Tuesday, March 15, 2016

Election In America: This Is A Very Unique Election Campaign That The World Has Never Seen Before

The American Awakening

Election In America: This Is A Very Unique Election Campaign That The World Has Never Seen Before

مجیب خان
   

           پچھلے جمعہ کو شکاگو میں صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ کی ایک بہت بڑی انتخابی ریلی تھی۔ جس سے ڈونالڈ ٹرمپ خطاب کرنے آ رہے تھے۔ تقریباً 30 ہزار کا مجمع تھا۔ شام کو آٹھ بجے ڈونالڈ ٹرمپ کے ریلی سے خطاب سے قبل ڈونالڈ ٹرمپ کے مخالفین بھی یہاں جمع ہو گئے تھے۔ انہوں نے پہلے نعرے بازی شروع کر دی تھی۔ اس کے جواب میں ڈونالڈ ٹرمپ کے حامی بھی نعرے لگانے لگے۔ پھر مجمع میں ہلڑ بازی ہونے لگی۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے حامیوں اور مخالفین میں ہا تھا پائی ہونے لگی۔ بالاآخر سیکورٹی کی صورت حال کے پیش نظر منتظمین کو ٹرمپ کا ریلی سے خطاب ملتوی کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ انتخابی ریلی میں یہ مناظر دیکھ کر مجھے ایسا لگا کہ جیسے یہ عمران خان کی ریلی تھی۔ اور رانا ثنا اللہ کے لوگ نعرے بازی ہلڑ بازی اور ہا تھا پائی کر رہے تھے۔ لیکن ایک بڑا فرق یہ تھا کہ یہاں پولیس کے ادارے پر کسی کا کوئی سیاسی اثر و رسوخ نہیں تھا۔ اور پولیس اپنے فرائض عوام کی سلامتی کے مفاد میں انجام دے رہی تھی۔ اس لئے یہاں کوئی نا سازگار واقعہ نہیں ہوا تھا۔ کوئی زخمی نہیں ہوا تھا۔ کسی کا سر نہیں پھٹا تھا۔ کسی کا خون نہیں گرا تھا۔ جو قابو سے کچھ زیادہ باہر ہو گیے تھے۔ پولیس نے انہیں حراست میں لے لیا تھا۔ Tension بہت زیادہ تھی۔ اس لئے ڈونالڈ ٹرمپ کو انتخابی ریلی سے خطاب ملتوی کرنا پڑا تھا۔
       امریکہ کی تاریخ میں ایسی صدارتی انتخابی مہم کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔ دنیا نے دو ہزار کے صدارتی انتخابات میں دھاندلیاں دیکھی تھیں۔ لیکن یہ صدارتی انتخابی مہم ایک نئی منفرد تاریخ بنا رہی ہے۔ حالانکہ ابھی صرف پارٹیوں میں صدارتی امیدواروں کے درمیان پرائم ریز ہو رہی ہیں۔ جس کے بعد اس کا تعین ہو گا کہ کون ری پبلیکن پارٹی کا اور کون ڈیموکریٹک پارٹی کا صدارتی امیدوار ہو گا۔ اور یہ مرحلہ اپریل کے وسط تک مکمل ہو جاۓ گا۔ جس کے بعد واضح تصویر سامنے آ جاۓ گی۔ تاہم اس وقت تک کی پرائم ریز کے نتائج سے یہ ںظر آ رہا ہے کہ صدارتی مقابلہ ہلری کلنٹن اور ڈونالڈ ٹرمپ کے درمیان ہو گا۔ لیکن امریکیوں میں ڈونالڈ ٹرمپ کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ری پبلیکن پارٹی کے اندر ڈونالڈ ٹرمپ کو صدارت کے لئے نامزد کرنے کی مخالفت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ اور جولائی میں پارٹی کنونشن میں بعض ری پبلیکن ڈونالڈ ٹرمپ کی نامزدگی کو بلاک کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے لئے شاید یہ ممکن نہیں ہو گا۔ کیونکہ ڈونالڈ ٹرمپ پرائم ریز میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو رہے ہیں۔ اور ری پبلیکن پارٹی اگر انہیں نامزد نہیں کرے گی تو اس صورت میں وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے صدارت کا انتخاب لڑیں گے۔ اور ری پبلیکن پارٹی تقسیم ہو جاۓ گی۔
       انتخابات میں امیدوار کا ایک پختہ Stand ہوتا ہے۔ اور دوسرا اس کا پیغام ہوتا ہے۔ جس سے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ امیدوار کا Stand لوگوں میں اس کے پیغام میں اس کے مخلص ہونے کا اعتماد پیدا کرتا ہے۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ کے اچانک اتنا زیادہ مقبول ہو جانے کی یہ ایک بڑی وجہ ہے۔ دوسرا یہ کہ ڈونالڈ ٹرمپ پیشہ ور سیاستدان بھی نہیں ہیں۔ سیاست میں انہوں نے کبھی حصہ نہیں لیا تھا۔ ان کا کاروبار Real estate developerہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ واشنگٹن کے Insider بھی نہیں ہیں۔ واشنگٹن اسٹبلشمینٹ سے بھی ان کا تعلق نہیں ہے۔ اس وقت پرائم ریز میں ان کے مقابلے میں تین دوسرے امیدوار ہیں۔ جن میں دو سینیٹر ہیں اور ایک ریاستOhio  کے گورنر ہیں۔ اور اس سے قبل کانگرس مین تھے۔ لہذا انتخابات میں ان کا Stand اور پیغام لوگوں کو زیادہ متاثر نہیں کر رہا ہے۔ حالانکہ یہ ڈونالڈ ٹرمپ سے زیادہ قدامت پسند ہیں۔ لیکن یہ جنوبی ریاستوں میں پرائم ريز انتخاب ہار گیے ہیں۔ جہاں لوگوں کی اکثریت انتہائی مذہبی قدامت پسند ہے۔ اور اسے Church belt بھی کہا جاتا ہے۔
       ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدواروں کے درمیان پہلی تین Debates میں دونالڈ ٹرمپ نے اپناStand  اسٹیج پر سیٹ کر دیا تھا۔ ابتدائی تین Debates میں ایک تہائ سے زیادہ وقت دہشت گردی اور داعش کے خلاف جنگ کے بارے میں سوالوں پر تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے مقابلے پر تمام امیدواروں نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خود کو کمانڈر انچیف ثابت کرنے کی کوشش کی تھی۔ کسی نے کہا داعش کے خلاف عراق اور شام پر Carpet bombing کی جاۓ۔ Jeb Bush یوکرین کے مسئلے پر یورپ میں فوجیں بھیجنا چاہتے تھے۔ جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے عراق جنگ کو ایک غلط جنگ قرار دیا تھا۔ اور لیبیا میں قدافی کو اقتدار سے ہٹانے کے فیصلے کی شدید مذمت کی تھی۔ شام میں صدر پوتن کے اقدام کی حمایت کی تھی۔ ان Debates میں ڈونالڈ ٹرمپ کا تمام تر زور امریکہ کی تعمیر نو کرنے پر تھا۔ اور لوگوں کے حالات بہتر بنانے پر تھا۔ ان کے پیغام میں امریکی نیشنلزم کی تخلیق نظر آ رہی تھی۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے غیرجانبدار رہنے کا کہا ہے۔ ان کے Stand سے لوگ متاثر ہونے لگے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے مقابلے پر دوسرے صدارتی امیدوار جتنا زیادہ جنگوں اور فوجی آپریشن کی باتیں کرتے تھے۔ اتنے ہی زیادہ ووٹوں سے یہ سب ہارتے تھے۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ ان سے آگے آتے گیے۔
       صدر اوبامہ کے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں وال اسٹریٹ کے خلاف ایک مہم چلی تھی۔ امریکہ بھر سے بڑی تعداد میں لوگ وال اسٹریٹ کے خلاف احتجاج کرنے نیویارک آۓ تھے۔ نیویارک میں کئی ہفتوں تک انہوں نے دھرنا دیا تھا۔ انہوں نے  ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاس کے موقعہ پر بھی مظاہرے کیے تھے۔ ان کا دھرنا نیویارک کی انتظامیہ نے ختم کرنے کی متعدد بار کوشش کی تھی۔ لیکن یہ لوگ دھرنا ختم کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ بالااخر وفاقی ایجنسیوں کی مدد سے ان کا دھرنا ختم کرایا گیا تھا۔ انہیں خاصا ڈرایا دھمکایا گیا تھا۔ بعض کے خلاف قانونی کاروائیاں بھی ہوئی تھیں۔ انہیں انارکسٹ بھی کہا گیا تھا۔ اور اب یہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کر رہے ہیں۔ اور ان میں کچھ برنی سینڈر کی انتخابی مہم میں شامل ہو گیے ہیں۔ جو ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار ہیں۔
       اس مرتبہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے زیادہ امیدوار میدان میں نہیں آۓ ہیں۔ جس کی وجہ سے ہلری کلنٹن مضبوط امیدوار نظر آ رہی ہیں۔ ہلری کلنٹن کا پرائم ریز انتخابات میں صرف برنی سینڈر سے مقابلہ ہے۔ برنی سینڈر سینیٹر ہیں۔ اس سے پہلے کانگرس مین تھے۔ برنی سینڈر جنگ کے خلاف ہیں۔ اور سینٹ میں انہوں نے عراق پر حملے کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ جبکہ ہلری کلنٹن نے سینٹ میں عراق پر حملہ کرنے کی قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ اور ہلری کلنٹن جب سیکریٹری اف اسٹیٹ تھیں۔ انہوں نے صدر قدافی کے خلاف فوجی آپریشن کی حمایت کی تھی۔ شام کے سلسلے میں بھی ہلری کلنٹن نے محتاط پالیسی اختیار نہیں کی تھی۔ بشارالاسد کو جانا ہے۔ اوبامہ انتظامیہ کی پالیسی بن گئی تھی۔ جس کی وجہ سے یورپ کے لئے Immigrants کا بحران پیدا ہو گیا ہے۔ اور مشرق وسطی  عدم استحکام ہو گیا ہے۔ لیکن پھر ری پبلیکن پارٹی کے امیدواروں کی Debates دیکھنے اور ڈونلڈ ٹرمپ کا جنگوں کے خلاف موقف کے نتیجے میں مقبولیت دیکھ کر ہلری کلنٹن بھی جنگوں کے موضوع سے پیچھے ہٹ گئی ہیں۔ اور امریکی عوام کے اقتصادی اور سماجی مسائل کو زیادہ فوکس کر رہی ہیں۔
       یہ امریکہ کی تاریخ کے بالکل منفرد انتخابات ہیں۔ جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گیے تھے۔ ری پبلیکن پارٹی کی ایک  خاصی تعداد ڈونالڈ ٹرمپ کو پسند نہیں کرتی ہے۔ ری پبلیکن پارٹی کے 2012 میں صدارتی امیدوار مٹ رامنی نے گزشتہ دنوں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بڑے سخت لفظوں میں تقریر کی تھی۔ اور ڈونلڈ ٹرمپ کا صدر منتخب ہونے کو امریکہ کے لئے ایک بڑی تباہی بتایا تھا۔ مٹ رامنی نے ری پبلیکن پارٹی سے اپیل کی تھی کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر کے لئے نامزد مت کرے۔ اور سینیٹر جان مکین نے مٹ رامنی سے اتفاق کیا تھا۔ ادھر ڈیمو کریٹک  پارٹی میں بھی ایسے لوگ ہیں۔ جنہیں ہلری کلنٹن پسند نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں یہ ہو گا کہ ری پبلیکن پارٹی میں جنہیں ڈونلڈ ٹرمپ پسند نہیں ہیں وہ ہلری کلنٹن کو ووٹ دیں گے۔ اور ڈیمو کریٹک پارٹی میں جنہیں ہلری کلنٹن پسند نہیں ہیں وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کس پارٹی میں کون کتنی بڑی تعداد میں پسند نہیں ہے؟
       یہ اس صدی کے پانچویں انتخابات ہیں۔ گزشتہ چار انتخابات کے موضوع اسامہ بن لادن، القاعدہ، صدام حسین، طالبان، دہشت گردی کے خلاف جنگ، وہ ہماری ترقی سے نفرت کرتے ہیں، وہ ہمیں تباہ کرنا چاہتے ہیں، امریکہ کی سلامتی کو خطروں کا سامنا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور اب پانچویں صدارتی انتخاب میں امریکہ بیدار ہو گیا ہے۔ امریکہ ابھی تک حالت جنگ میں ہے۔ دہشت گردی اور بڑھ گئی ہے۔ امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف ناکامی ہو رہی ہے۔ امریکہ کی سلامتی سے زیادہ لوگوں کو اپنی معاشی سلامتی خطرے میں نظر آ رہی ہے۔ لوگوں کی توجہ دہشت گردی کی جنگوں پر لگا کر امیر امیرتر ہو گیے ہیں۔ درمیانہ طبقہ ختم ہو گیا ہے۔ 40 ملین امریکی صرف حکومت کی امداد پر زندہ ہیں۔ امریکہ 19 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے۔ اور اس میں رجحان اضافہ کی طرف ہے۔ امریکہ کا تجارتی خسارہ 500 بلین ڈالر پر پہنچ گیا ہے۔ لوگوں کے سامنے یہ گزشتہ چار انتخابات کے نتائج ہیں۔ اور پانچویں صدارتی انتخابات میں لوگوں میں اب بغاوت نظر آ رہی ہے۔ اور یہ جمہوری بغاوت امریکہ میں اسپرنگ ہے۔           

No comments:

Post a Comment