Tuesday, May 24, 2016

In A War-Torn Country "Boots On The Ground" Is Not The Cure

In A War-Torn Country "Boots On The Ground" Is Not The Cure         
The Innocent Iraqi People Are The Victims Of Anglo-American Adventurism

مجیب خان
Baghdad, Iraq Under Saddam's Rule
Iraq Under U.S. Occupation 
Iraq War

Falllujah
         بیرونی فوجی حملہ نے صدا م حسین کو جس دن اقتدار سے ہٹایا ہے۔ اس دن سے عراقیوں کو امن نصیب نہیں ہوا ہے۔ عراق میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا ہے کہ بم نہیں پھٹتے ہیں۔ اور سینکڑوں عراقیوں کا خون اور جسموں کے ٹکڑے بغداد کی سڑکوں پر بکھرے نہیں دیکھے جاتے ہیں۔ اس بیرونی حملہ نے عراق کو عرب دنیا کے وسط میں Wholesale human killing کا سینٹر بنا دیا ہے۔ عراق پر جب اینگلو امریکہ کا قبضہ تھا یہ سلسلہ اس وقت سے جاری ہے۔ پھر نوری الما لکی کو  جمہوری حکومت کا سرٹیفکیٹ دے کر اینگلو امریکی فوجوں نے اقتدار منتقل کر دیا تھا۔ صدر جارج بش نے نوری الما لکی کو عراق کی ہزار سال کی تاریخ میں پہلے شیعہ وزیر اعظم منتخب ہونے کی مبارک باد دی تھی۔ اور اس کے بعد عراق کو 10 بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جو جنگ عراق میں ہتھیاروں کا خاتمہ کرنے سے شروع ہوئی تھی۔ وہ جنگ اب عراق کو ہتھیاروں سے بھرنے سے جاری تھی۔ نوری الما لکی عراق کے وزیر اعظم بن گیے تھے۔ لیکن بغداد کی سڑکوں اور بازاروں میں عراقیوں کا خون بہنے اور ہلاکتوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ عراقیوں کی ہلاکتوں کی ذمہ دار اب یہ حکومت  تھی۔
        اس وقت تک عراق میں اقوام متحدہ کے ان ہلاکتوں کے بارے میں جو اعداد و شمار ہیں۔ ان کے مطابق 500،000 عراقی مارے گیے تھے۔ جبکہ گزشتہ دو سالوں میں 18،802 عراقی شہری ہلاک ہوۓ تھے۔ اور صرف گزشتہ ہفتہ بغداد میں بموں کے دھماکوں میں 200 عراقی ہلاک ہوۓ تھے۔ صدا م حسین کے 35 سال دور اقتدار میں کبھی ایسی ہلاکتیں نہیں دیکھی گئی تھیں۔ ٹھیک ہے، مغرب کی نگاہوں میں صدا م حسین بہت برے انسان تھے۔ انہوں نے صرف  حکومت کے مخالفین مارے تھے۔ انہوں نے عراق میں ابو غریب جیل اور گوتا نوموبے نظر بندی کیمپ بھی قائم کیے تھے۔ اور یہاں حکومت کے مخالفین کو اذیتیں دی  تھیں۔ لیکن صدا م حسین نے عراقی آبادی کے ایک چھوٹی سیاسی اپوزیشن کے ساتھ زیادتیاں کی تھیں۔ جو صدا م حکومت کے خلاف تھی۔ تاہم صدا م حسین کے عراق میں شیعاؤں کو امریکہ کے خلیجی اتحادیوں بحرین، کویت اور سعودی عرب میں شیعاؤں سے زیادہ حقوق دئیے  تھے۔ حکومت کے اداروں میں انہیں مساوی طور پر بھرتی کیا جاتا تھا۔ پھر دوسری طرف عراق کو امن اور استحکام بھی دیا تھا۔ عراقیوں کو اقتصادی مواقع فراہم کیے تھے۔ عراقی بچوں کو تعلیم دی تھی۔ انہیں سائنس دان بنایا تھا۔ انہیں ڈاکٹر بنایا تھا۔ انہیں انجنیئر بنایا تھا۔ انہیں ادب اور ثقافت میں دانشور بنایا تھا۔ انہیں اقتصادی ماہر بنایا تھا۔ انہیں معاشی خوشحال ہونے کا ہنر دیا تھا۔ جارج بش اور ڈک چینی سنو- صدا م حسین نے اپنے نوجوانوں کو تعلیم دی تھی۔ اور انہیں معاشرے کا مہذب انسان بنا یا تھا۔ صدا م حسین کے دور میں یہ ترقی ہوئی تھی۔ 70 اور 80 کے دور میں بغداد میں جو امریکی سفیر تھے وہ اس کی تصدیق کر سکتے  ہیں۔ صدا م حسین کے 35 برس دور اقتدار میں  صدا م حسین نے دہشت گرد نہیں بناۓ تھے۔ عراقی فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے خلاف لڑنے نہیں جاتے تھے۔ امریکہ کی پراپگنڈہ مشین خواہ کتنا ہی جھوٹ بولے۔ لیکن اصل حقائق تاریخ بتاتی ہے۔ اور دنیا کی بڑی سے بڑی فوجی طاقت بھی تاریخ میں حقائق تبدیل نہیں کر سکتی ہے۔
       عراق پر اینگلو امریکہ کے فوجی قبضہ کے بعد عراق میں تعلیمی اداروں پر تالے ڈال دئیے گیے تھے۔ عراقی حکومت کے جہاں دوسرے اداروں کو ختم کر دیا گیا تھا وہاں یونیورسٹیوں کالجوں اور اسکولوں کے اساتذہ اور پروفیسروں کی ملازمتیں بھی ختم کر دی گئی تھیں۔ پروفیسر انجنیئر ڈاکٹر دانشور عراق سے چلے گیے تھے۔ یا ان کی لاشیں کھائیوں میں پڑی ملتی تھیں۔ ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوتی تھیں۔ ان کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوتے تھے۔ آج دنیا کو داعش کے کرائم بتاۓ جا رہے ہیں۔ لیکن ان کرائم کی کوئی بات نہیں کرتا ہے کہ اینگلو امریکہ کے فوجی قبضے میں یہ کرائم کس نے کیے تھے؟ ہزاروں اور لاکھوں عراقیوں کا روز گار چھین لیا گیا تھا۔ لوگ جب غریب ہو جاتے ہیں یا بے روز گار ہوتے  ہیں تو کرائم کرنے لگتے ہیں۔ اور دہشت گردی ان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ عراق میں القاعدہ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ کوئی دہشت گرد نہیں تھا۔ یہ عراق پر اینگلو امریکہ کے فوجی قبضہ کی ایجاد تھے۔ اس فوجی قبضہ میں عراقیوں نے IED ایجاد کیا تھا۔ عراقیوں نے بموں کے دھماکہ کرنا سیکھا تھا۔ دہشت گرد اور انتہا پسند بننا سیکھا تھا۔ اینگلو امریکہ نے عراقی معاشرے کو مذہبی فرقہ پرستی کی نفرتوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ پہلے شیعہ ملیشیا سنیوں کے خلاف بناۓ تھے۔ پھر سنی ملیشیا شیعاؤں کے خلاف بناۓ تھے۔ اینگلو امریکی فوجی قبضہ نے ابو مصاب الزرقاوی اور ابو ایوب الاماصری پیدا کیے تھے۔ عراقیوں کو مہدی آرمی دی تھی۔ صدر جارج بش نے عراق پر جس طرح حکومت کی تھی۔ وزیر اعظم نوری الما لکی  اور اب وزیر اعظم حیدر الا عابدی بھی اسی طرح حکومت کر رہے ہیں۔ 10 بلین ڈالر کے ہتھیار جو امریکہ سے خریدے تھے اب وہ  عراقیوں کے خلاف استعمال ہو رہے تھے۔ ان میں سے شاید ایک بلین ڈالر کے ہتھیار داعش لے گیے ہیں۔ عراق میں داعش کی ایجاد بھی اینگلو امریکی فوجی قبضہ کا تسلسل ہے۔ انہیں اب یہ کہتے شرم آتی ہے کہ داعش تو صدا م حسین سے زیادہ خطرناک ہے۔
       عراق میں 2003 سے 2011 کے دوران انسرجنسی کے خلاف اینگلو امریکی فوجوں نے تقریباً 500 آپریشن کیے تھے۔ ان میں Operation Option North and Operation Bayonet Lightning in Kirkuk, Operation Desert Thrust, Operation Abilene and Operation All American Tiger throughout Iraq, Operation Iron Hammer in Baghdad and Operation Ivy Blizzard in Samarra- all in 2003;Operation Market Sweep, Operation Vigilant Resolve and Operation Phantom Fury in Fallujah in 2004;Operation Matador in Anbar, Operation Squeeze Play and Operation Lightning in Baghdad, Operation New Market near Haditha, Operation Spear in Karbala and the Battle of Tal Afar- all in 2005;Operation Swarmer in Samarra and Operation Together Forward in Baghdad in 2006; and Operation Law and Order in Baghdad, Operation Arrowhead Ripper in Baqouba and Operation Phantom Strike throughout Iraq- all in 2007.
        یہ آپریشن ‏عراق میں صرف 9 سال کے عرصہ میں ہوۓ تھے۔ اور یہ سب فیل آپریشن تھے۔ جس کے بعد داعش وجود میں آئی تھی۔ اس کو وجود میں لانے میں کون سے ہاتھ تھے؟ داعش کو منظم کس نے کیا تھا؟ داعش کو فوجی گاڑیاں کس نے فراہم کی تھیں؟ جیسا کہ امریکی میڈیا میں یہ بتایا گیا تھا کہ داعش 50 سے 60 ہزار لوگوں کی فوج تھی۔ اس کا ایک انٹرنیٹ نیٹ ورک بھی تھا۔ داعش کا موصل اور فلوجہ پر قبضہ ہے۔ جو سنی اکثریت کے شہر ہیں۔ اور شام میں Aleppo اور Raqqa داعش کے کنثرول میں ہیں۔ ان علاقوں پر قبضہ مضبوط  کرنے کے بعد اسے عراق اور شام سے کاٹ کر یہاں داعش کا اسلامی خلافت قائم کرنے کا منصوبہ تھا۔ لیکن یہ منصوبہ کس نے دیا تھا؟ امریکہ کے قریبی خلیجی اتحادی اور ترکی عراق میں امن اور شام کے استحکام میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتے ہیں جتنی دلچسپی انہیں صدر بشر السد کو اقتدار سے ہٹانے میں ہے۔ حالانکہ صدر بش کی عراق میں صدا م حسین کو اقتدار سے ہٹانے کی دلچسپی کے نتائج بھی ان کے سامنے ہیں۔ امریکہ تو ہر صورت حال کو اپنے مقاصد میں Exploit کرنا جانتا ہے۔ صدا م حسین کو اقتدار سے ہٹانے سے پہلے کے حالات کو بھی امریکہ نے اپنے مقاصد میں Exploit کیا تھا۔ اور صدا م حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد جو صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ اسے بھی امریکہ اپنے مفاد میں Exploit کر رہا ہے۔
       عراق میں جن سنیوں کو امریکہ پر غصہ تھا وہ داعش میں شامل ہو گیے تھے۔ اور امریکہ میں جنہیں دونوں پارٹیوں پر غصہ ہے وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ شامل ہو گیے ہیں۔ یا برنی سینڈر کے ساتھ ہیں۔ حالات کو جنگوں میں رکھنے کی ایک حد ہوتی ہے۔ اور اس کے بعد لوگ پھر جنگوں کے خلاف بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ اور لوگ اب ہر طرف  بغاوت کے موڈ میں نظر آتے ہیں۔                        

No comments:

Post a Comment