Corporations And The Politics
Of Kickbacks
The Corruption Is A Global Epidemic
مجیب خان
زر داری کے دور حکومت میں پانچ سال تک دونوں بھائیوں نواز شریف اور شہباز
شریف نے وفاقی حکومت میں کرپشن کی کبھی بات نہیں کی تھی۔ پیپلز پارٹی کے کسی وزیر
کے کرپشن پر سے پردہ نہیں اٹھایا تھا۔ زرداری حکومت کے کرپشن کو چادر اور چار
دیواری میں رہنے دیا تھا۔ پھر عام انتخابات آ گیے تھے۔ عمران خان کی پاکستان تحریک
انصاف کی لوگوں میں حمایت بڑھ رہی تھی۔ پنجاب میں یہ تاثر تھا کہ جیسے میاں شہباز
شریف کا دور ختم ہو رہا تھا۔ تحریک انصاف کی ریلیوں میں جوق در جوق لوگوں کی شرکت
دیکھ کر میاں نواز شریف نے اپنی انتخابی حکمت عملی تبدیل کر دی اور صدر آصف علی زر
داری کے خلاف کرپشن کے بارے میں انتہائی جارحانہ لہجہ اختیار کر لیا تھا۔ میاں
نواز شریف نے ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوۓ لوگوں سے کہا کہ "میں زر
داری کے 60 ملین ڈالر پاکستان واپس لاؤں گا۔ یہ آپ لوگوں کے پیسے ہیں۔ یہاں بچوں
کے پاؤں میں جوتے نہیں ہیں۔ لوگوں کے پاس کھانے کو نہیں ہیں اور زر داری صاحب آپ
کے پیسے باہر لے گیے ہیں۔" میاں شہباز شریف نے سینے پر ہاتھ مار کر لوگوں سے
کہا تھا کہ" میں نے زر داری کو اگر اسلام آباد کی سڑکوں پر نہیں گھسیٹا تو
میرا نام شہباز شریف نہیں ہو گا۔" میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے اس Behavior سے
صدر آصف زر داری خوش نہیں تھے کہ دونوں بھائیوں نے مجھے پھر دھوکا دیا تھا۔ دونوں
بھائیوں نے یہ انتخابی مہم اس طرح چلائی تھی کہ مسلم لیگ ن بھاری اکثریت سے یہ
انتخاب جیت گئی تھی۔ پیپلز پارٹی کا پنجاب سے بالکل صفایا ہو گیا تھا۔ اور تحریک
انصاف ملک کی سیاست میں دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی۔
انتخابات بھاری اکثریت سے جیتنے کے بعد میاں نواز شریف سب سے پہلے ایوان
صدر میں صدر زر داری سے ملنے آۓ تھے۔ صدر زر داری نے مصنوعی مسکراہٹ سے میاں صاحب
کو انتخابات میں کامیابی کی مبارک باد دی۔ اور پھر میاں صاحب سے سوال کیا کہ ہمارے
درمیان ایک دوسرے کو کرپشن کے الزامات نہ دینے کا جو سمجھوتہ اور ہم آہنگی تھی۔ کیا وہ اب ختم ہو گئی ہے۔ میاں
صاحب نے مسکراتے ہوۓ کہا کہ اگر ہم اپنی انتخابی مہم میں تمہارے خلاف کرپشن کو
ایشو نہیں بناتے تو یہ کر کٹر بڑی اکثریت سے انتخابات جیت رہا تھا۔ اور پھر پتہ ہے
کیا ہوتا ہم دونوں اپنی زندگی صرف کرپشن کے الزامات غلط ثابت کرنے میں گزار دیتے۔
اور یہ سلسلہ پھر بھی ختم نہیں ہوتا۔ میاں صاحب کی یہ وضاحت صدر زر داری کی سمجھ
میں آ گئی تھی۔ اور صدر زر داری کے چہرے پر اصلی مسکراہٹ بھی آ گئی تھی۔
اقتدار میں آنے کے بعد نواز شریف حکومت نے زر داری حکومت میں کرپشن پر کوئی
بات نہیں کی تھی۔ نہ ہی سندھ حکومت میں کرپشن پر کبھی کچھ کہا تھا۔ تقریباً تین
سال تک دونوں سیاسی جماعتوں میں تعاون اتنا زیادہ تھا کہ جیسے دونوں جماعتیں
اقتدار میں تھیں۔ مسلم لیگ ن نے سینٹ کے چیرمین کے لئے پیپلز پارٹی کے امیدوار کی
حمایت کی تھی۔ پیپلز پارٹی نے حکومت کے خلاف انتخابی دھاندلیوں کے مسئلہ پر عمران
خان کے دھرنے کی حمایت نہیں کی تھی۔ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے قائد حزب
اختلاف اہم مسئلوں میں حکومت کے موقف کی تائید کرنے میں دیر نہیں کرتے تھے۔ اب
دونوں جماعتوں کے تعلقات میں جو تناؤ آیا ہے وہ سندھ کے حالات کی وجہ سے آیا ہے۔
کراچی کے حالات سدھارنے کے لئے رینجر کو بلایا گیا تھا اس حد تک دونوں پارٹیوں میں
اتفاق تھا۔ پھر رینجر نے کراچی میں آپریشن ایم کیو ایم کے خلاف شروع کیے تھے۔
چھاپے مارے گیے تھے۔ تحقیقات ہوئی۔ بڑے بڑے انکشافات ہونے لگے۔ کراچی پیپلز پارٹی
کا پانامہ لیکس ثابت ہو رہا تھا۔ سندھ حکومت کے وزیر بھتہ خوری، اغوا براۓ تاوان،
منی لانڈرنگ، رشوتوں کے کاروبار، سرکاری فنڈ میں کھربوں کا غبن جیسے کرائم میں
ملوث تھے۔ رینجر کی کاروائیاں پیپلز پارٹی کے خلاف بھی شروع ہو گئی تھیں۔ عوام کے
منتخب نمائندے Racketeers
نکلے تھے۔ رینجر نے پیپلز پارٹی کی اہم شخصیت ڈاکٹر عاصم کو پکڑ لیا تھا۔ جو رینجر
کے لئے پانامہ پیپرز تھے۔ پیپلز پارٹی کے
رہنما اس صورت حال سے بالکل خوش نہیں تھے کہ رینجر حکومت کی اجازت کے بغیر
محکموں میں جاتے تھے۔ اور فائلیں اٹھا کر لے جاتے تھے۔ پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ
رینجر اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس پر خاصا غصہ
تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف اس سلسلہ میں کچھ نہیں کر رہے تھے۔ وزیر اعظم نواز
شریف خود بڑی مشکل میں تھے۔ ایک طرف فوج ان کی پشت پر سوار تھی۔ اور دوسری طرف پیپلز
پارٹی کی دھمکیاں تھیں۔ حالانکہ حکومت نے ابھی تک کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں
کی ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ میں اپنے لوگوں کے خلاف کرپشن کی تحقیقات ختم کرانا چاہتی
ہے۔ اور وزیر اعظم سندھ کی صورت حال میں بالکل بے بس ہیں۔ رینجر نے حالات کو بہتر
بنانے میں بڑی محنت کی ہے۔ اور رینجر یہ نہیں چاہیں گے کہ کوئی ان کی محنت پر پانی
پھیر دے۔ پھر یہ کہ لوگ بھی سندھ حکومت کی کارکردگی سے زیادہ رینجرز کی کارکردگی
سے خوش تھے۔
سندھ
حکومت میں کرپشن پر رینجرز کے چھاپے، تحقیقات اور بعض لوگوں کی حراست سے پیپلز
پارٹی کے تیور پہلے ہی بدلے ہوۓ تھے کہ اس اثنا میں پانامہ پیپرز کا انکشاف ہو گیا جس میں وزیر اعظم نواز
شریف ان کے صاحبزادوں اور صاحبزادی کے علاوہ بہت سے دوسرے لوگوں کے نام Off Shore
کمپنیوں کے ذریعے لاکھوں ڈالر خورد برد کرنے اور ٹیکس Evasion لوگوں کی فہرست
میں شامل تھے۔ یہ پانامہ پیپرز پیپلز
پارٹی کے ہاتھ میں جیسے نیو کلیر ہتھیار آ گیے تھے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں
پیپلز پارٹی کے قائدین پانامہ پیپرز میں وزیر اعظم کا نام کرپشن کی فہرست میں دیکھ
کر gotcha
کرنے لگے۔ اس معاملے کی اعلی عدالتی تحقیقات کرانے کے مطالبہ ہونے لگے۔ بلاول زر
داری نے وزیر اعظم سے استعفی دینے کا مطالبہ کر دیا۔ پیپلز پارٹی کو اپنی ساکھ
بحال کرنے کے لئے یہ ایک اسٹیج مل گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے پانامہ
پیپرز کے مسئلہ پر ایک اتحاد بنانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اور اس اتحاد میں
پاکستان تحریک انصاف بھی شامل ہونے جا رہی تھی۔ ایک ایسا اتحاد جس میں پیپلز پارٹی
تین مرتبہ اقتدار میں آئی تھی۔ جماعت اسلامی جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے ساتھ
اقتدار میں آئی تھی۔ ان میں بعض جماعتیں جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اقتدار میں شریک
تھیں۔ ان میں پاکستان تحریک انصاف ایک واحد جماعت تھی۔ جو ابھی تک اقتدار میں نہیں آئی تھی۔ اور اس پر کرپشن کے داغ دھبے بھی
نہیں تھے۔ اتحاد میں شامل ہونے والی جماعتوں کے اس پس منظر کے بعد تحریک انصاف پانامہ
پیپرز کے مسئلہ پر سائیڈ لائن پر رہنا چاہیے۔ اور وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ سابق صدر آصف زر داری کے 60 ملین ڈالر
کا حساب بھی مانگنا چاہیے۔ دونوں جماعتوں کی حکومت میں کرپشن کرنے کی ایک تاریخ
ہے۔ اور اس تاریخ کا آخری Chapter ان
جماعتوں کے رہنماؤں کا احتساب ہونا چاہیے۔
عوام میں بھی اب بار بار منتخب ہونے والوں کو مسترد کرنے کا شعور آنا
چاہیے۔ یہ بڑے تعجب کی بات تھی کہ شیخ رشید بلاول زر داری کے اس نعرے سے بہت متاثر
ہوۓ تھے کہ "مودی کے یار نواز شریف کو ایک دھکا اور دو۔" شیخ صاحب کا
کہنا تھا کہ یہ نعرہ لگا کر بلاول نے آج میرے دل کی بات کی ہے۔ حالانکہ مودی کا
پانامہ پیپرز سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ متعدد بھارتی شہریوں کے بھی پانامہ پیپرز میں
نام ہیں۔ اور مودی حکومت نے فوری طور پر ان کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ اور ان
سے ٹیکس Evasion کے
بارے میں پوچھ گچھ شروع ہو گئی ہے۔ آج مودی کے یار نواز شریف ہیں کل من موہن سنگھ
کے یار آصف زر داری تھے۔ یہ نعرے بازی کی سیاست اکیسویں صدی میں Out Dated ہو چکی ہے۔ اکیسویں صدی میں سیاسی نتائج نے نعرے بازی کی جگہ لے لی ہے۔
حکومت کو اور سیاسی جماعتوں کو اب لوگوں کے سامنے نتائج رکھنا ہوں گے۔ سیاسی
لیڈروں کے خالی دعووں اور پارٹی کارکنوں سے نعرے لگوانے کی سیاست کا دور اب ختم ہو
گیا ہے۔ بلاول زر داری کو شیخ رشید کو خوش کرنے کے لئے نعرے بازی نہیں کرنا چاہیے۔
انہیں پاکستان کے بارے میں آئندہ 50 سال کے حالات کا سوچنا چاہیے۔ 31 سال بعد
پاکستان کے قیام کے 100 سالہ Centennial پر پاکستان کتنا خوشحال، ترقی
یافتہ اور مضبوط ہو گا۔ بلاول زر داری کو 2016 میں یہ اپنا سیاسی مشن بنانا چاہیے۔
اور اس پراس سال سے پاکستان کی Centennial منانے کے لئے پاکستان کے انتہائی
پسماندہ علاقوں کو خوشحال بنانے کے کام سے آغاز کرنا چاہیے۔ ورنہ یہ 31 سال بھی
اسی طرح آ جائیں گے کہ جس طرح 1977 سے نعرے بازیوں میں 39 سال گزر گیے ہیں۔
No comments:
Post a Comment