Saturday, March 26, 2016

President Obama’s Cuba Visit: The Success Of The Great Cuban Leader Fidel Castro

President Obama’s Cuba Visit: The Success Of The Great Cuban Leader Fidel Castro    


مجیب خان

Cuban Revolutionary Leader, Fidel Castro
Cuban President Raul Castro Welcomes President Obama

        یہ صرف 13 سال پہلے کی بات ہے کہ فیدل کا سترو شدید علیل ہو گیے تھے۔ جارج ڈبلیو بش امریکہ کے صدر تھے۔ فیدل کاسترو کی علالت کے بارے میں صدر بش کو جب بتایا گیا تو ان کا فوری رد عمل یہ تھا کہ خدا کاسترو کو جلد بلا لے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ہر مذہب میں ایسے نظریاتی مذہبی لوگ ہیں جو اپنے مخالفین کے بارے میں ہمیشہ برا سوچتے ہیں۔ اس پر میں نے یہ لکھا تھا کہ خدا کاسترو کو صحت یاب کرے اور کاسترو کو اتنی زندگی ابھی اور دے کہ وہ امریکہ کے پانچ چھ صدارتی انتخاب دیکھیں۔ صدر کاسترو صحت یاب ہو گیے تھے۔ اور اس کے بعد کاسترو نے تین صدارتی دیکھ لئے ہیں۔ اور اب چوتھا صدارتی انتخاب بھی دیکھ رہے ہیں۔ لیکن کاسترو کی زندگی میں یہ بڑا تاریخی واقعہ ہے۔ جو خدا نے انہیں دیکھنا نصیب کیا ہے کہ امریکہ کے 44 صدر براک اوبامہ کیوبا کا دورہ کر رہے ہیں۔ خدا نے یہ دن دیکھا نے کے لئے بھی کاسترو کو زندہ رکھا ہے۔ حالانکہ کاسترو کی زندگی کے خلاف سی آئی اے نے متعدد بار سازشیں کی تھیں۔ لیکن خدا نے سی آئی اے کی سازشوں سے بھی کاستروکو بچایا تھا۔ کیوبا تیسری دنیا کا پہلا کمیونسٹ ملک ہے۔ جہاں امریکہ کے صدر تین روزہ دورے پر آۓ ہیں۔ کیوبا میں فیدل کاسترو کی قیادت میں کمیونسٹ انقلاب کو تقریباً 57 برس ہو گیے ہیں۔ اور ہوانا میں ابھی تک کمیونسٹ حکومت ہے۔ امریکہ کے صدر اوبامہ کی ہوانا آمد کمیونسٹ انقلاب کی ایک عظیم فتح ہے۔ جس سے فیدل کاسترو کی شخصیت اور عظیم ہو گئی ہے۔
        عالمی سیاست میں بار ہا یہ ثابت ہو چکا ہے کہ تعلقات میں دوستی اور دشمنی ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتی ہے۔ اور مفادات بدلنے کے ساتھ دشمن اور دوست بھی بدل جاتے ہیں۔ صرف 13 سال پہلے امریکہ کے 43 صدر جارج بش فیدل کاسترو کے مرنے کی دعا کر رہے تھے۔ فیدل کاسترو کے کیوبا سے تعلقات کس طرح بحال کیے جائیں؟ ہر امریکی انتظامیہ کے سامنے یہ سوال ہوتا تھا۔ اور پھر یہ انتظار تھا کہ خدا فیدل کاسترو کو کب بلاتا ہے۔ لیکن خدا شاید اس انتظار میں تھا کہ امریکی صدر کیوبا کب جاتے ہیں۔ صدر اوبامہ 7 سال تک یہ انتظار کرتے رہے۔ انہیں اپنی Legacy میں کچھ اچھے عالمی کارنامہ بھی دکھانے تھے۔ صدر جارج بش کی طرح صدر اوبامہ کا بھی اقتدار میں سارا وقت دہشت گردوں سے لڑنے اور Regime change کی سیاست میں گزر گیا تھا۔ لہذا ایران کے ساتھ نیو کلیر پروگرام پر سمجھوتہ اور 88 برس میں کسی امریکی صدر کا کیوبا کا دورہ صدر اوبامہ کی Legacy میں کچھ روشنی لاۓ گا۔ افغانستان، عراق، القاعدہ صدر جارج بش کی Legacy تھے۔ جو صدر اوبامہ کو ورثہ میں ملے تھے۔ لیکن لیبیا، شام، مصر میں جمہوریت کی ناکامی، داعش کا عروج، دنیا میں دہشت گردی کا فروغ اب صدر اوبامہ کی Legacy ہوں گے۔
        امریکہ کے کیوبا کے ساتھ تعلقات کے تالے کھولتے ہوۓ صدر اوبامہ نے کیوبا کے لوگوں کو یہ یقین دلایا ہے کہ امریکہ کیوبا اور کسی دوسرے ملک کے مقدر کا فیصلہ نہیں کرے گا۔ صدر اوبامہ نے کہا "کیوبا ایک خود مختار ملک ہے۔ اور اس کا ایک عظیم وقار ہے۔ اور کیوبا کے مستقبل کا فیصلہ کوئی اور نہیں صرف کیوبا کے لوگ کریں گے۔ صدر اوبامہ نے کہا میں یہ واضح کر دیتا ہوں کہ امریکہ کے پاس نہ تو اتنی وسعت ہے نہ ہی کیوبا پر تبدیلی مسلط کرنے کا ارادہ ہے۔ کیا تبدیلیاں آئیں گی اس کا انحصار کیوبا کے لوگوں پر ہے۔ ہم اپنا سیاسی اور اقتصادی نظام آپ پر مسلط نہیں کریں گے۔ ہم یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہر ملک اور اس کے لوگوں کو خود اپنے نظام اور اپنی حکومت کا ماڈل خود وضع کرنا چاہیے۔"
        امریکہ کے صدر کو کیوبا کے لوگوں کو یہ پیغام دینے میں 88 سال لگے ہیں۔ حالانکہ فیدل کاسترو کی ساری جدوجہد اور لڑائی لاطینی ملکوں میں امریکی امپریل ازم کی مداخلت فیصلوں اور حکمرانوں کو مسلط کرنے کے خلاف تھی۔ لیکن کیوبا میں اس حکومت کو امریکہ نے سوویت یونین میں کمیونسٹ حکومت سے کچھ زیادہ سزا دی ہے۔ جبکہ امریکہ کے صدر اور اعلی امریکی حکام ماسکو جاتے تھے اور کمیونسٹ حکام سے ملاقاتیں کرتے تھے۔ ان کے ساتھ ضیافتیں بھی کھاتے تھے۔ انہیں واشنگٹن میں خیر مقدم کرتے تھے۔ دونوں ملکوں کے شہری بھی ایک دوسرے کے ملکوں کے دورے کرتے تھے۔ لیکن کیوبا کو امریکہ نے جیسے 60 سال گوتانوموبے میں نظر بند رکھا تھا۔
        کیوبا کو گوتانوموبے سے نکالنے میں لاطینی ملکوں کی مشترکہ کوششیں ہیں۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد لاطینی ملکوں میں جو سیاسی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان تبدیلیوں سے یہ کیوبا کو تنہا نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ امریکہ کی تمام تر مخالفت اور دباؤ کے باوجود لاطینی ملکوں کے اتحاد نے کیوبا کو اپنے درمیان رکھا تھا۔ اس کے ساتھ تجارتی اور سماجی تعلقات بحال رکھے تھے۔ اور کیوبا کے مسئلہ پر انہوں نے امریکہ کو سائڈ لائن پر رکھا تھا۔ لاطینی ملکوں کی تنظیم کے اجلاس میں امریکہ پر کیوبا سے پا بندیاں ہٹانے اور اس کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا اصرار کرتے تھے۔ پوپ نے بھی صدر اوبامہ سے اپنی ملاقات میں کیوبا پر سے پابندیاں ختم کرنے اور اس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا کہا تھا۔ امریکہ کے سوا دنیا میں کوئی بھی کیوبا کو امریکہ  کی سلامتی کے لئے دشمن نہیں سمجھتا تھا۔ لہذا امریکہ کے لئے کیوبا کو گوتانوموبے میں رکھنے کا کوئی مقصد نہیں تھا۔
        ادھر چین کے ساتھ لاطینی ملکوں کے تعلقات قریبی ہوتے جا رہے ہیں۔ چین کا تجارت اور اقتصادی ترقی کے ذریعے لاطینی ملکوں میں اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ روس کیوبا کے ساتھ  پرانے تعلقات دوبارہ اس مقام پر لے جانے میں دلچسپی لے رہا تھا۔ جو سرد جنگ کے دور میں تھے۔ کیونکہ کے نیٹو روس کی سرحدوں کے قریب آ گیا تھا۔ امریکہ کی یوکرین میں مداخلت سے روس کی سلامتی کے لئے نئے خطرے پیدا ہو رہے تھے۔ ادھر ایسٹ ایشیا میں South China Sea کے مسئلے پر امریکہ کی چین کے گرد فوجی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس صورت حال میں امریکہ کے لئے اس کے بیک یارڈ میں استحکام اور امن اس کی سلامتی کے مفاد میں ضروری ہے۔ امریکہ اپنے بیک یارڈ میں لاطینی ملکوں کو اس کے خلاف استعمال ہو نے کا کوئی موقعہ دینا نہیں چاہتا ہے۔ لہذا صدر اوبامہ نے لاطینی ملکوں کی تنظیم کے گزشتہ اجلاس میں یہ اعلان کیا کہ امریکہ اب ان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔ اور اس کے جواب میں امریکہ بھی لاطینی ملکوں سے یہ چاہے گا کہ وہ بھی اس کے مفادات اور سلامتی کے خلاف کوئی فیصلے نہیں کریں گے۔ اور صدر اوبامہ کا کیوبا کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی پالیسی بھی اس مقصد میں ہے۔

            

No comments:

Post a Comment