The Success Of The War On Terror: The World Order Is Crumbling
مجیب خان
The extremely rich can buy world masters |
The very poor are dying from poverty |
The World's most powerful wheeler-and-dealers |
7
سال قبل صدر اوبامہ جب جرمنی گیے تھے۔ فرانس گیے تھے۔ برطانیہ آۓ تھے۔ ہر طرف
لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ انہیں خوش آمد
ید کہنے سڑکوں پر آ گیے تھے۔ لوگ صدر بش کی جنگجوانہ پالیسیوں سے سخت بیزار تھے۔
اور صدر اوبامہ جو امریکہ کے پہلے Non-White صدر تھے۔ لوگوں کو
ان میں مارٹن لو تھر کنگ نظر آ رہے تھے۔ اور دنیا کے امن پسند لوگوں کو صدر اوبامہ
سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ لیکن 7 سال بعد لوگوں نے دیکھا کہ صدر اوبامہ ان کی
امیدوں کے بر خلاف نکلے تھے۔ صدر اوبامہ نے بھی بش انتظامیہ کی جنگجوا نہ پالیسیاں
جاری رکھی تھیں۔ اس مرتبہ صدر اوبامہ جب برطانیہ اور جرمنی آۓ تھے تو ان کے خلاف
مظاہرے ہوۓ تھے۔ ادھر امریکہ اور برطانیہ کے تعلقات بھی کئی سال سے سرد تھے۔ ایسے
حالات میں صدر اوبامہ نے انتہائی پر زور لفظوں میں جب برطانیہ کو یورپی یونین میں
رہنے کا مشورہ دیا تو برطانیہ میں جیسے آتش فشاں پھٹ گیا تھا۔ اخبارات، پارلیمنٹ
کے اراکین، لندن کے میئر، لوکل حکومتوں کی طرف سے صدر اوبامہ کے برطانیہ کے داخلی
امور میں مداخلت کرنے کے خلاف بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ لندن کے میئر نے
تو بہت سخت لہجہ اختیار کیا تھا۔ حالانکہ گزشتہ سال اکتوبر میں چین کے صدر شی
جیانگ پنگ جب برطانیہ کے دورے پر آۓ تھے۔ تو صدر شی نے بھی برطانیہ کو یہ ہی مشورہ
دیا کہ اسے یورپی یونین میں رہنا چاہیے۔ لیکن صدر شی کے مشورے کو کسی نے برطانیہ
کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کہا تھا۔ صدر اوبامہ نے اس ایشو پر وزیر اعظم
ڈیوڈ کمیرن کے ساتھ پریس کانفرنس میں برطانیہ کو شاید ذرا لمبا لیکچر دے دیا تھا۔
اور اس لیکچر میں یورپی یونین چھوڑنے کی صورت میں امریکہ اور برطانیہ کے تعلقات کے
سلسلے میں بھی کچھ دھمکی آمیز باتیں کر دی تھیں۔ جس پر برطانوی میڈیا کا اور
پارلیمنٹ کے بعض اراکین کی طرف سے شدید رد عمل ہوا تھا۔
امریکہ اور برطانیہ کے تعلقات میں تناؤ اس وقت پیدا ہو گیا تھا کہ جب
برطانیہ نے BRIC بنک
کو تسلیم کر لیا تھا اور بنک کی رکنیت حاصل کر لی تھی۔ برطانیہ G-7
ملکوں کا ایک بنیادی رکن تھا۔ برطانیہ کے بعد پھر فرانس اٹلی جرمنی اور بعض دوسرے
یورپی ملک بھی BRIC بنک
کے رکن بن گیے تھے۔ برطانیہ کے فیصلے پر امریکہ نے مایوسی کا اظہار کیا تھا
کہ وزیر اعظم کمیرن نے اس فیصلے سے امریکہ
کو آگاہ نہیں کیا تھا۔ جس پر وزیر اعظم کمیرن نے صرف اتنا کہا کہ ایشیا میں
برطانیہ کے مفادات ہیں۔ امریکہ BRIC بنک کے قیام سے خوش نہیں تھا۔
کیونکہ یہ بنک ور لڈ بنک اور آئی ایم ایف جیسے مالیاتی اداروں کے مقابلے پر بنایا
گیا تھا۔ تاکہ امریکہ کا عالمی مالیاتی اداروں پر کنٹرول ختم کیا
جا سکے۔ اہم یورپی ملک اگر BRIC بنک
کے رکن بن گیے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ چین کو بہت جلد دنیا کی واحد اقتصادی طاقت
کا مقام ملنے والا ہے۔ دنیا میں چین کی معیشت پہلے نمبر پر ہو گی۔ اور امریکہ کی
معیشت دوسرے دو سرے یا تیسرے نمبر پر آ
جاۓ گی۔
گزشتہ اکتوبر میں چین کے صدر شی جیانگ ینگ برطانیہ کے چار روزہ دورے پر آۓ
تھے۔ صدر شی کو خصوصی طور پر Buckingham
پیلس میں ٹھہرایا گیا تھا۔ دنیا کے بہت کم رہنماؤں کو ملکہ کے پیلس میں ٹھہرنے کا
اعزاز دیا گیا تھا۔ صدر شی کا برطانیہ کا دورہ سیاسی اور معاشی طور پر خاصا اہم
تھا۔ چین اور برطانیہ کے درمیان 60 بلین ڈالر کے تجارتی معاہدے ہوۓ تھے۔ لیکن صدر
شی سے زیادہ سیاسی گفتگو ملکہ کے ساتھ رہی ہو گی۔ ملکہ نے صدر شی کو بتایا ہو گا
کہ ان کی 90 سال کی زندگی میں انہوں نے دنیا کو کبھی اتنے بدترین حال میں نہیں
دیکھا تھا۔ اور انہیں دنیا کو اس حال میں دیکھ کر بڑی مایوسی ہوتی ہے۔ برطانیہ نے کئی سو سال دنیا پر حکومت کی تھی۔
اور یہ کہا جاتا تھا کہ ہماری سلطنت میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔ ہماری
سلطنت میں بھی مسلمان، عیسائی، یہودی، ہندو، شیعہ سنی رہتے تھے۔ اگر ہم انہیں آپس
میں لڑانے لگتے تو ہماری سلطنت میں بھی سورج غروب رہنے لگتا۔ لیکن ہم نے اپنی
سلطنت میں سورج غروب نہیں ہونے دیا تھا۔ اور جب روشنی ہوتی ہے تو پھر ذہن بھی روشن
رہتے ہیں۔ اور روشنی میں لڑائیوں کے اسباب بھی نہیں ہوتے ہیں۔ ہم نے دنیا کو ایک
ایسا نظام دیا تھا۔ جس میں سب خود کو خوش رکھتے تھے۔ اور ہم بھی ان پر حکومت کرنے
میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ دنیا نے سرد جنگ ختم کر کے امریکہ کو اپنی ایمپائر قائم
کرنے کا موقعہ دیا تھا۔ لیکن 25 مختصر عرصہ میں ہم سب جیسے روشنی سے محروم ہو گیے
ہیں۔ ایمپائر ابھی مکمل طور پر کھڑی بھی نہیں ہوئی تھی کہ اب گر رہی ہے۔ جب ایمپائر
بہت زیادہ لڑائیوں کا حصہ بن جاتی ہے تو ایمپائر سب سے پہلے گرتی ہے۔ اور ہمیں اس
کا خطرہ ہے۔
اس لئے چین کی یہ ہمیشہ سے پالیسی ہے کہ تنازعوں کو بات چیت سے حل کیا جاۓ۔
جنگیں تنازعہ حل نہیں کرتی ہیں بلکہ نئے تنازعہ پیدا کر دیتی ہیں۔ اور پھر تنازعہ
اور زیادہ پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔ دنیا چین کی قیادت میں ہمیشہ روشن رہے گی۔ چین کی One Belt One Road حکمت
عملی دنیا کو دوبارہ روشن کرنے کی پالیسی ہے۔ چین دنیا پر اپنے اقتصادی مفادات
مسلط نہیں کرے گا۔ جن اقتصادی مفادات میں سب کا مفاد ہوتا ہے وہ اقتصادی نظام
زیادہ کامیاب ہوتا ہے۔ ملکہ کی زندگی میں امریکہ دنیا کی واحد طاقت بن گیا تھا۔
اور اب ملکہ کی زندگی میں یہ انحطاط کی طرف جا رہا ہے۔ دنیا میں ہر طرف جنگوں کی
آگ سے بھگدر مچی ہوئی ہے۔ لوگ شہروں سے ملکوں سے بھاگ رہے ہیں۔ دریاؤں میں سمندروں
میں بچوں عورتوں مردوں کی لاشیں تیر رہی ہیں۔ اسے کہتے ہیں انسانی زندگیوں سے
کھیلنا۔ برطانوی سلطنت میں کبھی یہ مناظر نہیں دیکھے گیے تھے۔ برطانوی سلطنت میں
انصاف سب کے لئے یکساں ہوتا تھا۔ اور ملکہ بھی اب شاید اس نتیجے پر پہنچ گئی ہیں
کہ دنیا کو اب نئے اداروں کی ضرورت ہے۔ پرانے ادارے 21 ویں صدی کی ایک نئی دنیا کے
تقاضے پورے کرنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ اور BRIC بنک کا قیام اس
مقصد میں پہلا قدم ہے۔ چین کے لئے دنیا کی اقتصادی طاقت بننے کے بعد یہ رول پرانے
عالمی اداروں کی موجودگی میں ادا کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ کیونکہ پرانے عالمی ادارے
سامراجی اور نوآبادیاتی طاقتوں کے مفادات کے مطابق وجود میں لاۓ گیے تھے۔ اور 70
سال سے یہ عالمی ادارے صرف ان کے مفادات کی تکمیل کر رہے تھے۔ چین خود کو تیسری
دنیا کا ملک سمجھتا ہے۔ لہذا چین تیسری دنیا کے مفادات میں عالمی اداروں کے کردار کو
اہمیت دے گا۔ چین کا یہ موقف برطانیہ کی سمجھ میں آگیا ہے۔ اور یورپ کے دوسرے ملک
بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے BRIC بنک
کے قیام کو قبول کر لیا ہے۔ اور بنک کے رکن بھی بن گیے ہیں۔ BRIC بنک BRIC
ملکوں کا اتحاد وجود میں لایا ہے۔ جس میں برازیل، روس انڈیا اور چین شامل ہیں۔
امریکہ
کو یہ یقین نہیں تھا کہ اس کے یورپی اتحادی اس طرح فیصلے کریں گے۔ لیکن خود امریکہ
بھی اپنے یورپی اتحادیوں سے مشوروں کے بغیر مشرقی ایشیا میں نئے اتحادیوں کو تلاش
کر رہا تھا۔ اور جب امریکہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کے یورپی اتحادی نئے عالمی
ادارے کے قیام میں چین سے تعاون کر رہے تھے۔ صدر اوبامہ نے اپنے حالیہ برطانیہ اور
جرمنی کے دوروں میں اس کا اظہار کیا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جن عالمی اداروں کا
قیام عمل میں آیا تھا۔ 70 سال سے وہ ہمارے مفاد میں موثر طور پر کام کر رہے تھے۔
صدر اوبامہ نے یورپی ملکوں کو باور کرایا کہ ہم نے جو کچھ حاصل کیا ہے۔ وہ ہمارے
اتحاد کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ اور ہمیں اس اتحاد کو برقرار رکھنا چاہیے۔ جرمنی میں
صدر اوبامہ نے فرانس، برطانیہ، اٹلی اور جرمنی کے رہنماؤں کے ساتھ کانفرنس میں
لیبیا، شام، مہاجرین کے بحران، یوکرین اور سیکورٹی کے ایشو پر تبادلہ خیال کیا اور
مہاجرین کے مسئلہ میں ان کی مدد کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ لیکن یہ سوال ابھی
ہے کہ کیا امریکہ اور یورپ کے درمیان اتحاد میں دراڑیں پڑ گئی ہیں؟
No comments:
Post a Comment