Tuesday, March 22, 2016

The GCC Is Helping Syrian Rebels And The EU Is Helping Migrants, While America Is Simultaneously Helping The GCC And The EU

 The GCC Is Helping Syrian Rebels And The EU Is Helping Migrants, While America Is Simultaneously Helping The GCC And The EU

مجیب خان

German Chancellor Angela Merkel
Destruction In Syria
       22 ملین کی آبادی کا شام جتنا چھوٹا ملک ہے۔ شام کی خانہ جنگی دنیا کے لئے اتنا ہی بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ شام کی خانہ جنگی کے اثرات سے یورپ میں امن اور استحکام کے عصاب بھی شدید دباؤ میں ہیں۔ جہاں تقریباً  دو ملین شامی مہاجرین یورپی یونین کے 28 ملکوں کی دہلیز پر پناہ لینے کے انتظار میں کھڑے ہیں۔ یورپ میں عوامی راۓ عامہ ان مہاجرین کو پناہ دینے کے سخت خلاف ہے۔ یورپ بھر میں اس کے خلاف شدید مظاہرے ہو رہے ہیں۔ دائیں بازو کی جماعتیں اور قوم پرست عوامی راۓ کی حمایت کر رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان کی مقبولیت آسمان پر پہنچ گئی ہے۔ جرمنی میں حالیہ علاقائی انتخابات میں دائیں بازو کی جماعتیں اور قوم پرست بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی ہیں۔ اور چانسلر انجلا مرکل کی پارٹی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عوامی راۓ عامہ کے دباؤ میں یورپی حکومتیں ان مہاجرین کو پناہ دینے میں خاصا محتاط موقف اختیار کر رہی ہیں۔ کئی ماہ تک جرمن چانسلر انجلا مرکل اور یورپی رہنماؤں میں ان مہاجرین کو قبول کرنے کے لئے کوٹہ کے تعین پر مذاکرات ہوتے رہے۔ جو کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تھے۔ اور یورپی یونین کے پیشتر ملکوں نے ان مہاجرین کو لینے سے انکار کر دیا تھا۔ بالآخر گزشتہ ہفتہ بریسلز میں یورپی یونین اور ترکی میں مہاجرین کے بحران پر سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ جو مہاجرین ترکی سے یونان آۓ تھے۔ انہیں واپس بھیجا جاۓ گا۔ سمجھوتہ کے تحت ترکی کو 6.6 بلین ڈالر امداد ترکی میں مہاجرین کی دیکھ بھال کرنے والی تنظیموں کی مدد کرنے کے لئے دی جاۓ گی۔ اس کے علاوہ ترکی اگر بعض شرائط کو پورا کرتا ہے۔ تو اس موسم گرما میں اس کے شہریوں کو یورپ کے پیشتر ملکوں میں سفر کی ویزا فری سہولتیں دی جائیں گی۔ اور پھر یورپی یونین میں ترکی کو رکنیت دینے پر مذاکرات شروع کیے جائیں گے۔ ترکی کے وزیر اعظم اور یورپی یونین کے 28 ملکوں نے اس سمجھوتہ کی توثیق کی ہے۔ ان اقدامات کے علاوہ جرمن حکومت نے مہاجرین کو واپس جانے کے لئے ہوائی جہاز کا ٹکٹ اور تقریباً ساڑھے چھ ہزار ڈالر دینے کی پیشکش کی ہے۔ تاکہ یہ واپس اپنے آبائی ملک جائیں اور اپنے لئے روز گار کا بندوبست کریں یا کوئی کاروبار شروع کریں۔ جرمنی کے دوسرے ہمسایہ بھی ایسے ہی اقدامات کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
       مشرق وسطی کا خطرناک عدم استحکام اور شام کی خانہ جنگی نے ایک سنگین انسانی بحران پیدا کر دیا ہے۔ جس سے یورپ کے لئے بھی ایک بحران پیدا ہو گیا ہے۔ یورپی یونین ترکی کو 6.6 بلین ڈالر شام کے مہاجرین کو صرف ترکی میں رکھنے کے لئے ادا کرے گی۔ اس کے علاوہ جرمنی اور دوسرے یورپی ملک مہاجرین کو واپس بھیجنے کے لئے مالی پیشکش بھی کر رہے ہیں۔ اور یہ یورپی ملکوں کو شام کی خانہ جنگی کے نتائج میں انویسٹ کرنا پڑ رہا ہے۔ جبکہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں نے کھربوں ڈالر شام کی خانہ جنگی میں انویسٹ کیے ہیں۔ جبکہ امریکہ نے شام کی خانہ جنگی میں د مشق حکومت کے باغیوں کو لاکھوں ڈالر کا اسلحہ اور انہیں تربیت دینے میں انویسٹ کیے ہیں۔ دنیا کے کچھ ممالک انسانی بحران پیدا کرنے میں انویسٹ کر رہے ہیں۔ اور کچھ ممالک اس انسانی بحران کے حل میں انویسٹ کر رہے ہیں۔ نیو ور لڈ آ ڈر میں Human destruction پر جس قدر انویسٹ کیا جا رہا ہے۔ اتنا Human development پر انویسٹ نہیں کیا گیا ہے۔
       اتنے بڑے پیمانے پر یہ انسانی تباہی صرف چند شخصیات سے نفرت اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے نتیجے میں پھیلائی گئی ہے۔ انہیں عراق میں صدام حسین سے تھی۔ انہیں لیبیا میں کرنل قدافی سے نفرت تھی۔ انہیں شام میں بشارالاسد سے نفرت ہوگئی ہے۔ یہ نفرت مدرسوں کے تعلیم یافتہ لوگوں کو ان شخصیتوں سے نہیں ہوئی تھی۔ یہ مغرب کے اعلی تعلیمی اداروں کے تعلیم یافتہ اور انتہائی ترقی یافتہ اور مہذب قوموں کی قیادتوں کی ان سے نفرت تھی۔ امریکہ نے عراق میں صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے میں آٹھ سال میں ایک ٹیریلین  ڈالر خرچ کیے تھے۔ لیکن ایک ٹیریلین ڈالر امریکہ نے افریقہ میں تعلیم اور صحت پر کبھی آٹھ سال میں خرچ نہیں کیے تھے۔ شام میں امریکہ نے حکومت کے خلاف باغیوں کو تربیت دینے اور انہیں اسلحہ فراہم کرنے پر پانچ سال میں لاکھوں ڈالر خرچ کر دئیے ہیں۔ لیکن امریکہ نے مصر میں ایک جمہوری حکومت کو استحکام دینے میں لاکھوں ڈالر خرچ کرنا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ اور نہ ہی جمہوری حکومت کے لوگوں کے ساتھ کام کرنا پسند تھا۔ اور نہ ہی انہیں جمہوری نظام میں کام کرنے کی تربیت دینا ضروری سمجھا تھا۔ دنیا میں بے شمار ذہین اور عقلمند لوگ ہیں۔ وہ ذرا بتائیں کہ امریکہ نے پانچ سال شام میں باغیوں کی حکومت کے خلاف دہشت گردی کی حمایت کی ہے۔ اس کے نتائج ان کے سامنے ہیں۔ لیکن پانچ سال امریکہ اگر مصر میں صبر و تحمل سے جمہوری حکومت کی حمایت جاری رکھتا تو آج اس کے نتائج کیا شام سے زیادہ بہتر نہیں ہوتے؟ امریکہ نے اسلامی دنیا کو شام میں حکومت تبدیل کرنے کا ایک ماڈل دیا ہے۔ لیکن اسلامی دنیا کے لئے مصر ایک جمہوری ماڈل نہیں بنایا ہے۔
       شام کو تباہ کرنے کا ذمہ دار کون ہے؟ صدام حسین کی فوجیں کویت میں گئی تھیں۔ لیکن صدام حسین کی فوجوں نے کویت اس طرح تباہ نہیں کیا تھا کہ جس طرح شام کو تباہ کیا گیا ہے۔ بلاشبہ صدام حسین میں کچھ انسانی قدریں تھیں۔ ان کی ثقافت میں بھی مہذب قدریں تھیں۔ صدام حسین نے اپنی فوجوں کو کویت میں سرکاری املاک اور لوگوں کی رہائش گاہیں کھنڈرات بنانے کی تربیت نہیں دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود صدام حسین سے کویت کو100 بلین ڈالر تاوان ادا کرنے کا کہا گیا تھا۔ کویت کو تیل کی آمدنی کا جو نقصان ہوا تھا۔ وہ بھی صدام حسین نے ادا کیا تھا۔ کویت کے علاوہ صدام حسین سے سعودی عرب کو بھی تقریباً 90 بلین ڈالر ادا کیے تھے۔ جو سعودی عرب نے اتحادی فوجوں کے آپریشن پر خرچ کیے تھے۔
      اقوام متحدہ کے ذریعے جن ملکوں نے صدام حسین سے یہ تاوان ادا کرنے کا کہا تھا۔ اب انصاف اور قانون کا تقاضہ ہے کہ یہ ملک  شام کو تباہ کرنے میں جو قومیں شامل ہیں ان سے اقوام متحدہ کے ذریعے شام کو تاوان ادا کرنے کی درخواست کریں ۔ جنہوں نے نام نہاد باغیوں کی پشت پنا ہی کی تھی۔ انہیں تربیت دی تھی۔ اور اسلحہ فراہم کیا تھا۔ شام کی حکومت کو جنیوا میں امن مذاکرات میں اس مطالبہ کو سمجھوتہ سے مشروط کرنا چاہیے۔ یہ ملک ایک ٹیریلین ڈالر شام کو تاوان ادا کریں۔
       1988 میں صدر قدافی کے دور میں Pan Am Flight 103 جو لاکر بی اسکاٹ لینڈ  کی فضا میں دھماکہ سے تباہ ہوگیا تھا۔ جس میں 259 افراد ہلاک ہو ۓ تھے۔ طیارہ نیو یارک آ رہا تھا۔ امریکہ اور برطانیہ نے تحقیقات کے بعد لیبیا کے دو شہریوں کو اس واقعہ میں ملوث پا یا تھا۔ جس کے بعد سلامتی کونسل نے لیبیا پر فضائی سفر اور ہتھیاروں کی فروخت پر پابندی لگا دی تھی۔ ایک طویل عدالتی کاروائی کے بعد 2008 میں قدافی حکومت نے طیارے میں ہونے والے افراد کے ہر خاندان کو 10 ملین ڈالر معاوضہ ادا کیا تھا۔ اور اب شامی خاندانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی انصاف ہونا چاہیے ۔  






       

No comments:

Post a Comment