Monday, May 16, 2016

Squeeze Afghan Warlords, Not Pakistan

Squeeze Afghan Warlords, Not Pakistan

مجیب خان       
"Afghan Warlord  Gul Agha Sherzai  "The Bulldozer




           گزشتہ ماہ افغانستان پر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2016 کے پہلے تین ماہ میں افغان شہریوں کی ہلاکتوں میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ افغان سیکورٹی فورس کی انتہا پسندوں کے خلاف لڑائی میں زیادہ شہری ہلاک اور زخمی ہوۓ تھے۔ پہلے تین ماہ میں چھ سو افغان شہری ہلاک اور 1343 زخمی ہوۓ تھے۔ اور ان میں ایک بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس میں 29 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق درجنوں افغان اسکولوں کو فوجی مقاصد میں استعمال کیا گیا تھا۔ جس سے اسکولوں پر ممکنہ حملوں کی وجہ سے بچے خطروں میں آ  گیے تھے۔ رپورٹ کے مطابق مخالف افغان مسلح گروپوں میں بالخصوص طالبان 60 فیصد شہری ہلاکتوں کے ذمہ دار تھے۔ تاہم یہ توازن اب بدل رہا تھا۔ گزشتہ سال اس دوران 73 فیصد شہریوں کی ہلاکتیں مسلح گروپوں کی کاروائیوں کے نتیجے میں ہوئی تھیں۔ جبکہ صرف 14 فیصد  شہری ہلاکتیں حکومت کی سیکورٹی فورس کی کاروائیوں کے دوران ہوئی تھیں۔ اور اب یہ 19 فیصد ہو گئی ہیں۔ اقوام متحدہ نے افغان شہریوں کی تکالیف اور شہری فضائی حملوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
       اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کی اشاعت کے تقریباً 72 گھنٹوں کے اندر کابل میں بموں کے کئی زبردست دھماکہ ہوۓ تھے۔ جس میں 68 لوگ ہلاک اور 300 زخمی ہوۓ تھے۔ یہ دھماکہ کابل شہر کے وسط میں ہوا تھا۔ جہاں حکومت کی وزارتیں، صدارتی محل، سفارت خانے تھے۔ اور سیکورٹی بہت سخت تھی۔ لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ اس حملہ کا سبب کیا اس رپورٹ سے تھا جس میں اس سال کے پہلے تین ماہ میں حکومت کی سیکورٹی فورس کی کاروائیوں میں چھ سو افغان شہریوں کے ہلاک ہونے کا بتایا گیا تھا۔ اور شہریوں کی ہلاکتوں میں 70 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ افغان سیکورٹی فورس پر کس افغان ثقافتی گروپ کا  غلبہ تھا۔ کابل میں دھماکہ بھی وزارت دفاع  سے زیادہ دور نہیں ہوا تھا۔ تاہم اقوام متحدہ کی رپورٹ میں جن چھ سو افغان شہریوں کی ہلاکتوں کا ذکر تھا ان کے بارے میں یہ نہیں بتایا گیا تھا ان کا کس افغان ثقافت سے تعلق تھا۔ افغانستان میں ایک درجن سے زیادہ لڑائیاں مختلف محاذوں پر جاری تھیں۔ لیکن ہر لڑائی کے ریڈار پر صرف طالبان تھے۔
        کابل میں بموں کے دھماکوں کے بعد صدر اشرف غنی نے جو بیان دیا تھا اس میں ان کا سارا غصہ پاکستان پر یہ تھا کہ پاکستان طالبان کے خلاف کچھ نہیں کر رہا تھا۔ صدر اشرف غنی نے کہا کہ "پاکستان طالبان کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کے بجاۓ طالبان کا خاتمہ کرے۔" صدر اشرف غنی سابق صدر بش کے جیسے ترجمان بن گیے تھے اور ان کے اس موقف کو دہرا رہے تھے کہ طالبان سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ان کا خاتمہ کیا جاۓ۔ یہ صدر اشرف غنی کی شاید اپنے ملک کے حالات سے لاعلمی تھی۔ جو پاکستان کے سلسلے میں ان کا یہ Attitude تھا۔ ان سے پہلے صدر حامد کرزئی بھی اسی لب و لہجہ میں پاکستان کے بارے میں باتیں کرتے تھے۔ صدر کرزئی تقریباً بارہ سال سے اقتدار میں تھے۔ آخر انہوں نے اپنے ملک کو جنگ سے نکالنے کے لئے کیا کیا تھا؟ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ افغانستان کو جنگ کے حالات میں رکھنے کی حکمت عملی کے تحت یہ جنگ فروغ دی جا رہی تھی۔ اگر افغانستان کو جنگ کے حالات سے نکالنا مقصد ہوتا تو یہ جنگ کامیابی کے ساتھ کب کی ختم ہو چکی ہوتی۔ سولہ سال سے یہ جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اور جنگ میں کوئی بڑی کامیابی بھی نہیں ہو رہی ہے۔ یہ خود افغانستان کو جو امن  نہیں دے سکے ہیں۔ اب اس کی توقع یہ پاکستان سے کیسے کر رہے ہیں۔ جب افغانستان میں امن کے لئے پاکستان کچھ کر سکتا تھا۔ اس وقت بش انتظامیہ نے پاکستان کو اس سے روک دیا تھا۔ اور افغانستان میں طالبان کا خاتمہ ہونے تک جنگ جاری رکھنے کا پاکستان سے مسلسل اصرار کیا جاتا رہا۔ زر داری گیلانی حکومت کو بھی یہ ہی پیغام دیا گیا تھا کہ طالبان سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔ امریکہ کی یہ منطق سمجھ سے باہر تھی کہ طالبان سے مذاکرات کیوں نہیں کیے جائیں۔ حالانکہ یہ طالبان جب مجاہدین تھے اور امریکہ کے اتحادی تھے۔ تو اس وقت امریکہ نے سوویت رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے تھے۔ امریکہ نے یہ نہیں کہا تھا کہ جب تک سوویت فوجیں افغانستان سے نہیں جائیں گی سوویت رہنماؤں سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔
        کابل میں ایک نام نہاد منتخب حکومت کو جمہوریت کی ڈگری دے دی تھی۔ لیکن امریکہ اور نیٹو افغانستان میں انتہائی Brutal وار لار ڈز  کو مضبوط کر رہے تھے اور ان سے طالبان کا خاتمہ کرنے کا کام لے رہے تھے۔ افغان Brutal وار لار ڈز کے ساتھ  پاکستان کے تعلقات اچھے نہیں تھے۔ کیونکہ پاکستان نے طالبان کی حمایت کی تھی۔ اور طالبان نے افغانستان سے وار لارڈز کا نظام ختم کر دیا تھا۔ اس لئے صدر کرزئی کا رویہ بھی پاکستان کے بارے بدل گیا تھا۔ پاکستان کے مخالف وار لارڈز صدر کرزئی حکومت میں بھی تھے۔ اب طالبان کے خلاف امریکہ کا دباؤ پاکستان پر تھا۔ امریکہ کا اتحاد افغان وار لارڈز سے تھا۔ اور افغان وار لارڈز اپنی سہولت اور مفاد کے مطابق طالبان کے خلاف بھی تھے اور طالبان کے ساتھ بھی تھے۔ وار لارڈز طالبان کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے تھے۔ اور جو طالبان ان کے مفاد میں نہیں تھے انہیں امریکہ کے مفاد میں خاتمہ کر دیتے تھے۔ اور اس پر طالبان کا جو رد عمل ہوتا تھا۔ اس کے الزامات کے لئے پاکستان کو آگے رکھا گیا تھا۔
        پاکستان نے افغانستان کے مسئلہ میں ایک غلطی نہیں کی تھی بلکہ غلطیوں پر غلطیاں کی تھیں۔ صدر جنرل پرویز مشرف کو صدر بش اور کانڈو لیزا رائس ایسا مکھن لگاتے تھے کہ وہ خوش خوش واپس اسلام آباد آتے تھے۔ صدر زر داری کو ان کے منجمد 60 ملین ڈالر صدر بش نے دلوا دئیے تھے۔ اور اس کے عوض صدر زر داری کو امریکہ کی افغان پالیسی کے مطابق کام کرنے کا Assignment دیا گیا تھا۔ جس پر زر داری اور گیلانی کام کرتے رہے۔ دفتر خارجہ میں اتنے Shrewd  سفارت کار نہیں تھے کہ امریکہ اور بھارت افغانستان میں جو کھیل کھیل رہے تھے۔ اس کے پاکستان کے لئے دور رس اثرات کو سمجھ جاتے اور افغانستان سے Retreat ہونے کی حکمت عملی پر کام شروع کر دیتے۔ امریکہ کا آج جو رویہ ہے اس سے بہتر تھا کہ امریکہ کے دباؤ کا سامنا کر لیا جاتا۔ افغانستان کے ساتھ سرحدیں سیل کر دی جاتیں۔ اور دو ٹوک لفظوں میں امریکہ کو بتا دیا جاتا کہ ہم افغانستان کی ذمہ دار یاں قبول کر کے الزامات لینا نہیں چاہتے ہیں۔ اور تمام تر توجہ اپنے اندرونی حالات مضبوط  بنانے پر دی جاتی۔ افغانستان کے بارے میں ایران نے جو پالیسی اختیار کی تھی پاکستان کو بھی ایسی ہی پالیسی اختیار کرنا چاہیے تھی۔
        اب یہ 99.9 فیصد وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ افغانستان کا مسئلہ داخلی ہے۔ افغان اقلیتوں اور افغان اکثریت کے درمیان پہلے سیاسی محاذ آ رائی ختم کرنا ہو گی۔ یہ محاذ آ رائی اب صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے درمیان پہنچ گئی ہے۔ سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے اپنے حالیہ دورہ کابل میں دونوں کے درمیان کشیدگی ختم کرانے کی کوشش بھی کی تھی۔ یہ خبریں بھی تھیں کہ صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں بات چیت نہیں تھی۔ افغانستان میں 34 صوبے ہیں۔ ہر صوبے کی اپنی ایک حکومت ہے۔ اور ہر صوبے کا اپنا گورنر ہے۔ صوبے کی انتظامیہ گورنر کے ماتحت ہے۔ آخر صوبے کی یہ حکومتیں مقامی طور پر طالبان سے بات چیت کیوں نہیں کرتی ہیں۔ انہیں صوبے کے سیاسی عمل کا حصہ کیوں نہیں بناتی ہیں۔ بے گناہ افغانوں کی روزانہ ہلاکتوں کو روکنے کے اقدامات صوبائی سطح سے ہو سکتے ہیں۔ صوبائی حکومتوں کا بلاشبہ مقامی طالبان پر کچھ نہ کچھ تو اثر و رسوخ ہو گا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ صوبے کی حکومتیں طالبان کا مسئلہ حل کرنے کے لئے کابل کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ کابل کی حکومت طالبان کا مسئلہ حل کرنے کے لئے سرحد پار پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ امریکہ  افغانستان کی داخلی سیا ست میں پاکستان کو Bully کر رہا ہے۔ جیسا کہ اس ہفتہ نیویارک ٹائمز نے اپنے ادارے میں کہا ہے کہ "یہ پاکستان کو دبانے کا وقت ہے۔" حالانکہ اسی ادا ریہ میں نیویارک ٹائمز نے یہ بھی کہا ہے کہ کابل کی متحدہ حکومت کو سیاسی لڑائی، ملک بھر میں کرپشن، بجٹ کے سنگین مسائل اور فوجی ہلاکتوں کی بڑھتی شرح نے مفلوج بنا دیا ہے۔ جبکہ لندن میں اس ہفتہ کرپشن کے خلاف عالمی کانفرنس میں وزیر اعظم ڈیوڈ کمیرن نے افغانستان اور نائیجریا کو “fantastically corrupt” ملکوں میں بتایا ہے۔ افغانستان کی صورت حال کے بارے میں جب یہ حقائق دنیا کے سامنے ہیں۔ پھر ان حالات میں پاکستان سے یہ مطالبہ کرنا نامعقول ہو گا کہ پاکستان افغانستان کی تمام داخلی بیماریوں کا علاج کرے اور اسے ایک صحت مند ملک بناۓ۔ امریکہ نے انتہائی کرپٹ افغان وار لارڈز کے خلاف ابھی تک کوئی کاروائی نہیں کی ہے۔ جو افغانستان کا 75 فیصد مسئلہ ہیں۔  اور وقت آ گیا ہے کہ اب انہیں Squeeze کیا جاۓ۔                 
    
                 



No comments:

Post a Comment