Are The Warmongers And The Extremists The Same?
Arab Spring In The Republican Party
مجیب خان
ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کی حکمت عملی بڑے سوچ سمجھ کر بنائی تھی۔
جس میں امریکی معاشرے کے ہر مکتبہ فکر کے لئے سوچنے اور انتظامیہ کی Status-quo
پالیسیوں کے خلاف ان کا ہم خیال بننے کے لئے اہم پوائنٹ تھے۔ جن سے اختلاف کرنا ممکن
نہیں تھا۔ جو امریکہ کی خارجہ اور ڈیفنس پالیسی سے اختلاف کرتے تھے۔ وہ خارجہ اور
ڈیفنس پالیسی کے بارے میں ڈونالڈ ٹرمپ کے خیالات سے اتفاق کرنے لگے تھے۔ جو دنیا
بھر میں بالخصوص مڈل ایسٹ میں امریکہ کی مسلسل مداخلت کے خلاف تھے۔ وہ مڈل ایسٹ کے
بارے میں ڈونالڈ ٹرمپ کے موقف سے اتفاق کرتے تھے۔ جو فلسطین اسرائیل تنازعہ میں
امریکہ کی اسرائیل کے ساتھ قریبی جانبداری کے خلاف تھے۔ وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے فلسطین
اسرائیل تنازعہ میں غیرجانبدار رہنے کے خیالات سے مکمل اتفاق کرتے تھے۔ جو امریکہ
کے فری ٹریڈ بلاک بنانے کی پالیسی کے سخت خلاف تھے۔ وہ ڈونالڈ ٹرمپ کی فری ٹریڈ
بلاک کے خلاف پالیسی کی حمایت کرتے تھے۔
جو لوگ اس لئے خوش نہیں تھے کہ بے شمار امریکی کمپنیاں چین، میکسیکو اور دوسرے ملکوں میں چلی گئی ہیں۔ جس کے ساتھ
ان کی نوکریاں بھی چلی گئی ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے ان کمپنیوں کو اب واپس امریکہ لانے
کی بات کی ہے۔ اس لئے یہ لوگ ڈونالڈ ٹرمپ کے حامی تھے۔ امریکہ کی جنوبی ریاستیں جو
انتہائی مذہبی عیسائی ریاستیں سمجھی جاتی ہیں۔ یہاں لوگ ڈونالڈ ٹرمپ کی عیسائی قوم
پرستی سے متاثر ہو کر ان کی حمایت کر رہے تھے۔
اور اب پرائم ریز میں ڈونالڈ ٹرمپ نے بڑی اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کر لی
ہے۔ تقریباً دس ملین سے زیادہ لوگوں نے
انہیں ووٹ دئیے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ہونے کے بہت
واضح مستحق ہیں۔ لیکن ری پبلیکن پارٹی کی اسٹبلشمینٹ میں نظریاتی عناصر ڈونالڈ
ٹرمپ کو پارٹی کا صدارتی امیدوار قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ با ظاہر ری
پبلیکن پارٹی کے یہ نظریاتی ڈونالڈ ٹرمپ کے خارجہ امور اور ڈیفنس کے بارے میں
خیالات سے شدید اختلاف کرتے ہیں۔ اور امریکہ کے لئے انہیں نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ یہ
نظریاتی امریکہ کی انیسویں اور بیسویں صدی کے Status-quo کی
پالیسیاں اکیسویں صدی میں بھی جاری رکھنے کی حمایت کرتے ہیں۔ سابق صدر جارج ایچ
بش، سابق صدر جارج ڈبلو بش، ناکام صدارتی امیدوار Jeb Bush، اسپیکر Paul Ryan،
سینیٹر جان مکین، سینیٹر لینڈزی گرہیم، ری
پبلیکن پارٹی کے 2012 میں صدارتی امیدوار مٹ رامنی نے ڈونالڈ ٹرمپ کو ووٹ نہیں
دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اور یہ امریکہ کی گرینڈ اولڈ پارٹی GOP)( کی جمہوریت کا تصور
ہے۔ جس میں لوگوں سے صرف ووٹ لئے جاتے ہیں۔ اور تمام فیصلہ پارٹی کی اسٹبلشمینٹ کے
ہوتے ہیں۔ اور حالیہ صدارتی پرائم ریز میں پارٹی کا یہ کلچر ٹوٹتا نظر آ رہا ہے۔
لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت جیسے پارٹی اسٹبلشمینٹ کے خلاف بغاوت کر رہی ہے۔ اور
ڈونالڈ ٹرمپ اس بغاوت کی قیادت کر رہے ہیں۔ امریکی عوام جنگوں کے خلاف ہیں۔ لیکن
انہیں مسلسل جنگوں میں گھسیٹا جا رہا ہے۔ عوام کے فیصلہ کبھی غلط نہیں ہوتے ہیں۔ ویت
نام جنگ کے خلاف عوام کا فیصلہ درست تھا۔ انتظامیہ کو شکست ہوئی تھی۔ امریکی عوام
کی ایک بہت بڑی اکثریت عراق پر حملہ کے خلاف تھی۔ انتظامیہ کو عراق میں بری طرح
شکست ہوئی تھی۔ سات ہزار امریکی فوجی اس جنگ میں مارے گیے تھے۔ اور تیس ہزار فوجی
ابھی تک زخموں سے صحت یاب نہیں ہو سکے ہیں۔ جبکہ اس جنگ پر کھربوں ڈالر خرچ کیے
گیے تھے۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کے بارے میں اپنی صدارتی مہم میں جو
کچھ کہا ہے وہ بالکل درست ہے۔ اور اس سے
انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ کی خارجہ
پالیسی ایک مکمل تباہی ہے۔ عراق، افغانستان، لیبیا، شام، فلسطین اسرائیل تنازعہ ہر طرف ناکامی اور تباہی نظر آتی ہے۔ اس لئے امریکی
عوام ڈونالڈ ٹرمپ پر اعتماد کر رہے ہیں۔ اور انہیں Credible سمجھتے ہیں۔ ری
پبلیکن پارٹی کی نظریاتی قیادت پر اب ان کو اعتماد نہیں ہے۔ ری پبلیکن پارٹی کی
قیادت اس لئے ڈونالڈ ٹرمپ سے خوش نہیں ہے کہ انہوں نے ایک سال سے اپنی انتخابی مہم
میں اسٹبلشمینٹ کے خلاف باتیں کی ہیں۔ اور لوگوں کو اسٹبلشمینٹ کے خلاف کیا ہے۔
حالانکہ امریکہ کے سرمایہ دارانہ نظام نے ڈونالد ٹرمپ کو بنایا ہے۔ اور ری پبلیکن
پارٹی نے ہمیشہ اس نظام کی حمایت کی ہے جو ارب پتی پیدا کرتی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اس
نظام کے خلاف نہیں ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اسٹبلشمینٹ کی خارجہ، ڈیفنس اور فری ٹریڈ
پالیسیوں کو ٹارگٹ کیا ہے۔ اور ان میں انقلابی تبدیلیوں کی بات کی ہے۔ ری پبلیکن
کے نظام نے ڈونالڈ ٹرمپ کو بنایا ہے۔ اور اس کی قیادت کو اب ڈونالڈ ٹرمپ کو گلے
لگانا ہو گا ۔ اور یہ عوام کا فیصلہ ہے۔
No comments:
Post a Comment