Saturday, March 5, 2016

President Hillary Clinton And The Women Spring In The Islamic World

    President Hillary Clinton And The Women Spring In The Islamic World   


 مجیب خان




       گھریلو سر زوری پر تحفظ خواتین کا قانون جیسے پنجاب اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا ہے۔ پاکستان کے مذہبی رہنما اس قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جمعیت علماۓ اسلام کے مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ اس قانون نے مردوں کو چوڑیاں پہنا دی ہیں۔ مولانا نے کہا کہ انہیں پنجاب کے شوہروں کی حالت پر ترس آ رہا ہے۔ مولانا نے کہا کہ مجھے تحفظ خواتین بل پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن یہ قانون شریعت اور آئین سے متصادم ہے۔ مولانا نے کہا پنجاب کے مظلوم شوہروں کا مستقبل مجھے خوفناک لگ رہا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ مولانا کو بیویوں کا مستقبل خوفناک نظر نہیں آ رہا ہے۔ نہ ہی انہیں عورتوں کی حالت پر ترس آ رہا ہے۔ آخر مولانا عورتوں کے بارے میں اتنے Chauvinist کیوں ہیں۔ اس بل سے شوہروں کا مستقبل خوفناک نہیں ہوا ہے۔ شوہروں کے لئے مواقع روشن ہو گیے ہیں۔ ایک دروازہ اگر بند ہو گا تو مرد کے لئے تین دروازے کھل گۓ ہیں۔ تحفظ خواتین بل کے تحت مرد سے جب گھر سے جانے کا کہا جاۓ گا تو وہ کہاں جاۓ گا؟ وہ دوسری بیوی کے پاس چلا جاۓ گا۔ لیکن مولانا کو شوہروں کی حالت پر ترس اور رونا آ رہا ہے۔ بیویوں سے انہیں کوئی ہمدردی نہیں ہے۔
       بہرحال مولانا فضل الرحمن سے سوال یہ ہے کہ 69 سال بعد یہ معاشرہ اس مقام پر کیسے آیا ہے کہ حکومت کو تحفظ خواتین کا قانون بنانا پڑا ہے؟ مشرقی کلچر میں خواتین کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ عورتوں پر تشدد کرنے کو بہت برا سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ مغربی معاشروں میں گھریلو سر زوری اور خواتین کے ساتھ  بدسلوکی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ حالانکہ ان ملکوں میں گھریلو سر زوری کے سلسلے میں بڑے سخت قوانین ہیں۔ فیملی کورٹ ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ ایک مسئلہ ہے۔
       سعودی عرب جیسے معاشرے میں جہاں سو فیصد خالص شریعت کا نظام ہے۔ وہاں بھی گھریلو سر زوری اور خواتین کے ساتھ تشدد کے واقعات حالیہ برسوں میں بڑھ گۓ ہیں۔  طلاقوں کی شرح میں حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے۔ فیملی سسٹم ٹوٹ رہا ہے۔ یہ ایک ایسے ملک کا حال ہے۔ جہاں شریعت کا نظام ہے۔ اور مذہبی طور پر یہ انتہائی قدامت پسند معاشرہ ہے۔ ایک دولت مند ملک ہے۔ لیکن اس ملک میں معاشرتی مسائل سیاسی مسائل سے دو گنے ہیں۔ پاکستان میں لوگوں کے اقتصادی مسائل گھریلو سر زوری کا بڑا سبب بن رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان میں فیملی سسٹم پھر بھی بہت بہتر نظر آتا ہے۔ جو تعلیم یافتہ ہیں۔ جن کے معاشی حالات ذرا بہتر ہیں۔ ان میں گھریلو سر زوری بھی نہیں ہے۔ ان میں Communication اور Understanding بھی بہت بہتر ہے۔ یہاں امریکیوں کے درمیان پاکستانی فیملی رہتی ہیں۔ پاکستانی شوہر جس طرح اپنی بیوی کا خیال کرتے ہیں۔ جس طرح ان کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ خود کام کرتے ہیں۔ بیوی گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ بچوں کی پرورش کرتی ہے۔ امریکی عورتیں یہ بڑی حسرت سے دیکھتی ہیں۔ پاکستانی عورتوں کو شہزادیاں کہتی ہیں۔ کیونکہ یہاں شوہر اور بیوی دونوں کام کرتے ہیں۔ بیوی کو صبح سات یا آٹھ بجے کام پر جانا ہوتا ہے۔ اسے پانچ بجے اٹھنا ہوتا ہے۔ اگر بچے بہت چھوٹے ہوتے ہیں تو انہیں تیار کرنا ہوتا ہے۔ انہیں پھر Day careلے جاتی ہیں۔ انہیں وہاں چھوڑ کر پھر کام پر جاتی ہیں۔ اور پھر چار پانچ بجے کام سے واپسی پر بچوں کو Day care سے لے کر گھر آتی ہیں۔ اور یہ ان کا روز کا معمول ہے۔ اور یہ طرز زندگی اب مشرقی کلچر میں بھی آ رہا ہے۔
       پاکستان میں معاشرتی اور اخلاقی قدریں بڑی تیزی سے انحطاط کی طرف آئی ہیں۔ اس انحطاط میں مذہبی رہنماؤں اور مذہب کی سیاست کا ایک بڑا رول ہے۔ اور وہ یہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے۔ تقریباً 40 سال پاکستان سرد جنگ میں امریکہ کا ایک قریبی اتحادی تھا۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان فوجی الائنس سیٹو اور سینٹو میں شامل تھا۔ پاکستان کی سرزمین سے سوویت یونین کی جاسوسی کرنے کے لئے U-2 طیارے بھی اڑتے تھے۔ امریکہ کی ان فوجی سرگرمیوں پر سوویت یونین سے پاکستان کو دھمکیاں ملتی تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان میں فوجی حکومتیں تھیں۔ پاکستان میں اظہار خیال کی آزادی نہیں تھی۔ سیاسی ادارے تھے لیکن ان میں سیاست نہیں ہوتی تھی۔ لوگ مسلمان تھے لیکن مدرسے اتنے نہیں تھے۔ لوگ نمازیں بھی پڑھتے تھے۔ لیکن مسجدیں اتنی نہیں تھیں۔ تاہم پاکستان میں معاشرتی قدریں تھیں۔ معاشرہ دور سے بھی اور قریب سے بھی مہذب نظر آتا تھا۔ پھر سرد جنگ ختم ہو گئ تھی۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے ملٹری الائنس بھی ختم ہو گۓ تھے۔ پاکستان میں یہ جیسے ایک خلا آگیا تھا۔ اس خلا کو دیکھ کر پھر سعودی آ گۓ تھے۔ انہوں نے پاکستان میں مدرسوں اور مسجدوں کا ایک جال بچھا دیا تھا۔ اور یہ پاکستان کے ساتھ سعود یوں کے فوجی اڈے بن گۓ تھے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں تھیں۔ ان کی حکومتیں بھی تھیں۔ لیکن مدرسے اور مسجدیں انتہا پسندوں کے سیاسی ادارے تھے۔ سرد جنگ کے دور میں سوویت یونین کو پاکستان میں امریکہ کی فوجی سرگرمیوں پر تشویش رہتی تھی۔ اور سرد جنگ ختم ہونے کے بعد اب امریکہ کو پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ میں مدرسوں اور مسجدوں کے رول پر تشویش ہے۔ مدرسوں اور مسجدوں کا پاکستان میں جو انقلاب آیا ہے۔ اس نے پڑھے لکھوں کو جاہل کر دیا ہے۔ اور جاہل پڑھے لکھے ہو گۓ ہیں۔
       دوسری طرف مدرسوں اور مسجدوں کا انقلاب مذہب کو بدنام کر رہا ہے۔ اور کرپشن مسجدوں میں بھی آگیا ہے۔ مولاناؤں کو صرف آخرت بنانے کا خیال ہے۔ لیکن مسلمان بچوں کو یہ کس دنیا میں جھوڑ کر جائیں گے۔ اس کی انہیں فکر نہیں ہے۔ اسلامی انتہا پسندی حد سے اتنی زیادہ بڑھ گئ ہے کہ اب مسلمان مذہب سے فاصلے رکھنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ عرب ملکوں میں خانہ جنگی سے بھاگ کر جو مسلمان یورپ میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ وہ ان ملکوں میں پناہ لینے کے لئے اسلام ترک کر کے عیسائی مذہب قبول کر رہے ہیں۔ پاکستان میں مولوی حضرات نامعلوم کس دنیا میں ہیں۔ یہ اتنا خطرناک وقت ہے کہ اس میں بن جائیں گے یا تباہ ہو جائیں گے۔ اور مولانا فضل الرحمن گھریلو سر زوری کے قانون کے خلاف نکل آۓ ہیں۔ اور یہ دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ لوگوں نے انہیں ووٹ نہیں دئیے ہیں۔ لیکن وہ حکومت کو گرا سکتے ہیں۔ ہمیں تو مولانا کی نقصان پہنچانے کی سیاست پر یقین ہے۔
       امریکہ میں مائی کے اقتدار میں آنے کے امکان بہت زیادہ ہیں۔ مولانا صاحب مائی جب اقتدار میں آۓ گی تو اسلامک ور لڈ  میں Women spring ہو گا۔ عربوں نے ابھی سے اس کی تیاری شروع کر دی ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اپنی خوبصورت عورتیں Closets سے نکال کر باہر لا رہے ہیں۔ سعودی عرب میں لوکل گورنمنٹ کے انتخاب میں عورتوں کو حصہ لینے کی اجازت دی ہے۔ اور سعودی عورتوں کو لوکل گورنمنٹ میں عہدے بھی دئیے جا رہے ہیں۔ جبکہ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے آٹھ عورتوں کو کابینہ میں وزیر نامزد کیا ہے۔ جس میں ایک خوبصورت خاتون کو وزیر مسکراہٹ [ Happiness [ بنایا ہے۔ گھریلو سر زوری صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ امریکہ کی پہلی خاتون صدر ہلری کلنٹن [ اگر صدر منتخب ہوگئ] بہت ممکن ہے کہ اس مسئلہ کو اقوام متحدہ میں لے جائیں۔ اور گھریلو سر زوری کے خلاف ایک عالمی قانون بنانے کا کہا جاۓ۔ اور پھر اقوام متحدہ کے رکن ملکوں کو اس قانون پر عملدرامد کرنے کا کہا جاۓ۔ جو ملک اس قانون پر عملدرامد نہیں کریں گے ان پر پھر بندشیں لگ سکتی ہیں۔ ان ملکوں کے مردوں کے بیرون ملک بنک اکاؤنٹ اور اثاثے منجمد کیے جا سکتے ہیں۔ یہ سنجیدہ مسئلے ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔                                                                                                                                        

No comments:

Post a Comment