Saturday, May 28, 2016

The American President Is A Weapons Salesman Who Markets War

The American President Is A Weapons Salesman Who Markets War

مجیب خان 
President Obama visits Vietnam and removes the decades-long arms embargo

G.C.C. Officials meet with U.S. Officials
   
       ویت نام کی کمیونسٹ حکومت کے ساتھ امریکہ نے 1995 میں تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور تعلقات بحال ہونے کے  پانچ سال بعد صدر بل کلنٹن پہلے امریکی صدر تھے جنہوں نے 2000 میں ویت نام کا دورہ کیا تھا۔ اور اب 16 سال بعد صدر اوبامہ ویت نام کے تین روزہ دور پر آۓ ہیں۔ حکومت کی یا کمیونسٹ پارٹی کی کوئی اعلی شخصیت صدر اوبامہ کا استقبال کرنے ایرپورٹ نہیں آئی تھی۔ ایک 25 سالہ لڑکی نے صدر اوبامہ کو ایرپورٹ پر پھولوں کا گلدستہ پیش کیا تھا۔ اور حکومت نے  دفتر خارجہ کے دوسرے درجہ کے چند افسر ایرپورٹ بھیجے تھے۔ 2000 میں صدر بل کلنٹن جب ویت نام آۓ تھے اس وقت ہنوئی میں امریکہ کے سفیر نے ایرپورٹ پر ان کا استقبال کیا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کا یہ پروٹوکول شاید اس لئے تھا کہ ویت نام جنگ انہوں نے جیتی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی، حکومت اور فوج میں ابھی Old Guards  موجود ہے جو ویت نام جنگ ابھی بھولے نہیں ہیں۔ ویت نام دو نسلوں میں تقسیم ہے ایک ویت نام جنگ کی نسل ہے اور دوسری ویت نام جنگ ختم ہونے کے بعد کی نسل ہے۔ پہلی نسل کے سامنے ویت نام جنگ کی یادیں ابھی زندہ ہیں۔ دوسری نسل اسے  با خوبی سمجھتی ہے۔ اس نسل کے ذہین میں سوال یہ ہو گا کہ ان کے بڑوں نے دنیا کی اتنی بڑی طاقت کو شکست کیسے دی تھی؟ دوسرے دن صدارتی محل میں صدر اوبامہ کا ویت نام کے صدر نے خیر مقدم کیا تھا۔ اور صدر اوبامہ کو گارڈ آف آنر دیا گیا تھا۔ اس موقع پر کمیونسٹ پارٹی کے اعلی حکام بھی موجود تھے۔ جن کے سر فخر سے بلند تھے۔ کہ امریکہ نے ان کے آگے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔
       صدر اوبامہ ایسے حالات میں ویت نام گیے تھے۔ کہ جب ان کی تھالی دنیا بھر کے تنازعوں جنگوں اور خانہ جنگیوں سے بھری ہوئی تھی۔ اور ویت نام جنگ کے بعد سے ابھی تک امریکہ کو کسی جنگ میں کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ افغان اور عراق جنگ بھی امریکہ کے لئے ویت نام جنگ ثابت ہوئی ہے۔ اور ویت نامی بھی یہ دیکھ رہے ہیں۔  شام اور لیبیا ویت نامیوں کے ذہن میں لاؤس اور کمبوڈیا کا احساس دلا رہے  ہوں گے۔ ویت نامیوں نے بھی بڑی خوفناک اور خونی جنگ لڑی تھی۔ ویت نام بھی بالکل تباہ ہو گیا تھا۔ اس جنگ میں تقریباً دو ملین ویت نامی مارے گیے تھے۔ اور 58 ہزار امریکی فوجی مارے گیے تھے۔ تقریباً اتنی ہی بڑی تعداد میں امریکی فوجی زخمی ہوۓ تھے جو ابھی تک ویت نام جنگ کے زخموں کے ساتھ زندہ ہیں۔ جنگ کے بعد ویت نام کی تعمیر نو اس طرح کی گئی ہے کہ ویت نام کی ہر نسل اس جنگ کو کبھی بھلا نہیں سکے گی۔ ہنوئی اور ہوچی من سٹی کی شاہراہوں اور چورنگیوں پر ویت نامی فوج نے امریکہ کے جو ٹینک توپیں بکتر بند گاڑیاں طیارے تباہ کیے تھے۔ انہیں شاہراہوں اور چورنگیوں پر جنگ کی یاد گار کے طور پر کھڑا کیا ہے اور اس کے ساتھ اس کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ صدر اوبامہ کا موٹر کیڈ ہنوئی کی ان شاہراہوں سے گزرا ہو گا اور صدر اوبامہ نے بھی ویت نام جنگ کی یہ یاد گاريں دیکھی ہوں گی۔ ویت نام جنگ جب شروع ہوئی تھی صدر اوبامہ اس وقت تین سال کے تھے۔ صدر اوبامہ سرد جنگ میں پیدا ہوۓ تھے۔ سرد جنگ میں بالغ ہوۓ تھے۔ سرد جنگ میں تعلیم حاصل کی تھی اور اب امریکہ کے صدر ہیں۔ اور دنیا میں اب گرم جنگوں کی کمانڈ کر رہے ہیں۔
       ویت نام کی آبادی کے دو تہائ نوجوان ہیں جو 1975 کے بعد پیدا ہوۓ ہیں۔ اس نسل کے لئے ان کے بڑوں نے جنگ لڑی تھی۔ قربانیاں دیں تھیں۔ آج اس نسل کا مستقبل روشن ہے۔ یہ نسل اقتصادی طور پر مستحکم ہے۔ اور یہ نسل ترقی کی جانب گامزن ہے۔ ویت نام نے تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں جو شاندار ترقی کی ہے صدر اوبامہ اسے سراہا رہے تھے۔ ویت نام کی تعمیر نو کے لئے کسی نے مارشل پلان نہیں دیا تھا۔ ویت نام کی کمیونسٹ حکومت نے ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لئے تھے۔ ویت نام کے کمیونسٹوں نے امریکی سامراج سے خود جنگ لڑی تھی۔ اور جنگ میں فتح مند ہونے کے بعد اپنے ملک کو خود تعمیر کیا تھا۔ اقبال کا فلسفہ خودی ویت نامی قوم میں نظر آتا ہے۔ ویت نام آج دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشت ہے۔ 1995 میں امریکہ اور ویت نام کے تعلقات بحال ہونے کے بعد دونوں ملکوں میں تجارت 450 ملین ڈالر سے گزشتہ سال45 بلین ڈالر پر پہنچ گئی ہے۔ ویت نام کے ٹیلی ویژن، اسمارٹ فون، کپڑے اور Seafood کا امریکہ ایک بڑا خریدار ہے۔ جبکہ مشینری، آٹوموبیل، کاٹن، پلاسٹک Material اور Animal Feed and Material ویت نام امریکہ سے خریدتا ہے۔
       لیکن امریکہ کو کمیونسٹوں کے خلاف جنگوں سے حاصل کیا ہوا ہے۔ اس وقت امریکہ کی ساری سرمایہ دارانہ ٹریڈ کمیونسٹ ملکوں سے ہو رہی ہے۔ جن میں چین پہلے نمبر پر ہے۔ ویت نام کے ساتھ تجارت کو مسلسل فروغ مل رہا ہے۔ کیوبا کے ساتھ تجارت شروع کی جا رہی ہے۔ امریکی عوام کی زندگیوں میں کمیونسٹوں سے جنگ کرنے یا کمیونسٹوں کے ساتھ تجارت کرنے سے کوئی نمایاں فرق نہیں آیا ہے۔ صدر ریگن جب سوویت کمیونسٹوں سے لڑ رہے تھے تو وہ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ ہم اپنے Children اورGrand Children کے مستقبل اور  آزادی کے لئے یہ جنگ لڑ رہے تھے۔ اور صدر ریگن کے دور میں جو بچے پیدا ہو رہے تھے۔ وہ 20 سال بعد اپنی آزادی سلامتی اور خشحالی کا دفاع کرنے کی جنگ لڑنے عراق اور افغانستان گیے تھے۔ اور وہاں مارے گیے تھے۔ نیویارک ٹائمز نے چار صفحات پر ان امریکی فوجیوں کی تصویریں ان کی پیدائش کی تاریخ اور عمروں کے ساتھ شائع کی تھیں۔ ان میں تقریباً دو تہائ 20 سے 30 کی عمروں میں تھے۔ انہوں نے ابھی دنیا کی خوبصورتی بھی نہیں دیکھی تھی کہ قبرستان ان کی دنیا بن گیا تھا۔ میں 1984 میں ایک امریکی ویت نام Veteran سے ملا تھا۔ جو پچیس چھبیس سال کا تھا۔ اس کے بائیں جانب پلاسٹک کی ایک بوتل لٹکی ہوئی تھی۔ اور ٹیوب اس کے پیٹ سے اس بوتل میں جا رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا یہ کیا ہے۔ کہنے لگا ویت نام جنگ نے مجھے یہ کینسر دیا تھا۔ جو Agent Orange کی وجہ سے ہوا تھا۔ امریکی فوج نے 1962 سے 1971 کے دوران یہ کیمیائی اسپرے ویت نام میں جنگلوں پر کیا تھا۔ اس کا مقصد جنگلوں کو صاف کرنا اور شمالی ویت نام فوجوں کی فصلیں تباہ کرنا تھا۔ جو دشمن کی فوج کو خوراک دیتی تھیں۔ شمالی ویت نامی گوریلے ان جنگلوں سے امریکی فوج کے خلاف گوریلا جنگ کر رہے تھے۔ بہرحال یہ امریکی ویت نام Veteran علاج کرانے فلوریڈا چلا گیا تھا۔ اور کچھ ماہ بعد اس کی Death ہو گئی تھی۔ آج بھی میں اسے بھولا نہیں ہوں۔ صدر اوبامہ ہنوئی میں گھوم رہے تھے اور یہ ویت نام Veteran میری نگاہوں کے سامنے تھا۔ میرے ذہن میں سوال یہ تھا کہ اس 26 سالہ امریکی نوجوان نے ویت نام کے لئے یہ قربانی دی تھی یا امریکہ کی سیکورٹی کے لئے قربانی دی تھی؟
       اور اب ان حالات میں کہ جب مشرق وسطی میں ایک درجن سے زیادہ جنگیں لڑی جا رہی ہیں۔ امریکہ اب مشرقی ایشیا میں کشیدگی اور فساد کو ہوا دے رہا ہے۔ اور بحر جنوبی چین کے تنازعہ کو ایک بڑی جنگ بنانے کی حکمت عملی پر جیسے کام ہو رہا ہے۔ اس کشیدگی کے لئے جنوبی کوریا اور جاپان کی فوجوں کو مسلح کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کے ساتھ ان کی فوجی مشقیں ہو رہی ہیں۔ فلپائن کو امریکہ 50 کے دہائی میں لے آیا ہے۔ اور صدر مار کوس کے دور میں امریکہ کے جو فوجی اڈے تھے وہ اب دوبارہ کھل گیے ہیں۔ فلپائن کی نئی دنیا پرانی تاریخ میں آ گئی ہے۔ فلپائن کی فوج کی بیٹری چارج کی جا رہی ہے۔ اور اسے چین کے خلاف تیار کیا جا رہا ہے۔ اور اب ویت نام کو بھی اس فوجی اتحاد میں شامل کیا جا رہا ہے۔ ویت نام کی بندر گاہ امریکہ کے بحری بیڑے کھڑے کرنے کے لئے  مانگے جا رہے ہیں۔ صدر اوبامہ نے ہنوئی کی زمین پر قدم رکھنے کے چند گھنٹوں بعد ویت نام پر سے ہتھیاروں کی عائد پابندی اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ اور اب ویت نام کو کھربوں ڈالر کے نئے ہتھیار فروخت کیے جائیں گے۔
       کمیونسٹ چین اب ایک جمہوری امریکہ کو سکھاۓ گا کہ جمہوریت میں ہتھیاروں اور جنگوں کا کوئی مقام نہیں ہوتا ہے۔ اور تنازعہ اور اختلافات صرف جمہوری مزاج سے حل کیے جاتے ہیں۔ ہتھیاروں کی زبان استعمال نہیں کی جاتی ہے۔ اس لئے 70 سال سے یورپ میں کوئی جنگ نہیں ہوئی ہے۔ کیونکہ یورپ میں جمہوریت ہے۔ اور یورپ کا ہر ملک جمہوری اصولوں کا پابند ہے۔              

No comments:

Post a Comment