Sunday, April 3, 2016

"None Among You Is A True Believer Unless He Loves For Others What He Loves For Himself" (Imam Bukhari)

“None Among You Is A True Believer Unless He Loves For Others What He Loves For Himself”     
(Imam Bukhari)

مجیب خان



        گزشتہ ماہ پاکستان میں دو بڑی ڈولپمینٹ ہوئی ہیں۔ پاکستان نے ایک بھارتی فوجی افسر کو جو خفیہ ایجنسی را کا ایجنٹ تھا۔ بلوچستان سے پکڑا تھا۔ یہ بھارتی ایجنٹ ایک عرصہ سے کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے ساتھ ملوث تھا۔ اور ان کے ساتھ مل کر یہ ریاست پاکستان کے خلاف دہشت گردی کرا رہا تھا۔ یہ بھارتی فوجی ایرانی بلوچستان کے راستہ پاکستان آتا تھا۔ اور ایران میں اس کا قیام تھا۔ ابھی اس سے پوچھ گچھ جاری تھی اور مزید انکشافات سامنے آتے۔ اسی دوران ایران کے صدر حسن روحانی اپنے پہلے دورے پر پاکستان آۓ تھے۔ صدر روحانی کے دورہ پاکستان کو سبوتاژ کرنے کے لئے کسی نے یہ مناسب موقعہ دیکھا تھا اور اس بھارتی را کے ایجنٹ کے بارے میں پاکستان کو Tip off کیا تھا۔ انہیں ضرور اس کے بارے میں ایک عرصہ سے علم ہو گا۔ لیکن پاکستان کو انتشار میں رکھنے کی سیاست کی وجہ سے بھارتی خفیہ سرگرمیوں کو خفیہ رکھا تھا۔ اور اب پاکستان کے ساتھ ایران کے تعلقات میں رخنہ ڈالنے کے لئے انہوں نے یہ مناسب موقع سمجھا تھا۔ اوربھارتی فوجی کو جو را کا ایجنٹ تھا اسے سامنے کر دیا تھا۔ ایران کے لئے پاکستان سے تعلقات بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس دورے میں پاکستان کے ساتھ ایران نے کئی تجارتی  معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔ اور دونوں ملکوں میں آزاد نہ تجارت کے بارے میں تجویز بھی زیر غور تھی۔ پاکستان کے لئے ایران کے ساتھ تعلقات جتنے اہم تھے تقریباً اتنا ہی اہم مسئلہ پاکستان کے لئے دہشت گردی کا سر درد تھا۔ لہذا پاکستان نے کسی تاخیر کے بغیر صدر روحانی سے ایران کی سرزمین سے بھارتی را ایجنٹ کی پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں کے بارے میں تحقیقات کرنے کا مطالبہ کر دیا۔
         پاکستان ایک عرصہ سے دنیا کو یہ بتا رہا ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں کچھ ہاتھ بیرونی بھی ہیں۔ لیکن مذہبی انتہا پسندی کیونکہ اس قدر چھائی ہوئی تھی کہ دنیا کو یہ بیرونی ہاتھ نظر نہیں آ رہے تھے۔ شیعہ سنی دہشت گردی، بلوچستان میں ہزراہ آبادی کے خلاف دہشت گردی جو شیعہ تھے، افغانستان میں طالبان کی دہشت گردی کے پاکستان کو یہ الزام کہ انہیں پاکستان نے اپنے ملک میں پناہ دی ہے، اس لئے کوئٹہ کراچی پشاور میں دہشت گردوں کی قتل و غارت گردی میں بھارتی ہاتھ ہونے کے دعوی پاکستان کی Credibility کے سوال بنے ہوۓ تھے۔ جب تاریکی ہوتی ہے تو اس میں لوٹ مار کرنے والے ہاتھ کسی کو نظر نہیں آتے ہیں کہ کون کیا لوٹ کر لے جا رہا تھا۔ پھر صرف الزام بازی ہونے لگتی ہے کہ کس نے کس کو لوٹا تھا۔ اور پاکستان میں جو ہاتھ دہشت گردی کروا رہے تھے وہ بھی پاکستان کو الزام دیتے تھے۔ لیکن پاکستان میں ضرب عضب آپریشن، دہشت گردوں کو پھانسیاں دینے، مدرسوں کے خلاف کاروائیاں، خلیج کے ملکوں سے مذہبی انتہا پسندوں کی فنڈنگ کو سختی سے روکنے کے اقدامات سے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی Credibility میں بھی ذرا استحکام آیا ہے۔ اور اس وقت بھارت میں جو قیادت اقتدار میں ہے۔ اس کی سیاست کے پس منظر سے بھی دنیا واقف ہے۔ اس مرتبہ پاکستان نے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے تالاب سے بھارتی فوجی را ایجنٹ کو پکڑ کر جب دنیا کو دکھایا تو بھارت یہ دیکھ کر پہلے پھڑ پھڑاتا رہا۔ بھارتی میڈ یا اس پر کوئی تبصرہ کرنے کے لئے اپنی حکومت کا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ مودی حکومت کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ پاکستان کے اس انکشاف سے انکار کیا جاۓ یا اس کا اعتراف کر لیا جاۓ۔ کئی گھنٹوں کے بعد مودی حکومت نے تسلیم کیا کہ ہاں یہ ان کا آدمی تھا۔ لیکن پاکستان کے خلاف اس کی سرگرمیاں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ آدھا انکار اور آدھا اعتراف بھارت کی پرانی بوتل میں نئی شراب کی قدیم پالیسی ہے۔
         پاکستان ابھی بھارت کے خلاف اپنا کیس تیار کر رہا تھا کہ لاہور میں گلشن اقبال پارک دہشت گردی کا واقعہ ہو گیا جس میں 75 لوگ ہلاک ہوۓ تھے۔ اور 100 سے زیادہ لوگ زخمی ہو گیے تھے۔ یہ اسلامی انتہا پسند تھے جنہیں انسانیت سے نفرت، اسلامی جمہوریہ پاکستان سے دشمنی اور دنیا میں اسلام کو رسوا کرنے میں جنت نظر آتی ہے۔ انہوں نے گلشن اقبال پارک میں بموں کے دھماکہ کر کے دراصل بھارت کو Favor دی تھی۔ بھارتی فوجی جو را[RAW]  کا ایجنٹ تھا۔ پاکستان میں پکڑا گیا تھا۔ اور یہ دنیا کے ریڈار پر تھا۔ بھارت کو بڑی بدنامی کا سامنا تھا۔ کیونکہ پاکستان ایک عرصہ سے عالمی برادری کو پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارتی را کے ایجنٹوں کے ملوث ہونے کے ثبوت فراہم کر رہا تھا۔ لیکن عالمی برادری کے لئے یہ تسلیم کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ کیونکہ پاکستان کے اپنے مذہبی انتہا پسند بھی تھے۔ جو پاکستان کے اندر خود کش حملوں میں ملوث تھے۔ یہ اسلامی انتہا پسند کس کا کھیل کھیل رہے تھے یا کن ہاتھوں میں کھیل رہے تھے۔ تاہم یہ واضح تھا کہ یہ بربریت تھی۔ اسلامی تمدن اور تہذیب نہیں تھی۔ گلشن اقبال پارک میں عیسائی اپنا تہوار منا رہے تھے۔ کچھ مسلمان خاندان بھی اپنے بچوں کے ساتھ پارک میں پکنک پر آۓ  تھے۔ مذہبی انتہا پسندوں نے 27 بچوں اور 29 عورتوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ جبکہ مردوں کی تعداد علیحدہ تھی۔ پارک ان کے خون سے سرخ ہو گیا تھا۔ پارک میں ان کے جسموں کے بکھرے اعضا دیکھ کر پھول بھی غم سے مر جھا نے لگے تھے۔ جس بے رحمی سے یہ اسلامی مملکت میں اپنے ہم مذہب لوگوں کے خلاف دہشت گردی کرتے ہیں اور انہیں جس طرح قتل کرتے ہیں۔ اسے دیکھ کر ذہین میں یہ سوال آتا ہے کہ کیا ان کے مذہب میں بھی شیو سینا ]   [Shiv Senaکا DNA  ہے۔ یہ اپنی دہشت گردی سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ جیسے اسلام انسانیت کا دشمن ہے۔ انہوں نے پاکستان کو ایک ایسا اسلامی معاشرہ بنا دیا ہے کہ جس میں قاتل اور مقتول دونوں شہید کا رتبہ حاصل کر لیتے ہیں۔ اسلام بڑا پیارا مذہب اور پاکستان بڑا خوبصورت ملک تھا۔ لیکن انہوں نے دونوں مسخ کر دئیے ہیں۔
         یہ اسلامی تعلیمات کی باتیں بہت کرتے ہیں۔ لیکن ان کے کردار اور روئیوں میں اسلامی تعلیمات کا "الف" بھی نہیں ہے۔ یہ دن میں پانچ نمازیں پڑھتے ہیں۔ پانچ نمازوں میں چالیس رکاتیں پڑھتے ہیں۔ چالیس رکاتوں میں جو آتیں پڑھتے ان میں سینکڑوں مرتبہ اللہ رحمن اور اللہ رحیم کا ذکر ہوتا ہے۔ لیکن رحیم ان میں بالکل نہیں ہے۔ اپنے ہم مذہب اور اپنے ہم وطنوں بلکہ دوسرے انسانوں کو بھی اس طرح ہلاک کر دیتے ہیں کہ ان کے جسم کے ٹکڑے دور دور تک بکھرے نظر آتے ہیں۔ یہ اللہ کے دین کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اور اللہ نے اسی دن کے لئے اسلام کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے۔ اور آج اللہ غیر مسلموں سے یہ گواہی دلوا رہا کہ اسلام انتہائی پر امن مذہب ہے۔ اور اسلام یہ کہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔ صدر اوبامہ نے یہ کہا ہے۔ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے یہ کہا ہے۔ ٹونی بلیر نے بھی یہ کہا ہے۔ اسلامی جماعتوں کے رہنماؤں کو شرم آنا چاہیے کہ غیر مسلم اب مسلمانوں کو اسلام کے بارے میں یہ درس دے رہے ہیں۔
         یہ 1977 سے نظام مصطفی کے لئے نعرے لگا رہے ہیں۔ لیکن ان کی سیاست میں نظام مصطفی ہے اور نہ ان کے کرداروں میں ہے۔ جب ان کے کرداروں میں نظام مصطفی ہو گا تو پھر معاشرے میں بھی نظام مصطفی نظر آنے لگے گا۔ معاشرے کو کردار سے مہذب بنایا جاتا ہے۔ 1977 سے یہ قرآن ہاتھوں میں اٹھا کر بتا رہے ہیں کہ یہ مکمل ضابطہ حیات ہے۔ لیکن وہ خود اس ضابطہ حیات میں Fit نظر نہیں آتے ہیں۔ رسول اللہ صلعم نے اپنی زندگی میں جو مثال قائم کی تھی ہر مسلمان اگر ان کو اپنی زندگیوں میں اختیار کر ے تو معاشرے میں نظام مصطفی آ جاۓ گا۔ جیسے رسول اللہ صلعم ایک غیر مسلم عورت کے ساتھ کس طرح پیش آۓ تھے۔ رسول اللہ صلعم جب بھی اس کے گھر کے قریب سے گزرتے تھے۔ یہ عورت اوپر سے ان پر کچرا پھینکا کرتی تھی۔ لوگوں نے جب یہ دیکھا تو رسول اللہ صلعم سے کہا  یا رسول اللہ صلعم یہ عورت آپ پر کچرا پھینکتی ہے آپ اس عورت کے لئے اللہ سے بد دعا کیوں نہیں کرتے ہیں۔ جواب میں رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایا نہیں میں اس کے لئے بد دعا نہیں کروں گا۔ پھر کئی روز سے اس عورت نے رسول اللہ صلعم پر کچرا نہیں پھینکا تو آپ کو تشویش ہونے لگی تھی کہ میں روز اس کے گھر کے قریب سے گزرتا ہو ں کیا وجہ ہے اس نے کچرا کیوں نہیں پھینکا تھا۔ رسول اللہ صلعم کو بتایا گیا کہ یا رسول اللہ یہ عورت کئی روز سے بیمار ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ صلعم اس کی عیادت کے لئے گیے۔ اور اس کی صحت یابی کے لئے دعا کی۔ یہ عورت رسول اللہ صلعم کی شخصیت اور خلوص سے اس قد ر متاثر ہوئی تھی کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔  
         پنجاب میں ایک غیر مسلم عورت نے اسلام کے بارے میں کچھ نا شائستہ باتیں کی تھیں۔ جس پر توہین رسالت قانون کے تحت اس عورت کو موت کی سزا تجویز کی جا رہی تھی۔ گورنر پنجاب سلما ن تاثیر کے خیال میں اس عورت کے لئے یہ سزا بہت سخت تھی۔ اور وہ اس قانون میں نرمی چاہتے تھے۔ گورنر سلما ن  تاثیر نے ایسا کو نسا جرم کر دیا تھا کہ ان کے قاتل نے رسول اللہ صلعم کی اس مثال کو اپنی زندگی کا ضابطہ حیات نہیں بنایا تھا۔ اور گورنر کو قتل کر دیا تھا۔  مولویوں نے بھی اس شخص کو غازی اور پھر شہید بنا دیا تھا۔ رسول اللہ صلعم نے اپنی زندگی میں انسانیت کے ساتھ سلوک کی جو مثالیں قائم کی ہیں۔ اسلامی معاشرے میں ا گر ہر شخص انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنا لے تو یہ نظام مصطفی ہو گا۔ اس کے لئے مولویوں کو نعرے بازی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں پہلے اپنے اندر نظام مصطفی لانا ہو گا۔ اور ایک رول ماڈل بن کر دکھانا ہو گا۔ 1977 سے ان کے اندر نظام مصطفی ہوتا تو یہ اسلامی معاشرہ آج کبھی ان بدترین حالات میں نہیں ہوتا۔ مولویوں کے اندر نظام مصطفی کا فقدان ہے۔ صرف باتیں بہت ہیں۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     

No comments:

Post a Comment