A Nuclear North Korea Is “Homeland Security” For East Asia
مجیب خان
North Korean Missile Testing |
شمالی کوریا پر اقتصادی بندشیں لگانے کے اب تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ دنیا میں شاید کسی ملک پر اتنی اقتصادی بندشیں نہیں لگی ہوں گی کہ جتنی شمالی کوریا پر لگائی گئی ہیں۔ شمالی کوریا ان اقتصادی بندشوں کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ اور اس سے ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ امریکہ بھی شمالی کوریا پر سے اقتصادی بندشوں میں کمی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اور شمالی کوریا اپنی نیوکلیر سرگرمیاں ترک کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ شمالی کوریا پر جتنی زیادہ اقتصادی بندشیں لگائی جاتی ہیں۔ شمالی کوریا اتنے ہی زیادہ نیو کلیر میزائلوں کے تجربے کرنے لگتا ہے۔ شمالی کوریا میں کم ال سنگ سے (Kim il sung) امریکہ کی جو لڑائی شروع ہوئی تھی وہ ان کے بیٹے کم جونگ ال (Kim jong il) کے دور میں بھی جاری تھی۔ اور امریکہ کی یہ لڑائی اب ان کے پوتے کم جونگ ان (Kim jong un) سے ہے۔ جو 30 برس کے ہیں۔ امریکہ نے جن ملکوں پر حملے کیے ہیں۔ اور وہاں حکومتیں تبدیل کی ہیں۔ ان ملکوں کے مقابلے میں شمالی کوریا بہت پرامن ملک ہے۔ اور اس کے ارد گرد میں استحکام ہے۔ شمالی کوریا نے اپنے ہمسایہ ملکوں کے لئے ایسے مسائل پیدا نہیں کیے ہیں۔ جو عراق اور لیبیا میں حکومتیں تبدیل کرنے سے ان کے ہمسایہ ملکوں کے لئے پیدا ہو گیے ہیں۔ شمالی کوریا کے اطراف میں ہمسایہ ممالک اپنے اقتصادی پیداواری سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ اور شمالی کوریا اپنے ایٹمی میزائلوں کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے ہیں۔ اور نہ ہی ایک دوسرے کے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ وہ شمالی کوریا کے میزائلوں کے تجربوں سے بھی خوفزدہ نہیں ہو رہے ہیں۔ اور شمالی کوریا پر ان کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ امریکہ نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں جو ایٹمی ہتھیار استعمال کیے تھے۔ جاپانی ان سے ہونے والی تباہی ابھی تک بھولے نہیں ہیں۔ بلکہ اس کے تابکاری اثرات ہیرو شیما اور ناگا ساکی میں ابھی تک موجود ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جاپانی شمالی کوریا کے جو اس کا ہمسایہ ہے۔ ایسی مہم نہیں چلا رہے ہیں جو صدام حسین کے خلاف امریکہ اور برطانیہ نے چلائی تھی۔ اور ساری دنیا کو خوف و حراس سے دو چار کر دیا تھا۔ اور عراق کے جو ہمسایہ تھے اگر یہ شمالی کوریا کے ہمسایہ ہوتے تو شمالی کوریا کا حشر بھی ہو چکا ہوتا۔ لیکن یہ شمالی کوریا کے ہمسایہ ہیں جو اپنے خطہ کے امن اور استحکام کے مفاد میں فرنٹ لائن پر ہیں۔ اور امریکہ کو ایسا کوئی extreme اقدام کرنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں کہ جس سے اس خطہ میں 1950 دوبارہ آ جاۓ اور کوریا کی دوسری جنگ شروع ہو جاۓ۔ اس لئے یہ شمالی کوریا کے استحکام میں اپنے لئے امن دیکھتے ہیں۔ جبکہ عربوں نے عراق کے استحکام میں اپنے لئے امن نہیں دیکھا تھا۔ عرب امریکہ کے مفادات میں اپنا استحکام اور امن دیکھ رہے تھے۔
سوال
یہ ہے کہ عالمی برادری شمالی کوریا کے
ایٹمی ہتھیاروں کے ایشو پر امریکہ کو اس طرح ملوث ہونے کی ترغیب کیوں نہیں دیتے
ہیں کہ جس طرح انہوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر امریکہ کو ٹیبل پر بٹھایا تھا۔
اور پھر انتھک مذاکرات کے بعد ایران کے ایٹمی پروگرام پر سمجھوتہ ہوا تھا۔ شمالی
کوریا میں بھی ایک نئی قیادت آئی تھی۔ جو بہت کم عمر تھی۔ اور شاید یہ امریکہ کے
ساتھ تعلقات استوار کرنے میں بھی دلچسپی رکھتی تھی۔ امریکہ کو ذرا محاذ آ رائی اور
hawkish رویہ ترک کر کے شمالی کوریا کی نئی قیادت سے بات چیت کے لئے دروازے کھولنا
چاہیے تھے۔ 32 سالہ Kim
Jong Un کو اقتدار میں آۓ پانچ سال ہو رہے ہیں۔ ان پانچ
سالوں میں پیاؤنگ یاؤنگ میں نئی قیادت نے اپنے ہمسائیوں کے خلاف کوئی جا حا ریت
نہیں کی ہے۔ انہیں صرف لفظی دھمکیاں دی ہیں۔ اور میزائلوں کے تجربے کیے ہیں۔ بعض
اطلاعات کے مطابق ایٹمی دھماکہ بھی کیے ہیں۔ اس کی بھی ایک نفسیاتی وجہ ہو سکتی ہے۔
کیونکہ دنیا نے انہیں تنہا کر دیا ہے اور اس تنہائی میں وہ یہ ہتھیار بنا رہے ہیں
اور ان کے تجربے کر کے دنیا کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پھر یہ کہ امریکہ نے بھی
ان کے ساتھ ابھی تک پچاس کے عشرے کی کوریا جنگ کی کشیدگی کو برقرار رکھا ہوا ہے۔
امریکہ کی یہ پالیسی بھی پیاؤنگ یاؤنگ کو نیو کلیر میزائلوں کے تجربے کرنے کی شہ
دے رہی ہے۔ اوبامہ انتظامیہ نے کیوبا سے تعلقات بحال کر لئے ہیں۔ ویت نام کی
کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا تھا۔ حالانکہ کمیونسٹوں کے
خلاف ویت نام جنگ کے زخم ابھی تک بھرے نہیں ہیں۔ لیکن امریکہ نے اس تاریخ کو پیچھے
چھوڑ کر ایک نئی تاریخ کا آغاز کیا ہے۔ اسی طرح شمالی کوریا کے ساتھ بھی امریکہ کو
ایک نئی تاریخ کا آغاز کرنا چاہیے۔ شمالی کوریا کی نوجوان قیادت کے خیالات میں بھی
ایک نئی تاریخ کا جذبہ ہوگا۔ کم جونگ ان اپنے دادا کم ال سنگ اور اپنے والد کم
جونگ ال سے بہت مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر امریکہ پیاؤنگ یاؤنگ سے خود براہ راست رابطہ
کرنا نہیں چاہتا ہے تو امریکہ کے توسط سے یہ رابطہ جنوبی کوریا اور جاپان کے ذریعے
بھی ہو سکتے ہیں۔
شمالی کوریا اس وقت نیو کلیر ہتھیار بنانے کی جس پالیسی پر گامزن ہے۔ اس کا ایک دوسرا پہلو
بھی ہے کہ یہ دنیا بہت خطرناک ہو گئی ہے۔ شمالی کوریا کے سامنے عراق، لیبیا، افغانستان
اور شام کی مثالیں ہیں۔ جہاں امریکہ اور نیٹو نے حکومتیں تبدیل کر کے ان ملکوں کو
تہس نہس کر دیا ہے۔ ان ملکوں میں لاکھوں خاندانوں کے گھر اجڑ گیے ہیں۔ ان کی زندگیاں
تاریک ہو گئی ہیں۔ عراق پر اس وقت حملہ کیا گیا تھا کہ جب امریکہ کو یہ بتا دیا گیا
تھا کہ عراق میں مہلک ہتھیاروں کا مکمل خاتمہ ہو گیا تھا۔ امریکی فوجیں اسی روز
عراق میں بغداد تک گھستی چلی گئی تھیں۔ اور پھر بغداد پر قبضہ کر لیا تھا۔ اسی طرح
لیبیا میں کرنل قدافی سے یہ کہہ کر سارے مہلک ہتھیار لے لئے گیے تھے۔ کہ اب وہ
اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔ اور ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاۓ گی۔ انہیں یہ
یقین بش انتظامیہ نے دلایا تھا۔ لیکن پھر اوبامہ انتظامیہ نے سابقہ انتظامیہ کے
عہد کو نظر انداز کر دیا تھا۔ اور لیبیا پر بمباری کر کے ایک طرف قدافی حکومت کو
تباہ کر دیا اور دوسری طرف لیبیا کو برباد کر دیا۔
پھر
یہ کہ دنیا میں دہشت گردوں کے خلاف 14 سال سے جنگ لڑی جا رہی تھی۔ لیکن پھر ان ہی
دہشت گردوں سے شام میں حکومت تبدیل کرنے کا کام بھی لیا جا رہا تھا۔ شام کھنڈرات
بن گیا ہے۔ شام کے لوگوں کے گھر کاروبار زندگیاں سب کھنڈرات بن گیے ہیں۔ عالمی
قانون ،اخلاقی قدریں، مہذب اصول، انسانی حقوق کے ادارے دنیا کا کوئی قانون عراق لیبیا
شام کے لوگوں کا تحفظ نہیں دے سکا تھا۔ جا حا ریت کے سامنے سب کمزور تھے۔ ایک طرف
ہتھیار تھے اور دوسری طرف نہتے ملک اور لوگ تھے۔ ہتھیاروں کی طاقت، دہشت گردی اور
جا حا ریت نے دنیا کو خطرناک بنا دیا ہے۔ دنیا کو خطرناک دیکھ کر قومیں اب اپنی
سلامتی بھی خطرناک ہتھیاروں کو حاصل کرنے میں دیکھ رہی ہیں۔ ایک خطرناک دنیا میں
اب خطرناک ہتھیار ہی قوموں کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔ قوموں کو زندہ رکھنے کا دنیا میں
اب کوئی قانون نہیں ہے۔ شمالی کوریا بھی اب شاید اس نتیجے پر پہنچ گیا ہے
No comments:
Post a Comment