Tuesday, June 14, 2016

Presidential Election: Americans Are Divided Between Confusion And Convincement

Establishment Has Been Obsolete Political The

Presidential Election: Americans Are Divided Between Confusion And Convincement

مجیب خان



           صدر اوبامہ نے ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کے لئے ہلری کلنٹن کی حمایت کا با ضابطہ طور پر اعلان کیا ہے۔ اور ہلری کلنٹن اب ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار ہوں گی۔ جبکہ ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار اصولی طور پر ڈونالڈ ٹرمپ ہیں۔ لیکن پارٹی کے با اثر Bosses ڈونالڈ ٹرمپ کو صدارتی امیدوار قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ پارٹی اس وقت شدید چپقلش کا شکار ہے۔ پارٹی کے بعض کانگرس مین اور سینیٹر ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ پارٹی کے اندر ایک نئے صدارتی امیدوار کے لئے نام تجویز کرنے پر بھی بحث ہو رہی ہے۔ سابق خاتون اول Laura Bush نے کہا ہے کہ وہ ہلری کلنٹن کو وائٹ ہاؤس میں دیکھنا پسند کریں گی۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی سلامتی کے لئے جو خطرے تھے۔ وہ اب ری پبلیکن پارٹی کے اتحاد اور سلامتی کے لئے خطرہ بن گیے ہیں۔ حالانکہ ڈونالڈ ٹرمپ تقریباً 27 سے زیادہ ریاستوں میں پرائم ریز میں کامیاب ہوۓ ہیں۔ اور ری پبلیکن پارٹی کی تاریخ میں پرائم ریز میں ریکارڈ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ جو اس سے پہلے کسی صدارتی امیدوار نے پرائم ریز میں اتنے ووٹ حاصل نہیں کیے تھے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کو تقریباً 12 ملین ووٹ ملے تھے۔ ری پبلیکن پارٹی کے رہنما اب ڈونالڈ ٹرمپ ہیں۔ عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت ان کے ساتھ ہے۔ پارٹی کے Bosses کو یہ یقین نہیں تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ جو کبھی سیاست میں نہیں تھے۔ پرائم ریز انتخابات میں پارٹی کے 17 امیدواروں میں سے ابھر کر پہلے نمبر پر آ جائیں گے۔
        حیرت کی بات ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی پارٹی کے اندر اور پارٹی سے باہر اتنی زیادہ مخالفت کیوں ہے؟ ڈونالڈ ٹرمپ کاسترو نہیں ہیں اور نہ ہی چہ گورا ہیں۔ امریکہ کے ایک بہت بڑے سرمایہ دار ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوۓ اور انتخابات کے ذریعے امریکہ کی پالیسیاں با لخصوص خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانے کے عزم کا اظہار کر رہے تھے۔ اور ان پالیسیوں پر اپنے اختلافات امریکی عوام کے سامنے ر کھے تھے۔ اور عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے ڈونالڈ ٹرمپ کے خیالات سے اتفاق کیا ہے۔ اور انہیں پرائم ریز میں ووٹ دے کر کامیاب کیا ہے۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں یہ بھی پہلی مرتبہ دیکھا جا رہا ہے کہ بعض غیرملکی حکومتوں کی طرف سے بھی ڈونالڈ ٹرمپ کی مخالفت میں بیانات آۓ ہیں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کمیرن نے ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف بیان دیا تھا۔ اور اب ائرلینڈ کے وزیر اعظم نے بھی ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف بیان دیا ہے۔ پرائم ریز انتخابی مہم کے دوران ڈونالڈ ٹرمپ نے بعض متضاد باتیں بھی کی ہیں۔ لیکن جو باتیں انہوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ کی ہیں۔ لوگ ان کو اہمیت دے رہے ہیں۔
       21 ویں صدی کا یہ پانچواں صدارتی انتخاب ہے۔ امریکی عوام نے 21 صدی کے آغاز پر ری پبلیکن پارٹی کو دو مرتبہ منتخب کیا تھا۔ اور پارٹی نے دونوں مرتبہ لوگوں کو سخت مایوس کیا تھا۔ امریکی عوام کے مصائب میں صرف اضافہ کیا تھا۔ امریکی عوام کی سیکورٹی کے نام پر ان کی اقتصادی سیکورٹی چلی گئی تھی۔ جنگوں میں لوگوں کی دلچسپی نہیں تھی۔ ان حالات میں امریکی عوام نے ڈیموکریٹک پارٹی کو منتخب کیا تھا۔ صدر اوبامہ کو بھی دو Chance دئیے تھے۔ 2012 کے صدارتی انتخابات سے قبل صدر اوبامہ نے اسامہ بن لادن کو دریافت کر لیا تھا۔ اور اسے مار دیا تھا۔ جس کے بعد امریکی عوام کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ صدر اوبامہ اب جنگیں ختم کر کے ان کے گرتے حالات پر توجہ دیں گے۔ صدر اوبامہ نے افغان جنگ ختم کر دی تھی۔ اور افغانستان سے تمام فوجیں واپس بلا لی تھیں۔ صرف دس ہزار فوجیں افغان سیکورٹی فورس کو تربیت دینے کے لئے افغانستان میں رکھی تھیں۔ اس سے قبل صدر اوبامہ نے عراق جنگ بھی ختم کر دی تھی۔ اور عراق سے تمام فوجیں واپس بلا لی تھیں۔ مشرق وسطی میں امریکہ نے فریڈم اور ڈیموکریسی پروجیکٹ پر جو لاکھوں ڈالر انویسٹ کیے تھے عرب اسپرنگ میں اس کے نتائج آنا شروع ہو گیے تھے۔ فریڈم اور ڈیموکریسی ہر طرف پھیل رہی تھی۔ عرب ڈکٹیٹر ایک ایک کر کے گرتے جا رہے تھے۔
        لیکن امریکہ پھر 50 اور 60 کی دہائیوں میں آ گیا تھا۔ سرد جنگ کو جاری رکھنے کے لئے تیسری دنیا کے ملکوں میں فوجی ڈکٹیٹروں سے کام لیا تھا۔ اگر تیسری دنیا کے ملکوں میں اس وقت جمہوریت کو فروغ دیا جاتا تو شاید سرد جنگ بھی زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہتی اور دم توڑ دیتی۔ اور اب دہشت گردی کی جنگ جاری رکھنے کے لئے عرب دنیا میں ڈکٹیٹروں کو اقتدار میں رکھنا ضروری ہو گیا تھا۔ صدر ائزن ہاور نے سی آئی اے کے ذریعے  1953 میں ایران میں ڈاکٹر محمد مصدق کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ اور پھر شاہ کی آمرانہ حکومت سے سرد جنگ لڑنے کا کام لیا تھا۔ صدر اوبامہ 60 کے عشر ے میں پیدا ہوۓ تھے۔ لیکن صدر اوبامہ نے 2011 میں مصر میں فوج کا ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے اقدام کو خاموشی سے قبول کر لیا تھا۔ مشرق وسطی کو فریڈم اور ڈیموکریسی میں منتقل کرنے کے پروجیکٹ پر جو لاکھوں ڈالر خرچ کیے گیے تھے۔ وہ امریکی عوام کے ٹیکس ڈالر تھے۔ اور ضائع ہو گیے تھے۔ مصر میں فوجی ڈکٹیٹر اب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قریبی اتحادی ہیں۔ انہوں نے  سیاسی مخالفین کو دہشت گرد قرار دے کر مصر کی جیلیں بھر دی ہیں۔ اور اخوان المسلمون کے نو سو کارکنوں کو پھانسی کی سزائیں سنائی ہیں۔ 50 اور 60 کی دہائیوں میں خارجہ اور دفاعی امور کے بارے میں جس طرح اسٹبلشمینٹ کام کرتا تھا۔ آج بھی یہ اسٹبلشمینٹ اسی دور میں ہے اور اسی ذہنیت کے مطابق کام کر رہا ہے۔  ڈونالڈ ٹرمپ نے اسٹبلشمینٹ کے اس Status quo کو ختم کرنے کی بات کی ہے۔
         ڈونالڈ ٹرمپ نے ہلری کلنٹن کے سیکرٹیری آف اسٹیٹ کی حیثیت سے لیبیا اور شام کے بارے میں ان کے Poor Judgements کی بات کی ہے کہ وہ لیبیا کے بارے میں غلط تھیں اور شام کے بارے میں بھی غلط تھیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ اتنا زیادہ طاقتور ہے کہ اسے فیصلہ کرنے میں Judgement کے غلط یا درست پلہوؤں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سپر پاور اپنے صرف Short term مفادات کو حاصل کرنے کے فیصلے کرتی ہیں۔ اور Long term میں ان کے مہلک نتائج کی صورت میں پھر طاقت کا بھر پور استعمال کرتی ہیں۔ صدر جارج بش نے دنیا کو بتایا تھا کہ صدام حسین عالمی امن کے لئے ایک بڑا خطرہ تھے۔ صدام حسین کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد دنیا ایک بڑے خطرے سے محفوظ ہو جاۓ گی۔ صدر بش اور ان کے سیکرٹیری دفاع رمز فیلڈ کا کہنا تھا کہ امریکی فوجیں عراق میں جائیں گی۔ سرجری کریں گی۔ اور واپس آ جائیں گی۔ عراق ان کے لئے Piece of cake تھا۔ اور یہ بش انتظامیہ کا عراق کے بارے میں Judgement تھا۔ Judgement کے سوال پر بش اور اوبامہ دونوں انتظامیہ بالکل Flunk ہیں۔ اس لئے اب طاقت کا بھر پور استعمال ہو رہا ہے۔ کامیاب لیڈر وہ ہوتے ہیں جو اپنے ملک اور عوام کو جنگوں سے ہمیشہ دور رکھتے ہیں۔ اور ان میں تنازعوں کو حل کرنے کی سیاسی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ اور Judgement میں دور رس نتائج پر ان کی نظر ہوتی ہے۔ لیکن بش انتظامیہ کو عراق اور اوبامہ انتظامیہ کو لیبیا اور شام کے سلسلے میں دور رس نتائج کی پروا نہیں تھی۔ کیونکہ یہ طاقت کے استعمال سے نتائج کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
        ہلری کلنٹن کا ای میل اتنا اہم اسکنڈل نہیں ہے۔ اس اسکنڈل کی خاصی تحقیقات ہو چکی  ہے۔ اور اس میں امریکہ کی سلامتی کی خلاف ورزیاں ہونے کے ثبوت نہیں ملے ہیں۔ اسے غیر ضروری طور پر ایک ڈرامائی اسکنڈل بنا دیا گیا ہے۔ جو اہم ایشو ہے اور جس پر پوچھ گچھ ہونا چاہیے تھی کہ عرب دنیا کو فریڈم اور ڈیموکریسی میں منتقل کرنے کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا پروجیکٹ کیسے ناکام ہوا ہے؟ اس پروجیکٹ پر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے لاکھوں ڈالر خرچ کیے تھے۔ جو عوام کے ٹیکس ڈالر تھے۔ صدر بش نے عرب دنیا میں فریڈم اور ڈیموکریسی پر زور دیا تھا۔ سیکرٹیری آف اسٹیٹ کانڈالیسزا رائس نے قاہرہ یونیورسٹی میں طالب علموں کو اس پر لیکچر دیا تھا۔ پھر اردن میں بھی انہوں نے اس موضوع پر لیکچر دیا تھا۔ پھر صدر اوبامہ نے بھی قاہرہ یونیورسٹی میں فریڈم اور ڈیموکریسی پر لیکچر دیا تھا۔ ان کوششوں کے نتائج پھر عرب اسپرنگ میں سامنے آۓ تھے۔ فریڈم اور ڈیموکریسی کی سونامی عرب دنیا کی سڑکوں پر دیکھی جا رہی تھی۔ لیکن پھر اچانک یہ کیا ہوا؟ مصر میں فوج نے اقتدار پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔ صدر اوبامہ اور سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہلری کلنٹن نے عرب دنیا کو فریڈم اور ڈیموکریسی میں منتقل کرنے کا پروجیکٹ dump کر دیا اور 80 ملین مصریوں کو فوجی ڈکٹیٹر کی قید میں دے کر چلے گیے تھے۔
        لیکن پھر حیرت کی بات یہ تھی کہ مصر میں فوجی ڈکٹیٹر کو اقتدار میں بیٹھا کر شام میں ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے کی تحریک میں خلیج کے ڈکٹیٹروں کے اتحاد میں شامل ہو گیے تھے۔ اوبامہ انتظامیہ نے اسد حکومت کے مخالفین کو جہاد کی تربیت دینے پر 500 ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ جو امریکی عوام کے ٹیکس کے ڈالر تھے۔ جبکہ اس سے قبل امریکہ نے عرب دنیا میں فریڈم اور ڈیموکریسی پروجیکٹ پر بھی تقریباً  اتنے ہی ڈالر خرچ کیے تھے۔ لیکن عرب دنیا کو فریڈم اور ڈیموکریسی میں منتقل کرنے کا پروجیکٹ فیل ہو گیا تھا۔ بشارالسد کو اقتدار سے ہٹانے کا پروجیکٹ بھی فیل ہو گیا ہے۔ ترکی جو اسلامی دنیا میں جمہوریت کا ایک کامیاب ماڈل تھا۔ وہ بھی اب آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ افغانستان میں اوبامہ انتظامیہ  طالبان کے خلاف ایک نئی جنگ شروع کرنے جا رہی ہے۔
        یہ تمام Judgement کی ناکامیاں ہیں۔ اور ہلری کلنٹن کو انتخابی مہم کے دوران ان ناکامیوں کے بارے میں حساب دینا ہو گا۔ امریکی عوام ڈونالڈ ٹرمپ اور ہلری کلنٹن کے بارے میں اس وقت Confuse اورConvince میں تقسیم ہیں۔ صدارتی امیدواروں کو اب انتخاب جیتنے کے لئے جو Confuse ہیں انہیں Convince کرنا ہو گا۔ اور جو Convince ہیں انہیں Confuse کرنا ہو گا۔ اس میں جو کامیاب ہو جاۓ گا۔ وہ صدارتی انتخاب جیت جاۓ گا۔          

                       

No comments:

Post a Comment