Sunday, April 24, 2016

For Saudi Arabia, Iran Is Not The Problem. And For Iran, Saudi Arabia Is Not The Problem

For Saudi Arabia, Iran Is Not The Problem. And For Iran, Saudi Arabia Is Not The Problem 
(Hassan Rouhani) 

مجیب خان






          جن خطرناک حالات میں اس وقت اسلامی دنیا گھری ہوئی ہے۔  یہ دنیا کے  1.3 بلین مسلمانوں کے بقا کا مسئلہ ہے۔ ایسے حالات میں استنبول میں اسلامی سربراہوں کی کانفرنس میں اسلامی رہنماؤں کو اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا۔ اور اسلامی ملکوں کو خطرناک جنگوں کی دلدل سے نکالنے کے لئے ایک مشترکہ لائحہ عمل پر غور کرنا چاہیے تھا۔ اور اپنی نوجوان نسل کو جو دہشت گردی کے راستہ پر چلی گئی ہے۔ دنیا بھر میں جیلیں ان کا مستقبل بن رہا ہے۔ اس اسلامی نسل کو بچانے کے اقدام کیے جاتے۔ یہ اسلامی سربراہوں کے سامنے اہم ایشو تھے۔ جن پر استنبول کانفرنس میں سنجیدہ فیصلے کیے جاتے۔ لیکن یہ بڑے دکھ کی بات تھی کہ اسلامی رہنما ان ایشو پر کوئی ٹھوس فیصلے نہیں کر سکے تھے۔ اسلامی سربراہوں کی کانفرنس امہ میں شدید انتشار، اختلافات اور ایک دوسرے کے خلاف شکوہ اور شکایتوں پر ختم ہو گئی۔ سعودی عرب اور خلیج کے رہنماؤں نے اس کانفرنس کو ایران کے خلاف اپنی لڑائی کا محاذ بنا لیا تھا۔ ان کے ارد گرد جو جنگیں اور خانہ جنگی ہو رہی ہیں ان کا ذمہ دار وہ ایران کو ٹھہراتے رہے کہ یہ ان کے امور میں مداخلت کر رہا ہے۔ سعودی اور خلیج کے حکمرانوں کے اس روئیے سے یہ تاثر پیدا ہو رہا تھا کہ یہ سنی اسلامی سربراہ کانفرنس تھی۔ اور شیعہ سنی تقسیم کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ لیکن دکھ کی بات یہ تھی کہ سعودی اور خلیج کے حکمرانوں نے اس طرح کی عالمی کانفرنسوں میں عربوں کے معاملات میں اسرائیل کی مسلسل مداخلت اور عربوں کے علاقوں پر نصف صدی سے فوجی قبضہ کے خلاف ایسا سخت موقف کبھی اختیار نہیں کیا تھا۔ اس وقت دنیا میں جتنی کانفرنسیں ہو رہی ہیں۔ ان میں صرف عراق شام اور لیبیا کے حالات پر بات ہوتی ہے۔ اور مظلوم فلسطینی جن کی زندگیاں نصف صدی سے عدم استحکام انتشار اور اسرائیلی فوجوں کی دہشت گردی کا شکار بنی ہوئی ہیں۔ لیکن انہیں عراق شام اور لیبیا کے حالات سے علیحدہ کر دیا ہے۔ دنیا نے فلسطینیوں کو اتنا زیادہ Bullshit دیا ہے کہ Bullshit دینے کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گیے ہیں۔ اور اب فلسطینیوں کی کوئی بات نہیں کرتا ہے۔ کس طرح مشرق وسطی کو ان حالات میں پہنچایا گیا ہے۔
        امریکہ اور سعودی عرب کے قریبی تعلقات کے 70 سال کی تاریخ میں صدر اوبامہ شاید پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے سعود یوں کو یہ بالکل درست مشورہ دیا ہے کہ انہیں ایران کو شامل کرنا چاہیے۔ ایران سعودی عرب کا قریبی ہمسایہ ہے۔ اور انہیں اس کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہیے۔ لیکن سعودی الٹا صدر اوبامہ سے سوال کر رہے ہیں کہ انہوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام پر مذاکرات کیوں کیے تھے؟ اور امریکہ  انہیں چھوڑ کر ایران کے ساتھ تعلقات بحال کر رہا ہے۔  استنبول اسلامی سربراہ کانفرنس اعلامیہ میں ایران کی دشت گردی کی حمایت کرنے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ لیکن پھر دوسری طرف اسی اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ "غیر ملکی قبضہ کے خلاف لڑائی دہشت گردی نہیں ہے۔" اگر یہ اسلامی سربراہ کانفرنس کا فیصلہ ہے۔ تو پھر سعودی عرب اور عرب لیگ نے حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم کیوں قرار دیا تھا۔ حزب اللہ نے صرف اسرائیلی فوجی قبضہ کے خلاف لڑائی لڑی ہے۔ اور اس وقت بھی اسرائیلی جا حا ریت کے خلاف اس کی مزاحمت جاری ہے۔ اب ایران اگر اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کی مزاحمت کرتا ہے تو پھر یہ اسلامی سربراہ کانفرنس کے اس فیصلے کے مطابق ہے کہ غیرملکی قبضہ کے خلاف لڑائی دہشت گردی نہیں ہے۔
        ایران کے صدر حسن روحانی  استنبول اسلامی سربراہ کانفرنس میں اس خلوص اور خیرسگالی کے جذبہ کے ساتھ شرکت کرنے آۓ تھے کہ عرب ایران کا نقطہ نظر سنیں گے۔ اور انہیں ایران کے بارے میں جو غلط فہمیاں ہیں۔ وہ انہیں دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور عربوں میں یہ اعتماد پیدا کریں گے کہ ایران کا اس خطہ پر غلبہ حاصل کرنے کے کوئی عزائم نہیں ہیں۔ ایران اس خطہ کے امن استحکام اور اقتصادی ترقی میں خصوصی دلچسپی رکھتا ہے۔ اور اس کے لئے ایران عرب حکومتوں کے ساتھ تعاون اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہے۔ لیکن عرب حکمران کیونکہ مطلق العنان ذہنیت رکھتے ہیں۔ اس لئے افہام و تفہیم، دوسروں کا نقطہ نظر سمجھنا اور گفت و شنید سے غلط فہمیاں دور کرنا بادشاہوں کے مزاج میں نہیں ہے۔ استنبول سربراہ کانفرنس کے سامنے جیسے صرف ایران بڑا مسئلہ تھا۔ اسلامی دنیا میں اور کوئی دوسرے مسئلے نہیں تھے۔ ایرانی وفد کو بیٹھا کر سعودی اور خلیجی رہنماؤں نے ایران کے خلاف الزامات میں تقریریں شروع کر دیں تھیں۔ ایران کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے۔ اور پھر ایران کی مذمت میں اسلامی سربراہ کانفرنس سے قرارداد منظور کرنے کا حکم دینے لگے تھے۔ جس پر صدر حسن روحانی اور ان کا وفد کانفرنس حال سے چلا گیا۔
       57 اسلامی ملکوں کی سربراہ کانفرنس میں ایک بڑی تعداد غیر عرب ملکوں کی بھی تھی۔ جو اسلامی دنیا کو در پیش چیلنجوں کے اس نازک موڑ پر سعودی عرب اور ایران کے درمیان محاذ آرائی کی حمایت میں نہیں ہیں۔ اسلامی ملک پہلے ہی داخلی دہشت گردی علاقائی خانہ جنگی اور غیر ملکی طاقتوں کی جنگوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور اس صورت حال میں سنی سعودی عرب اور شیعہ ایران میں فرقہ پرستی کی بنیاد پر تقسیم خطرناک نتائج کی سیاست ثابت ہو گی۔ یہ صیہونی سازش ہے۔ جو اسلامی دنیا میں پھوٹ ڈالو، عربوں کے علاقوں پر قبضہ رکھو، اور فلسطائن کو اسرائیلستان بناؤ منصوبہ ہے۔ اور اس خطہ میں GCC ملکوں کی سیاست اس منصوبہ کی تکمیل کر رہی ہے۔ سعودی عرب کا یہ کہنا ہے کہ "ایران مشرق وسطی کو عدم استحکام کر رہا ہے" لیکن انہیں شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ مشرق وسطی کو مارچ 2003 میں امریکہ نے عراق پر حملہ سے عدم استحکام کرنے کی سنگ بنیاد رکھی تھی۔ اور خلیج کی ریاستیں اس حملہ میں امریکہ کے ساتھ کھڑی تھیں۔ انہوں نے اپنی زمین مشرق وسطی کو عدم استحکام کرنے کے لئے اس حملہ کے لئے دی تھی۔ مارچ 2003 مشرق وسطی کا سب سے تاریک دن تھا۔ اور وہ تاریکی ابھی تک مشرق وسطی پر چھائی ہوئی ہے۔ قومیں تاریکی میں جلد عدم استحکام ہو جاتی ہیں۔ ہزاروں میل سے غیر ملکی فوجیں جب آتی ہیں تو تباہی پھیلاتی ہیں۔ سارے خطہ کو عدم استحکام کر دیتی ہیں۔ اس لئے اسرائیل امریکہ اور نیٹو فوجوں کو کبھی اپنی سرزمین پر قدم نہیں رکھنے دیتا ہے۔ حالانکہ اس کے اطراف میں ہر طرف عدم استحکام ہے لیکن اسرائیل میں استحکام مضبوط ہے۔ GCC ملکوں کی سیاست کی وجہ سے عراق تباہ ہوا ہے۔ عراق میں سنی حکومت کا انہوں نے خاتمہ کرایا ہے۔ اور اب یہ واؤ ویلا کر رہے ہیں۔ لیبیا کو انہوں نے تباہ کرایا ہے۔ شام ان کی وجہ سے تباہ ہوا ہے۔ یمن کو انہوں نے تباہ کیا ہے۔ اسلامی دنیا کو انہوں نے کمزور کر دیا ہے۔ یمن کی جنگ میں انہیں شکست ہو گئی ہے۔ شام میں بری طرح ناکام ہوۓ ہیں۔ فلسطین کا تنازعہ یہ حل نہیں کرا سکے ہیں۔ ایران کے مسئلہ پر یہ امریکہ کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ کیونکہ ایران کے خلاف اسرائیل بھی ان کی پشت پر ہے۔ لیکن فلسطین کے مسئلہ پر یہ امریکہ سے اس لب و لہجہ میں بات کرنے کی جرات  نہیں کر سکتے ہیں۔ ان ملکوں کو اب اپنے سیاسی قبلہ کا تعین کرنا ہو گا۔
        سعودی حکومت نے حال ہی میں اقتصادی ترقی اور سرمایہ کاری کا جو منصوبہ دیا ہے۔ اور تیل پر سے انحصار کم کر کے  صنعتی پیداوار پر انحصار بڑھانے کا جو فیصلہ کیا ہے۔ کیا یہ منصوبہ خطہ کے موجودہ حالات میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ سعودی عرب میں استحکام ہے لیکن سیاسی حالات غیر یقینی ہیں۔ جبکہ اس کے ارد گرد میں عدم استحکام پھیلا ہوا ہے۔ ان اقتصادی منصوبوں کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ سعودی عرب کو پہلے اپنے ہمسایہ میں استحکام لانا ہو گا۔ اور ایران کو ان کوششوں میں شامل کرنا ہو گا۔ خطہ کے ملکوں کو تباہی میں چھوڑ کر سعودی عرب اقتصادی ترقی کا جزیرہ نہیں بن سکتا ہے۔
        دوسری جنگ عظیم میں یورپ کے تقریباً تمام ملک تباہ ہو چکے تھے۔ کیا برطانیہ اور فرانس جرمنی کو تباہی میں چھوڑ کر خود اقتصادی ترقی کر سکتے تھے؟ اور کیا جرمنی کے بغیر یہ یورپ کو امن اور استحکام دے سکتے تھے؟ یا جرمنی اور فرانس برطانیہ کو تباہی میں چھوڑ کر خود یورپ کی اقتصادی طاقتیں بن سکتے تھے؟ ان ملکوں نے یورپ کو جنگ کی تباہی سے نکالنے کے لئے پہلے ایک اتحاد بنایا تھا۔ جس میں مشرقی یورپ کے ملکوں کو بھی شامل کیا تھا۔ اور پھر سب نے مل کر ایک مختصر عرصہ میں یورپ کو جنگ کی تباہی سے نکالا تھا۔ اور اسلام نے بھی مسائل حل کرنے کا راستہ اتحاد میں بتایا ہے۔ اتحاد میں جو طاقت ہے وہ دنیا کے کسی ہتھیار میں نہیں ہے۔     

No comments:

Post a Comment