The Role Of The Dollar In War And Corruption
We Believe In God, But We Have Faith In The Almighty Dollar
مجیب خان
We Believe In God, But We Have Faith In The Almighty Dollar
مجیب خان
دنیا
میں اس وقت جتنی بھی جنگیں ہو رہی ہیں وہ سب ڈالر میں ہو رہی ہیں۔ اور جن کے خلاف یہ
جنگیں ہو رہی ہیں۔ وہ بھی ڈالر میں اسلحہ خریدتے ہیں۔ نائن ایلون کو امریکہ پر
حملہ کی تیاری میں بھی دہشت گردوں نے ڈالر استعمال کیے تھے۔ اس کے جواب میں پھر
امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ اور اس کی تیاری میں لاکھوں ڈالر خرچ کیے
تھے۔ افغانستان سے طالبان کا صفایا کرنے کے لئے افغان وار لارڈ ز کو ڈالروں سے
بھرے بریف کیس دئیے تھے۔ افغانستان میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن پر امریکہ
لاکھوں ڈالر خرج کر رہا تھا۔ اور طالبان امریکی اور نیٹو فوجوں پر حملے کرنے میں
ہزاروں ڈالر استعمال کرتے تھے۔ افغانستان طالبان کا افغانستان اس طرح بن گیا تھا
کہ کمیونسٹ فوجیں افغانستان میں آ گئی تھیں۔ اور افغانوں سے زیادہ امریکہ کو یہ
پریشانی ہو گئی تھی کہ کمیونسٹ فوجیں ایک اسلامی ملک کو کمیونسٹ بنا دیں گی۔ لہذا
افغانستان کی ایک اسلامی ریاست کا مقام بحال رکھنے کے لئے امریکہ نے افغانوں کی
ایک جہادی فوج کو کمیونسٹ فوجوں سے لڑنے کے لئے تیار کیا تھا۔ جن کی تربیت پر
لاکھوں ڈالر خرچ کیے تھے۔ افغانستان کو کمیونسٹ فوجوں سے آزاد کرانے کی جنگ تقریباً
دس سال تک لڑی گئی تھی۔ اور اس جنگ پر کھربوں ڈالر خرچ ہوۓ تھے۔ بلا آخر سوویت فوجیں
افغانستان سے چلی گئی تھیں۔
افغانستان سے سوویت فوجوں کے جانے کے دس سال بعد
امریکی فوجیں افغانستان کو طالبان سے آزاد کرانے آئی تھیں۔ کیونکہ طالبان
افغانستان میں کمیونسٹ نظام سے بھی زیادہ بدتر نظام لا رہے تھے۔ اس مرتبہ امریکہ
کو طالبان کو شکست دینے کے لئے افغانستان میں اپنی فوجوں پر کھربوں ڈالر خرچ کرنا
پڑے تھے۔ پاکستان کو افغانستان کے بارے میں اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے پر امداد کی
صورت میں کھربوں ڈالر کی پیشکش کی تھی۔
اسامہ بن لادن کو ایک اعلی درجہ کا جہادی بنانے پر ہزاروں ڈالر خرچ ہوۓ تھے۔ جس کے
بعد پھر بن لادن کو دینا کا ایک انتہائی خطرناک جہادی قرار دیا گیا تھا۔ اور پھر
اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے پر کھربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے تھے۔ پاکستان دہشت گردی
کے خلاف جنگ میں کیونکہ فرنٹ لائن پر تھا۔ اس لئے پاکستان کو لاکھوں ڈالر کی امداد
دی گئی تھی۔ لیکن دہشت گردوں نے پاکستان کا کھربوں ڈالر کا نقصان کر دیا تھا۔
عراق
میں صدام حسین نے کیمیائی حیاتیاتی اور جوہری ہتھیار خود ایجاد نہیں کیے تھے۔
امریکہ اور یورپ کی کمپنیوں نے ان ہتھیاروں کو ایجاد کرنے پر کھربوں ڈالر خرچ کیے
تھے۔ اور صدام حسین نے ان کمپنیوں سے یہ ہتھیار لاکھوں ڈالروں میں خریدے تھے۔ جب
یہ ہتھیا ر عراق کو فروخت کیے جا رہے تھے۔ صدام حسین اس وقت اچھے انسان تھے۔ لیکن صدام
حسین نے جب ان ہتھیاروں کی ڈالروں میں مغربی کمپنیوں کو ادائیگی کر دی تو امریکہ
کو احساس ہوا کہ صدام حسین تو انتہائی خطرناک انسان تھے۔ اور یہ ہتھیار ان کے پاس
کیوں ہیں۔ لہذا اب عراق میں ان ہتھیاروں کو تباہ کیا جاۓ گا۔ اور عراق میں ان ہتھیاروں
کو تباہ کرنے کی جنگ پر ٹیریلین ڈالر خرچ
ہوۓ تھے۔ عراق پر امریکی فوجوں کے قبضہ کے دوران عراق سے 90 بلین ڈالر غائب ہو گیے
تھے۔ اکاؤٹینٹ جنرل نے کئی مرتبہ اپنی رپورٹوں میں اس کی نشاندہی بھی کی تھی۔ لیکن
ابھی تک اس کا کھوج نہیں لگایا جا سکا ہے کہ یہ کن کی جیبوں میں گیے تھے۔
دہشت
گردی کے خلاف جنگ میں دنیا بھر میں القاعدہ کے دہشت گردوں کو پکڑنے پر لاکھوں ڈالر
خرچ ہوۓ تھے۔ پھر انہیں گوتانوموبے میں
نظر بند رکھنے ، انہیں تین وقت کا کھانا کھلانے، رمضان میں انہیں سحری اور افطار
کرانے، اور عید کے بعد ان سے تحقیقات کرنے کے دوران اذیتیں دینے پر علیحدہ لاکھوں
ڈالر خرچ کرنا پڑے تھے۔ اور انہیں جب رہا کیا گیا تھا تو انہیں ان کے آبائی ملکو ں
میں بھیجنے پر بھی ہزاروں ڈالر خرچ ہوۓ تھے۔ ان میں سے پیشتر اپنے ملکوں میں واپس
جانے کے بعد افغانستان میں طالبان کے ساتھ اور عراق میں داعش اور القاعدہ کے ساتھ
شامل ہو کر پھر امریکہ کے خلاف لڑنے لگے تھے۔ اوراب ان سے جنگ میں پھر لاکھوں ڈالر
خرچ کیے جا رہے ہیں۔
شام
میں حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے پانچ سال میں کھربوں ڈالر خرچ کیے گیے ہیں۔
جبکہ شام کی تباہی کا تخمینہ تقریباً ٹیریلین ڈالر ہے۔ شام کی خانہ جنگی نے داعش
کو جنم دیا ہے۔ لیکن امریکہ میں یہ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ داعش کو کس نے جنم
دیا تھا۔ داعش اب عراق اور شام کے بعض صوبوں پر قابض ہے۔ اور داعش سے عراق اور شام
کے علاقہ آزاد کرانے پر اب لاکھوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ چار ہزار امریکی فوجیں
عراق پہنچ چکی ہیں۔ 13 سال میں یہ عراق میں ساتویں جنگ ہو گی۔
سعودی
عرب اور خلیج کی ریاستوں کو امریکہ اور یورپی ملکوں نے کھربوں ڈالر کا جنگی اسلحہ
فروخت کیا تھا۔ یہ جنگی اسلحہ سعودی عرب نے یمن کے خلاف جنگ میں استعمال کیا ہے۔
جس سے یمن میں کھربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ اور جو یمنی اس جنگ میں مارے گیے ہیں۔
وہ نقصان مقامی کرنسی میں ہے۔ سعودی عرب نے یمن کے خلاف جنگ میں ملیشیا کو شامل
کرنے کے لئے پہلے ملیشیا کے وزیر اعظم نجیب رازق کے نجی بنک اکاؤنٹ میں 681 ملین
ڈالر جمع کراۓ تھے۔ وزیر اعظم نجیب نے اپنی فوجیں سعودی عرب بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔
ملیشیا میں یہ وزیر اعظم کے خلاف ایک بہت بڑا اسکنڈل بن گیا تھا۔ اور وزیر اعظم سے
استعفا دینے کا مطالبہ ہو رہا تھا۔ وزیر اعظم نجیب نے 620 ملین ڈالر سعودی عرب کو
واپس کر دئیے ہیں۔ لیکن 61 ملین کا پتہ نہیں چل سکا کہ یہ کہاں گیے ہیں۔
ڈالر کو
عالمی کرنسی کا درجہ دراصل امریکی کمپنیوں اور کارپوریشنوں کے مفاد میں خاصا منافع
بخش ثابت ہو رہا ہے۔ جبکہ غریب اور ترقی پذیر ملکوں کی معیشت پر اس کے منفی اثرات
ہو رہے ہیں۔ غریب ملکوں کی لیبر کا استحصال ہو رہا ہے۔ جو ایک ڈالر یومیہ اجرت پر
ان کمپنیوں کے لئے کام کرتے ہیں۔ اور یہ کمپنیاں انہیں کوئی مراعات بھی نہیں دیتی
ہیں۔ ترقی پذیر ملکوں بالخصوص پاکستان جیسے ملکوں میں ڈالر کی وجہ سے ضروریات
زندگی کی اشیا کی قیمتوں میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ان اشیا کی قیمتوں
کا تعین پہلے ڈالر میں ہوتا ہے اور پھر اسے مقامی کرنسی میں منتقل کر دیتے ہیں۔ مثلاً
امریکہ میں ایک درجن انڈے اگر دو ڈالر کے
ہیں۔ تو پاکستان میں یہ ڈالر کے ایکسچینج شرح کے حساب سے دوسو سے تین سو روپے کے فروخت
ہونے لگتے ہیں۔ حالانکہ مرغیاں انڈے پاکستان میں دیتی ہیں۔ لیکن امریکہ میں انڈوں
کا ڈالر میں جو بھاؤ ہوتا ہے وہ پاکستان میں روپوں میں ہوتا ہے۔ اکثر دوکانوں پر
تو یہ سائن لگے ہوتے ہیں کہ ڈالر میں ادا کريں گے تو جوتے کی قیمت یہ ہو گی اور
روپوں میں قیمت یہ ہو گی۔ اور اس وجہ سے قیمتیں آسمان پر پہنچی ہوئی ہیں۔ حکومت
کیونکہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے ڈالروں میں قرضہ لیتی ہے۔ اس لئے پاکستان میں مہنگائی میں ڈالر کے رول پریہ کچھ
نہیں کر رہی ہے۔
1998
میں چین کے وزیر اعظم Zhu
Rongji نے واشنگٹن
اسٹیٹ میں یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کے بعد طلبہ کے سوالوں کے دوران جب ان سے یہ
پوچھا گیا تھا کہ امریکہ میں ہر چیز میڈ ان چائنا کی فروخت ہو رہی ہے۔ اور چین اس سے
بہت منافع بنا رہا ہے۔ وزیر اعظم Zhu Rongji نے جواب میں کہا کہ چین میں Nike کا جوتا 10 ڈالر میں بنتا ہے۔ جس میں لیبر اورMaterial بھی شامل ہے۔ لیکن شکاگو میں Nike کا جوتا 190 ڈالر
کا فروخت ہو رہا ہے۔ اب منافع امریکی کمپنیاں بنا رہی ہیں یا چین۔ وزیر اعظم نے یہ
صرف ایک مثال دی تھی۔ لیکن الیکٹرونک کی اشیا جو چین میں بن رہی ہیں وہ بھی تقریباً
آٹھ سو سے ایک ہزار فیصد منافع پر فروخت ہو رہی ہیں۔ دنیا میں ایک ڈالر یومیہ اجرت
سے بڑی بڑی کمپنیاں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اور لوگوں کی زندگیوں میں اس سے کوئی فرق
نہیں آیا ہے۔ اور جو ایک ڈالر یومیہ اجرت پر کام کر رہے ہیں۔ ان کے لئے بے روز گار
رہنے سے بہتر ہے کہ روز گار ہے۔ ان کی زندگیوں میں صرف یہ تبدیلی ہے۔ گزشتہ ہفتہ
گارجین میں ایک رپورٹ کے مطابق امریکی کارپوریشنوں کے 1.4 ٹیریلین ڈالر Tax Havens میں خفیہ ر کھے ہیں۔ ان کارپوریشنوں میں جنرل الیکٹرک مائیکروسوفٹ، Pfizer، Exxon Mobil وال مارٹ، Apple ان کی ایک لمبی
فہرست ہے۔ دہشت گردی کی جنگ کے پس پردہ دولت مندوں کی ایک نئی دنیا بنائی جا رہی
ہے۔ اور دہشت گردی کے خلاف جو سخت قوانین بناۓ گیے ہیں۔ وہ دولت مندوں کے خلاف
بولنے والوں کے خلاف استعمال ہوں گے۔
No comments:
Post a Comment