Tuesday, March 8, 2016

Crisis Of Common Sense

Pakistan: Lack Of Discipline In Politics

Crisis Of Common Sense

مجیب خان



      جو اقتدار میں ہیں اور جو اپوزیشن میں ہیں انہیں ادارے اس لئے حدود میں نظر نہیں آتے ہیں کہ ان میں سیاسی ڈسپلن نہیں ہے۔ اور وہ سیاسی غیر ذمہ دار ہیں۔ اور یہ صرف مخصوص مفادات کی سوچ رکھتے ہیں۔ جس میں یہ لا پروا ہو جاتے ہیں۔ ان کی سیاست میں جمہوریت اتنی نہیں ہے کہ جتنی زیادہ مفاد پرستی ہے۔ حالانکہ یہ ایک بار اقتدار میں نہیں آۓ ہیں۔ بلکہ کئی بار اقتدار میں آۓ ہیں۔ فوج نے انہیں ایک دہائی اقتدار سے دور بھی رکھا تھا۔ کہ شاید یہ کچھ سیکھیں گے کہ جمہوریت   کس طرح کام کرتی ہے۔ انہیں برطانیہ اور امریکہ جانے کی اجازت بھی دے دی تھی کہ شاید یہ وہاں حکومت کرنے کے کچھ کورس کریں گے۔ لیکن ایک دہائی کے بعد جب یہ پھر اقتدار میں آۓ ہیں۔ ان کی دمیں پھر بھی سیدھی نہیں ہوئی ہیں۔ ایسی صورت میں انہیں ادارے کبھی بھی حدود میں نظر نہیں آئیں گے۔ اداروں کو حدود میں رکھنے کی سیاست دوسری ہوتی ہے۔ جس میں یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی ہے کہ ادارے اپنی حدود میں رہیں۔ سیاستدان خواہ اقتدار میں ہوں یا اپوزیشن میں جب وہ ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہیں۔ تو ادارے بھی اپنے حدود میں ذمہ داری سے کام کرتے ہیں۔
      پاکستان کی تاریخ میں فوج نے ایک طویل عرصہ حکومت کی ہے۔ اور فوج نے اداروں کو حدود میں رہنے کی تربیت بھی کی تھی۔ کیونکہ فوج میں ڈسپلن ہوتا ہے۔ اور فوجی تربیت میں ذمہ داری پہلا اصول ہوتا ہے۔ اس لئے فوجی حکومت میں نظم و ضبط بھی تھا۔ اور بیرونی ملکوں میں اس کا اعتراف بھی کیا جاتا تھا۔ پاکستان میں سیاسی حکومتوں میں صرف وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں سیاسی ڈسپلن تھا اور ادارے بھی اپنے حدود میں تھے۔ کیونکہ وزیر اعظم بھٹو میں اداروں کو حدود میں رکھنے کی قابلیت تھی۔ اور ان میں حکومت کرنے کی صلاحیتیں تھیں۔ جنرلوں کو بھی وزیر اعظم بھٹو کی قیادت پر اتنا زیادہ اعتماد تھا کہ وہ گھر جا کر رات کو سکون سے سوتے تھے۔ جنرل خارجہ امور میں داخلی امور میں بھارت کے ساتھ تعلقات میں یا قومی سلامتی امور میں وزیر اعظم بھٹو کو Dictate نہیں کرتے تھے۔ بلکہ انہیں سنتے تھے۔ اور اپنے آپ کو Educate کرتے تھے۔ جب قیادت اتنی قابل اورعظیم ہوتی ہے تو ادارے بھی اس کے ماتحت کام کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
      آصف علی زرداری ایک حادثاتی سیاستدان تھے۔ صدارت جیسے لاٹری میں ان کے نام نکل آئی تھی۔ اگر بے نظیر بھٹو ہوتیں تو اس مرتبہ وزیر اعظم ہاؤس میں شاید ان کا داخلہ ممنوع ہوتا۔ رحمن ملک اور آصف زرداری کے علم میں بھی شاید یہ تھا۔ آصف علی زرداری جس طرح حکومت چلا رہے تھے۔ انہیں تو ایک سال سے زیادہ اقتدار میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔  لیکن امریکہ نے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف  عالمی جنگ کا آغاز کیا تھا اور وہ اس جنگ کو واقعی ایک عالمی جنگ بنانا چاہتے تھے۔ اس لئے  پاکستان کی شمولیت اس جنگ میں اسٹرٹیجک اہمیت رکھتی تھی۔ پاکستانی یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کہ یہ ان کی جنگ تھی۔ لہذا زرداری حکومت کے ذریعے پاکستان سے یہ تسلیم کرایا گیا تھا کہ یہ ان کی جنگ تھی۔ زرداری اقتدار کی جس کرسی پر بیٹھے ہوۓ تھے اسے انہوں نے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ اور اپنے میڈیا کے ذریعے فوج کے خلاف ایک منظم تحریک شروع کر رکھی تھی۔ اور جنرلوں کو ایک نفسیاتی عصابی دباؤ میں رکھا ہوا تھا۔ تاکہ وہ حکومت کے خلاف کوئی Extreme اقدام نہیں کریں۔ بیرون ملک پاکستانی زرداری حکومت میں ملک کے حالات سے خاصے Nervous تھے۔ کہ یہ حکومت بیرونی طاقتوں کے مفاد میں بالکل ننگی ہو گئی تھی۔ اس حکومت نے سرحدیں بند کرنے کے بجاۓ سرحدیں اور کھول دی تھیں۔ کارخانے اور فیکٹر یاں بند ہو رہی تھیں۔ سرمایہ بھارت اور دوبئی منتقل ہو رہا تھا۔ وزیر داخلہ کی حب الوطنی پر شبہ ہونے لگا تھا۔ ملک کو دہشت گردوں کے دھماکوں کی سو نامی کا سامنا تھا۔ اور وزیر داخلہ صرف Cheap talker  تھے- کام کرنا ان کی عادت نہیں تھی۔ ایک ٹھیلے والا ان سے بہتر وزیر داخلہ ہو سکتا تھا۔
      صدر زرداری نے جنرل کیانی کو دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کا ٹھیکہ دے دیا تھا۔ جنرل کیانی کو یہ اختیارات بھی دے دئیے تھے کہ وہ جب چاہیں اور جہاں چاہیں ان کے خلاف کاروائی کریں۔ اور خود بٹیریں، مرغابیاں اور  شیرمالیں کھا رہے تھے۔ وزیر داخلہ مشورے کرنے لندن چلے جاتے تھے۔ فوج سوات اور شمالی وزیر ستان میں آپریشن کر رہی تھی۔ اور ملک میں اہم فوجی تنصیبات پر دہشت گردوں کے حملے ہو رہے تھے۔ فوج کے ہیڈ کوارٹر پر حملے ہو رہے تھے۔ یہ حالات دیکھ کر لوگوں کو نیند نہیں آتی تھی کہ اس ملک کا کیا حال ہونے جا رہا تھا۔ حکومت میں جب لوگوں کا اعتماد ختم ہونے لگتا ہے تو پھر ادارے لوگوں کا اعتماد بحال کرنے اپنی حدود سے باہر آئیں گے۔ اداروں کو حدود سے تجاویز کرنے کا الزام دینے کے بجاۓ سیاستدانوں کو یہ الزام خود اپنے آپ کو دینا چاہیے کہ ان میں اداروں کو حدود میں رکھنے کی صلاحیتیں کیوں نہیں ہیں؟
       پاکستان میں سیاسی حکومتوں کے غیر ذمہ دارانہ Behaviors اور حکومت میں ڈسپلن کا فقدان دیکھ کر واشنگٹن کو بھی پریشانی ہونے لگی تھی۔ کیونکہ پاکستان کے پاس ایٹمی ہتھیار تھے۔ اور زرداری حکومت مذہبی انتہا پسندی کنٹرول کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔ اب نئی حکومت نواز شریف کی تھی۔ جس کے سعود یوں سے قریبی ذاتی تعلقات تھے۔ اور اس حکومت کا القاعدہ اور طالبان سے تعلقات کا ایک ماضی تھا۔ ان حالات کا جائزہ لینے کے بعد واشنگٹن نے پاکستان میں جمہوری عمل کے اندر فوج کے ایک مثبت رول کی اہمیت کو تسلیم کر لیا تھا۔ فوج نے اپنے ادارے میں تبدیلیوں سے یہ اعتماد پیدا کیا ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ دہشت گردوں کو پسپا کرنے میں بھی شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ اس لئے جنرل راحیل شریف مقبول ہیں۔ اور انہیں دنیا میں عزت اور اہمیت ملی ہے۔ اپنا مقام بنانے کے لئے کچھ کام کر کے دیکھنا ہوتے ہیں۔
       زرداری حکومت میں Bull Shit زیادہ تھا۔ اور کام ایک دھیلے کا نہیں ہوا تھا۔ لوگوں کے مسائل بھی یہ گواہی دے رہے تھے۔ اور اب نواز شریف حکومت میں باتیں بہت ہو رہی ہیں۔ لیکن کام کی رفتار گدھا گاڑی کی رفتار سے بھی کم ہے۔ ایران پر سے پابندیاں اٹھ گئی ہیں۔ اور شاہراہ ریشم بھی کھل گئی ہے۔ چین سے پہلی ٹرین سامان لے کر ایران پہنچ چکی ہے۔ لیکن گوادر پورٹ پر کاروبار ابھی تک شروع نہیں ہوا ہے۔ عوام کی منتخب حکومتیں اس طرح کام نہیں کرتی ہیں کہ انہیں بھارت کے تحفظات کا بھی خیال ہے۔ انہیں امریکہ کا بھی خوف ہے۔ انہیں عربوں سے تعلقات کا بھی احساس ہے۔ اس لئے گوادر بند گاہ نہیں کھلے گی۔ اس لئے ایران سے گیس پائپ لائن پر کام نہیں ہو گا۔ اس لئے روس کی مدد سے گیس پائپ لائن بچھانے کا منصوبہ بھی سرد خانہ میں رکھا رہے گا۔ اس لئے قومی مفاد کا کوئی کام نہیں ہو گا؟
       وزیر داخلہ چودھری نثار احمد اور رحمن ملک کا DNA ایک جیسا نظر آتا ہے۔ یہ پارلیمنٹ سے داخلی صورت حال پر اتنا صلح و مشورے نہیں کرتے ہیں کہ جتنے برطانیہ کی وزیر داخلہ سے مشورے کرنے لندن جاتے ہیں۔ اور یہ دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے داخلی سیاسی معاملات Deal کرنے کے لئے برطانیہ کو دے دئیے ہیں۔ اور پاکستان کے فوجی امور امریکہ نے اپنے پاس رکھے ہیں۔ وزیر داخلہ کو یہ مشورہ  کس نے دیا تھا کہ مصطفی کمال نے اپنی پریس کانفرنس میں جو باتیں کی تھیں انہیں وہ پریس کانفرنس کر کے چیلنج کریں۔ یہ اس جماعت کی داخلی سیاست تھی جس کے خلاف وزیر داخلہ فائلیں لے کر برطانیہ کی وزیر داخلہ سے مشورہ کرنے لندن گیے تھے۔ اور یہ ہی چودھری نثار گزشتہ سال پریس کانفرنس میں کراچی میں رینجرز نے آپریشن کے دوران اس جماعت کے خلاف جو ثبوت جمع کیے تھے اس کی تفصیل بیان کر رہے تھے۔ مصطفی کمال ایک گواہ تھے۔ اور حکومت کا کام گواہوں کو عدالت میں پیش کرنا ہوتا ہے۔ ان کے Credible ہونے کا فیصلہ عدالت کرتی ہے۔ یہ کام وزیر داخلہ کا نہیں ہوتا ہے۔ لیکن وزیر داخلہ چودھری نثار ایم کیو ایم کی صفائی میں جیسے مصطفی کمال کو چیلنج کر رہے تھے۔ اس معاملے میں برطانیہ کا Involvement کس قدر ہے؟
        


                 

No comments:

Post a Comment