Orlando Terror + Syrian
Terror = Terrorism
The Syrian Opposition Are "Certified" Rebels, But The Palestinians Are Not Allowed To Be Rebels
The Syrian Opposition Are "Certified" Rebels, But The Palestinians Are Not Allowed To Be Rebels
مجیب خان
Bullet holes outside the Orlando nightclub |
Victims of the Orlando terrorist attack |
Syrian Man helping an injured Syrian Girl |
Victims of the Syrian war |
Damaged Buildings, Homs, Syria |
اورلینڈو
فلوریڈا میں Pulse
نائٹ کلب شہر کے اندر جیسے تفریح کا ایک ولیج تھا۔ کلب میں زیادہ تر روز کے آنے
والے لوگ تھے۔ جو سارا دن کام کرنے کے بعد یہاں آیا کرتے تھے۔ لیکن ویک اینڈ پر
یہاں بڑی تعداد میں لوگ آتے تھے۔ کلب صبح ڈھائی تین بجے بند ہوتا تھا۔ اس رات کلب
میں تین سو کے قریب لوگ تھے۔ صبح کے دو بج چکے تھے اور آدھے گھنٹے میں کلب بند
ہونے والا تھا۔ دو بج کر دس منٹ پر دہشت گرد کلب میں آگیا تھا۔ اور اس نے Happy Hour کو Mourning Hour میں
بدل دیا تھا۔ کچھ دیر تک تو لوگ گولیوں کی آوازیں میوزک سمجھتے رہے تھے۔ اور جب ان
کی سمجھ میں آیا تو اس وقت لوگ خون میں لت پت زمین پر پڑے تھے۔ کلب میں ہر طرف خوف
کا سماع تھا۔ ہر کوئی اپنی جان بچانے کا راستہ ڈھونڈ رہا تھا۔ جو زخمی تھے وہ مدد
مانگ رہے تھے۔ پولیس کے مسلح دستہ پہنچ چکے تھے اور کلب کے اندر داخل ہو نے کا
راستہ دیکھ رہے تھے۔ اس وقت پولیس کے علم میں یہ نہیں تھا کہ کلب کے اندر کتنے
دہشت گردوں کا انہیں سامنا ہو گا۔ پولیس نے کلب کی دیوار توڑ دی تھی۔ تاکہ اندر جو
محصور ہیں وہ باہر آ جائیں اور انہیں بھی کلب کے اندر کی صورت حال کا اندازہ ہو
جاۓ۔ جس کے بعد پولیس کلب میں داخل ہو گئی تھی۔ صرف چند لمحوں میں اس دہشت گرد نے
کلب کے اندر 49 لوگ مار دئیے تھے۔ اور 53 لوگ زخمی ہو گیے تھے۔ 49 خاندانوں کے
چراغ بجھ گیے تھے۔ ان کے محبوب ان کا ساتھ ہمیشہ کے لئے چھوڑ گیے تھے۔ 49 خاندانوں
کا ہر فرد رو رہا تھا۔ Pulse
نائٹ کلب اورلینڈو شہر میں لوگوں کی خوشیوں کا ایک ولیج تھا۔ ایک شخص دہشت گرد بن
کر باہر سے آیا اور اس نے لوگوں کی خوشیاں چھین لیں اور کلب کی روشنیاں تاریکی میں
بدل دی تھیں۔
اورلینڈو
نائٹ کلب کی طرح شام بھی ایک کلب کی طرح تھا۔ اس کلب کے لوگوں کی طرح شام کے لوگ
بھی اپنے وطن کی رنگینیوں میں مگن رہتے تھے۔ ان کی زندگیوں میں امن تھا اور سکون
بھی تھا۔ یہ امن اور سکون ان کے لئے آزادی اور جمہوریت تھی۔ شیعہ سنی اور عیسائی
سب ایک قوم تھے۔ ایک دوسرے کے تہوار سب کا تہوار ہوتا تھا۔ ان کے لئے سب سے بڑی
آزادی یہ تھی کہ ہر عقیدے کے لوگ اپنے مذہبی فرائض آزادی سے مناتے تھے۔ لوگ ایک
دوسرے کی عبادت گاہوں کا احترام کرتے تھے۔ انسانیت ان کا مشترکہ مذہب تھا۔ عرب دنیا میں جمہوریت اور آزادی کی
تحریک عرب اسپرنگ کو امریکہ اور اس کے عرب اور اسرائیلی اتحادیوں نے مصر میں دفن
کر دیا تھا۔ لیکن شام کو آزادی اور جمہوریت کے نام پر انہوں نے انسانیت کا قبرستان
بنا دیا ہے۔ ریاست بالکل تباہ ہو چکی ہے۔ عرب مسلمانوں کا خون پی رہے ہیں۔ لیکن
سور کھانے کو حرام سمجھتے ہیں۔ شام میں جس طرح باہر کے لوگ دہشت گردی کرنے آۓ ہیں
اسی طرح اورلینڈو نائٹ کلب میں بھی باہر سے ایک شخص کلب کا کلچر تبدیل کرنے آیا
تھا۔ نائٹ کلب کے اندر Carnage اور
شام کے اندر Carnage ایک
جیسا ہے۔ جس طرح نائٹ کلب میں ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ اور زخمیوں کو لوگ
اٹھا کر لے جا رہے تھے۔ اسی طرح شام میں بھی ایسے ہی مناظر دیکھے جا رہے تھے۔
انتہا پسندوں اور دہشت گردوں نے شام کے جن شہروں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور وہاں
شہریوں کو یرغمالی بنا لیا تھا۔ حکومت کے فوجی دستہ ان شہروں میں اسی طرح داخل ہوۓ
تھے۔ جس طرح نائٹ کلب میں پولیس داخل ہوئی تھی۔ اور کلب میں لوگوں کو ایک دہشت گرد
سے آزاد کرایا تھا۔ جبکہ شام میں یہ ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ انہوں نے شام کے
لوگوں کی دنیا Hell بنا
دی ہے۔ لاکھوں خاندان ہمیشہ کے لئے اجڑ گیے ہیں۔ شامیوں کی لاشیں شام کے شہروں میں
بحرہ روم کے پانیوں میں یورپ کی سرحدوں پر ہر طرف بکھری ہوئی ہیں۔ ڈکٹیٹر کے خلاف اس
Goddamn آزادی کی جنگ نے 2 ملین لوگوں کو
بے گھر کر دیا ہے۔ 6 سال سے دنیا شام کی دہشت گردی میں خصوصی دلچسپی لے رہی ہے۔
امریکہ میں دہشت گردوں کو ہتھیار حاصل کرنے پر سخت قانون نافذ کرنے کی باتیں ہو
رہی ہیں۔ لیکن شام میں دہشت گردوں کو ہتھیاروں کی ترسیل آسان بنائی جا رہی ہے۔
امریکہ اور یورپ میں جب بھی دہشت گردی ہوتی ہے۔ نفرت کی تمام انگلیاں مسلمانوں کی
طرف اٹھنے لگتی ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو دہشت گرد بنانے والے بھی یہ ہی لوگ ہیں۔ عرب
دنیا میں سینکڑوں دہشت گروپ ہیں جن میں داعش اور القاعدہ بھی ہیں۔ لیکن یہ سارا
اسلحہ بھی عرب دنیا میں پہنچا رہے ہیں۔ یہ جیسے چاہتے ہیں۔ دہشت گرد کوRebels بنا
دیتے ہیں۔ اور Rebels کو
دہشت گرد قرار دے دیتے ہیں۔
عراق میں 13 سال سے انتشار، شام میں 6 سال سے خانہ جنگی، لیبیا میں 5 سال
سے عدم استحکام، 16 سال سے افغانستان میں
طالبان سے کوئی بات نہیں ہو گی اور طالبان کا خاتمہ ہونے تک جنگ جاری رہے گی
پالیسی، ان جنگوں کو دراصل مسلمان بچوں کو
انتہا پسند اور دہشت گرد بنانے کے لئے ختم نہیں کیا گیا تھا۔ اور اس لئے ان کے
ہمسایہ ملکوں سے صرف Do more کرتے رہنے کی پالیسی پر عمل کرنے کا کہا جاتا تھا۔ اقوام متحدہ کے
سیکرٹیری جنرل بان کی مون بتائیں کہ 16 سال سے کیا یہ دہشت گردی ختم کرنے کی جنگ
ہے یا دہشت گردی پھیلانے کی پالیسی ہے؟ اس وقت Justice کے اوپر Injustice
غالب ہے۔ جو دہشت گردوں کو آکسیجن فراہم کر رہا ہے۔ جس دنJustice بحال ہو جاۓ گا دنیا میں 95 فیصد دہشت گردی اس
دن ختم ہو جاۓ گی۔ شام کے ہمسایہ میں فلسطینی قوم 60 سال سے حقوق سے محروم ہے۔ ان کی اپنی مملکت
ہے اور نہ ہی ان کے گھر ہیں۔ ان کی دنیا مہاجر کیمپوں میں ہے۔ دنیا نے ان کا اپنے
آپ کو Rebels
کہنے کا حق بھی تسلیم نہیں کیا ہے۔ لیکن ان کے ہمسایہ میں شام کی اپوزیشن کو Certified Rebels
قرار دیا ہے۔
اگر60
سال میں فلسطین کا تنازعہ اسرائیل اپنی Military Might سے حل کرنے میں
کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ تو عرب دنیا کے دوسرے مسئلہ بھی کوئی طاقت Military Might سے
حل نہیں کر سکتی ہے۔ سعودی نامعلوم کس دنیا میں ہیں جو شام میں مسلسل فوجی مداخلت
کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے خود یمن میں فوجی مداخلت کے ذریعے ان کا داخلی مسئلہ حل کرنے کا تجربہ کر کے دیکھ
لیا ہے جس میں انہیں کامیابی صرف پسپائی کی صورت میں ہو ئی ہے۔ پھر ان کے سامنے عراق کی مثال بھی ہے۔ جہاں امریکہ نے اپنی
Military Might سے ایک مسئلہ حل کر کے 101 نئے مسئلے پیدا کر
دئیے ہیں۔
روس
یورپی یونین ایران امریکہ اور مصر بھی اس
پر اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ حالات میں صدر بشرالسد کا جانا اس سارے خطہ کے لئے
ایک بہت بڑی تباہی بن جاۓ گا۔ جبکہ ان کے سامنے عراق اور لیبیا کے نتائج بھی ہیں۔
اس وقت شام میں سیاسی استحکام سب کی ضرورت ہے۔ تاکہ جو لوگ شام سے چلے گیے ہیں۔
انہیں واپس لایا جاۓ۔ انہیں اپنے گھر آباد کرنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ شام میں
حالات اور لوگوں کی زندگیاں معمول پر آنے میں دو سے تین سال لگ سکتے ہیں۔ اور پھر
شام میں ایک سیاسی عمل کے ذریعے لوگوں کے ووٹوں سے حکومت تبدیل کرنے کی ابتدا کی
جاۓ۔ جس طرح لبنان میں ایک طویل خانہ جنگی کے بعد ایک سیاسی عمل نے لبنان کو امن
اور استحکام دیا تھا۔ افغان اور عراق صدر جارج بش کی جنگیں تھیں۔ جو صدر اوبامہ کو
وراثت میں ملی تھیں۔ لیکن شام اور لیبیا صدر اوبامہ کی جنگیں ہیں۔ اور صدر اوبامہ
یہ جنگیں نئے صدر کے لئے وراثت میں چھوڑ کر اپنی Legacy کو صدر بش کی Legacy کے
ساتھ دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔
No comments:
Post a Comment