Terror And The War Of Destruction
Now The War Against Terror Has Become A Global War
مجیب خان
Palestinian Liberation Organization And The IRA Struggle For Independence |
Terror In Paris |
War In Yemen |
اس
بحث کا آغاز 16 سال قبل امریکہ کے 43 ویں صدر جارج بش کے دور میں نائین ایلون کے
نتیجے میں ہوا تھا۔ کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کیسے لڑی جاۓ۔ اور اسی بحث میں
امریکہ کے 44 ویں صدر براک اوبامہ کا دور اقتدار بھی اب اختتام پر پہنچ رہا ہے۔
اور امریکہ کے 45 ویں صدر کے اقتدار میں بھی یہ بحث جاری رہے گی۔ ری پبلیکن پارٹی
جس کے دور میں دہشت گردی کی جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ یہ بحث ایک بار پھر صدارتی
انتخاب میں ری پبلیکن پارٹی کے امیدواروں کا موضوع بن گیا ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے داعش
سے لڑنے کی اپنی حکمت عملی بیان کرتے ہوۓ کہا ہے کہ وہ اسے فضائی حملے کر کے بھون
دیں گے۔ لیکن زمینی اقدام اس خطہ میں امریکہ کے اتحادیوں کو کرنا ہوں گے۔ اس کے
ساتھ ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگانے کا کہا ہے۔
لیکن انہوں نے یہ وضاحت نہیں کی ہے کہ اس خطہ میں امریکہ کے جو اتحادی داعش کے
حلاف زمینی کاروائیوں میں حصہ لیں گے۔ کیا ان کے شہریوں پر بھی امریکہ میں داخل
ہونے پر پابندی ہو گی۔ ری پبلیکن پارٹی کے دوسرے صدارتی امیدوار Ted Cruz نے اپنی حکمت عملی بیان کرتے ہوۓ کہا کہ وہ اسلامی دہشت گردوں کو چن چن کر
مار دیں گے۔ ان کے خلاف Carpet bombing کرنے کا حکم دیں
گے۔ اور امریکہ میں مسلم آبادی کے محلوں کی نگرانی اور گشت کرنے کے لئے وہ قانون
نافذ کرنے والے اداروں کو خصوصی اختیارات دیں گے۔ بلجیم میں دہشت گردی کے واقعہ کے
بعد امریکی میڈیا میں پنڈتوں کی بحث بھی اسی موضوع پر ہو رہی تھی کہ دہشت گردوں سے
جنگ کس طرح لڑی جاۓ۔ اور انہیں کیسے شکست دی جاۓ؟ دہشت گردی شاید دنیا کے لئے اتنا
بڑا مسئلہ نہیں بنتا کہ جتنا بڑا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایجنڈا دنیا کے لئے ایک
مسئلہ بن گیا ہے۔
لیکن
قابل توجہ بات یہ ہے کہ امریکی میڈیا میں پنڈت، صدارتی امیدوار، کانگرس میں عوام
کے نمائندے سب دہشت گردوں سے جنگ اور انہیں شکست دینے کی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن
کوئی یہ سوال نہیں کر رہا ہے کہ 16 سال ہو گیے ہیں اور دہشت گردوں کو ابھی تک شکست
کیوں نہیں ہو رہی ہے؟ کیا حکومت کی پالیسیاں دہشت گردوں کو ختم نہیں پیدا کر رہی
ہیں؟ نائن ایلون کے بعد بش انتظامیہ نے افغانستان میں القاعدہ کے دہشت گردوں کی
جنت ختم کرنے کے لئے اس پر حملہ کیا تھا۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ نے شام میں حکومت
تبدیل کرنے کی خانہ جنگی کو دہشت گردوں کے لئے جنت بنا دیا ہے۔ اس وقت افغان جنگ
کے دوران دنیا بھر میں جتنے دہشت گرد پکڑے گیے تھے۔ شام کی جنگ کے دوران اس سے تین
گنا زیادہ دہشت گردوں کو دنیا میں پھیلنے کا موقعہ فراہم کیا گیا ہے۔ افغانستان
میں دہشت گردوں کی جنت تباہ کرنے میں ہزاروں افغانوں کو جو طالبان تھے۔ مار دیا
تھا۔ القاعدہ کے سینکڑوں لوگ مار دئیے تھے۔ اس مہم میں امریکہ کے تقریباً پانچ ہزار
فوجی مارے گیے تھے۔ ایک ہزار کے قریب نیٹو ملکوں کے فوجی مارے گیے تھے۔ جو زخمی
ہوۓ ان کی تعداد علیحدہ ہزاروں میں تھی۔ پھر بش انتظامیہ نے عراق پر حملہ کیا تھا
کہ صدام حسین دہشت گردوں کی پشت پنا ہی کر رہے تھے۔ امریکہ کے اس حملے میں تقریباً
ایک لاکھ عراقی شہری مارے گیے تھے۔ دو
لاکھ عراقی بے گھر ہو گیے تھے۔ آٹھ ہزار امریکی فوجی عراق میں مارے گیے تھے۔ 30
ہزار امریکی فوجی ساری زندگی کے لئے زخمی ہو گیے ہیں۔ جبکہ برطانیہ کے تقریباً ایک ہزار فوجی عراق میں مارے گیے تھے۔ عراق جنگ
کے دوران بش انتظامیہ نے صومالیہ اور یمن میں بھی القاعدہ کے خلاف فوجی محاذ کھول
دئیے تھے۔ یہاں بھی کئی ہزار القاعدہ کے لوگوں کو مار دیا تھا۔
بش
انتظامیہ میں دہشت گردی پھر ان ملکوں میں پہنچ گئی تھی۔ جو اس جنگ میں امریکہ کے
قریبی اتحادی تھے۔ پاکستان ان ملکوں میں سر فہرست تھا۔ انڈونیشیا اور ملائشیا میں
دہشت گردوں کے خود کش حملوں میں سینکڑوں لوگ مارے گیے تھے۔ اردن مصر مراکش اور
ایران میں بھی دہشت گردی کے واقعات ہوۓ تھے جس میں بے شمار لوگ مارے گیے تھے۔ صدر
بش نے دہشت گردوں کے خلاف جنگ کو ایک عالمی جنگ میں تبدیل کر دیا تھا۔ اور اس جنگ
کی کمانڈ صدر اوبامہ کے سپرد کر کے چلے گۓ تھے۔ صدر اوبامہ یہ جنگ آ گے لے گیے تھے۔ افغانستان
اور عراق میں پہلے فوجوں میں کمی کر کے اور پھر اضافہ کر کے بھی کوئی کامیابی نہیں
ہو رہی تھی۔ تھک ہار کر صدر اوبامہ نے عراق جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور عراق سے
تمام فوجیں واپس بلا لی تھیں۔ عراق میں دہشت گردی کو عراقی حکومت کے حوالے کر دیا
تھا۔ اسی طرح اوبامہ انتظامیہ نے افغانستان میں بھی جنگ ختم کر دی تھی۔ اور تمام
فوجیں یہاں سے بھی واپس بلا لی تھیں۔ صرف دس ہزار فوجیں افغان فوج کو تربیت دینے
لئے افغانستان میں رکھی تھیں۔ افغانستان میں طالبان کی دہشت گردی کا مسئلہ افغان
اور پاکستان کے درمیان یہ کہہ کر چھوڑ دیا تھا کہ دونوں حکومتیں اسے حل کرنے میں
تعاون کريں۔
امریکہ
دنیا کی واحد سپر پاور تھا۔ اور اس کی ذمہ دار یاں بھی انتہائی سپر تھیں۔ لیکن
جنگوں کے فیصلے کرنے میں امریکہ نے سب سے زیادہ غیر ذمہ دار ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
جس کے نتیجے میں دہشت گردی ختم ہونے کے بجاۓ اور زیادہ پھیل گئی ہے۔ افغانستان میں
طالبان کے خلاف اور عراق میں صدام حسین کے خلاف فوجی کاروائیوں کے بارے میں یہ کہا
گیا تھا کہ یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے خطرہ تھے۔ لیکن آج امریکہ کے یہ
فیصلے ہیں جو اس کے اتحادیوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی
جنوبی ایشیا، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ سے سفر کرتی اب یورپ میں نیٹو ملکوں میں
پہنچ گئی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اصل ایجنڈا کیا تھا؟
امریکہ
کو یہ با خوبی علم تھا کہ عرب دنیا وہابیوں سلا فسٹ القاعدہ النصرہ اور ایسی
سینکڑوں تنظیموں اور اسلامی انتہا پسندوں سے بھری ہوئی تھی۔ ان حالات میں شام کی
خانہ جنگی میں امریکہ کو ملوث ہونے کا مشورہ کس سیاسی مفکر نے دیا تھا۔ امریکہ نے
افغانستان میں جہادیوں کو تربیت دینے کی اپنی
غلطی کا اعتراف بھی کیا تھا۔ لیکن پھر شام میں بھی امریکہ نے وہ ہی غلطی کی
تھی جو افغانستان میں کی تھی۔ شام میں بھی جہادیوں کو تربیت دی جا رہی تھی اور
انہیں اسلحہ بھی دیا جا رہا تھا۔ جب کوئی پہلی غلطی کے بعد دوسری مرتبہ پھر وہ ہی
غلطی کرتا ہے تو اسے Idiot کہا جاتا ہے۔ لیکن امریکہ Idiot سپر پاور نہیں ہے۔
تاہم یہ کس ایجنڈے کے مطابق ہو رہا تھا؟ 16 سال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا پہلا
حصہ مکمل ہو گیا ہے۔ اور یہ اب ایک عالمی جنگ بن گئی ہے۔ ایشیا، افریقہ اور یورپ
اس جنگ کے بڑے محاذ بن گیے ہیں۔ اور جب جنگ ہوتی ہے تو پھر لوگ بھی مرتے ہیں۔ جیسا
کہ صدر جارج بش نے عراق میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر کہا تھا کہ "یہ
جنگ ہے اور لوگ بھی جنگ میں مرتے ہیں۔"
اس دہشت گردی کے پہلی اور دوسری عالمی جنگ کی
طرح کے اسباب قطعی نہیں تھے۔ اس کے صرف سیاسی اسباب تھے۔ دہشت گردی کے خلاف مہم کو
ایک نئی عالمی جنگ کا رنگ دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسے سیاسی لڑائی کی حدود میں
رکھا جاتا۔ اور اس کے ساتھ ان سیاسی اسباب کا سد باب بھی کیا جاتا جو دہشت گردی کو
مسلسل شہ دے رہے تھے۔ اس صورت میں دہشت گردی کو پھیلنے سے کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔
اور جن میں دہشت گردی کے رجحان پیدا ہو رہے تھے۔ انہیں بھی Neutralize کرنے میں مدد ملتی۔ لیکن 16 سال سے امریکہ کی پالیسیاں دہشت گردی پھیلانے
کے رجحانات کو فروغ دے رہی تھیں۔ اور یہ اس کا نتیجہ ہے جو مسلم نوجوان یورپ جیسے
معاشرے میں پیدا ہوۓ تھے۔ اور اس معاشرے میں پلے بڑھے تھے۔ انہیں امریکہ کی ان
پالیسیوں نے De-Neutralize
کر دیا ہے۔
?Why did Britain never declare war against the IRA
برطانیہ کو 70 اور 80 کے عرشوں میںIRA {آئیریش ری پبلیکن آرمی} کی دہشت گردی کا سامنا تھا۔ IRA برطانیہ کے لئے ISIS تھی۔ IRA اپنی ریاست چاہتی تھی۔ لندن میں IRA کی دہشت گردی فرانس اور بلجیم میں ہونے والی دہشت گردی سے زیادہ خوفناک ہوتی تھی۔ جولائی 1972 میں لندن میں Good Friday کا دہشت گردی کا واقعہ برطانیہ شاید کبھی نہیں بھولے گا۔ لندن IRA کے دہشت گردوں کے بموں سے ہل گیا تھا۔ 9 افراد ہلاک ہوۓ تھے۔ اور 130 سے زیادہ لوگ زخمی ہوۓ۔ جن میں ایک بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی۔ IRA نے وزیر اعظم ماگریٹ تھیچر کی رہائش گاہ پر بھی حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن برطانیہ نے IRA کی دہشت گردی کو یہ نہیں کہا تھا کہ برطانیہ حالت جنگ میں تھا۔ برطانیہ نے IRA کی دہشت گردی کو جنگ نہیں بنایا تھا۔ IRA کے تربیتی کیمپوں پر برطانیہ نے بمباری نہیں کی تھی۔ برطانیہ نے پولیس اور انٹیلی جنس کاروائیوں کے ذریعے IRA کی سرگرمیوں کو قابو کیا تھا۔ نوے کے عشرے میں صدر کلنٹن نے برطانوی حکومت اور IRA کے سیاسی ونگ کے درمیان مذاکرات کے لئے سینیٹر جارج میچل کو خصوصی نمائندہ نامزد کیا تھا۔ اور آخر میں سیاسی ڈائیلاگ کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کر لیا تھا۔
افغانستان، عراق، لیبیا، شام، یمن اور دوسرے تمام تنازعوں میں سیاسی
ڈائیلاگ ہو سکتے تھے۔ اور سیاسی حل بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن سوال یہ تھا کہ عالمی
جنگ پھر کس سے ہوتی؟ امریکہ کو ایک عالمی جنگ کی ضرورت تھی۔ اور دہشت گردی اب
عالمی جنگ بن گئی ہے۔
No comments:
Post a Comment