہائی خطرناک انسان ثابت کرنے کی من گھڑت خبریں دی جاتی تھیں۔ صدر بش اور ان کی سیکورٹی ٹیم کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ عراق میں عیسائوں کی کتنی بڑی آبادی تھی۔ لوگوں سے نفرت بھی انسانوں کو جاہل بنا دیتی ہے۔ کسی تھنک تھینکس نے بھی یہ تجزیہ نہیں کیا تھا کہ عراق کو عدم استحکام کرنے سے مشرق وسطی میں آباد عیسائوں کے لئے اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ ان کے تجزیہ صرف یہ ہوتے تھے کہ صدام حسین کے اقتدار میں رہنے سے خطہ میں امریکہ کے اتحادیوں اور اسرائیل کے لئے کیا خطرے ہوں گے؟
      کسی عیسائی ملک نے افریقہ میں عیسائی ملکوں کی اقتصادی ترقی، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اتنی مدد نہیں کی تھی کہ جتنی صدر معمر قدافی نے اپنے تیل کی دولت سے افریقہ کے عیسائی ملکوں کی مدد کی تھی۔ مغربی طاقتوں نے افریقہ کے عوام کی دولت کو لوٹا تھا۔ ان کے وسائل کا صرف استحصال کیا تھا۔ لیکن صدر قدافی نے ان کا کبھی استحصال نہیں کیا تھا۔ ایک مسلمان سربراہ افریقہ کے عیسائوں کو اقتصادی ترقی اور خوشحالی میں آگے لانے میں مدد کر رہا تھا۔ مغربی میڈیا نے قدافی کے اس رول پر کبھی نہیں لکھا تھا۔ صرف قدافی کا Character assassination ہوتا تھا۔ صدر ریگن نے قدافی کو انڑنیشنل دہشت گرد کا خطاب دیا تھا۔ مہذب قومیں شخصی نفرت میں گر کر اتنی نیچے آ گئی تھیں۔ لیکن یہ افریقہ کے عیسائی سربراہان تھے جو جہاز بھر کر صدر نیلسن منڈیلا کی قیادت میں تریپولی آۓ تھے۔ اور انہوں نے لیبیا پر امریکہ کی بندشوں کو توڑا تھا۔ یہ وہ اسلامی رہنما تھے جنہوں نے مسلمانوں میں عیسائوں سے نفرت پیدا کرنے کی سیاست کبھی نہیں کی تھی۔ یہ کرسچین آف ویسٹ ہیں جن کی پالیسیاں عرب دنیا میں کرسچین آف ایسٹ کی تباہی کا سبب بنی ہیں۔  



No comments:

Post a Comment