Russia In Syria
“Objectives Had Been Achieved
And It Was Now Time To Support Peace Talks In Geneva”
-President
Putin
مجیب خان
پانچ ماہ قبل روسی فوجیں جب مشرق وسطی کے ایک عرب ملک شام میں داخل ہوئی تھیں تو امریکہ کے سیاسی حلقوں میں جیسے ایک اور نائن ایلون ہو گیا تھا۔ امریکہ کی فوجی اور خارجہ پالیسی اسٹبلیشمنٹ کو اس سے زبردست دھچکا پہنچا تھا۔ کسی کو یقین نہیں تھا کہ روس صرف 25 برس میں مشرق وسطی میں ایک طاقتور سیاسی مقام حاصل کر لے گا۔ امریکہ کی سرد جنگ ذہنیت بھی شاید یہ دن دیکھنے کے لئے نہیں بدلی تھی۔ روس کی شام میں فوجی مداخلت کو سرد جنگ ذہنیت کی سیاست میں دیکھا جانے لگا۔ امریکی میڈ یا میں ایک نئی سرد جنگ شروع ہونے کی سرخیاں لگ رہی تھیں۔ صدر پوتن کو اسٹالن ثابت کیا جا رہا تھا۔ روس کے خلاف نئی اقتصادی بندشیں لگانے کی آوازیں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ امریکہ کے عرب اتحادی بادشاہتیں شام میں روس کی فوجی مداخلت کی مذمت کر رہی تھیں۔ صدر اوبامہ انہیں یہ تسلیاں دیتے تھے کہ شام روس کے لئے Quagmire ہو گا۔ روس شام میں Bog down ہ جاۓ گا۔ شام روس کے لئے افغانستان ثابت ہو گا۔ وغیرہ وغیرہ۔
سعودی عرب اور ترکی شام پر فوجی حملے کی تیاریاں کر رہے تھے۔ سعودی عرب کے ساتھ شامل ہو کر ترکی نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات بھی خراب کر لئے ہیں۔ ترک کرد بغاوت کر رہے ہیں۔ دہشت گردی اب ترکی کے شہروں میں پہنچ گئی ہے۔ ترکی کو شام میں مداخلت سے حاصل کیا ہوا ہے؟ ترکی اگر شام کے مسئلے پر روس اور ایران کے ساتھ مل کر صورت حال کو استحکام دینے میں تعاون کرتا جو ترکی کے مفاد میں تھا۔ اور یہ شام کے عوام کی بھلائی میں بھی ہوتا۔ روس اور چین نے پانچ سال قبل سلامتی کونسل میں شام کے بارے میں امریکہ کی دو قراردادوں کو جب ویٹو کیا تھا۔ اوبامہ انتظامیہ نے اس کی سخت مذمت کی تھی۔ پھر روس کی فوجیں جب شام میں آئی تھیں تب بھی اوبامہ انتظامیہ نے صدر پوتن کے فیصلے کی مذمت کی تھی۔ لیکن پانچ سال اور پانچ ماہ بعد اب سب شام میں صورت حال کو بہتر بنانے کی کوششوں میں صدر پوتن کے اقدامات کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ اوبامہ انتظامیہ شام کے مسئلہ پر ترکی سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے بجاۓ اب روس کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ اور سعودی عرب اور خلیج کے حکمرانوں کو شام کی صورت حال سے صرف آگاہ کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے۔
امریکہ میں کسی کو یہ یقین نہیں تھا کہ روس اتنی جلدی اپنی فوجیں شام سے
واپس بلا لے گا۔ امریکہ میں جن کی ابھی تک سرد جنگ ذہنیت ہے۔ انہیں صدر پوتن کے اس
فیصلے میں بھی کوئی چال نظر آ رہی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ شام میں روس کی فوجیں ایک
طویل عرصہ تک رہیں گی۔ صدر پوتن نے شام سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کرتے
ہوۓ کہا کہ " روس کے فوجی مقاصد حاصل ہو گیے ہیں۔ اور اب جنیوا میں امن
مذاکرات میں مدد کرنے کا وقت ہے۔" یہ مذاکرات بھی اسی روز شروع ہو رہے تھے جس
دن صدر پوتن نے شام سے فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ صدر پوتن نے پانچ ماہ
بعد شام میں “Objectives
had been achieved” کا اعلان کیا تھا۔
جبکہ صدر جارج بش نے عراق میں فوجی آپریشن کے آٹھ ہفتہ بعد “Mission accomplished” ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اور اس کے ساتھ عراق میں اہم Combat آپریشن ختم ہونے کا اعلان بھی کیا تھا۔ یہ اعلان صدر جارج بش نے یکم مئ
2003 کو یو ایس ایس ابراہیم لنکن نیول جہاز پر بحریہ کے افسروں سے خطاب میں کیاتھا۔
صدر جارج بش نے کہا کہ "آپ کی وجہ سے ہمارا ملک محفوظ ہے۔ آپ کی وجہ سے ایک
آمر کا خاتمہ ہوا ہے۔ اور عراق آزاد ہے۔" صدر جارج بش کے صرف آٹھ ہفتہ بعد
عراق میں
“Mission
accomplished” اعلان سے دنیا کو
زیادہ حیرت نہیں ہوئی تھی۔ اور دنیا کو یقین تھا کہ امریکی فوجیں عراق سے اب چلی
جائیں گی۔ کیونکہ سیکریٹری ڈیفنس رمز فیلڈ نے بھی عراق آپریشن سے پہلے یہ کہا تھا
کہ امریکی فوجیں عراق میں سرجری کرنے صرف in and out ہوں گی۔ لیکن پھر بش انتظامیہ نے عراقیوں کو دیوار سے لگا دیا تھا۔ ان کی
حکومت کے تمام اداروں کو ختم کر کے بغداد میں امریکیوں کی حکومت قائم کر دی تھی۔ آمر
کا اقتدار ختم کر کے عراقیوں کی ملکیت میں صنعتوں اور بنکوں کو نجی شعبہ میں دینا
شروع کر دیا تھا۔ عراقی تیل میں امریکی کمپنیوں کے حصہ کا تعین کیا تھا۔ یہ
عراقیوں کے لئے ایک نئی قسم کی آمریت تھی۔ جس میں ایک غیرملکی طاقت عراقیوں پر
اپنے فیصلے مسلط کر رہی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ 13 سال ہو گیے ہیں۔ امریکی
فوجوں ک مشن مکمل ہونے کے بعد انہیں پھر عراق میں بھیجنا پڑا ہے۔ صدر اوبامہ نے
گزشتہ سال پندرہ سو امریکی فوجی عراق بھیجے تھے۔ پھر پندرہ سو فوجی مزید بھیجے
ہیں۔ صدر بش کا
Mission accomplished بھی عراق میں
مہلک کی ہتھیاروں کی طرح تھا۔ عراق میں ہتھیار بھی نہیں ملے تھے اور مشن بھی نا مکمل
ہے۔
امریکہ
کے “Mission
accomplished” اور روس کے “Objectives had been achieved” میں بڑا فرق ہے۔ روسی فوجیں شام میں گئی تھیں۔ د مشق
حکومت کو انہوں نے آکسیجن فراہم کی ہے۔ حکومت کے باغیوں نے شام کے جن علاقوں پر
قبضہ کر لیا تھا۔ وہ علاقے ان سے خالی کرا لئے ہیں اور اب وہ دمشق حکومت کے کنٹرول
میں ہیں۔ ان علاقوں میں لوگوں کی زندگیاں بحال ہو گئی ہیں۔ حکومت کے مخالفین کو
سیاسی مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اور دہشت گردوں کی
پشت پنا ہی کرنے والوں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ اور شام میں ان کا گیم
کیا ہو رہا تھا ۔ دنیا کو اس سے بھی آگاہ کیا ہے۔ پانچ ماہ کے اس مختصر عرصہ میں
اتنے مقاصد حاصل کر لئے تھے۔ شام میں روس کی فوجی موجودگی میں شیعہ سنی تقسیم کی
سیاست کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی۔ تمام تر فوکس شام کو ایک متحد ملک رکھنے پر تھا۔
جب مقاصد نیک ہوتے ہیں۔ پھر کامیابی ناکامیوں پر غالب آ جاتی ہے۔ امریکہ کے یورپی
اتحادی شام میں روس کی اس فوجی مداخلت سے مطمئن ہیں۔
امریکہ
کے افغان عراق لیبیا شام ،دہشت گردی کے خلاف جنگ، عرب دنیا کو ڈیموکریسی اور آزادی
میں ٹرانسفارم کرنے کے تمام مشن بری طرح ناکام ہوۓ ہیں۔ کیونکہ مشن وہ نہیں تھا جو
مقاصد تھے۔ اور مقاصد وہ نہیں تھے جو مشن تھا۔ امریکہ اور نیٹو ممالک افغانستان
میں 14 سال تک مختلف ثقافتوں کو متحد کرنے کے بجاۓ انہیں تقسیم کرنے اور لڑانے کی سیاست
کرتے رہے۔ طالبان ایک بہت بڑی پشتون آبادی کا حصہ تھے۔ لیکن امریکہ اور نیٹو
افغانستان سے طالبان کے مکمل خاتمہ تک صرف جنگ کو فروغ دیتے رہے۔ انہوں نے طالبان
کو جیسے افغان معاشرے کا حصہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے افغانستان
میں اپنی شکست تسلیم کر لی۔ لیکن افغانستان میں ایک سیاسی حل کو اہمیت نہیں دی
تھی۔
عراق
کو امریکہ اور برطانیہ نے شیعہ سنی فرقہ پرستی کی سیاست میں تقسیم کر دیا ہے۔ ان
کے اس مشن سے عراقی عیسائی سب سے زیادہ متاثر ہوۓ ہیں۔ عراق کو ایک فیل ریاست بنا
کر چلے گیے۔ اور اب ہزاروں میل دور سے عراق کے حالات کا کبھی القاعدہ کو الزام دیتے
ہیں۔ کبھی داعش کو الزام دیتے ہیں۔ کبھی شیعاؤں کا سنیوں کے ساتھ بر تاؤ کو عراق کے حالات کا ذمہ دار بتاتے ہیں۔ اسی
طرح انہوں نے لیبیا کو بن غازی اور تریپولی میں تقسیم کر دیا ہے۔ لیبیا ایک اچھا
خاصا مضبوط اقتصادی اور سماجی معاشرہ تھا۔ اسے بھی انہوں نے ایک فیل ریاست بنا دیا
ہے۔ اور پانچ سال قبل کرنل قدافی اور ان
کی حکومت کے حکام امریکہ کو یہ بتا رہے تھے کہ القاعدہ لیبیا میں اسلامی خلافت
قائم کرنا چاہتی ہے۔ اور اب اوبامہ انتظامیہ یہ دنیا کو بتا رہی ہے کہ داعش لیبیا میں
اسلامی خلافت قائم کر رہی ہے۔
اسی
طرح دہشت گردی ختم کرنا کبھی مشن نہیں تھا۔ اگر یہ واقعی مشن تھا تو دنیا کو آج اس
مشن میں ضرور کہیں کامیابی نظر آتی 16 سال میں 16 ہزار دہشت گردوں کے نئے گروپ وجود
میں آ گیے ہیں۔ اور یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہو گی۔ داعش اتنی بڑی دہشت گرد تنظیم نے
ایک مملکت کی صورت اختیار کر لی لیکن امریکہ کی 36 خفیہ ایجنسیوں میں سے کسی کو اس
کے بارے میں معلوم نہیں تھا؟ نہ صرف یہ شام کے ایک بڑے حصہ میں داعش نے اپنی خلافت
قائم کر لی تھی ۔ لیکن اوبامہ انتظامیہ نے شام میں اپنا مشن تبدیل نہیں کیا تھا۔ بلکہ نام نہاد
شامی مجاہدین کو تربیت اور اسلحہ کی فراہمی جاری رکھی تھی۔ شام میں روس کی فوجیں آ
نے کے بعد صورت حال تبدیل ہو گئی ہے۔ اور اس کا کریڈٹ صدر ویلا دیمیر پوتن کو دیا
جاۓ گا۔
No comments:
Post a Comment