Panama Papers
The Legal Corruption For The Wealthy Elite, And The Illegal Wars For The Poorest Countries
مجیب خان
سرد
جنگ کے دور میں تیسری دنیا کے جو ڈکٹیٹر عوام کی دولت لوٹتے تھے۔ وہ اس دولت کو
پھر سوئس بنک میں جمع کراتے تھے۔ اور سوئس بنک ان کی دولت کا ریکارڈ خفیہ رکھتے
تھے۔ آصف علی زرداری نے سوئس بنکوں کو استعمال کیا تھا۔ اور اپنے 60 ملین ڈالر بھی
سوئس بنک میں ر کھے تھے۔ لیکن پھر حکومت پاکستان کی درخواست پر سوئس حکومت نے
زرداری کے بنک اکاؤنٹ منجمد کر دئیے تھے۔ اور ان پر فراڈ اور منی لانڈرنگ کے
الزامات کے بارے میں تحقیقات شروع کر دی تھی۔ سوئس حکومت سے بعض دوسرے کیسوں میں
بھی بنک اکاؤنٹس کے بارے میں معلومات مانگے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ جس کے بعد سوئس
بنک میں دولت خفیہ رہنے کا تصور ختم ہو گیا تھا۔ اور اس کی جگہ اب Off Shore بنکنک اور انویسمینٹ کا تصور زیادہ خفیہ اور مقبول بھی تھا۔ ایک طرح سے دولت چھپانے کا یہ طریقہ قانونی
تھا۔ لیکن یہ غیر قانونی صرف اس صورت میں تھا کہ اگر یہ دولت فراڈ اور ٹیکس Evasion سے آئی تھی۔
British Virgin Islands کا دنیا میں Off Shore فنانشل سروس
انڈسٹری میں ایک نمایاں کردار تھا۔ دنیا کی 45 فیصد Off Shore کمپنیاں British Virgin Islands میں
تھیں۔ جو برطانوی حکومت کے ماتحت ہے۔ اور یہ علاقہ Tax Haven کے لئے مشہور ہے۔ پانامہ پیپرز کے مطابق Mossack Fonseca کے
موکل British Virgin Islands کو
زیادہ تر Tax Haven کے
لئے استعمال کرتے تھے۔ اور اس مقصد سے ایک کمرے میں ایک درجن کمپنیوں کے آفس بھی
ہو سکتے تھے۔ اور انہیں Off
Shore بنکنک اور انویسمینٹ کا قانونی
تحفظ حاصل ہو جا تا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں امریکہ برطانیہ اور مغربی ملکوں
کے بڑے بڑے بنک ہیں۔ جہاں دنیا بھر سے Off Share دولت ان کے بنکوں میں جمع ہوتی
ہے۔ اور پھر امریکہ برطانیہ اور مغربی ملکوں میں یہ دولت دوبارہ آ جاتی ہے۔ حالانکہ
یہ بھی کرپشن ہے لیکن اسے کرپشن نہیں کہا جاتا ہے۔ یعنی Black Money
پہلے Off Shore
جاتی ہے اور پھر وہاں سے White
Money بن کر ان ملکوں میں آ جاتی ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف جن کا تعلق
تیسری دنیا سے اور برطانیہ کے وزیر اعظم ڈ یوڈ کمیرن جن کا تعلق ترقی یافتہ صنعتی
ملکوں سے ہے۔ اس وقت کرپشن کے یکساں الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور دونوں اپنے
سیاسی بقا کے لئے لڑ رہے ہیں۔ لندن میں وزیر اعظم کمیرن کے خلاف مظاہروں میں ہزاروں لوگوں نے حصہ لیا تھا
جو وزیر اعظم سے استعفا دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ جبکہ پاکستان میں بھی وزیر
اعظم نواز شریف سے ایسے ہی مطالبہ ہو رہے ہیں۔ پانامہ پیپرز میں نواز شریف کے ساتھ
ان کے دو صاحبزادوں اور صاحبزادی کا نام بھی ہے۔ لیکن وزیر اعظم نواز شریف اپنی
اور اپنے بچوں کی صفائی میں اتنا نہیں بول رہے ہیں کہ جتنا ان کی کابینہ کے وزیر
ان کی صفائی میں بول رہے ہیں۔ ان وزیروں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اس پر ان کے حلقہ
میں عوام کی اکثریت کیا کہہ رہی ہے۔ جنہوں نے انہیں منتخب کیا ہے پہلے وہ ان کے نمائندے ہیں اور پھر وزیر اعظم کی
کابینہ کے وزیر ہیں۔ یہ وزیر اعظم کا ذاتی مسئلہ ہے جس میں ان کی فیملی کے لوگ بھی
شامل ہیں۔ اس مسئلہ پر پارلیمنٹ میں بحث کے دوران وہ اپنی راۓ کا اظہار کر سکتے
ہیں۔ لیکن عوام کے خرچہ پر ٹی وی چینلز پر گھنٹوں بیٹھ کر وزیر اعظم کے لئے
صفائیاں دینا جمہوریت نہیں ہے۔ عوام نے انہیں ان کاموں کے لئے منتخب نہیں کیا ہے۔
وزیر اعظم اپنا دفاع خود کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ وزیروں کو درباری بننے کی
ضرورت نہیں ہے۔
پانامہ پیپرز میں وزیر اعظم ڈ یوڈ کمیرن کے بارے میں Tax Evasion کے انکشافات ہیں۔ لیکن وزیر اعظم کمیرن نے یہ اعتراف کیا ہے کہ انہیں وراثت
میں کچھ پیسے ملے تھے جو ان کے والد نے دئیے تھے۔ اور اس پر انہوں نے ٹیکس دیا تھا۔
اس سلسلے میں انہوں نے فوری فیصلے کیے اور اپنے ٹیکس کا سارا ریکارڈ عوام کے سامنے
جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم
کمیرن اپنی صفائی میں خود وضاحتیں دے رہے تھے۔ ان کے وزرا ان کی صفائی میں گواہیاں
نہیں دے رہے تھے۔ وزیر اعظم خود پارلیمنٹ میں سوالوں کے جواب دے رہے تھے۔ میڈیا کے
سامنے بھی کھڑے تھے۔ انہیں اپنے نام پر ان داغوں کو صاف کرنے کی پریشانی تھی۔ اور
اس سلسلے میں وزیر اعظم کمیرن نے یہ فوری فیصلے کیے تھے۔ برطانیہ کی تاریخ میں
ایسا شاید پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ وزیر اعظم کمیرن سے استعفا دینے کا مطالبہ کرنے جس
وقت ہزاروں لوگ سڑکوں پر آ گیے تھے اسی وقت پاکستان میں وزیر اعظم نواز شریف سے بھی استعفا دینے کا
مطالبہ ہو رہا تھا۔ کامن ویلتھ ملکوں نے بھی یہ کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔
وزیر
اعظم نواز شریف کو دھچکا یہ لگا ہے کہ پانامہ پیپرز میں ان کا نام ہے۔ لیکن آصف
زرداری کا نام کیوں نہیں ہے۔ بے نظیر بھٹو مرحومہ کا نام ہے۔ رحمان ملک کا نام ہے۔
اور زرداری یہ دیکھ کر ضرور مسکرا رہا ہو گا۔ لاکھوں ڈالر تو زرداری نے خورد برد کیے
تھے۔ اور ٹیکس بھی نہیں دیا تھا۔ وہ کہاں گیے ہیں۔ اس کا نام پانامہ پیپرز میں
کیوں نہیں ہے۔ زرداری کو پاکستان میں سیاست کا اتنا تجربہ نہیں ہے کہ جتنا انہیں
پاکستان میں خورد برد کرنے کا تجربہ ہے۔ اس لئے آج تک 60 ملین ڈالر کا کوئی کھوج
نہیں لگا سکا ہے کہ یہ کہاں ر کھے ہیں۔ کسی نے اس کا حساب بھی نہیں لیا اور وہ
پاکستان کے صدر بھی بن گیے تھے۔ اور نواز شریف اب یہ جاننا چاہتے ہوں گے کہ زرداری
نے کس Island میں
اپنی دولت چھپا رکھی ہے۔
نائین
ایلون کے بعد صدر جارج بش نے کہا تھا کہ "وہ ہماری آزادی اور خوشحالی سے نفرت
کرتے ہیں۔ اور اسے تباہ کرنا چاہتے ہیں۔" اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع
ہو گئی تھی۔ کارپوریٹ میڈیا میں 7/24 صرف القاعدہ
دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ کی باتیں ہوتی تھیں۔ دنیا میں لوگوں
کی توجہ دہشت گردی کی جنگ کی طرف لگا دی تھی۔ اور اس جنگ کے پس پردہ کمپنیوں
کارپوریشنوں اور بنکوں کو دولت بٹورنے کا موقعہ دیا گیا تھا۔ صرف چند مختصر برسوں
میں امیر امیر ترین ہو گیے ہیں۔ اور غریب غریب تر ہو گیے ہیں۔ دہشت گردوں نے
غریبوں کو غریب تر نہیں کیا ہے۔ لیکن یہ امیر ترین ہیں جنہوں نے غریبوں کو غریب تر
کر دیا ہے ۔ امریکی میڈیا میں پانامہ پیپرز کو کوئی نمایاں اہمیت نہیں دی گئی ہے۔
پانامہ کی لا فرم جو Off Shore کمپنیاں قائم کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔ اس کے بارے میں بھی امریکی میڈیا
میں زیادہ کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔
سرد
جنگ میں سی آئی اے نے پانامہ کو لاطین امریکہ میں کمیونسٹوں کے خلاف دائیں بازو کی
جنگ میں استعمال کیا تھا۔ پانامہ میں جنرل مینول نوریگا کی حکومت تھی۔ اس وقت جنرل
نوریگا سی آئی اے کے لئے ایک قیمتی اثاثہ تھے۔ اور نوریگا کو ایک لاکھ ڈالر سالانہ دئیے
جاتے تھے۔ منیول نوریگا کے ذریعے Drug Trafficking ہوتی تھی۔ منی
لانڈرنگ ہوتی تھی۔ اور ان سرگرمیوں سے پھر لاطین امریکہ میں کمیونسٹوں کے خلاف دائیں
بازو کی تحریکوں کو سپورٹ کیا جاتا تھا۔ منی لانڈرنگ میں بڑے بڑے بنک بھی شامل
تھے۔ اس مقصد میں BCCI بنک کو بھی استعمال کیا گیا تھا جو لاطین امریکہ میں بڑی تیزی سے پھیل رہا
تھا۔ جارج ایچ بش اس وقت سی آئی اے کے ڈائریکٹر تھے۔ سرد جنگ کے اختتام پر جارج
ایچ بش امریکہ کے صدر بن گیے تھے۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد امریکہ نے اپنی طاقت کا
استعمال پانامہ میں مینول نوریگا کے خلاف کیا تھا۔ امریکی فوجیں صدارتی محل میں داخل
ہو گئی تھیں۔ اور صدر جنرل نوریگا کو ہتھکڑ یاں لگا کر امریکہ لے آئی تھیں۔ انہیں
فلوریڈا میں نظر بند کر دیا تھا۔ جنرل نوریگا پر منی لا نڈرنگ، Drug Trafficking کے الزامات میں مقدمہ چلایا گیا۔ نوریگا کو تیس سال کی سزا دی گئی تھی۔
اور
اب پانامہ کی پولیس نے Mossack
Fonseca لا فرم کی تقریباً 27 گھنٹے تلاشی لی ہے۔ لا فرم کا
سارا ریکارڈ پولیس نے اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ پانامہ کی یہ لا فرم بھی پاکستان
میں Axact کمپنی کی طرح نظر آتی ہے جو دنیا بھر
میں جعلی ڈگریوں کا کاروبار کرتی تھی۔
No comments:
Post a Comment