Thursday, April 28, 2016

Is The War Against Terror Spreading Poverty?

Is The War Against Terror Spreading Poverty?

Corruption And Poverty Are The Real Problem Of The World

مجیب خان



       اس مرتبہ وزیر اعظم چیف جسٹس کو خط لکھیں گے۔ پچھلی حکومت میں چیف جسٹس نے وزیر اعظم گیلانی سے ایک ایسا ہی خط سوئس حکومت کو لکھنے کا کہا تھا۔ لہذا وزیر اعظم نواز شریف کے لئے یہ خط لکھنا مشکل نہیں ہو گا کیونکہ ان کے خط کا متن بھی سابق حکومت نے سوئس حکومت کو جو خط  لکھا تھا اس جیسا ہو گا۔ تاہم وزیر اعظم نواز شریف جو خط  لکھنے جا رہے ہیں۔ اس میں وہ چیف جسٹس سے پانامہ پیپرز کے بارے میں تحقیقاتی کمیشن بنانے کے لئے درخواست کریں گے۔ جس میں وزیر اعظم نواز شریف ان کے خاندان کے بعض افراد اور چند دوسری سیاسی شخصیتوں پر منی لا نڈرنگ ٹیکس Evasion کے بارے میں انکشافات کیے گیے ہیں۔ جبکہ سابق چیف جسٹس نے وزیر اعظم آصف گیلانی کو جو خط لکھنے کا کہا تھا اس میں ان سے سوئس حکومت سے صدر آصف علی زر داری کے خلاف کرپشن کے کیس دوبارہ کھولنے کے لئے کہا تھا۔ اورپھر یہ خط  لکھنے کا سوال ایک آئینی بحران بن گیا تھا۔ اعتزاز احسن صدر زر داری کے وکیل تھے۔ اور وہ سپریم کورٹ کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر صرف یہ کہتے رہے کہ خط لکھنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ لیکن وزیر اعظم کو خط نہیں لکھنا چاہیے۔ اس بحث میں قوم کے دو سال گزر گیے تھے۔ اور اب وزیر اعظم نواز شریف چیف جسٹس کو خط لکھیں گے۔ وزیر اعظم کے خط کے جواب میں پھر چیف جسٹس انہیں خط لکھیں گے کہ وزیر اعظم پانامہ کی حکومت کو خط لکھیں اور پانامہ پیپرز کے بارے میں تمام دستاویز منگوائیں۔ چیف جسٹس غیر ملکی حکومت کو خط نہیں لکھ سکتے ہیں۔ اور پھر یہ بحث شروع ہو جاۓ گی کہ ایک برسراقتدار حکومت میں  اعلی حکام پر کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کے لئے چیف جسٹس پانامہ کی وزارت قانون کو خود خط کیوں نہیں لکھ سکتے ہیں۔ اس بحث میں 2016 ختم ہو جاۓ گا۔ اور 2017 آ جاۓ گا۔ آئینی بحران پیدا کر نے والے ماہرین کی پاکستان میں کمی نہیں ہے۔ ایک گروپ وزیر اعظم کی صفائی میں بحث کرتا رہے گا کہ وزیر اعظم اپنے خلاف کرپشن کے الزامات کی تحقیقات کرانے میں خاصے سنجیدہ تھے۔ اس لئے انہوں نے چیف جسٹس کو خط بھی لکھا تھا۔ اور جس طرح سابقہ حکومت میں ہوا تھا کہ نئے الیکشن جب قریب آ گیے تھے تو چیف جسٹس نے توہین عدالت کیس میں وزیر اعظم گیلانی کو نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا تھا۔ انتخابات 2018 میں ہوں گے۔ اب پانامہ پیپرز کے بارے میں تحقیقات کی بحث اگر 2017 کے وسط تک گھسیٹ لی جاتی ہے۔ تو وزیر اعظم نواز شریف نئے انتخابات شاید 2018 سے پہلے کرانے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ تاہم اس بحث کو طول دینے میں قوم کا صرف وقت برباد ہو گا۔ جس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت نے خط لکھا جاۓ یا نہیں لکھا جاۓ کی بحث میں قوم کے دو سال برباد کر دئیے تھے۔
       سیاستدانوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات صدر جارج بش کی سفارش پر ختم کیے گیے تھے۔ اور انہیں سیاست میں حصہ لینے کی اجازت بھی مل گئی تھی۔ صدر جنرل پرویز مشرف نے ان کے خلاف کرپشن کے مقدمہ قالین کے نیچے دبا دئیے تھے۔ لیکن قانون نے انہیں کرپشن کے الزامات سے بری نہیں کیا تھا۔ اور کرپشن کے یہ الزامات ان سیاستدانوں کا اس وقت تک پیچھا کرتے رہیں گے کہ جب تک یہ خود کو قانون کی عدالت کے سامنے پیش نہیں کریں گے۔ اور قانونی عمل سے گزر کر اپنا نام صاف نہیں کریں گے۔ پیپلز پارٹی اگر پھر اقتدار میں آۓ گی تو اس کے رہنماؤں پر کرپشن کے الزامات بھی دوبارہ سوال ہوں گے۔ وہ دوبئی چلے جائیں۔ لندن چلے جائیں۔ جہاں بھی جائیں گے کرپشن کے الزامات ان کا پیچھا کرتے رہیں گے۔ ان سیاستدانوں کو ان کے خلاف کرپشن کے مقدمہ صدر جارج بش کی سفارش پر ختم کرنے کو کبھی قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس طرح ایک غیرملکی مداخلت کو قبول کر کے انہوں نے Contempt Of Democracy کی ہے۔ انہیں تو صدر بش سے یہ سوال کرنا چاہیے تھا کہ امریکہ میں سینٹروں یا کانگرس مین کے خلاف اس طرح کے الزامات میں صدر کو ان کے مقدمہ ختم کرنے کا اختیار ہے؟ جمہوریت اس وقت تک صاف ستھری نہیں ہو گی کہ جب تک سیاستدان صاف ستھر ے نہیں ہوں گے۔ سیاستدانوں پر کرپشن کے دھبوں سے جمہوریت میں بھی آلودگی رہے گی۔
       پانامہ  پیپرز میں لاکھوں ڈالروں کی ہیرا پھیری کرنے ٹیکسوں میں غبن کرنے کے انکشافات ہو نے کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا رد عمل کچھ ایسا ہے کہ جیسے وہ کرپشن سے بالکل پاک ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے فوج کے چند اعلی افسروں کو کرپشن کرنے پر فوج سے برطرف کر دیا تھا۔ یہ فوج میں کرپشن کے خلاف پہلی مثال نہیں تھی۔ اس سے قبل جنرل پرویز مشرف نے بھی کرپشن میں ملوث بعض افسروں کا کورٹ مارشل کیا تھا۔ نیوی کے ایڈ مرل کو جنہوں نے لاکھوں ڈالر کا غبن کیا تھا اور پھر امریکہ میں روپوش ہو گیے تھے۔ ایڈ مرل کی عدم موجودگی میں ان کا کورٹ مارشل ہوا تھا۔ صدر جنرل مشرف نے انہیں پاکستان لانے کی کوشش کی تھی۔ پہلے صدر کلنٹن سے ایڈ مرل کو پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اور پھر صدر بش سے ایڈ مرل کو پاکستان بھیجنے کی درخواست کی تھی۔ با لا آخر صدر جنرل مشرف ایڈ مرل کو پاکستان لانے میں کامیاب ہو گیے تھے۔ انہوں نے ایڈ مرل سے غبن کے کچھ پیسے نکلوا لئے تھے۔ اور کی جائیداد ضبط کر لی تھی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں ایسی مثال قائم نہیں کی گئی تھی۔ جنرل راحیل شریف نے کرپشن میں ملوث فوجی افسروں کو برطرف کر کے جو مثال قائم کی ہے۔ اس پر بلاول بھٹو کا حکومت سے یہ کہنا ہے کہ اب اسے بھی ایسی مثال قائم کرنا چاہیے۔ حالانکہ یہ باتیں کرنے کے بجاۓ بلاول بھٹو کو خود اپنی پارٹی سے اس مثال کا آغاز کرنا چاہیے تھا۔ اور سب سے پہلے رحمان ملک کو پارٹی سے برطرف کرتے۔ اور اس کے بعد راجہ اشرف عرف رینٹل، یوسف رضا گیلانی اور سندھ حکومت میں جو نو سال سے کچھ نہیں کر رہے تھے۔ صرف کرپشن کیے جا رہے تھے۔ ان کے خلاف کاروائی کرتے۔  بلاول بھٹو کے یہ اقدام مسلم لیگ ن اور دوسری جماعتوں کے لئے بھی مثال ہوتے۔
      مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ایک جنرل نے سیاستدانوں کو کرپشن کے کیسوں میں معافی دے کر مثال قائم کی تھی۔ اور ایک دوسرے جنرل نے فوج میں جو آفسر کرپشن کر رہے تھے۔ انہیں فوج سے برطرف کر کے مثال قائم کی ہے۔ بلاول بھٹو ذرا بتائیں کہ ان کی پارٹی نے پانچ سال حکومت کی تھی۔ آخر ان کی پارٹی نے کرپشن سے صاف ستھری حکومت کرنے کی مثال کیوں قائم نہیں کی تھی۔ انہیں وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ کرپشن کے خلاف لیکچر نہیں دینا چاہیے۔ انہیں اپنی پارٹی سے کرپشن کا خاتمہ کرنا چاہیے۔ سندھ میں ان کی پارٹی کی تقریباً آٹھ سال سے حکومت ہے۔ جو اپنے کرپشن میں سارے صوبہ کو بھی لے ڈوبی ہے۔ پیپلز پارٹی نے حکومت کرنے کی صاف ستھری مثال نہ تو وفاق میں قائم کی تھی۔ اور نہ ہی سندھ صوبہ میں ایسی کوئی مثال قائم کی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ پیپلز پارٹی نے جن لوگوں کو صوبہ میں تھانیدار بنایا تھا۔ انہوں نے بھی ایسی کوئی مثال قائم نہیں کی ہے کہ جس سے حکومت کرنے کا نظام کرپشن سے پاک و صاف نظر آتا ہے۔
      انقلاب ایران کے بعد میں 1980 میں تہران گیا تھا۔ کراچی یونیورسٹی میں ایرانی میرے کلاس فیلو تھے۔ ہم پاکستان میں جنرل ضیا الحق کی آمریت کے خلاف جد و جہد کر رہے تھے۔ اور ایران میں شاہ کی مطلق العنان حکومت کےخلاف ایرانیوں کی تحریک عروج پر تھی۔ یونیورسٹی میں ایرانی دوستوں کے ساتھ اکثر گرما گرم بحث ہوتی تھی۔ کیونکہ ان کی تحریک کی قیادت ملا کر رہے تھے۔ اور ہمارے ملاؤں نے جمہوریت کا تختہ الٹ کر فوجی آمریت ہم پر مسلط کر دی تھی اور پھر یہ فوجی حکومت سے مل گیے تھے۔ بہرحال ہمارے ایرانی دوست شاہ کے خلاف تحریک کے آخری دنوں میں پیرس چلے گیے تھے۔ اور وہاں آیت اللہ خمینی کے ساتھ شامل ہو گیے تھے۔ اور پھر آیت اللہ خمینی کے ساتھ تہران آۓ تھے۔ انقلاب ایران کے بعد پہلے انتخابات میں میرے ایرانی دوست پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہو گیے تھے۔ انہوں نے مجھے ایران آنے کی دعوت دی تھی۔ اور ان کی دعوت پر میں ایران گیا تھا۔ انقلاب ایران میں استحکام نہیں آیا تھا۔ اس کے خلاف مزاحمت ہو رہی تھی۔ تہران میں انتشار کی فضا تھی۔ انقلابی گارڈ مشین گنوں کے ساتھ ہر طرف نظر آتے تھے۔ جس ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔ وہاں بھی انقلابی گارڈ  گھوم رہے تھے۔ ہوٹل خالی تھے۔ صرف چند غیر ملکی میڈیا کے نمائندے تھے۔ تہران کے شمال میں شاہ کا محل انقلابی حکومت نے میوزیم کے طور پر غیر ملکیوں کو دکھانے کے لئے کھولا تھا۔ مجھے بھی شاہ کا محل دکھایا گیا تھا۔ محل کے اندر انہوں نے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ اور یوں نظر آ رہا تھا کہ جیسے شاہ کہیں باہر گیے تھے۔ شاہ کو پینٹنگ جمع کرنے کا خاصا شوق تھا۔ محل میں خوبصورت  پینٹنگ دیواروں پر آویزاں تھیں۔ ایرانی گائڈ نے پینٹنگ کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ شاہ نے یہ پینٹنگ اٹلی سے پچاس ملین ڈالر کی خریدی تھی۔ وہ پینٹنگ فرانس سے ستر ملین ڈالر کی خریدی تھی۔ کوئی پینٹنگ ملین سے کم نہیں تھی۔ محل میں کمروں کے پردے ریشمی تھے۔ جو فرانس سے آۓ تھے۔ ڈائنگ روم میں ڈائنگ ٹیبل پر پلیٹیں چمچے Forks اور Knifes سجے ہوۓ تھے۔ جیسے شاہ لنچ پر آنے والے تھے۔ چمچے Forks اور Knifes سونے کے تھے۔ ڈائنگ ٹیبل کے اطراف جو کرسیاں تھیں ان پر نقش و نگار سونے کا تھا۔ شاہ کا بیڈ روم علیحدہ تھا۔ اور ملکہ کا اپنا بیڈ روم تھا۔ دونوں کے بیڈ کے اطراف پردے ریشم کے تھے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ اٹلی سے آۓ تھے۔ محل کی دوسری منزل سے نیچے آنے کے لئے سیڑھیوں کے ساتھ دیوار پر انقلابی حکومت نے تہران کے جنوب میں بستیوں میں آباد لوگوں میں پھیلی ہوئی غربت کی تصویروں کے فریم دیواروں پر لگاۓ تھے۔ جن میں بچوں کے پاؤں میں جوتا نہیں تھا۔ ان کے جسم پر گندے اور پھٹے کپڑے تھے۔ ایرانی گائڈ نے مجھ سے کہا آپ نے شاہ کا محل دیکھا تھا۔ اور یہ تہران کے جنوب میں غربت تھی۔
      ایران میں شاہی راج ختم ہونے کے بعد پھر شاہ کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ جن ملکوں نے شاہ کے محلوں کی سجاوٹ میں قیمتی اشیا لاکھوں ڈالروں میں فروخت کی تھیں۔ شاہ کو عیش و عشرت اور شان و شوکت فراہم کرنے کی قیمت کھربوں میں وصول کی تھی۔ جنہوں نے شاہ کو کھربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا تھا۔ جنہوں نے شاہ کی خفیہ پولیس کو عوام کو اذیتیں دینے کی تربیت دی تھی اور اس کے لئے ساز و سامان بھی فروخت کیا تھا۔ ان ملکوں میں سے کسی ملک نے بھی شاہ کو پناہ نہیں دی تھی۔ امریکہ نے شاہ کا طیارہ اپنی سرزمین پر اترنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ شاہ کو دفنانے کے لئے کوئی بھی اپنی زمین کا ٹکرا دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ آخر میں شاہ کو مصر میں دفنانے کی اجازت دی تھی۔
      سعودی عرب میں غربت ایران میں شاہ کے دور میں غربت سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ حالانکہ سعودی عرب دنیا میں سب سے امیر ترین ملک ہے۔ اس ملک میں کسی شہری کو غریب نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ساری دولت شاہی خاندان کے محلوں میں خرچ ہوتی ہے۔ شاہ عبداللہ مرحوم کے پاس 20 بلین ڈالر تھے۔ یہ 20 بلین ڈالر شاہ عبداللہ مرحوم االلہ کے پاس لے گیے ہوں گے کہ اے اللہ تیرے لئے یہ 20 بلین ڈالر لایا ہوں۔ مجھے جنت میں محل دے دو۔ دنیا میں تیرے آگے اے اللہ بہت سے ہاتھ پھیلے ہوۓ ہیں۔ تجھ سے دولت مانگ رہے ہیں۔ اے اللہ تو جسے چاہیے دولت سے نواز دے۔
      بالخصوص اسلامی معاشروں میں دولت اگر چند ہاتھوں میں ہے۔ اور آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ غریب ہے اور فاقہ کر رہا ہے۔ تو یہ کرپشن ہے۔ اصل جنگ غربت کے خلاف ہونا چاہیے تھی۔ لیکن دولت مند قومیں غریبوں کو پیسے دے رہی ہیں۔ ان کے ذریعے  دہشت گردی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اور اس کے پشت پر دولت مند دنیا کی دولت بٹورنے میں مصروف ہیں۔ پانامہ پیپرز اس کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔                                                                                                                                                                                                                 

No comments:

Post a Comment