Establishment Has Been
Obsolete Political The
Presidential Election: Americans Are Divided Between Confusion And Convincement
مجیب خان
حیرت کی بات ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی پارٹی کے اندر اور پارٹی سے باہر اتنی
زیادہ مخالفت کیوں ہے؟ ڈونالڈ ٹرمپ کاسترو نہیں ہیں اور نہ ہی چہ گورا ہیں۔ امریکہ
کے ایک بہت بڑے سرمایہ دار ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے جمہوری نظام کے اندر رہتے
ہوۓ اور انتخابات کے ذریعے امریکہ کی پالیسیاں با لخصوص خارجہ پالیسی میں تبدیلی لانے
کے عزم کا اظہار کر رہے تھے۔ اور ان پالیسیوں پر اپنے اختلافات امریکی عوام کے
سامنے ر کھے تھے۔ اور عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے ڈونالڈ ٹرمپ کے خیالات سے
اتفاق کیا ہے۔ اور انہیں پرائم ریز میں ووٹ دے کر کامیاب کیا ہے۔ امریکہ کے صدارتی
انتخابات میں یہ بھی پہلی مرتبہ دیکھا جا رہا ہے کہ بعض غیرملکی حکومتوں کی طرف سے
بھی ڈونالڈ ٹرمپ کی مخالفت میں بیانات آۓ ہیں۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈیوڈ کمیرن نے
ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف بیان دیا تھا۔ اور اب ائرلینڈ کے وزیر اعظم نے بھی ڈونالڈ
ٹرمپ کے خلاف بیان دیا ہے۔ پرائم ریز انتخابی مہم کے دوران ڈونالڈ ٹرمپ نے بعض
متضاد باتیں بھی کی ہیں۔ لیکن جو باتیں انہوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ کی ہیں۔ لوگ
ان کو اہمیت دے رہے ہیں۔
21 ویں صدی کا یہ پانچواں صدارتی انتخاب ہے۔
امریکی عوام نے 21 صدی کے آغاز پر ری پبلیکن پارٹی کو دو مرتبہ منتخب کیا تھا۔ اور
پارٹی نے دونوں مرتبہ لوگوں کو سخت مایوس کیا تھا۔ امریکی عوام کے مصائب میں صرف
اضافہ کیا تھا۔ امریکی عوام کی سیکورٹی کے نام پر ان کی اقتصادی سیکورٹی چلی گئی
تھی۔ جنگوں میں لوگوں کی دلچسپی نہیں تھی۔ ان حالات میں امریکی عوام نے ڈیموکریٹک
پارٹی کو منتخب کیا تھا۔ صدر اوبامہ کو بھی دو Chance دئیے تھے۔ 2012
کے صدارتی انتخابات سے قبل صدر اوبامہ نے اسامہ بن لادن کو دریافت کر لیا تھا۔ اور
اسے مار دیا تھا۔ جس کے بعد امریکی عوام کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ صدر اوبامہ اب
جنگیں ختم کر کے ان کے گرتے حالات پر توجہ دیں گے۔ صدر اوبامہ نے افغان جنگ ختم کر
دی تھی۔ اور افغانستان سے تمام فوجیں واپس بلا لی تھیں۔ صرف دس ہزار فوجیں افغان
سیکورٹی فورس کو تربیت دینے کے لئے افغانستان میں رکھی تھیں۔ اس سے قبل صدر اوبامہ
نے عراق جنگ بھی ختم کر دی تھی۔ اور عراق سے تمام فوجیں واپس بلا لی تھیں۔ مشرق
وسطی میں امریکہ نے فریڈم اور ڈیموکریسی پروجیکٹ پر جو لاکھوں ڈالر انویسٹ کیے تھے
عرب اسپرنگ میں اس کے نتائج آنا شروع ہو گیے تھے۔ فریڈم اور ڈیموکریسی ہر طرف پھیل
رہی تھی۔ عرب ڈکٹیٹر ایک ایک کر کے گرتے جا رہے تھے۔
لیکن
امریکہ پھر 50 اور 60 کی دہائیوں میں آ گیا تھا۔ سرد جنگ کو جاری رکھنے کے لئے
تیسری دنیا کے ملکوں میں فوجی ڈکٹیٹروں سے کام لیا تھا۔ اگر تیسری دنیا کے ملکوں
میں اس وقت جمہوریت کو فروغ دیا جاتا تو شاید سرد جنگ بھی زیادہ عرصہ زندہ نہیں
رہتی اور دم توڑ دیتی۔ اور اب دہشت گردی کی جنگ جاری رکھنے کے لئے عرب دنیا میں
ڈکٹیٹروں کو اقتدار میں رکھنا ضروری ہو گیا تھا۔ صدر ائزن ہاور نے سی آئی اے کے ذریعے
1953 میں ایران میں ڈاکٹر محمد مصدق کی
منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ اور پھر شاہ کی آمرانہ حکومت سے سرد جنگ
لڑنے کا کام لیا تھا۔ صدر اوبامہ 60 کے عشر ے میں پیدا ہوۓ تھے۔ لیکن صدر اوبامہ
نے 2011 میں مصر میں فوج کا ایک منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے اقدام کو
خاموشی سے قبول کر لیا تھا۔ مشرق وسطی کو فریڈم اور ڈیموکریسی میں منتقل کرنے کے
پروجیکٹ پر جو لاکھوں ڈالر خرچ کیے گیے تھے۔ وہ امریکی عوام کے ٹیکس ڈالر تھے۔ اور
ضائع ہو گیے تھے۔ مصر میں فوجی ڈکٹیٹر اب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قریبی اتحادی
ہیں۔ انہوں نے سیاسی مخالفین کو دہشت گرد
قرار دے کر مصر کی جیلیں بھر دی ہیں۔ اور اخوان المسلمون کے نو سو کارکنوں کو
پھانسی کی سزائیں سنائی ہیں۔ 50 اور 60 کی دہائیوں میں خارجہ اور دفاعی امور کے
بارے میں جس طرح اسٹبلشمینٹ کام کرتا تھا۔ آج بھی یہ اسٹبلشمینٹ اسی دور میں ہے
اور اسی ذہنیت کے مطابق کام کر رہا ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے اسٹبلشمینٹ کے اس Status quo کو ختم کرنے کی بات کی ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے ہلری کلنٹن کے سیکرٹیری آف اسٹیٹ کی حیثیت سے لیبیا اور شام
کے بارے میں ان کے Poor
Judgements کی بات کی ہے کہ وہ لیبیا کے بارے
میں غلط تھیں اور شام کے بارے میں بھی غلط تھیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ اتنا
زیادہ طاقتور ہے کہ اسے فیصلہ کرنے میں Judgement کے غلط یا درست پلہوؤں کے بارے میں
سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سپر پاور اپنے صرف Short term
مفادات کو حاصل کرنے کے فیصلے کرتی ہیں۔ اور Long term میں
ان کے مہلک نتائج کی صورت میں پھر طاقت کا بھر پور استعمال کرتی ہیں۔ صدر جارج بش نے
دنیا کو بتایا تھا کہ صدام حسین عالمی امن کے لئے ایک بڑا خطرہ تھے۔ صدام حسین کو
اقتدار سے ہٹانے کے بعد دنیا ایک بڑے خطرے سے محفوظ ہو جاۓ گی۔ صدر بش اور ان کے
سیکرٹیری دفاع رمز فیلڈ کا کہنا تھا کہ امریکی فوجیں عراق میں جائیں گی۔ سرجری
کریں گی۔ اور واپس آ جائیں گی۔ عراق ان کے لئے Piece of cake
تھا۔ اور یہ بش انتظامیہ کا عراق کے بارے میں Judgement
تھا۔ Judgement کے
سوال پر بش اور اوبامہ دونوں انتظامیہ بالکل Flunk ہیں۔ اس لئے اب
طاقت کا بھر پور استعمال ہو رہا ہے۔ کامیاب لیڈر وہ ہوتے ہیں جو اپنے ملک اور عوام
کو جنگوں سے ہمیشہ دور رکھتے ہیں۔ اور ان میں تنازعوں کو حل کرنے کی سیاسی
صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ اور Judgement میں
دور رس نتائج پر ان کی نظر ہوتی ہے۔ لیکن بش انتظامیہ کو عراق اور اوبامہ انتظامیہ
کو لیبیا اور شام کے سلسلے میں دور رس نتائج کی پروا نہیں تھی۔ کیونکہ یہ طاقت کے
استعمال سے نتائج کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ہلری
کلنٹن کا ای میل اتنا اہم اسکنڈل نہیں ہے۔ اس اسکنڈل کی خاصی تحقیقات ہو چکی ہے۔ اور اس میں امریکہ کی سلامتی کی خلاف ورزیاں
ہونے کے ثبوت نہیں ملے ہیں۔ اسے غیر ضروری طور پر ایک ڈرامائی اسکنڈل بنا دیا گیا
ہے۔ جو اہم ایشو ہے اور جس پر پوچھ گچھ ہونا چاہیے تھی کہ عرب دنیا کو فریڈم اور
ڈیموکریسی میں منتقل کرنے کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا پروجیکٹ کیسے ناکام ہوا ہے؟ اس
پروجیکٹ پر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے لاکھوں ڈالر خرچ کیے تھے۔ جو عوام کے ٹیکس ڈالر
تھے۔ صدر بش نے عرب دنیا میں فریڈم اور ڈیموکریسی پر زور دیا تھا۔ سیکرٹیری آف
اسٹیٹ کانڈالیسزا رائس نے قاہرہ یونیورسٹی میں طالب علموں کو اس پر لیکچر دیا تھا۔
پھر اردن میں بھی انہوں نے اس موضوع پر لیکچر دیا تھا۔ پھر صدر اوبامہ نے بھی
قاہرہ یونیورسٹی میں فریڈم اور ڈیموکریسی پر لیکچر دیا تھا۔ ان کوششوں کے نتائج
پھر عرب اسپرنگ میں سامنے آۓ تھے۔ فریڈم اور ڈیموکریسی کی سونامی عرب دنیا کی
سڑکوں پر دیکھی جا رہی تھی۔ لیکن پھر اچانک یہ کیا ہوا؟ مصر میں فوج نے اقتدار پر
دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔ صدر اوبامہ اور سیکرٹیری آف اسٹیٹ ہلری کلنٹن نے عرب دنیا
کو فریڈم اور ڈیموکریسی میں منتقل کرنے کا پروجیکٹ dump کر دیا اور 80
ملین مصریوں کو فوجی ڈکٹیٹر کی قید میں دے کر چلے گیے تھے۔
لیکن
پھر حیرت کی بات یہ تھی کہ مصر میں فوجی ڈکٹیٹر کو اقتدار میں بیٹھا کر شام میں
ڈکٹیٹر کو اقتدار سے ہٹانے کی تحریک میں خلیج کے ڈکٹیٹروں کے اتحاد میں شامل ہو
گیے تھے۔ اوبامہ انتظامیہ نے اسد حکومت کے مخالفین کو جہاد کی تربیت دینے پر 500
ملین ڈالر خرچ کیے تھے۔ جو امریکی عوام کے ٹیکس کے ڈالر تھے۔ جبکہ اس سے قبل
امریکہ نے عرب دنیا میں فریڈم اور ڈیموکریسی پروجیکٹ پر بھی تقریباً اتنے ہی ڈالر خرچ کیے تھے۔ لیکن عرب دنیا کو
فریڈم اور ڈیموکریسی میں منتقل کرنے کا پروجیکٹ فیل ہو گیا تھا۔ بشارالسد کو
اقتدار سے ہٹانے کا پروجیکٹ بھی فیل ہو گیا ہے۔ ترکی جو اسلامی دنیا میں جمہوریت
کا ایک کامیاب ماڈل تھا۔ وہ بھی اب آمریت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ افغانستان میں اوبامہ
انتظامیہ طالبان کے خلاف ایک نئی جنگ شروع
کرنے جا رہی ہے۔
یہ
تمام Judgement کی
ناکامیاں ہیں۔ اور ہلری کلنٹن کو انتخابی مہم کے دوران ان ناکامیوں کے بارے میں
حساب دینا ہو گا۔ امریکی عوام ڈونالڈ ٹرمپ اور ہلری کلنٹن کے بارے میں اس وقت Confuse اورConvince میں تقسیم ہیں۔ صدارتی امیدواروں کو اب انتخاب جیتنے کے لئے جو Confuse ہیں
انہیں Convince کرنا ہو گا۔ اور جو Convince ہیں انہیں Confuse کرنا ہو گا۔ اس
میں جو کامیاب ہو جاۓ گا۔ وہ صدارتی انتخاب جیت جاۓ گا۔
No comments:
Post a Comment