Why Are Muslims So Upset That Donald Trump’s Administration Will Bar Muslims From Entering America?
مجیب
خان
لندن
نے ایک ایسے وقت ایک مسلمان کو اپنا میئر منتخب کیا ہے کہ جب دنیا بھر میں مسلمانوں
پر برا وقت آیا ہوا ہے۔ اور امریکہ میں صدارتی انتخابات کی مہم میں ری پبلیکن
پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ امریکہ کا صدر بننے کے بعد
پہلا صدارتی حکمنامہ مسلمانوں کے امریکہ آنے پر پابندی لگانے کے لئے جاری کریں گے۔
دنیا بھر میں مسلمانوں کے لئے ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ بیان ایسا تھا کہ جیسے امریکہ نے
ہیرو شیما پر نہیں بلکہ مسلمانوں پر ایٹم بم گرایا تھا۔ ایسے حالات میں مسلمان
لندن کے لوگوں کے خلوص کے ساتھ ممنون ہیں کہ انہوں نے ایک مسلمان کو اپنا میئر
منتخب کیا ہے۔ جو مسلمانوں کے لئے اتنا ہی بڑا اعزاز ہے کہ جتنا بڑا لندن کا مقام
دنیا میں ہے۔ اب اگر ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر منتخب ہو جاتے ہیں اور مسلمانو ں
کے امریکہ آنے پر پابندی لگا دیتے ہیں۔ اور پھر برطانیہ کے آئندہ انتخابات میں لیبر
پارٹی صادق خان کو وزیر اعظم کے لئے نامزد کرتی ہے۔ اور صادق خان بھاری اکثریت سے
برطانیہ کے وزیر اعظم بن جاتے ہیں تو پھر کیا ہو گا؟ انگریز ہمیشہ دور کی سوچتے
ہیں۔ اور جو تبدیلیاں ابھی دور ہیں۔ انہیں شاید محسوس کر رہے ہیں۔
مسلمانوں
کو اس لئے پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ میں ان کے امریکہ میں
داخل ہونے پر پابندی ہو گی۔ دنیا میں 1.3 بلین مسلمان ہیں۔ اور تقریباً 900 ملین
مسلمان پہلے ہی اس لئے خوش نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے۔ دنیا کی
آبادی 6.5 بلین ہے۔ جبکہ امریکہ کی آبادی 300 ملین ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ انتظامیہ میں
جب مسلمانوں کے امریکہ آنے پر پابندی ہو گی۔ اس صورت میں یہ امریکہ سے کٹ جائیں
گے۔ ادھر بحر جنوبی چین میں امریکہ کی فوجی سرگرمیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اور چین کی
ابھرتی طاقت کی ناکہ بندی کے لئے مشرقی ایشیا میں نئے فوجی اتحاد اور فوجی اڈے
قائم کرنے کی پالیسی کو مسلسل فروغ دیا جا رہا ہے۔ جس سے کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ چین کے
عوام اپنے ملک کی آزادی، خود مختاری اور سلامتی کے مسئلہ پر بڑے حساس ہیں۔ اور وہ
اپنے ملک کے اطراف امریکہ کی ان فوجی سرگرمیوں سے خوش نہیں ہوں گے۔ چین کے عوام میں بھی امریکہ کی مخالفت بڑھ جاۓ گی۔ اور 1.3 بلین چینی عوام بھی امریکہ کے
خلاف ہو جائیں گے۔ اب 1.3 بلین مسلمانوں کے ساتھ 1.3 بلین چینی عوام بھی امریکہ کے
خلاف ہو جائیں گے۔ یوکرین کے مسئلہ پر روس اور امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہو گیے ہیں۔
امریکہ نے روس کے خلاف اقتصادی بندشیں عائد کر دی ہیں۔ اس کے علاوہ روس کے اطراف
نیٹو کی فوجی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ روس کے 150 ملین لوگ امریکہ کے اس
Behavior سے
زیادہ خوش نہیں ہیں۔ اور پھر یہ بھی 1.3 بلین مسلمانوں اور 1.3 بلین چینیوں کے
ساتھ شامل ہو جائیں گے۔
بھارت
کی آبادی 1.3 بلین ہے۔ اور اس میں تقریباً 180 ملین مسلمان ہیں۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی
جمہوریت ہے۔ لہذا اسے دنیا کی اکثریت کے ساتھ رہنا ہو گا۔ بھارت کے ہمسا یہ میں
1.3 بلین چینیوں، 1.3 بلین مسلمانوں اور 150 ملین روسیوں کے امریکہ کے ساتھ تعلقات
جب زیادہ کشیدہ ہوں گے۔ بھارت کو پھر اپنی 1950 کی غیرجانبدار نہ پالیسی کو Revive
کرنا ہو گا۔ بھارت کے 60 ، 70 اور 80 کے عرشوں میں امریکہ کے ساتھ جس طرح کے تعلقات تھے۔ وہ
تاریخ دونوں ملکوں کے تعلقات میں واپس آ جاۓ گی۔ لیکن یہ یقینی ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ
اگر امریکہ کے 45 ویں صدر بن جاتے ہیں تو پھر دنیا حیرت انگیز تبدیلیاں دیکھے گی۔
اور یہ ان انقلابی تبدیلیوں کا خوف ہے جو ری پبلیکن پارٹی میں ڈونالڈ ٹرمپ کی
صدارتی نامزدگی کی مخالفت کا سبب بھی ہے۔ جو شخص اپنی جیب سے 49 ملین ڈالر صرف ری
پبلیکن پارٹی کی پرائم ریز میں خرچ کر رہا ہے۔ وہ Crook سیاستدان کیسے
ہو سکتا ہے۔
یہ
مسلمان تھے جنہوں نے کمیونزم کے خلاف سرد جنگ کو ایک گرم جنگ میں تبدیل کیا تھا۔
اور افغانستان میں سوویت یونین کو بالآخر شکست دی تھی۔ اور امریکہ کو سرد جنگ سے
آزاد کرایا تھا۔ پھر امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور بن گیا تھا۔ اور یہ دنیا کے 1.3
بلین مسلمان تھے۔ جن کے بغیر امریکہ سرد جنگ سے آزاد نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن سرد
جنگ کا خاتمہ مسلمانوں کے مفاد میں ثابت نہیں ہوا تھا۔ مسلم ملکوں کو اپنے
مسلمانوں کو سرد جنگ کی سیاست سے الگ تھلگ رکھنا چاہیے تھا۔ جس طرح بھارت نے اپنے
ہندوؤں کو سرد جنگ کی سیاست سے الگ رکھا تھا۔ بھارت نے امریکہ سے اپنے مفادات
تسلیم کرواۓ تھے۔ اور سوویت یونین سے اپنے مفادات کی تکمیل کروائی تھی۔ سرد جنگ میں یہ بھارت کی غیرجانبدارا نہ حکمت
عملی تھی۔ لیکن سرد جنگ میں مسلم ملکوں کی جانبدارانہ سیاست ایک بہت بڑا Blunder
تھا۔ اگر سرد جنگ میں مغربی طاقتوں کے مفاد میں یہ جانبداری تھی تو یہ Reciprocal
ہونا چاہیے تھی۔ مسلمانوں کو جن تنازعوں کا سامنا تھا۔ مغربی طاقتوں بالخصوص
امریکہ کو ان تنازعوں کو حل کرنے میں مدد کرنا چاہیے تھا۔ سرد جنگ کے دور میں
فلسطین اسرائیل اور کشمیر بڑے تنازعہ تھے۔ جن پر کئی جنگیں لڑی گئی تھیں۔ اور جنگ
کے سیاہ بادل بدستور منڈ لا رہے تھے۔ فاشزم اور نازی ازم کے خلاف جنگ میں امریکہ
اور مغربی طاقتوں نے صیہونی یہودیوں سے فلسطین میں ان کی آزاد ریاست بنانے کا وعدہ
کیا تھا۔ اور ان سے کہا تھا کہ وہ نازیوں کو شکست دینے میں ان کی مدد کریں۔ 1945
میں جنگ ختم ہو گئی تھی۔ اتحادی فوجوں کی فتح ہوئی تھی۔ تین سال بعد 1948 میں امریکہ
اور مغربی طاقتوں نے فلسطین تقسیم کر دیا اور صیہونی یہودیوں کے لئے ریاست بنا دی
تھی۔ اور یہ نئی یہودی ریاست اسرائیل تھی۔ لیکن پھر کمیونزم کے خلاف سرد جنگ کے
اختتام پر مسلمانوں کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ اب فلسطینیوں کی آزاد ریاست بنائی
جاۓ گی۔ لیکن سرد جنگ ختم ہوۓ اب 26 سال ہو گیے ہیں۔ لیکن فلسطینی ابھی تک اپنی
ایک آزاد ریاست کی حسرتوں کے ساتھ قبروں میں جا رہے ہیں۔ پھر مسلمانوں سے یہ کہا
گیا کہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کے حل میں صدام حسین ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ جب صدام
حسین کا مسئلہ حل ہو جاۓ گا۔ پھر فلسطین کا تنازعہ حل کیا جاۓ گا۔ اب صدام حسین کا
مسئلہ ہوۓ 13 سال ہو گیے ہیں۔ عربوں کو ان کی 13 انچ زمین تک نہیں ملی ہے۔ بلکہ
امریکہ کے واچ میں فلسطینیوں کے 13لاکھ گھروں کو تباہ کر کے اسرائیل نے وہاں نئی
یہودی بستیاں آباد کر دی ہیں۔ مسلمانوں کو سرد جنگ سے کیا ملا تھا۔ اور سرد جنگ
ختم ہونے سے کیا ملا ہے۔ سرد جنگ کا خاتمہ مسلمانوں کے لئے تباہی اور بربادی کا
سبب بنا ہے۔ ہر طرف مسلمان جنگوں میں گھرے
ہوۓ ہیں۔ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ اگر سرد جنگ جاری رہتی تو عراق لیبیا
شام افغانستان یمن کو کبھی اس طرح تباہ نہیں کیا جاتا۔ 60 ملین انسان اس طرح یورپ
میں در بدر نہیں گھوم رہے ہوتے۔ عورتوں اور بچوں کی لاشیں سمندروں میں نہیں تیر
رہی ہوتیں۔ سرد جنگ میں انسانوں کو انسان سمجھا جاتا تھا۔ آج کارپوریشنوں کو انسان
سمجھا جاتا ہے۔ مسلمان آج سرد جنگ کو Miss کر رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment