Sunday, June 5, 2016

The Casualties Of The War On Terror Are The Middle Class And Labor Unions

The Casualties Of The War On Terror Are The Middle Class And Labor Unions

مجیب خان

Protests erupt across France over labor laws

Unrest throughout France

Protests across America over the high levels of poverty

Unrest throughout America
   
          دہشت گردی کی جنگ کے در پردہ جو سیاسی ڈرامہ تھا۔ دنیا کی توجہ اس طرف سے ہٹا دی گئی تھی۔ سات دن اور چوبیس گھنٹے امریکہ میں کارپوریٹ میڈیا صرف دہشت گردی کی جنگ کا اتنا زیادہ پراپگنڈہ کرتا تھا کہ لوگوں کو سوچنے اور سمجھنے کا موقعہ نہیں دیا جاتا تھا کہ آخر یہ جنگ کیا تھی ۔ لوگوں کی توجہ صرف بن لادن اور اس کے دہشت گردوں پر مرکوز رکھی جاتی تھی۔ اور صدر امریکہ کے ذریعے انہیں یہ بتایا جاتا تھا کہ یہ بہت خطرناک تھے جو انہیں تباہ کرنا چاہتے تھے۔ یہ دہشت گرد ہماری خوشحالی اور ترقی سے نفرت کرتے تھے۔ بش اور چینی کے یہ بیانات دنیا کو یاد ہوں گے۔ دنیا کو وہ بتا رہے تھے۔ لیکن دہشت گردی کی جنگ کے در پردہ سیاست کچھ ہو رہی تھی۔ اس کی ایک جھلک ایڈ ورڈ سنوڈن جو سی آئی آے کا ملازم تھا۔ اس نے جو دستاویز دنیا کے سامنے پیش کی ہیں۔ ان میں نظر آتا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ کی سیاست کے پیچھے کیا ہو رہا تھا۔ القاعدہ اور بن لادن کے خلاف جنگ ہو رہی تھی- لیکن جرمن چانسلر انجلا مرکل کے فون ٹیپ ہو رہے تھے۔ اور ان کے آفس میں جاسوسی ہو رہی تھی۔ براز یل  کی صدر کے فون بھی ٹیپ ہو رہے تھے۔ بعض دوسری حکومتوں کی بھی جاسوسی ہو رہی تھی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ جن حکومتوں کی جاسوسی ہو رہی تھی وہ دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کے ساتھ تھیں۔
      دنیا کو یہ بھی یاد ہو گا کہ صدر بش اور نائب صدر چینی یہ کہتے تھے کہ دہشت گرد ہماری ترقی اور خوشحالی سے نفرت کرتے ہیں اور وہ ہمیں تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن پھر یہ بش چینی انتظامیہ تھی جس کے آٹھ سال دور اقتدار میں مڈل کلاس تباہ ہو گئی تھی۔ اس طبقہ کی خوشحالی ختم ہو گئی تھی۔ 40 ملین امریکی غربت کی لکیر سے نیچے آ گیے تھے۔ دولت سمٹ کر ایک  فیصد دولت مند طبقہ کے کنٹرول میں آ گئی تھی۔ لیکن بش چینی انتظامیہ کا کہنا یہ تھا وہ ہماری خوشحالی اور ترقی سے نفرت کرتے تھے۔ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اور کارپوریشن تھیں جو لوگوں کو خوشحالی سے محروم کر رہی تھیں۔ اور امریکہ دہشت گردی کی جنگ کی آڑ میں ان کی مدد کر رہا تھا۔
      نائن ایلون نے دنیا بدل دی تھی لیکن کس کے لئے بدل دی تھی؟ سرد جنگ کے دوران کمیونزم کے خوف سے امریکہ اور مغربی ملکوں نے عوام کو بہت زیادہ جمہوری آزادی دے دی تھی۔ نائن ایلون کے بعد وہ اب واپس لی جا رہی تھیں۔ پیٹریاٹک  ایکٹ اور ایک درجن سے زیادہ  نئے خفیہ اداروں کا قیام نائن ایلون کی دہشت گردی کی آڑ میں وجود میں لاۓ گیے تھے۔ لوگوں کو اسامہ بن لادن کے وڈیو بریکنگ نیوز میں دکھاۓ جاتے تھے۔ کارپوریٹ پنڈت پھر سارا دن ان وڈیو پر تبصرے کرتے تھے۔ اور لوگوں کو خوفزدہ کرتے تھے۔ بش انتظامیہ نے پھر لوگوں سے یہ کہنا شروع کر دیا کہ انہیں سیکورٹی کے لئے کچھ حقوق دینا ہوں گے۔ نائن ایلون کے بعد پیٹریاٹک ایکٹ کانگرس نے منظور کر لیا تھا۔ جیسے یہ ایکٹ پہلے سے تیار تھا۔ اس ایکٹ کے بعد کمپنیوں اور کارپوریشن نے لوگوں کو بیروز گار کرنا شروع کر دیا تھا۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے ملبے سے لوگوں کو نکالنے کا کام ابھی جاری تھا۔ اور دوسری طرف کمپنیاں لوگوں کو بیروزگار کر رہی تھیں۔ لیکن ان کمپنیوں کے چیرمین اور چیف ایگزیکٹو اپنی ملین میں تنخواہوں اور مراعات میں کمی کر کے لوگوں کی ملازمتیں برقرار رکھنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ اس عرصہ میں لاکھوں لوگ بیروز گار ہو گیے تھے۔ روز گار کے دروازے  بند ہو تے جا رہے تھے۔ سرد جنگ کے دور میں کمیونسٹ ملکوں میں ور کروں اور مزدوروں کو جو حقوق اور مراعات حاصل تھیں اس کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ مغربی ملکوں کو بھی اپنے ورکروں اور مزدوروں کو ایسے ہی حقوق اور مراعات دینا پڑی تھیں۔ بلکہ مغربی یورپی ملکوں نے کچھ زیادہ حقوق دے دئیے تھے۔ مغربی یورپی ملکوں میں لیبر یونین بھی خاصا مضبوط رول ادا کرتی تھیں۔ مغربی ملکوں میں ورکروں اور مزدوروں کی اجرتیں بھی بہت زیادہ تھیں۔ انہیں بھاری Bonuses  بھی دئیے جاتے تھے۔ لیبر یونین کی وجہ سے کمپنیاں فیکٹر یاں  اور کارپوریشن لوگوں کو بیروز گار بھی نہیں کر سکتی تھیں۔ یورپ میں ہفتہ میں 35 گھنٹے کام ہوتا تھا۔ جبکہ امریکہ میں ہفتہ میں 40 گھنٹے کام ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ Paid Vacations جو امریکہ میں تین ہفتے اور یورپ میں ایک ماہ تھیں۔ مغرب میں ورکروں اور مزدوروں کو یہ مراعات اور سہولتیں صرف کمیونزم کے خوف سے دی گئی تھیں۔ اور یہ سوویت یونین کا کمیونزم تھا جو مغرب میں ورکروں اور لیبر کے لئے یہ خشحالی لایا تھا۔ تاہم چین کمیونسٹ ملک تھا۔ لیکن اس کا کمیونزم سرمایہ دارانہ تھا۔ اور مغربی کمپنیاں چین کے کمیونزم سے خاصی متاثر ہوئی تھیں۔ اس کے ور کر اور لیبر بہت محنتی تھے۔ جو ہفتہ میں 50 اور 60 گھنٹے کام کرتے تھے۔ اور سہولتوں اور مراعات کے لئے مطالبے بھی نہیں کرتے تھے۔ یہاں ورکر اور لیبر یونین کمیونسٹ پارٹی کے ماتحت تھیں۔
      امریکہ میں کمپنیوں اور کار پوریشن کے سامنے یہ سوال تھا کہ کس طرح امریکہ کی مہنگی لیبر کو چین کی سستی لیبر کے معیار پر لایا جاۓ؟ نائن ایلون سے پہلے بڑی تعداد میں کمپنیاں چین اور بعض دوسرے ملکوں میں چلی گئی تھیں۔ لیکن جو کمپنیاں امریکہ میں تھیں انہوں نے نائن ایلون کے بعد ایک بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو بیروز گار کر دیا تھا۔ اور نئی بھرتیوں کے لئے کمپنیوں نے اپنے دروازے بند کر دئیے تھے۔ کئی سال تک لوگ بیروز گار بیٹھے رہے۔ جو ساٹھ اور ستر ہزار سالانہ کی Jobs کرتے تھے وہ بیس پچیس ہزار کی Job کرنے پر مجبور ہو گیے تھے۔ یاد ہے بش چینی نے کیا کہا تھا کہ دہشت گرد ہماری ترقی اور خوشحالی سے نفرت کرتے ہیں۔ اور وہ اسے تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن سامنے یہ آیا کہ یہ بش چینی انتظامیہ تھی جس نے مڈل کلاس تباہ کر دی تھی۔ ساری دولت امریکہ کے ایک فیصد دولت مندوں کے ہاتھوں میں آ گئی تھی۔ مڈل کلاس غریب ہو گئی تھی۔ اور غریب غریب تر ہو گیے تھے۔ بش چینی انتظامیہ کے آٹھ سال میں دہشت گردی کی جنگ کو آ گے کر کے اس کے پیچھے امریکہ کو اس طرح بدل دیا تھا۔
      کمپنیوں اور کارپوریشن نے کئی سال تک لوگوں کو بیروز گار رکھا تھا۔ اور پھر انہیں اتنا مجبور کر دیا تھا کہ وہ کم سے کم اجرت پر کام کرنے کے لئے تیار ہو گیے تھے۔ جن کی پہلے  100,000 سالانہ تنخواہ تھی وہ اب 75,000 سالانہ تنخواہ پر کام کر رہے تھے۔ اور جو پہلے 75,000 سالانہ تنخواہ لیتے تھے وہ اب 50,000 سالانہ تنخواہ پر کام کر رہے تھے۔ لیبر یونین آج اتنی طاقتور نہیں ہیں کہ جیسے پہلے ان کا ایک طاقتور رول  تھا۔ سوویت یونین میں کمیونزم نظام سے خوفزدہ ہو کر مغربی ملکوں اور امریکہ نے اپنے ورکروں اور لیبر کو جو بہت زیادہ حقوق اور سہولتیں دی تھیں۔ وہ رفتہ رفتہ اب واپس لی جا رہی تھیں اور اس کی جگہ کمیونسٹ چین کے طرز پر لیبر قوانین اور اجرتوں کا نظام  اختیار کرنے کو اہمیت دی جا رہی ہے۔
      برطانیہ میں وزیر اعظم ٹونی بلیر کی حکومت میں لندن ٹرین اسٹیشن کا دہشت گردی کا ایک واقعہ ہوا تھا۔ جس کے بعد وزیر اعظم بلیر نے بھی امریکہ کی طرح برطانیہ میں بھی ایک پٹیریاٹ ایکٹ  نافذ کر دیا تھا۔ لوگوں کے سیاسی  حقوق میں تخفیف ہو گئی تھی۔ اور پھر کنز ویٹو پارٹی کے وزیر اعظم ڈیوڈ  کمیرن نے اقتدار میں آنے کے بعد اقتصادی اصلاحات کے نام پر لیبر اصلاحات کی تھیں۔ اور لیبر کی مراعات اور سہولتیں ختم کر دی تھیں۔ برطانیہ کے لوگوں نے ان اصلاحات کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا۔ لیکن وزیر اعظم کمیرن نے سختی کے ساتھ ان اصلاحات کو رائج کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اور لوگوں کی مخالفت کے باوجود اسے نافذ کیا تھا۔
      فرانس میں گزشتہ سال نومبر میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا تھا۔ جس میں 20 لوگ مارے گیے تھے۔ پھر اس سال فروری میں دہشت گردی کا دوسرا بڑا واقعہ ہوا تھا جس میں 130 لوگ مارے گیے تھے۔ دہشت گردی کے ان واقعات سے لوگوں میں خاصا خوف پھیل گیا تھا۔ امریکہ میں 911 کے بعد شہری آزادیوں اور سیکورٹی میں توازن کا جھکاؤ سیکورٹی کی طرف ہو گیا تھا۔ لیکن فرانس پہلا یورپی ملک تھا جس نے دہشت گردی کے مسئلہ پر ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ صدر  Francois Hollande نے کہا کہ ملک حالت جنگ میں ہے۔ اور آپریشن Sentinelle کے تحت فرانس کی سڑکوں پر دس ہزار فوج لگائی گئی تھی۔ اور وزیر داخلہ نے اس میں 1600 فوجیوں کا اور اضافہ کر دیا تھا۔ فرانس میں ہنگامی حالات کے دوران حکومت نے لیبر قوانین میں اصلاحات کا بل پارلیمنٹ سے منظور کرنے کے لئے پیش کیا ہے۔ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ کمپنیاں یونین سے اہم امور جیسے کام کی شرائط اور تنخواہوں پر مذاکرات کر سکیں گی۔ جبکہ موجودہ قانون میں ان کے ہاتھ بندے ہوۓ تھے۔ حکومت نے لیبر کو یقین  دلایا ہے کہ  جو اصلاحات تجویز کی گئی ہیں ان سے ہفتے میں 35 گھنٹے کام کے اوقات تبدیل نہیں ہوں گے۔ فرانس میں اس وقت 3.5 ملین لوگ بیروزگار ہیں۔
     ایک ماہ سے فرانس ہڑتالوں کی زد میں ہے۔ ہزاروں ورکرز اور لیبر حکومت کی لیبر اصلاحات کے خلاف فرانس کے مختلف شہروں میں ہڑتالیں کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے فرانس کی صنعتی اور معاشی زندگی بالکل مفلوج ہو گئی ہے۔ فرانس، جرمنی، اٹلی اور بعض دوسرے یورپی ملکوں میں لیبر یونین اب بھی بڑی طاقتور ہیں۔ اور ان کا رول انتہائی با اثر ہے۔ ان ملکوں میں سوشل ڈیمو کریٹک بڑی سیاسی پارٹیاں ہیں۔ جنہیں انتخابات جیتنے کے لئے لیبر اور ورکر کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے فرانس کی لیبر اصلاحات میں لیبر یونین کے مطالبات کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ اور کمپنیوں اور لیبر کے درمیان تعلقات میں توازن رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں اس کے بالکل برعکس اقدامات کیے گیے ہیں۔ اور کمپنیوں اور کارپوریشنوں کے مفاد کو اہمیت دی گئی ہے۔ لیبر یونین تقریباً Crush کر دی گئی ہیں۔ یہ امریکہ کے پہلے انتخابات ہیں جس میں لیبر یونین کا کوئی رول نہیں دیکھا جا رہا ہے۔
      نائن ایلون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے یہ نتائج ہیں کہ امریکہ میں مڈل کلاس ختم ہو گئی ہے۔ غریب اور زیادہ غریب ہو گیے ہیں۔ اور کمپنیوں اور کارپوریشنوں نے اس عرصہ میں 1.3 Trillion بناۓ تھے۔ جو انہوں نے امریکہ سے باہر ر کھے ہیں۔ دنیا کی دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں آ گئی ہے۔ اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی دہشت گردی نے دنیا کو واقعی ہمیشہ کے لئے بدل دیا ہے؟                                  

No comments:

Post a Comment