Thursday, May 12, 2016

Arab Spring In The Republican Party

Are The Warmongers And The Extremists The Same?  

Arab Spring In The Republican Party

مجیب خان


          ری پبلیکن  پارٹی کے صدارتی امیدوار کے لئے 17 امیدواروں میں مقابلہ تھا۔ یہ 17 امیدوار ایک سال سے پرائم ریز انتخابات کے لئے انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ مختلف ٹی وی چینلز نے ان کے درمیان ایک درجن سے زیادہ مباحثوں کا انعقاد کیا تھا۔ ان مباحثوں میں صدارتی امیدواروں سے سینکڑوں سوال کیے گیے تھے۔ پھر ان امیدواروں کے ساتھ ٹاؤن ہال سیشن بھی ہوۓ تھے۔ اور یہاں شہریوں نے بھی صدارتی امیدواروں سے سوال کیے تھے۔ پھر ان 17 امیدواروں نے سواۓ ڈونالڈ ٹرمپ کے ہر امیدوار نے لاکھوں ڈالر پرائم ریز میں انتخابی مہم پر خرچ کیے تھے۔ جو انہیں مختلف نظریاتی مالدار قدامت پسندوں نے دئیے تھے۔ جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے کھربوں ڈالروں میں سے لاکھوں ڈالر اپنی صدارتی مہم پر خرچ کیے تھے۔ ایک سال سے امریکی عوام ان 17 امیدواروں کے خارجہ پالیسی، دفاعی پالیسی، دہشت گردی کے خلاف جنگ، شام کی خانہ جنگی، دنیا بھر میں امریکہ کی ٹانگ اڑانے کی عادت، امریکہ پر 19 ٹیریلین ڈالر کا قرض، لوگوں کا روز گار امریکی کمپنیاں چین اور دوسرے ملکوں میں لے گئی ہیں انہیں کیسے واپس امریکہ میں لایا جاۓ، عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ، کم سے کم اجرتوں میں اضافہ کا سوال، امیگریشن کا مسئلہ، ان کے علاوہ دوسرے سماجی اور معاشی ایشو بھی تھے۔ جن پر ان امیدواروں کے خیالات لوگ ایک سال سے سن رہے تھے۔ ان میں ایک امیدوار سابق صدر جارج ایچ بش کے صاحبزادے اور جارج ڈبلو بش کے بھائی Jeb Bush تھے۔ بش Clan کے تیسرے فرد نے جب امریکہ کی صدارت کے لئے امیدوار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ تو میرا تبصرہ یہ تھا کہ خدا خیر کرے اگر تیسرا بش امریکہ کا صدر بن گیا تو پھر تیسری عالمی جنگ یقینی ہو جاۓ گی۔ بش نے اپنی صدارتی مہم کے آغاز ہی میں یوکرین کے مسئلہ پر یورپ میں فوجیں بھیجنے کی باتیں کرنا شروع کر دی تھیں۔ ری پبلیکن پارٹی کی پرائم ریز میں صدارتی مہم کے دوران جو امیدوار جتنا زیادہ بڑھ چڑھ کر جنگ اور فوجیں بھیجنے کی باتیں کرتا تھا۔ اسے اتنے ہی کم ووٹ ملتے تھے۔ اور وہ پیچھے ہوتا جا رہا تھا۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ رفتہ رفتہ ان سے آگے نکل رہے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا موقف 16 دوسرے امیدواروں کے مقابلے میں بہت مختلف تھا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کا پارٹی سیاست سے کبھی کوئی تعلق نہیں تھا۔ ٹرمپ پیشہ ور سیاستدان بھی نہیں تھے۔ واشنگٹن کے Insider بھی نہیں تھے۔ لہذا امریکی عوام بھی انہیں ذرا مختلف دیکھ رہے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے روس کے ساتھ اچھے تعلقات کی بات کی تھی۔ انہوں نے صدر پوتن کی تعریف بھی کی تھی۔ ٹرمپ نے نیٹو ختم کرنے کی بات کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اب یورپ کے دفاع پر خرچ نہیں کر سکتا ہے۔ جبکہ نیٹو کے رکن ملک اپنے بجٹ کا دو فیصد دفاعی اخراجات میں دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ پھر امریکہ یورپ کے دفاع پر اپنے عوام کے ٹیکس کی رقم کیوں خرچ کرے؟ مڈل ایسٹ میں امریکہ کے ملوث ہونے کے ڈونالڈ ٹرمپ خلاف ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب دوسرے ملکوں کو مڈل ایسٹ میں آگے آنا چاہیے۔ اور مڈل ایسٹ کے امن اور استحکام میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ فلسطین اسرائیل تنازعہ پر ڈونالڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان کی انتظامیہ اس تنازعہ میں غیرجانبدار رہے گی۔ اور اس تنازعہ میں کسی ایک فریق کی پارٹی نہیں بنے گی۔ صدارتی مہم میں ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے عیسائی قوم پرست ہونے کا اظہار اس طرح کیا تھا کہ جب وہ صدر ہوں گے تو کرسمس پر Happy Holiday نہیں کہا جاۓ گا بلکہ Merry Christmas کہا جاۓ گا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جب عیسائی اپنا تہوار منا تے ہیں اسی وقت یہودیوں کا تہوار بھی ہوتا ہے۔ اس لئے سب Happy Holiday کہنے لگے تھے۔
       ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کی حکمت عملی بڑے سوچ سمجھ کر بنائی تھی۔ جس میں امریکی معاشرے کے ہر مکتبہ فکر کے لئے سوچنے اور انتظامیہ کی Status-quo پالیسیوں کے خلاف ان کا ہم خیال بننے کے لئے اہم پوائنٹ تھے۔ جن سے اختلاف کرنا ممکن نہیں تھا۔ جو امریکہ کی خارجہ اور ڈیفنس پالیسی سے اختلاف کرتے تھے۔ وہ خارجہ اور ڈیفنس پالیسی کے بارے میں ڈونالڈ ٹرمپ کے خیالات سے اتفاق کرنے لگے تھے۔ جو دنیا بھر میں بالخصوص مڈل ایسٹ میں امریکہ کی مسلسل مداخلت کے خلاف تھے۔ وہ مڈل ایسٹ کے بارے میں ڈونالڈ ٹرمپ کے موقف سے اتفاق کرتے تھے۔ جو فلسطین اسرائیل تنازعہ میں امریکہ کی اسرائیل کے ساتھ قریبی جانبداری کے خلاف تھے۔ وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے فلسطین اسرائیل تنازعہ میں غیرجانبدار رہنے کے خیالات سے مکمل اتفاق کرتے تھے۔ جو امریکہ کے فری ٹریڈ بلاک بنانے کی پالیسی کے سخت خلاف تھے۔ وہ ڈونالڈ ٹرمپ کی فری ٹریڈ بلاک  کے خلاف پالیسی کی حمایت کرتے تھے۔ جو لوگ اس لئے خوش نہیں تھے کہ بے شمار امریکی کمپنیاں چین، میکسیکو  اور دوسرے ملکوں میں چلی گئی ہیں۔ جس کے ساتھ ان کی نوکریاں بھی چلی گئی ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے ان کمپنیوں کو اب واپس امریکہ لانے کی بات کی ہے۔ اس لئے یہ لوگ ڈونالڈ ٹرمپ کے حامی تھے۔ امریکہ کی جنوبی ریاستیں جو انتہائی مذہبی عیسائی ریاستیں سمجھی جاتی ہیں۔ یہاں لوگ ڈونالڈ ٹرمپ کی عیسائی قوم پرستی سے متاثر ہو کر ان کی حمایت کر رہے تھے۔
       اور اب پرائم ریز میں ڈونالڈ ٹرمپ نے بڑی اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کر لی ہے۔ تقریباً  دس ملین سے زیادہ لوگوں نے انہیں ووٹ دئیے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ہونے کے بہت واضح مستحق ہیں۔ لیکن ری پبلیکن پارٹی کی اسٹبلشمینٹ میں نظریاتی عناصر ڈونالڈ ٹرمپ کو پارٹی کا صدارتی امیدوار قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ با ظاہر ری پبلیکن پارٹی کے یہ نظریاتی ڈونالڈ ٹرمپ کے خارجہ امور اور ڈیفنس کے بارے میں خیالات سے شدید اختلاف کرتے ہیں۔ اور امریکہ کے لئے انہیں نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ یہ نظریاتی امریکہ کی انیسویں اور بیسویں صدی کے Status-quo کی پالیسیاں اکیسویں صدی میں بھی جاری رکھنے کی حمایت کرتے ہیں۔ سابق صدر جارج ایچ بش، سابق صدر جارج ڈبلو بش، ناکام صدارتی امیدوار Jeb Bush، اسپیکر Paul Ryan، سینیٹر جان مکین، سینیٹر لینڈزی  گرہیم، ری پبلیکن پارٹی کے 2012 میں صدارتی امیدوار مٹ رامنی نے ڈونالڈ ٹرمپ کو ووٹ نہیں دینے کا فیصلہ کیا ہے۔   
      اور یہ امریکہ کی گرینڈ اولڈ پارٹی GOP)( کی جمہوریت کا تصور ہے۔ جس میں لوگوں سے صرف ووٹ لئے جاتے ہیں۔ اور تمام فیصلہ پارٹی کی اسٹبلشمینٹ کے ہوتے ہیں۔ اور حالیہ صدارتی پرائم ریز میں پارٹی کا یہ کلچر ٹوٹتا نظر آ رہا ہے۔ لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت جیسے پارٹی اسٹبلشمینٹ کے خلاف بغاوت کر رہی ہے۔ اور ڈونالڈ ٹرمپ اس بغاوت کی قیادت کر رہے ہیں۔ امریکی عوام جنگوں کے خلاف ہیں۔ لیکن انہیں مسلسل جنگوں میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ عوام کے فیصلہ کبھی غلط نہیں ہوتے ہیں۔ ویت نام جنگ کے خلاف عوام کا فیصلہ درست تھا۔ انتظامیہ کو شکست ہوئی تھی۔ امریکی عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت عراق پر حملہ کے خلاف تھی۔ انتظامیہ کو عراق میں بری طرح شکست ہوئی تھی۔ سات ہزار امریکی فوجی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ اور تیس ہزار فوجی ابھی تک زخموں سے صحت یاب نہیں ہو سکے ہیں۔ جبکہ اس جنگ پر کھربوں ڈالر خرچ کیے گیے تھے۔
       ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنی صدارتی مہم میں جو کچھ  کہا ہے وہ بالکل درست ہے۔ اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی ایک مکمل تباہی ہے۔ عراق، افغانستان، لیبیا، شام، فلسطین اسرائیل تنازعہ  ہر طرف ناکامی اور تباہی نظر آتی ہے۔ اس لئے امریکی عوام ڈونالڈ ٹرمپ پر اعتماد کر رہے ہیں۔ اور انہیں Credible سمجھتے ہیں۔ ری پبلیکن پارٹی کی نظریاتی قیادت پر اب ان کو اعتماد نہیں ہے۔ ری پبلیکن پارٹی کی قیادت اس لئے ڈونالڈ ٹرمپ سے خوش نہیں ہے کہ انہوں نے ایک سال سے اپنی انتخابی مہم میں اسٹبلشمینٹ کے خلاف باتیں کی ہیں۔ اور لوگوں کو اسٹبلشمینٹ کے خلاف کیا ہے۔ حالانکہ امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام نے ڈونالد ٹرمپ کو بنایا ہے۔ اور ری پبلیکن پارٹی نے ہمیشہ اس نظام کی حمایت کی ہے جو ارب پتی پیدا کرتی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اس نظام کے خلاف نہیں ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اسٹبلشمینٹ کی خارجہ، ڈیفنس اور فری ٹریڈ پالیسیوں کو ٹارگٹ کیا ہے۔ اور ان میں انقلابی تبدیلیوں کی بات کی ہے۔ ری پبلیکن کے نظام نے ڈونالڈ ٹرمپ کو بنایا ہے۔ اور اس کی قیادت کو اب ڈونالڈ ٹرمپ کو گلے لگانا ہو گا ۔ اور یہ عوام  کا فیصلہ ہے۔                                              

No comments:

Post a Comment