Thursday, April 7, 2016

The Important Commercial Relations Between Iran And Pakistan

The Strategic Relations Between Saudi Arabia And India 

The Important Commercial Relations Between Iran And Pakistan

مجیب خان 

Saudi King Welcomes Indian Prime Minister Modi
Iranian President Rouhani Meets With Nawaz Sharif In Islamabad
  
           بھارت کا فوجی، بھارت کی خفیہ ایجنسی را کا ایجنٹ، ایران میں مختلف بھیس میں رہتا تھا۔ لیکن پاکستان اس کی خفیہ سرگرمیوں کا مشن تھا۔ اور یہ مشن پاکستان میں دہشت گردی اور انتشار پھیلانا تھا۔  پاکستان کی بقا کے خلاف یہ علیحدگی پسندوں کی مد د کر رہا تھا۔ ایران کی حکومت کو اس بھارتی شہری کی ان خفیہ سرگرمیوں کا کوئی علم نہیں تھا۔ پاکستان نے اس پر بھارت سے احتجاج کیا تھا۔ اسلام آباد میں بھارتی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کیا تھا۔ اور ایک احتجاجی مراسلہ اسے دیا تھا۔ دفتر خارجہ نے ایک خط میں ایران سے بھی اس بھارتی فوجی را ایجنٹ کے بارے میں جواب طلبی کی تھی۔ حالانکہ ایران کے صدر حسن روحانی اس وقت پاکستان کے دورے پر تھے۔ اور اس بارے میں یہ سوال ان سے بھی کیا گیا تھا۔ پھر آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی صدر روحانی سے ملے تھے۔ اور بعض اطلاعات کے مطابق وہ بھی بھارتی فوجی کی پاکستان میں خفیہ سرگرمیوں کا معاملہ ان کے نوٹس میں لاۓ تھے۔ اور اس سلسلے میں حکومت کو بہت سے سوالوں کے جواب صدر روحانی کے دورے میں مل گیے ہوں گے۔ پھر دفتر خارجہ نے یہ خط حکومت ایران کو کیوں لکھا تھا؟ اور کس کے مشورے سے لکھا تھا؟ یہ اس سرد جنگ ذہنیت کی یاد دلاتا ہے جس کا امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ میں اکثر پاکستان امریکہ کی حمایت میں اس طرح کی حرکتیں کرتا تھا۔ اور اس وقت سعودی عرب اور ایران میں ایک علاقائی سرد جنگ جنم لے رہی ہے۔ پاکستان کو اپنے اس کردار کو یہاں دہرانے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ پاکستان کی دفتر خارجہ کا ایران سے جواب طلبی کے لئے خط لکھنے کا فیصلہ غلط تھا۔ اول تو اس بھارتی شہری کا ایران سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایران میں خاصی تعداد میں بھارتی مقیم ہیں۔ اگر ان بھارتیوں میں کوئی را کا خفیہ ایجنٹ ایران میں مشکوک سرگرمیوں میں ملوث پا یا جا تا۔ تو ایرانی حکومت اس کے خلاف کاروائی کرتی۔ لیکن یہ بھارتی شہری ایران میں مقیم تھا۔ اور اس کی خفیہ سرگرمیاں پاکستان میں تھیں۔ اور یہ پاکستان کی ذمہ داری تھی کہ وہ فوری طور پر ایران کی حکومت کو اس کے بارے میں مطلع کرتی۔ اور یہ دہشت گردی کے خلاف مہم میں پاکستان اور ایران کے تعاون کا سوال بھی تھا۔
         لیکن پاکستان کی وزارت داخلہ بھی پی آئی اے کا ادارہ بنی ہوئی ہے۔ جس میں سفارشی، نااہل اور لا پرواہ  لوگ بھرے ہوۓ ہیں جو صبح حاضری دینے آتے ہیں اور شام کو حاضری دے کر چلے جاتے ہیں۔ حالانکہ بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کے بارے میں سابقہ حکومت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے بڑے بیانات دئیے تھے۔ بلوچستان میں جب بھی دہشت گردی کا خوفناک واقعہ ہوتا تھا۔ وزیر داخلہ رحمان ملک کا بیان یہ ہوتا تھا کہ ہمیں معلوم ہے بلوچستان میں بھارت کی را کا دہشت گردی کرانے میں ہاتھ ہے۔ اگر وزیر داخلہ کو یہ معلوم تھا تو انہوں نے کیا کیا تھا؟ کیا انہوں نے ایران کے ساتھ بلوچستان کی سرحدوں کو محفوظ کیا تھا؟ اس سلسلے میں ایران کو الرٹ کیا تھا؟ انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہو گا کہ ایران سے روزانہ کتنی تعداد میں لوگ بلوچستان آتے ہیں؟ حکومت جب سرحدوں پر آزادانہ نقل و حرکت کو بھی جمہوریت سمجھتی ہے۔ تو بھارتی را کے ایجنٹ بھی آزادی سے پاکستان آ تے جا تے تھے۔ ان حالات میں بھارتی را کے ایجنٹ کی پاکستان میں سرگرمیوں کے مسئلہ پر ایران سے جواب طلب کرنے کا مقصد سمجھ میں نہیں آیا۔ اس سے صرف صدر حسن روحانی کے دورہ پاکستان پر جیسے پانی پھیردیا گیا ہے۔
          پچاس برس تک پاکستان امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کا قیدی بنا ہوا تھا۔ اور اب پاکستان سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک نا معقول کشیدگی کا قیدی بننے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں اب جمہوریت ہے۔ اور ایک سیاسی حکومت ہے۔ جس سے پاکستان کو سعودی ایران لڑائی کا قیدی بنانے کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے۔ سعودی ایران سے دراصل اسرائیل کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ دو سال قبل اسرائیل ایران پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ اسرائیل ایران جنگ بھارت اور پاکستان میں جنگ سے زیادہ خوفناک ہوتی۔ اسرائیل کو اس سے روکا گیا تھا۔ ایران کا سعودی عرب سے کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ ایران اس خطہ میں استحکام اور امن چاہتا ہے۔ اور اس خطہ میں اقتصادی ترقی کے لئے عربوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس خطہ میں اسرائیل کے مقاصد کچھ اور ہیں۔ اور وہ اس خطہ میں اسلامی اتحاد کا غلبہ دیکھنا نہیں چاہتا ہے۔ لہذا خطہ کو شیعہ اور سنی میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ اور سنی سعودی عرب اور شیعہ ایران میں لڑائی کے دو بلاک بن گیے ہیں۔ اس لڑائی میں سعودی عرب کے اپنے مفادات ہیں۔ اور ضروری نہیں ہے کہ ہر سنی ملک کا بھی یہ مفاد ہے۔ اسرائیلی سنی ملکوں سے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان نے سرد جنگ میں امریکہ کے مفاد کو اپنا مفاد بنا لیا تھا۔ جب سرد جنگ ختم ہو گئی تو یہ احساس ہوا کہ یہ پاکستان کا مفاد نہیں تھا۔
           صدر اوبامہ نے امریکی جریدے Atlantic کو انٹرویو میں کہا ہے کہ "سعود یوں کو مشرق وسطی میں اپنے ایرانی حریفوں کو بھی شریک کرنا چاہیے۔ سعود یوں اور ایرانیوں کے درمیان مقابلہ کی وجہ سے شام، عراق اور یمن میں پراکسی جنگیں اور انتشار پھیل رہا ہے۔ ہمیں اپنے دوستوں اور اسی طرح ایرانیوں سے یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ انہیں ہمسایہ کو شریک کرنے اور کسی قسم کا سرد امن رکھنے کے موثر طریقہ کار تلاش کرنا چاہیے۔" با ظاہر سعودی اس موڈ میں نہیں ہیں۔ اور وہ ایران کو مشرق وسطی سے باہر رکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان نے ایران سے جو سوال کیے تھے ابھی ان کے جواب کا انتظار تھا کہ اس اثنا میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا طیارہ ریاض انڑنیشیل ایرپورٹ پر اترا تھا۔ جہاں سعودی شہزادے وزیر اعظم مودی کا استقبال کرنے کے لئے کھڑے تھے۔ شاہ سلمان نے وزیر اعظم مودی کو سعودی عرب کا سب سے اعلی تمغہ بھی دیا ہے۔ دونوں ملکوں نے اسڑٹیجک تعلقات قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ دونوں ملکوں میں پانچ بڑے تجارتی معاہدے ہوۓ ہیں۔ سعودی عرب اور بھارت نے دفاعی تعاون کو فروغ دینے پر بھی سمجھوتہ ہوا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ملکوں میں فوجیوں کے دورے ہوں گے۔ سعودی عرب اور بھارت کے مشترکہ اعلامیہ میں ان ملکوں کی مذمت کی گئی ہے جو دوسرے ملکوں کے خلاف دہشت گردی میں مذہب کا نام استعمال کرتے ہیں۔ مشترکہ اعلامیہ میں تمام ملکوں سے دہشت گردوں کے انفرا اسٹیکچر تباہ کرنے کا کہا گیا ہے۔ سعودی شاہ کی وزیر اعظم مودی سے ملاقات میں بھارت میں مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند ہندوؤں کی دہشت گردی کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کشمیری مسلمانوں پر جو ظلم اور تشدد کر رہی ہے۔ اس پر بھی کچھ نہیں کہا گیا ہے۔
          حالانکہ بھارت کے ایران کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔ بھارت چاہ بہار ایران میں بندر گاہ تعمیر کر رہا ہے۔ بھارت سب سے زیادہ تیل ایران سے خریدتا ہے۔ شام اور یمن کے مسئلہ پر بھارت کا موقف سعودی موقف سے مختلف ہے۔ اس لئے سعودی بھارت اعلامیہ میں شام کے مسئلہ کو جیسے سنسر کر دیا گیا ہے۔ اور یمن کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ جبکہ اعلامیہ میں سعودی عرب اور بھارت نے اس خطہ میں استحکام اور امن کے لئے مل کر کام کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہو گا کہ جب سعودی عرب ایران کے ساتھ کشیدگی فروغ دینے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اور اس کشیدگی میں سنی پاکستان کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔ اور دوسری طرف ہندو بھارت کے ساتھ خطہ میں امن اور استحکام کے لئے کام کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ پاکستان کو بھارت اور امریکہ کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات کے فروغ پر تشویش تھی۔ اور اب بھارت اور سعودی عرب کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات پاکستان کی سرحدوں پر آ گیے ہیں۔ را کے ایجنٹ پاکستان کی سرحدوں کے اندر آ گیے ہیں۔ پاکستان دوسروں کے مفادات میں کب تک اسی طرح استعمال ہوتا رہے گا؟                                                                                                          

No comments:

Post a Comment