The Human Tragedy, But Who Cares
مجیب خان
کبھی
یہ احساس ہوتا ہے کہ جیسے دنیا خود غرض، مفاد پرست ہوتی جا رہی ہے۔ انسانیت میں اس
کی دلچسپی ختم ہوتی جا رہی ہے۔ جنگوں اور خانہ جنگیوں کو دیکھ کر اس سے منہ موڑنے
لگی ہے۔ دہشت گردی کے خوفناک واقعات ہوتے ہیں۔ جس میں سینکڑوں بے گناہ لوگ مر جاتے
ہیں۔ دو دن ان کا ذکر ہوتا ہے۔ اور تیسرے دن سب بھول جاتے ہیں۔ پچھلے سال بحرہ روم
کے ساحل پر ایک شامی بچے کی لاش دنیا بھرنے دیکھی تھی۔ پھر اسے سب بھول گیے تھے۔
اس کے بعد دنیا نے ایسے 100 بچوں کی اور لاشیں بحرہ روم میں تیرتی دیکھی تھیں۔
گزشتہ ماہ بحرہ روم میں صرف 48 گھنٹوں میں شام اور لیبیا کے امیگرنٹ سے لدی کشتیاں
الٹنے کے نتیجے میں 2 ہزار لوگ ڈوب گیے تھے۔ لیکن دنیا کا رد عمل جیسے یہ تھا کہ
"ہم کیا کریں۔" ان کا سیاسی کاروبار معمول کے مطابق تھا۔ ان کے ضمیر میں
احساس ندامت بھی نہیں تھی کہ یہ ان کی پالیسیوں اور فیصلوں کے نتائج ہیں کہ بے
گناہ انسانوں کی لاشیں بحرہ روم میں ڈوبتی دیکھی جا رہی ہیں۔ آخر ان کا کیا قصور تھا؟
ان کے طیارہ بردار بحری بیڑے معاشی مفادات کا تحفظ کرنے دنیا کے سمندروں میں رہتے
ہیں۔ لیکن وہ اپنے طیارہ بردار بحری بیڑے اس انسانیت کا تحفظ کرنے نہیں بھیج سکتے
ہیں۔ حالانکہ بحرہ روم نیٹو کے حدود میں شامل ہے۔ لیکن نیٹو اس لئے اپنی ذمہ داری
نہیں سمجھتا ہے کہ نیٹو نے لیبیا پر بمباری کی تھی اور انسانیت کے لئے یہ بحران
پیدا کیا تھا۔ نیٹو ملکوں نے صرف چند گھنٹوں میں لیبیا پر دس ہزار بم گراۓ تھے۔ اور
یہ بمباری نیٹو نے اس خدشہ سے کی تھی کہ قدافی کی فوجیں ٹریپولی میں انسانیت کا
قتل عام کرنے کی تیاریاں کر رہی تھیں۔ اور نیٹو نے بمباری کر کے انسانیت کو بچایا تھا۔ لیکن جس انسانیت کو نیٹو
نے لیبیا پر بمباری کر کے بچایا تھا اس انسانیت کی لاشیں اب بحرہ روم میں تیر رہی
ہیں۔
19
مئ کو مصر ائرلائن کا طیارہ پیرس سے قاہرہ کے لئے پرواز کے دوران حادثہ کا شکار ہو
گیا تھا۔ اور بحرہ روم میں گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ طیارے کے 66 مسافر اور عملہ کے تمام
اراکین ہلاک ہو گیے تھے۔ اس خبر پر امریکی میڈیا کا فوری رد عمل یہ تھا طیارے میں
بم رکھا گیا تھا۔ طیارے میں دھماکہ خیز مواد تھا۔ جس سے طیارہ فضا میں ٹکڑے
ہو گیا تھا۔ کئی روز تک پنڈت اسی لائن پر
باتیں کرتے رہے۔ لیکن پھر اصل حقائق سامنے آنے لگے کہ طیارہ میں تیکنیکل خرابی
تھی۔ کاک پٹ سے دھواں آنے کی علامتیں بھی ملی تھیں۔ کسی دہشت گروپ نے طیارہ گرانے
کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی۔
بحرہ
روم میں مصر ائرلائن کا طیارہ تباہ ہونے کے ایک ہفتہ بعد 26 مئ کو شام اور لیبیا
کے امیگرنٹ کی کئی کشتیاں بحرہ روم میں الٹ گئی تھیں۔ جس میں تقریباً ایک ہزار سے
زیادہ لوگ ڈوب گیے تھے۔ اور ان میں ایک بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی۔ امریکی
میڈیا میں اسے صرف خبر کی حد تک رکھا گیا تھا۔ اور اس سے زیادہ اس پر کوئی بات
نہیں کی گئی تھی۔ سسسلی اٹلی میں "بچوں کو بچاؤ" Humanitarian Group کے
ترجمان Giovanna Di Benedetto کا کہنا تھا کہ “This week was a massacre” جبکہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر براۓ مہاجرین
کے ترجمان کا کہنا تھا کہ "یہ ہلاکتوں کی تعداد کے لئے ایک بہت زیادہ اور غیر
معمولی ہفتہ تھا۔" ترجمان کا کہنا تھا کہ " مہاجرین بحران کو لیبیا میں
انتشار اور شام میں تنازعہ سے اشتعال ملا ہے۔" صرف تین دن میں امیگرنٹ کی تین
کشتیاں بحرہ روم میں ڈوب گئی تھیں۔ اسی ہفتہ میں کشتی ڈوبنے سے 100 لوگ ابھی تک لا
پتہ تھے۔ اٹلی کی نیوی نے 135 امیگرنٹ کو بچایا تھا۔ اور 45 لاشیں بحرہ روم سے
نکال لی تھیں۔ جبکہ اسی دوران 4100 امیگرنٹس کو بچایا گیا تھا۔جو لیبیا سے اٹلی جا
رہے تھے۔ اس کے علاوہ 4000 مزید لوگوں کو اسی ہفتہ جمعرات کو بچایا گیا تھا۔ اسی
روز 550 لوگ امیگرنٹس کی ایک دوسری کشتی ڈوبنے سے ہلاک ہو گیے تھے۔ پھر ایک تیسری
کشتی بھی ڈوب گئی تھی۔ جس میں تقریباً 800 لوگ ہلاک ہو گیے تھے۔ اقوام متحدہ کی
مہاجرین ایجنسی کا کہنا تھا کہ بحرہ روم کی تاریخ میں انسانی اموات کا یہ ایک
انتہائی خوفناک ہفتہ تھا۔ جبکہ اس سال اپریل تک یہاں 1700 امیگرنٹس ڈوب گیے ہیں۔
اور پچھلے سال 3700 سے زیادہ مہاجرین اور امیگرنٹ بحرہ روم میں کشتیاں الٹنے سے
ہلاک ہوۓ تھے۔
ایک
طرف شام اور لیبیا میں لوگ خانہ جنگی میں مر رہے ہیں۔ اور دوسری طرف خانہ جنگی کے
خوف سے جو لوگ بھاگ رہے ہیں وہ بحرہ روم میں کشتیوں کے حادثوں میں ہلاک ہو رہے
ہیں۔ یہ Humanitarian Crisis
نیٹو نے پیدا کیا ہے۔ جس نے صرف اس شبہ میں لیبیا پر بمباری کی تھی کہ قدافی کی
فوجیں ٹریپولی میں لوگوں کا قتل عام کرنے والی تھیں۔ حالانکہ ایسے کوئی ثبوت نہیں
تھے۔ اور اب لیبیا سے بحرہ روم تک لوگوں کا جو قتل عام ہو رہا ہے اس کا ذمہ دار
کون ہے؟ اس تمام صورت حال میں امریکہ کا رول انتہائی افسوسناک اور مایوس کن ہے۔
امریکہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف عالمی جنگ کا لیڈر ہے۔ لیکن عراق لیبیا اور شام
میں جو حکومتیں اسلامی انتہا پسندی کے سخت خلاف تھیں۔ اور جنہوں نے اپنے ملکوں میں
مذہبی انتہا پسندی کو سیاست سے علیحدہ رکھا تھا۔ امریکہ نے ان کے ساتھ مل کر کام
کرنے کے بجاۓ ان حکومتوں کے ساتھ تعاون کیا تھا جو مذہبی سیاست میں یقین رکھتی تھیں۔
اور ان ملکوں کے ساتھ امریکہ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف لڑ رہا تھا۔ امریکہ کی یہ Genius
پالیسی یہاں ختم نہیں ہوتی ہے۔ مصر میں کئی سو سال کی تاریخ میں پہلی بار ایک جمہوری
حکومت کو مصر کے عوام نے منتخب کیا تھا۔ اور یہ اخوان المسلمون کی حکومت تھی۔
امریکہ اس حکومت کے ذریعے عرب دنیا میں مذہبی انتہا پسندی ختم کرنے کا کام لے سکتا
تھا۔ اور یہ حکومت مذہبی انتہا پسندوں کو جمہوری عمل میں لا سکتی تھی۔ اور جمہوری
عمل میں آنے کے بعد ان کی مذہبی انتہا پسندی کا Temperature بھی
نیچے آ سکتا تھا۔ جیسے غازہ میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ جو مذہبی انتہا پسند نہیں ہیں۔ ان کی انتہا پسندی
صرف اسرائیلی جا حا ریت تک محدود ہے۔ لیکن امریکہ کے اتحادیوں نے مصر میں جمہوریت
کو ناکام بنا دیا تھا۔ مصر کی فوج نے اس حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا کہ اخوان المسلمون
کی حکومت میں اسلامسٹ گرجا گھروں کو آگ لگا رہے تھے۔ اور عیسائوں کو قتل کر رہے
تھے۔ امریکہ اور نیٹو ملکوں نے اپنی جمہوری قدروں کی شکست تسلیم کر لی تھی۔ اور
مصر میں فوجی راج قبول کر لیا تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ مصر میں فوجی ڈکٹیٹر کا
راج قبول کرنے کے بعد امریکہ نے شام میں ڈکٹیٹر کا راج ختم کرنے میں اسلامی انتہا
پسندوں کی حمایت شروع کر دی تھی۔ اور یہ اسلامی انتہا پسند اخوان المسلمون تھے۔ ان
کے ساتھ وہابی اور سلافسٹ بھی شامل تھے۔ اور یہ شام میں عیسائوں کی مذہبی یاد
گاریں تباہ کر رہے تھے۔ عیسائوں کو قتل کر رہے تھے۔ لیکن شام میں امریکہ ان دہشت
گردوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ اور اسد راج ختم کرنے میں ان کی مدد کر رہا تھا۔
حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اگر امریکہ نے مصر میں مذہبی انتہا پسندی کی
وجہ سے فوجی راج قبول کر لیا تھا۔ تو شام میں بھی بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی
دیکھ کر امریکہ کو پیچھے ہٹ جانا چاہیے تھا۔ اور ایک نئی پالیسی کے بارے میں غور
کرنا چاہیے تھا۔ مصر میں فوجی حکومت کے اقتدار میں پانچ سال ہو گیے ہیں۔ اور شام
میں حکومت کے خلاف ایک جنونی اپوزیشن کی خونی خانہ جنگی کے چھ سال ہو رہے ہیں۔
اوبامہ انتظامیہ چھ سال سے شام میں حکومت کے مخالفین کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
اور ان کی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہی ہے۔ لیکن اوبامہ
انتظامیہ نے مصر میں ایک منتخب جمہوری حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا پسند نہیں کیا
تھا۔ مصر میں جو اسلامسٹ اقتدار میں آۓ تھے۔ وہ شام میں حکومت کے مخالفین کے
مقابلے میں زیادہ معقول موڈریٹ تھے۔ مصر میں اگر جمہوری حکومت ہوتی تو اب یہ حکومت
نئے انتخابات کی تیاری کر رہی ہوتی۔ ایک جمہوری عمل اسلامسٹ کو مذہبی انتہا پسندی
سے جمہوریت پسندی کے راستہ پر لانے میں مدد کرتا۔ ایک ایسے خطہ میں جہاں آمروں ڈکٹیٹروں
اور بادشاہوں نے لوگوں کے ذہنوں کو انتہا پسند بنا دیا ہے۔ وہاں ہتھیاروں اور خونی
خانہ جنگی سے لوگوں کے ذہنوں کو جمہوری نہیں بنایا جا سکتا ہے۔
صدر
اوبامہ کے اقتدار کے اب چند ماہ رہے گیے ہیں۔ لیکن صدر اوبامہ مصر کو جمہوریت دینے
میں کامیاب ہوۓ ہیں اور نہ ہی شام میں نام نہاد اسلامی ماڈریٹ کو کامیاب کرا سکے ہیں۔ اب یہ یقین ہو جاتا ہے کہ تباہی پھیلانا سب
سے آسان مشن ہوتا ہے۔
No comments:
Post a Comment