Organization Of Islamic
Cooperation - Jakarta Conference
Islamic Leaders: Yes, Our
World Is In Crisis But Palestine Must Remain ‘The Central Issue’
مجیب
خان
Organization Of Islamic Cooperation - Jakarta Conference |
Islamic Nations Participate In "Thunder Of The North" Military Exercise |
Israeli Soldier Assaults A Young Palestinian Child |
پھر
خلیج میں امریکہ کا سب سے بڑا بحری اڈہ ہے۔ جہاں طیارہ بردار بحری بیڑے کھڑے ہیں۔ بحرین
اور کویت میں امریکہ کے فوجی اڈے ہیں۔ امریکہ کے علاوہ برطانیہ اور فرانس کے بحری
بیڑے بھی خلیج میں ہیں۔ لیکن ان ملکوں کے فوجی کمانڈروں کو بھی اسلامی فوج کی
مشقیں دیکھنے کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ سعود یوں کے مطابق ان فوجی مشقوں میں ساڑھے
تین لاکھ فوجوں نے حصہ لیا تھا۔ جبکہ 20 ہزار ٹینکوں اور 2500 طیاروں نے مظاہرہ
کیا تھا۔ سعود یوں کا کہنا تھا کہ ان فوجی مشقوں کا مقصد اتحادی فوجوں کو خطہ میں
ان طاقتوں کے خلاف تیار کرنا ہے جو اس خطہ کو عدم استحکام کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن
اسلامی فوج جن طاقتوں کے خلاف تیار کی جا رہی ہے۔ اول وہ طاقتیں خلیجی ریاستوں کی
قریبی اتحادی ہیں۔ اور دوسرا یہ کہ یہ خطہ پہلے ہی خطرناک حد تک عدم استحکام ہو
چکا ہے۔ اور اب اس خطہ کو استحکام دینے کی ضرورت ہے۔ اور فوجی طریقوں یا فوجی
مشقوں کے ذریعے اس خطہ میں استحکام لانے میں انہیں کامیابی نہیں ہو گی۔ امریکہ کی
بھاری فوجی موجودگی کا مقصد بھی اس خطہ میں استحکام اور سلامتی کو برقرار رکھنا
تھا۔ لیکن شواہد اس کے برخلاف دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ فوجی سرگرمیاں ہیں جو اس خطہ
میں انتہا پسندی پھیلانے کا سبب ثابت ہو رہی ہیں۔ اگر سعودی اور خلیجی ریاستیں اس
خطہ کی سلامتی اور استحکام میں واقعی سنجیدہ ہیں تو انہیں اس خطہ میں اقتصادی
سرگرمیوں اور ایک پر امن سیاسی عمل کو فروغ دینے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔
جو
طاقتیں اس خطہ کو عدم استحکام کر رہی ہیں۔ سعودی عرب اور خلیج کی ریاستیں ان
طاقتوں کے ساتھ شامل ہیں۔ اور اس میں یہ ان کی معاونت بھی کر رہی ہیں۔ آخر انہوں
نے غیر ملکی طاقتوں کو عراق میں حکومت تبدیل کر نے کی اجازت کیسے دی تھی۔ پھر
انہوں نے عراق میں شیعہ سنی کی تقسیم کو کیوں قبول کیا تھا؟ عراق میں عدم استحکام
تھا۔ فلسطینی اسرائیل تنازعہ روزانہ کا تنازعہ تھا۔ اسرائیلی فوجی روزانہ
فلسطینیوں کو مار دیتے تھے۔ اور فلسطینی روزانہ اسرائیلیوں پر حملے کرتے تھے۔ ان
حالات میں شام میں ایک خونی خانہ جنگی کو کون ہوا دے رہا تھا۔ شام کو عدم استحکام
کرنے کا مطلب اس سارے خطہ کو عدم استحکام کرنا تھا۔ لیکن انہوں نے کبھی یہ سوچا
نہیں تھا۔ کہ جب خطہ کے ملک اس طرح عدم استحکام ہوتے جائیں گے۔ تو پھر وہ کیسے محفوظ
رہیں گے۔
اسلامی
ملکوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ سوچتے بعد میں ہیں۔ فیصلے پہلے کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ
بلکہ ان کا سیاسی کھیل کھیلنے لگتے ہیں جو بعد میں تباہی کی صورت میں اس کے نتائج
کا انہیں ذمہ دار ٹھہرانے لگتے ہیں۔ اسلامی دنیا کو سعود یوں پر بہت اعتماد تھا۔
کیونکہ وہ حرمین شریفین تھے۔ اور مسلمانوں کی نگاہ میں اسلام کے دو مقدس مقامات کے
محافظ اسلام کے بھی محافظ تھے۔ اسلامی دنیا کی یکجہتی اور سلامتی بھی ان کے دو مقدس
فرائض تھے۔ جتنی دولت جتنے ہتھیار جتنی توانائی انہوں نے امریکہ کے ساتھ مل کر شام
میں ایک حکومت کا خاتمہ کرنے میں لگائی تھی۔ اتنی ہی دولت اور توانائی وہ مقبوضہ
فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی فوجی قبضہ کی لعنت ختم کرنے میں لگا سکتے تھے۔ جو کام حرمین
شریفین کا خطاب حاصل کر کے انہیں کرنا چاہیے تھے وہ انہوں نے نہیں کیے ہیں۔ اور
اسلام کے دو مقدس مقامات کے محافظ کی حیثیت سے جو کام انہیں نہیں کرنا چاہیے تھے
وہ انہوں نے کیے ہیں۔ اور اس وقت بھی وہ کس کے مفاد میں لبنان میں حزب اللہ کو
دہشت گرد تنظیم تسلیم کروا رہے ہیں۔ اور اس کے ذریعے حماس کو بھی کیا پیغام دے رہے
ہیں۔ سعودی عرب نے عرب دنیا کا لیڈر بننے کی ابتدا ہی غلط کی ہے۔ ایک تو انہوں نے
یمن کے خلاف جا حا ریت کی ہے۔ دوسرے انہوں نے 34 ملکوں کی ایک اسلامی فوج بنا لی
ہے۔ جو کس کے مفاد میں بنائی ہے؟ اور شام کے بعد اب لبنان میں انہوں نے محاذ آ رائی
کی سیاست شروع کر دی ہے۔ سرد جنگ میں پچاس سال تک سعودی اسلامی دنیا کو امریکہ کا
کھیل کھلاتے رہے۔ اور اب اسرائیل کا کھیل شروع کرنا چاہتے ہیں۔
اکیسویں صدی کو اسلامی دنیا کے لئے فساد اور
انتشار پھیلانے کی صدی بنانے کا کام بیسویں صدی کی آخری دہائی سے شروع ہو گیا تھا۔
اور اس کی ابتدا عراق سے ہوئی تھی۔ 90 کے
عشرے میں سب سے زیادہ اقتصادی بندشیں اسلامی ملکوں پر لگائی گئی تھیں۔ اور یہ
اقتصادی بندشیں ان کے پاؤں میں جیسے بیڑیاں تھیں۔ اسلامی ملکوں میں اتحاد اور
یکجہتی کی کوششوں کو ناکام کر دیا جاتا تھا۔ اور اس کے لئے اسلامی ملکوں کے آپس کے
اختلافات کو Exploit کیا جاتا تھا۔ دسمبر1997 میں تہران میں اسلامی سربراہ کانفرنس میں ایران
نے اسلامی اتحاد اور یکجہتی کے لئے ایک سنجیدہ کوشش بھی کی تھی۔ اور عراق کو بھی
اسلامی سربراہ کانفرنس میں مدعو کیا تھا۔ اور اس طرح عراق کو اسلامی برادری میں
واپس لانے کا دروازہ کھولا تھا۔ عراق پر انسانی تاریخ کی بدترین اقتصادی بندشیں
لگی ہوئی تھیں۔ عراق جنگ ختم ہونے کے نو سال بعد ایران نے عراق کے ساتھ تعلقات
استوار کرنے کی ابتدا تہران میں اسلامی سربراہ کانفرنس میں عراق کو مدعو کر کے کی
تھی۔ امریکہ کو تہران میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے انعقاد پر شدید تشویش ہو رہی
تھی۔
صدر
کلنٹن کے قومی سلامتی امور کے مشیر سینڈی برگر تہران میں اسلامی سربراہوں کا
اجتماع دیکھ کر خاصے پریشان ہو رہے تھے۔ کہ صدام حسین کو بھی اس کانفرنس میں مدعو
کیا گیا تھا۔ لیکن صدام حسین نے ایک اعلی وفد تہران بھیجا تھا۔ سینڈی برگر نے وائٹ
ہاؤس میں ایک پریس بریفینگ کے دوران تہران میں اسلامی سربراہ کانفرنس میں عراق کی
شرکت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ وہ تہران میں اسلامی سربراہوں
کے اجتماع کو خصوصی طور پر واچ کر رہے تھے۔ وہ کیوں اتنے پریشان ہو رہے تھے؟ اور
کیا واچ کر رہے تھے؟ وہ یہ واچ کر رہے تھے کہ اسلامی سربراہ عراق کے بارے میں کیا
فیصلہ کرنے جا رہے تھے؟ لیکن یہ امریکہ کی خوش قسمتی اور اسلامی ملکوں کی بد قسمتی
تھی کہ ان میں اتحاد نہیں ہو سکا تھا۔
جکارتہ انڈونیشیا میں اسلامی تعاون کی تنظیم نے
فلسطین کے مسئلہ پر ایک غیر معمولی کانفرنس میں قرارداد منظور کی ہے۔ جس میں کہا
گیا ہے کہ اسلامی رہنما اسلامی دنیا میں المناک بحرانوں کے پھیلنے سے باخبر ہیں۔ جن
میں مسلح تنازعہ اور دہشت گردی بھی شامل ہے۔ تاہم قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اس
صورت حال میں بھی فلسطین کے کاز اور القدس الشرف سے عالمی توجہ نہیں ہٹنا چاہیے۔
اور یہ اسلامی دنیا کے بدستور مرکزی اشیو رہیں گے۔ لاکھوں لوگ جن کی اکثریت مسلم
ہے۔ شام عراق یمن لیبیا افغانستان اور دوسرے مقامات پر مارے گیے ہیں۔ اپاہج ہو گیے
ہیں۔ انہیں خوفزدہ کیا گیا ہے۔ اور بے گھر ہو گیے ہیں۔ انڈونیشیا کے صدرJoko Widodo نے اسلامی کانفرنس کے اختتام پر کہا کہ اگر اسلامی تعاون کی تنظیم فلسطینی
مسئلہ کے حل کا حصہ نہیں ہے تو 47 سال کا یہ اسلامی بلاک irrelevant ہو جاۓ گا۔
No comments:
Post a Comment